بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تبلیغِ دین یا مغربی ثقافت کی تشہیر؟!

تبلیغِ دین یا مغربی ثقافت کی تشہیر؟!

 

گزارش بخدمت جدت پسند مبلغین


کسی بھی موضوع کو اس وقت تک زیرِ بحث لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ جائے، لیکن جب پانی سر سے اوپر آنے لگے تو پھر کچھ کہنا ضروری ہو جاتا ہے، ورنہ گویا کہ ہم بھی اس منکر میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہاں چند اہم گزارشات ان ’’جدت پسند مبلغین‘‘ کی خدمت میں پیش کرنی ہیں جو بڑے اخلاص کے ساتھ سارے عالم میں دین کو پھیلانے کی کوشش تو کر رہے ہیں، مگر اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے بہت بڑی بڑی غلطیوں کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔
یہاں خصوصی طور پر ان حضرات کو مخاطب کرنا مقصود ہے جن کا تعلق نوجوانوں کے ایک کلب ’’یوتھ کلب‘‘ سے ہے جو اسلام آباد سے شروع ہوا تھا اور اب ان کی شاخیں تقریباً تمام بڑے شہروں میں بن چکی ہیں۔ ہمیں گمان ہے کہ یہ خالص اللہ رب العزت کی رضا کے لیے ہی دین کی خدمت کی نیت سے یہ ساری کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ان حضرات کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمیں دین کی خدمت اور اشاعت کے لیے صرف جائز عمل اختیار کرنے کا ہی مکلف بنایا گیا ہے، ناجائزعمل کا نہیں۔ اگرچہ یہ حضرات کالجز اور یونیورسٹیز میں نوجوانوں میں نظر آنے والی بے دینی اور بے راہ روی کی فکر میں نظر آتے ہیں، لیکن ان کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے مغربی ثقافت کی تشہیر کا جو راستہ اختیار کر رہے ہیں، وہ بھی کسی خیر کا سبب نہیں بنے گا۔ 
ان حضرات کی پہلی اور سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ نبوی معاشرت کو مکمل طور پر ترک کر کے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے پورے ایک باب کو نکال کر دین قائم کرنے کی کوشش کی جائے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ جس کو نبوی معاشرت ہی سمجھ نہ آئے تو پھر باقی دین کی کیسے سمجھ آسکتی ہے؟!
بلاشبہ ایسے طرزِ عمل کا نتیجہ وہی ہوگا جو یہود و نصاریٰ کے مبلغین کو حاصل ہوا، یعنی جب انہوں نے اپنے انبیاء کی معاشرت کو ترک کیا تو پھر ان کا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اب کئی مسلمان ممالک میں جدت پسند مبلغین مادہ پرستی والا ذہن لے کر جب لوگوں کو دین کی طرف بلا رہے ہیں تو لوگ دین کی طرف آنے کے بجائے مادہ پرستی اور نفسی اجتہاد کی طرف جا رہے ہیں۔ اور اس مغربیت کے رنگ میں رنگی ہوئی عجیب و غریب تبلیغ کا کم سے کم نقصان یہ ہو رہا ہے کہ لوگ اہلِ حق علماء سے بدظن ہو کر ایسے جدت پسند جیکٹ، پتلون اور ہیوی بائیک والے مجتہدین کے پیچھے چل پڑیں گے جن کو اپنے راستے کا خود بھی علم نہیں ہوگا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں ؟
مخلوط اجتماعات اکٹھے کرنا یا جوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہوکر ان کی ویڈیو گرافی اور اُن کو قرآن اور حدیث سنانا نہ صرف یہ کہ گمراہی کی بدترین شکل ہے، بلکہ دین کا مذاق بنانے کے مترادف ہے۔ پچھلے سال بھی ان کی طرف سے اس طرح ہوا اور اب پھر اس سال دوبارہ ایک مسجد میں نوجوانوں کو اکٹھا کرکے ان سے دنیاوی باتیں اور پھر ساتھ کھیل تماشا کرنا کہاں جائز ہے؟
پھر خواتین کو قابلِ اعتراض پردے میں مختلف ایسے موضوعات پر بات کروانا جو نہ صرف شرم و حیا کے خلاف ہیں، بلکہ معاشرہ عمومی طور پر ایسی برائیوں سے مانوس بھی نہیں، تو پھر ان برائیوں کے تذکرے عام کرنے کا کیا مقصد؟ ان حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے طرزِ عمل اور فکر پر نظر ثانی کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ دین کی ترویج کے لیے کسی بھی ناجائز یا حرام راستے کو اختیار کرنا جائز نہیں، نہ ہی اللہ رب العزت کو آپ سے یہ مطلوب ہے۔
ایسی مغرب زدہ تبلیغ سے خاموش رہنا بہتر ہے، جو کہ مشرق میں مغربیت کا وہ زہر پھیلا دے جس کی وجہ سے آج یہودی اور عیسائی بھی دہریت کی زد میں نظر آتے ہیں۔ اس موضوع پر ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے، مگر تحریر کو مختصر رکھنا ہے۔ اللہ رب العزت جدید دور کے ہر فتنے سے ہمارے ایمان اور اعمال کی حفاظت فرمائے، آمین۔

معراجِ انسانیت کے متعلق جدید مبلغین کا ایک بے معنی اشکال 

نبوی معاشرت پر جدید مبلغین کا کھلے طور پر کیا گیا ایک اعتراض جو اُن کے قول و فعل سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’نبوی معاشرت دراصل عرب معاشرت کا ایک جز ہے اور اس پر عمل کرنا دین کا حصہ نہیں، دین تو صرف قرآن اور حدیث سے احکامات لینے کا نام ہے۔‘‘
یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن اختصار کے ساتھ یہاں اس پر کچھ روشنی ڈالنی ہے جس کا مقصد مغربی معاشرت سے متاثر جدید مبلغین کو دلیل کے ساتھ سمجھانا ہے۔ 
آج کے دور میں مغربیت سے متاثر مبلغین کو پہچاننا کوئی مشکل نہیں، نبوی معاشرت سے متعلق ان کا اوپر ذکر کیا گیا اشکال ان کے کردار، گفتار، لباس اور معاملات وغیرہ سے واضح نظر آ جاتا ہے اور شاید یہ اللہ رب العزت کی خاص مہربانی ہے کہ غلط طرزِ عمل و فکر کی وجہ سے نبوی معاشرت کی حکمت ان کے قلوب سے پوشیدہ کر دی جاتی ہے۔
پھر یہ اپنے قول اور فعل سے ہر جگہ کہتے پھرتے ہیں کہ عرب معاشرت در اصل نبوی معاشرت نہیں، یہ تو بس ایک اتفاقی بات ہے کہ عرب میں یہ چیزیں رائج تھیں، جس کا دل چاہے ان پر عمل کرے، جس کا دل چاہے عمل نہ کرے، اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
انسانی معاشرت کے جدید علم کو ’’معاشرتی علوم یا سوشل سائنس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ مغربی معاشرے میں اس علم کی بنیاد ’’ Age of Enlightenment ‘‘ یعنی ’’عہدِ روشن خیالی‘‘ )جوکہ تقریباً 1620ء سے 1780ء کے بیچ کا وقت ہے) اس دوران رکھی گئی۔ یہ وہ دور ہے جب مغرب اپنے تاریک ترین دور یعنی زمانۂ جہالت سے نکل کر ایک مہذب معاشرہ بننے کی طرف جا رہا تھا، اس کی شروعات اطالیہ سے اُٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک (’’ Renaissance ‘‘جو نشاۃ ثانیہ کہلاتی ہے) سے ہوئی تھی، جس کا آغاز تقریباً چودھویں صدی میں ہوتا ہے۔
’’معاشرتی علوم یا سوشل سائنس‘‘ کے زیر اثر آنے والے چند اہم موضوعات درج ذیل ہیں: تاریخ، بشریات، معاشیات، لسانیات، سیاسیات، انسانی نفسیات، جغرافیہ، آثارِ قدیمہ، اور انتظامی یعنی مینجمنٹ سائنس  ( History, Anthropology , Economics, Linguistics, Politics, Human Psychology, Geography, Archeology, and anagement Science.)
نبوی معاشرت کے ادنیٰ طالب علم کو بھی ساری بات یہیں سمجھ آگئی ہوگی ، یعنی جن علوم کی معراج انسانیت کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک ذریعے سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے حاصل ہوگئی تھی، مغرب چند صدیاں پہلے تک بھی اس سے یکسر محروم تھا، اور آج یہ جدت پسند مبلغ آ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ عرب معاشرت تھی، نبوی معاشرت نہیں تھی، اس لیے تم جو چاہو پہنو، جیسے چاہو زندگی گزارو، بس نمازِ پنجگانہ پڑھو اور قرآن اور حدیث کے درس دیتے رہو، بس یہی اسلام ہے۔
پھر مغربیت کے تاثر میں یہ جدید مبلغین ہمیں عورت کے حقوق سکھاتے ہیں، جبکہ خود انھیں معلوم ہے کہ اسلام چھٹی صدی عیسوی سے عورت کے جن حقوق کی بات کر رہا ہے، مغرب میں اٹھارویں صدی تک بھی ایسے حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
پھر جدید مبلغین کی گمراہی پر گمراہی یہ کہ مغرب میں فیمنزم (Feminism) یعنی حقوقِ نسواں کی تحریکوں کے جواب میں یہ ایک گمراہ کن اصطلاح یعنی اسلامک فیمینزم (Islamic feminism) استعمال کرتے ہیں، جو کہنے اور سننے میں تو بڑی خوبصورت اصطلاح ہے جو اسلام میں عورت کے حقوق کو مغرب کی زبان میں سمجھانے کا نام ہے، لیکن دراصل یہ ایک ایسی خوفناک اور زہریلی سوچ کی پیداوار ہے جو اسلام کی معاشرتی اَساس کو کھوکھلا کر کے اس کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے۔ اور یہ طرزِ فکر زیادہ پرانا بھی نہیں، اس کی ابتدا بیسویں صدی کے شروع سے ہی ہوئی ہے، جبکہ بلامبالغہ حقیقت یہ ہے کہ جو حقوق اور عزت عورت کو اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے دے دی تھی، مغرب کی عورت آج بھی اس عزت اور اکرام اور مرتبے کا تصور نہیں کر سکتی۔
خلاصہ یہ کہ نبوی معاشرت کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو اپنے ذہن سے نکال کر ان مغرب زدہ ذہنوں کے خوبصورت طرزِ بیان کے اثر سے اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچانے کی کوشش کریں، ورنہ ہماری آگے آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو آج عرب دنیا کے نوجوانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جنھیں پہلے نبوی معاشرت سے دور کیا گیا اور پھر مغرب کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔
شروع میں عرض کیا تھا یہاں صرف کچھ اہم نکات ذکر کرنا مقصود تھا کہ جب تک ہم نبوی معاشرت کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنائیں گے، اسلام کی اَساس نہ ہمیں سمجھ آسکتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے خوبصورت انداز میں سمندر کو کوزے میں یہ کہہ کر بند کر دیا کہ:

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین