بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تحریکِ تحفظِ مساجد و مدارس

تحریکِ تحفظِ مساجد و مدارس


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی


برِصغیر میں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی، عوام وخواص اور راعی ورعایا سب ایک ہی نصابِ تعلیم سے فیض یاب ہوتے تھے۔ انگریز نے برِصغیر میں تسلُّط کے بعد جہاں مسلمانوں کے نصابِ تعلیم سے قرآن وسنت، اسلامی فقہ اور اسلامی تاریخ کو نکالا، وہاں ذریعۂ تعلیم عربی، فارسی اور اردو کے بجائے انگریزی کو بنایا، تاکہ مسلمانوں کی اگلی نسلی جہاں اپنی تاریخ اور سرمایۂ علم سے نابلد اور ناآشنا ہو، وہاں مستقبل میں اسلامی تہذیب اور اسلامی اقدار کا نمونہ بننے کے بجائے مغربی تہذیب اور مغربی اقدار سے ہم آہنگ ہو، اسی لیے انہوں نے پرائمری اسکول سے کالج اور یونیورسٹی تک اپنا نصابِ تعلیم اور اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔
آج اسی کااثر ہے کہ مسلمان نسل کی اکثریت ان اداروں میں اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کی ترجمان اور نمائندہ ہونے کی بجائے انگریزی تہذیب اور انگریزی ثقافت کی ترجمانی اور نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ کسی مضمون میں علامہ اقبالؒ کا یہ جملہ پڑھا تھا اور انہوں نے صحیح کہا تھا کہ : ’’تعلیم کے بدلنے سے تہذیب بدل جاتی ہے اور تہذیب کے بدلنے سے مذہب بدل جاتا ہے۔‘‘ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ مسلم نوجوان جو اُن کے نصاب اور نظامِ تعلیم سے مستفید ہوئے، ان کی تہذیب بدل جانے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں قرآن وسنت، اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب کے بارہ میں کئی شکوک وشبہات پیدا ہوکر کئی طرح کے وساوس وشبہات جنم لے رہے ہیں۔
انہی حالاتِ بد اور برے اثرات کو بہت پہلے ہمارے اسلاف نے دواندیشی اور تدبروفکر کی دوربین سے دیکھتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کے نونہالوں کے لیے دینی مدارس قائم کرنے اور اپنا نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم رائج کرنے کا منصوبہ اور پروگرام وضع کیا اور ان مدارس وجامعات کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے ایسے بنیادی اصول اور قواعد وضع کیے کہ بڑے بڑے باشعور اور دانشور حضرات ان اصولوں کو دیکھ اور پڑھ کر انگشت بدنداں اور دنگ رہ جاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مدرسہ میں جب تک ذرائع آمدن یقینی نہ ہوں گے، اس وقت تک مدرسہ بشرط توجہ الی اللہ خوب سے خوب چلے گا اور اگر آمدن کا کوئی یقینی راستہ متعین ہوگیا تو کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ خوف ورجاء کا یہ سرمایہ جو رجوع الی اللہ کا سبب ہے‘ بنیاد سے جاتا رہے گا اور اللہ کا غیبی نظام جو امداد کے لیے شامل حال ہوتا ہے، ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اسی طرح مدارس میں گورنمنٹ اور امراء کی شرکت بہت مضر معلوم ہوتی ہے۔
انہی مدارس سے جن کی بنیاد محض توکل علی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے غیبی اسباب پر رکھی گئی تھی سے فیض یاب ہونے والوں نے تین سپرپاور ممالک ۱:-برطانیہ (جن کی قلم رو میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور آج سمٹ کر ایک جزیرہ تک محدود ہوگیا ہے) ۲:-سوویت یونین اور ۳:-امریکہ جسے طالبان نے افغانستان میں شکست فاش دی اور آج وہ یہاں سے نکلنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور وبے بس نظر آتا ہے۔ 
الحمد للہ! پاکستان بننے کے بعد عوام کے دین وایمان کے تحفظ اور ان کی آب یاری کے لیے علمائے کرام اور بزرگانِ دین نے دینی مدارس کا جال پھیلایا، جنہوں نے اپنے تاسیسی مقاصد کو کماحقہ پورا کیا، لیکن ہماری حکومتوں کی شاہ خرچیوں، ان کی عیاشیوں اور غلط پالیسیوں کی بناپر ہمارا ملک اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور ہوتا گیا، جس کی بناپر حکومتوں کا بیرونی قرضوں اور امداد پر انحصار بڑھتا گیا اور امداد دینے والے اداروں اور قوتوں کی شرائط اور مطالبات کی فہرست شیطان کی آنت کی طرح طویل سے طویل اور لمبی ہوتی گئی، انہوں نے اور شرائط اور مطالبات کے علاوہ ان دینی مدارس ، مساجد اور جامعات کو کنٹرول کرنے کی شرطیں بھی لگانا شروع کردیں، جس کے نتیجہ میں ہماری حکومتوں نے کبھی مدارس کی امداد کے نام پر ، کبھی ان کی سندات کو دنیاوی تعلیم کے مساوی قرار دینے کے نام پر، کبھی ان مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو نوکری دینے کے نام پر، کبھی ان مدارس کے نصاب کی تبدیلی کی قید، کبھی ان مدارس کے مقابل ماڈل دینی مدارس کا جھانسہ اور لالچ دے کر ان مدارس کو نیچا دکھانے اور ان کی افادیت ختم کرنے کے لیے ان مدارس پر طرح طرح کی قدغنیں لگائیں، نوبت بایں جارسید کہ اب موجودہ گورنمنٹ نے ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف کے کہنے پر کئی بل پاس کیے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان بلوں کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ یہ بل ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف کے کہنے پر ہم قومی اسمبلی سے پاس کرارہے ہیں، اور غالباً یہ پاکستانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر ہم یہ بل پاس نہیں کریں گے تو ہمیں بلیک لسٹ کردیا جائے گا، حالانکہ پاکستان پہلے بھی بلیک لسٹ ہوا تھا، لیکن گزشتہ حکومتوں نے اپنی کارکردگی سے اس کو بلیک لسٹ سے نکالا تھا، لیکن اس حکومت نے آنکھیں بند کرکے اپنے دین وایمان کے منابع اور چشموں کو شعوری یا لاشعوری طور پر بند کرنے کا سامان کرلیا۔
وقف املاک سے متعلق اس قانون کے پیچھے قوتِ محرکہ کیا ہے؟ ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف نامی فورس کی تشکیل گروپ آف سیون نامی تنظیم کی تحریک پر ۱۹۸۹ء میں ہوئی۔ یہ سات ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور جاپان ہیں۔ ان میں تین ممالک پہلے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور اس حیثیت میں ویٹو کا اختیار بھی رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر فیصلہ سازی کی پوزیشن میں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ’’دہشت گردی کو مالیات کی فراہمی‘‘ کے امور کو انہوں نے اقوامِ متحدہ سے بالا بالا ایک اور تنظیم کے زیر سایہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی؟ اس ٹاسک فورس کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا طریقِ کار کیا ہے؟ اس پر غور کریں تو دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور اوقاف کے تعلق کے بارے میں پورا نظریہ سامنے آجاتا ہے۔ جب تک اس تناظر کو ذہن میں نہ رکھیں، صرف اس قانون پر بحث سے پوری تصویر واضح نہیں ہوگی۔
 اس قانون میں بہت سی دفعات شریعت سے متصادم ہیں، بہت سی دفعات دستور میں مذکور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں اور کئی دفعات عدلیہ کی آزادی کے خلاف اور متوازی نظامِ انصاف قائم کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ قانون انتہائی حد تک ظالمانہ ہے، جس کی بھرپور مخالفت ضروری ہے۔
وقف املاک بل کی شقوں کے مطابق ۱:- وفاقی علاقوں میں مساجد ومدارس اور امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوگی اور اس کا انتظام وانصرام حکومتی نگرانی میں چلے گا۔ 
۲:-وقف املاک کی تعمیرات کی منی ٹریل آمدن واخراجات اور آڈٹ کا اختیار حکومت کو حاصل ہوگا۔ 
۳:-تمام مساجد ومدارس اور امام بارگاہیں وفاق کے کنٹرول میں ہوں گی۔ 
۴:- وقف عمارتوں کے منتظمین منی لانڈرنگ میں ملوث ہوئے تو حکومت انتظام سنبھال لے گی۔ 
۵:- قانون کی خلاف ورزی پر ۵ سال قید اور ۲۵ ملین (ڈھائی کروڑ) جرمانہ ہوگا۔ 
۶:- چیف کمشنر وقف املاک کا منتظمِ اعلیٰ تعینات کرے گا۔ 
۷:-منتظمِ اعلیٰ خطبے، تقریر اور لیکچر کو روک سکے گا۔ 
۸:- قومی خودمختاری اور وحدت کو نقصان پہنچانے کے معاملے کو روکے گا۔ 
۹:- خطبے، تقریر کی شکایت پر چھ ماہ قید ہوگی، جو ناقابلِ ضمانت اور عدالتی مداخلت سے مبرا ہوگی، عدمِ ثبوتِ جرم پر بھی ۶ ماہ بعد رہائی مگر حبسِ بے جا پر سوال نہیں کیا جاسکے گا۔ 
۱۰:- مساجد ومدارس کی انتظامیہ کے عہدیداروں کی ویری فکیشن اور ٹیکس ریکارڈ چیک ہوگا۔ 
۱۱:-مساجد ومدارس کو زمین اور فنڈنگ کرنے والا منی ٹریل دے گا۔ 
۱۲:- اخراجات اور فنڈنگ کرنے والوں کو منی ٹریل نہ دینے پر عمارت حکومت کے قبضے میں آجائے گی۔ وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کی شرط لگاکر وقف کا دروازہ بند کردیا گیا، نہ رجسٹریشن کی جائے گی اور نہ کوئی مسجد، مدرسہ یا رفاہی ادارہ بنے گا۔
وقف املاک کا بل جو بظاہر اسلام آباد کی حد تک ہے، لیکن درحقیقت اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے وفاقی حکومت کا دائرہ کار چونکہ اسلام آباد کی حدود تک ہے، اس لیے اسلام آباد کا ذکر کیا گیا، لیکن اصل میں یہ پورے ملک کے لیے ہے، جسے آگے چل کر چاروں صوبائی اسمبلیوں سے بھی پاس کرایا جائے گا۔اور عجیب بات یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں کے اوقاف اور خیراتی اداروں پر ہوتا ہے، مسیحی یا دیگر غیرمسلموں کے قائم کردہ خیراتی اداروں اور ٹرسٹس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
یہ بل خلافِ شریعت، خلافِ دستوراور حقوقِ انسانی کے برخلاف ہونے کی بناپر اتحادِ تنظیمات مدارسِ دینیہ نے اُسے یکسر مسترد کردیا اور ۳۱ دسمبر ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں ایک آل پارٹیز تحریک تحفظ مساجد ومدارس کے تحت مشاورتی اجلاس رکھا، جس میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے دانشور حضرات اور اکابر علمائے کرام شریک ہوئے، جنہوں نے اس میں مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا:
’’اسلام آباد ( ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۰ء) اتحادِتنظیماتِ مدارسِ دینیہ،سیاسی ومذہبی جماعتوں کے قائدین نے وقف املاک ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا، وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں، مدارس ومساجدکوغیر ملکی قوتوں کی ایما پر کسی قسم کی دہشت گردی، منی لانڈرنگ سے جوڑنا اور اُن کی کردار کشی کرنا، تاریخی بددیانتی ہی نہیں، بلکہ بدترین اخلاقی جرم ہے۔ پاکستان میں مذہبی پابندیاں قبول نہیں، ایسی کوششوں کی مزاحمت کریں گے ،حکمران ریاست کو بالادستی کانام دے کر دینی مدارس کو تباہ کرنا چاہ رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار رہنمائوں نے تحریکِ تحفظِ مساجدومدارس کے زیرِ اہتمام ہونے والی آل پارٹیزتحفظِ مساجدومدارس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر مولاناعبدالغفورحیدری، جمعیتِ اہلِ حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر ساجد میر، اتحادِتنظیماتِ مدارس کے جنرل سیکرٹری مفتی منیب الرحمن، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف جالندھری، جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیرلیاقت بلوچ، انصارالامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل، وفاق المدارس السلفیہ کے سیکرٹری جنرل علامہ یاسین ظفر، رابطۃ المدارس پاکستان کے سربراہ مولاناعبدالمالک، وفاق المدارس العربیہ کے نائب صدر مولانا انوار الحق، صاحبزادہ مولانا خلیل احمد، ممبرصوبائی اسمبلی مولانامعاویہ اعظم، وفاق المدارس کے رہنما مولانا امداداللہ، مولانا زاہد الراشدی، وفاق المدارس کے میڈیا کوآرڈینیٹر مولانا طلحہ رحمانی، ڈاکٹر محمد مشتاق، ڈاکٹر عزیزالرحمن، ڈاکٹر حبیب الرحمن، پیر سید احسان الحق، تحریکِ تحفظِ مساجدومدارس کے صدر مولانا ظہور احمد علوی، سرپرست مولانا نذیر فاروقی، تحریک کے سیکرٹری جنرل مفتی اقبال نعیمی ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مولانا محمد حنیف جالندھری نے متفقہ اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء جسے انتہائی غیر پارلیمانی اور نامناسب طریقے سے پاس کیا گیا ہے، اس کو تمام شرکاء نے متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر قائم وقف املاک، رفاہی ادارے، دینی مدارس اور مساجد کا آزاد سلسلہ برصغیر میں صدیوں سے جاری ہے، وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء دینی تعلیمات سے متصادم ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے وقف کو کسی صورت بھی اس کے مصرف کے علاوہ نہیں برتا جاسکتا، جب کہ موجودہ ایکٹ میں اس کا دروازہ کھول کر وقف کی افادیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ ایکٹ میں وقف املاک کو بیچنے اور نیلامی کرنے کی گنجائش پیدا کرکے، کرپشن اور قبضہ کے ذریعے ان قومی اداروں کو برباد کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر اس کے لیے ایسی ناقابلِ عبور رُکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، جس کے بعد وقف کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح موجودہ ایکٹ نے آزادی تقریر کے شخصی حق کو بھی سلب کرتے ہوئے آئین میں دیئے گئے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری ہیں، موجودہ ایکٹ نے لاکھوں پاکستانی عوام کی اُمنگوں کا خون کیا ہے، موجودہ ایکٹ صرف وقف کے ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے نہیں رکھ دے گا، بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری آنے والی نسلیں بھی دینی اور رفاہی اعتبار سے بری طرح متاثر ہوکر رہ جائیں گی۔ وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء کے نام پر کی گئی قانون سازی، وطنِ عزیز کی سالمیت کو تباہ کر دے گی، چونکہ یہ ایکٹ اسلامی قانون، آئینِ پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے، اس لیے دینی مدارس کے تمام وفاق ہائے تعلیم پر مشتمل اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان بھی اس کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کر تے ہیں اور دیگر تمام سنجیدہ قومی و ملی حلقے بھی اس پر اپنے کرب اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریکِ تحفظِ مساجد و مدارس ان تمام حلقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس ایکٹ کے خلاف ملک گیر تحریک چلا رہی ہے، یہ تحریک مرحلہ وار ملک بھر میں منظم کی جائے گی اور وقف کی واپسی تک جدوجہد جاری رہے گی۔‘‘ (شعبہ نشرواشاعت تحریکِ تحفظِ مساجد ومدارس)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’وقف املاک بل۲۰۲۰ء ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف کے دباؤ پر بنایا گیا۔ پچھلے سال ستمبر میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف سے متعلق قانون سازی میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس قانون کے تحت نجی وقف کی زمینوں پر قائم تمام مساجد، امام بارگاہ اور مدارس وفاق کے انتظام میں آجائیں گے۔ سنا ہے کہ اس قانون کی آڑ میں ڈپٹی کمشنر مدارس کے مہتممین اور مساجد کے خطیبوں کو تنگ کررہے ہیں۔ فجر کی اذان میں لاؤڈ اسپیکروں کی آواز دھیمی رکھنے، جمعہ کو اُردو تقریر کے بجائے صرف عربی خطبہ اور مساجد میں دروسِ قرآن و حدیث کو محدودکرنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ 
حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف اسٹیل مل، پی۔ آئی۔ اے اور ریلوے کی نجکاری کی جارہی ہے، نجی جامعات کا جنگل اُگ رہا ہے ، خود گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والی اوقاف کی مساجد میں بجلی وگیس اور ان کی مرمت کے اخراجات محکمہ اوقاف دینے سے انکاری ہے، جبکہ یہ تمام اخراجات وہاں کے نمازی اپنی مدد آپ کے تحت پورے کرتے ہیں،اور دوسری طرف حکومت عوام کے چندوں سے چلنے والے مدارس کو اپنی تحویل میں لینا چاہتی ہے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ: حکومت کو چاہیے کہ اپنے خرچ پر ’’ماڈرن وروشن خیال‘‘ مدارس تعمیر کر لے۔ اگران مدارس کا معیار بہتر ہوگا تو وہ مدارس جنہیں نواز شریف کے وزیرِ اطلاعات، پرویز رشید ’’جہالت کی فیکٹریاں‘‘ کہتے ہیں، خود ہی بند ہو جائیں گے۔ پاکستان کا لبرل و سیکولر طبقہ دینی مدارس کو عسکریت پسندی کا ماخذ سمجھتا ہے اور انگریز دور سے ریاست مدرسوں کو سرکاری نظام میں لانے کے جتن کر رہی ہے، لیکن اب تک کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔‘‘ دوسری طرف عوام کی غالب اکثریت مدارس کوتحفظِ قرآن اور دینی تعلیم کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ خود پرویز مشرف کہتے تھے کہ مدارس دنیا کی سب سے بڑی N.G.O ہے۔ مدارس لاکھوں یتیم و بے سہارا اور غریب بچوں کو مفت تعلیم کے ساتھ کھانا اور رہائش فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ حکومتوں کی اپنی کارکردگی یہ ہے کہ ۴ جنوری ۲۰۲۱ء میں اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ سندھ میں ۶۶ ادارے بغیر سربراہان کے چل رہے ہیں، ۵۶ اہم پوسٹوں پر اضافی چارج کے افسران براجمان ، ۸ محکموں میں گریڈ ۲۰ کے سیکرٹریز کی اسامیاں خالی ہیں۔ اسی طرح پرویز مشرف کے دور میں قائم کیے جانے والے ماڈل دینی مدارس کا کوئی پرسانِ حال نہیں، نہ ہی ان کا کوئی ذمہ دار افسر، چیئرمین یا سرپرست موجود ہے۔ کیا حکومت اس بل کے ذریعہ ان مدارس وجامعات کا بھی یہی حشر کرنے جارہی ہے، ورنہ اس بل کے کیا مقاصد ہیں؟ جب کہ شنید ہے کہ ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف میں سب سے زیادہ سرگرم فرانس کا ملک ہے، اور فرانس جو کچھ اپنے ملک میں اسلام، قرآن، شعائرِ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کررہا ہے، وہ دنیا سے مخفی نہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو کہاں گئی ہماری خودداری و خودمختاری اور کہاں گیا ہمارا اسلامی دستور وقانون؟! انہی وجوہ کی بناپر اگر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ گورنمنٹ کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل کرنے آئی ہے، تو اس میں کون سی غلط بات ہے؟! کیونکہ حکومت اپنے اور اقدامات کے علاوہ اس بل کے ذریعہ خود اپنے خلاف ثبوت اور شہادت قائم کررہی ہے۔ خدارا! اس ملک کے آئین ودستور کو داغدار، اس ملک کے اسلامی تشخص کو بدنما اور مسلمانوں کے اعتماد کو متزلزل نہ کریں، ورنہ علمائے کرام اور مسلمان عوام کی جانب سے اس تحریک کے ذریعہ ایسا سخت ردِعمل آئے گا کہ حکومت کے لیے اُسے برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا۔ إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقي إلا باللّٰہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین