بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بے مثال وراثت!

بے مثال وراثت!


زیرِنظر مضمون آج سے تقریباً بتیس سال پہلے ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے شعبان المعظم ۱۴۰۶ھ مطابق مئی ۱۹۸۶ء کے شمارے میں شائع ہوا ، جس کا تعارف اُس وقت یوں کرایا گیا تھا:
’’۱۱؍ رجب المرجب ۱۴۰۶ھ صبح گیارہ بجے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں ختم بخاری شریف کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی ولی حسن خان صاحب ٹونکی دامت برکاتہم کے علاوہ جامعہ کے مہتمم اور ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے نگرانِ اعلیٰ جناب مولانا مفتی احمد الرحمن اور حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر نے نہایت مؤثر اور مدلل خطاب فرمایا، جو بعد میں ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے کاغذ پر منتقل کرلیا گیا۔ ذیل میں مفتی احمد الرحمن صاحب کے بیان پر مشتمل اس کا ایک حصہ قارئین ’’بینات‘‘ کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ‘‘ (ادارہ)
مدارسِ دینیہ کے تعلیمی سال کے اختتام کی مناسبت سے مذکورہ مضمون عام قارئین بینات اور بالخصوص جدید فضلاء کرام کے افادے کے لیے قندِ مکرر کے طور پر پیش خدمت ہے۔                    (ادارہ)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا، اُسے خوبصورت سانچے میں ڈھالا، ظاہری خوبیوں کے ساتھ باطنی کمالات سے بھی نوازا، اُسے عقل وشعور اور اِدراک کی قوت عطا کی، اپنی مخلوق میں سب سے بہتر اور اشرف قرار دیا، حتیٰ کہ اپنی معصوم مخلوق فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمm کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا خلیفہ بنایا اور علم کی دولت سے مالا مال کرکے اس کی برتری ثابت کی، پوری کائنات کو اس کی خدمت پر مامور کردیا اور اس انسان کی جسمانی وروحانی تربیت کا مکمل انتظام کیا۔ 
یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہے، مگر اسی پر اکتفاء نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم پر مزید فضل فرمایا کہ ہمیں مسلمان بنایا اور اس اُمت کا فرد بنایا جو سب سے بہتر اُمت ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ کرم فرمایا کہ ہمیں طالب علم بنایا، وہ طالب علم جس کے پاؤں کے نیچے فرشتے پَر بچھاتے ہیں، جس کے لیے ہر مخلوق دعا کرتی ہے، حتیٰ کہ مچھلی پانی میں اور چیونٹی اپنی بل میں اس کے لیے دعا گو ہوتی ہے اور سب سے بڑی نعمت یہ عطا فرمائی کہ حدیث کا طالب علم بنایا، آج آپ کے لیے کس قدر مسرت وخوشی کا دن ہے اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ’’أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ (اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب) بخاری شریف کی آپ نے تکمیل کی، اس کا آخری سبق پڑھا، صرف بخاری ہی نہیں بلکہ صحاحِ ستہ کے علاوہ مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد اور امام طحاویؒ کی کتاب الآثار بھی پڑھ چکے ہو۔ اللہ پاک نے آپ کو انبیاء علیہم السلام کا وارث بنادیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ‘‘آپ بہت خوش قسمت ہیں، آپ کو کسی حکومت، کسی سرمایہ دار، کسی جاگیردار کی وراثت نہیں ملی، آپ کو شداد، فرعون، نمرود اور قارون کی وراثت نہیں ملی، بلکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت آپ کے حصہ میں آئی ہے، آج اللہ پاک نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت کا تاج آپ کے سروں پر رکھ دیا، وہ انبیاء کرام علیہم السلام جن کا مقام بہت بلند ہے، اللہ تعالیٰ کے بعد انبیاء ہی کا درجہ ہے، انبیا ء علیہم السلام  کا مقام تو بہت بلند ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو جلا بخشنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام بھی اس قدر ارفع اور بلند ہے، جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ 
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام کا اندازہ اس واقعہ سے لگایئے! ایک مرتبہ کسی نے اپنے وقت کے جلیل القدر محدث حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ: امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بلند ہے یا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا؟ آپؒ نے فرمایا: ’’امیر المؤمنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس گھوڑے پر سوار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے، اس گھوڑے کی ناک اور نتھنوں میں جو غبار داخل ہوا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اس کے برابر بھی نہیں۔ ‘‘
یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کوئی شاعر نہیںتھے، بلکہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث اور جید عالم تھے۔ 
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے اللہ والے، صاحب علم اور علم دوست تھے، بڑی خوبیوں کے مالک۔ ان کو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمرے میں شمار کیا جاتاہے اور ان کے بے مثال دورِ حکومت کو خلافتِ راشدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، مگر چونکہ صحابی نہیں تھے، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی تھی، ا س لیے صحابی کے برابر نہیں ہوسکتے۔ بڑے سے بڑا عالم، شیخ وقت، قطب وابدال کوئی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ مقام ہے تو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا مقام تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت بلند ہے، ان انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا وارث اللہ نے آپ کو بنایا، آپ کو وراثت میں دولت نہیں ملی، جاگیر نہیں ملی، بلکہ علم کا خزانہ آپ کے ہاتھ آیا ہے اور اتنی بڑی دولت اور نعمت ہے کہ دنیا کی تمام دولت اور ہر نعمت اس پر قربان کی جاسکتی ہے اور اتنی بڑی نعمت کے مل جانے پر آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کے آخر میں جو حدیث ذکر کی: ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم‘‘ جس کی تشریح وتوضیح شیخ الحدیث مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب مدظلہٗ العالی ابھی فرمارہے تھے اور اسی حدیث پر کتاب ختم ہوئی ہے۔ یہ حمد کی حدیث ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی اور اللہ کی حمد وثنا ہے۔ اس حدیث کو آخر میں بیان کرکے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس نعمت کا شکریہ ادا کیا ہے اور آپ کو بھی شکرِ خداوندی کی ترغیب دی ہے، آپ پر بھی واجب اور ضروری ہے کہ اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کریں۔ 
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بہت اونچی شخصیت کے مالک تھے، آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس سے لگایئے کہ چھ لاکھ احادیث کے ذخیرہ سے صحیح احادیث منتخب کرکے یہ کتاب تصنیف فرمائی، حتیٰ کہ اپنے وقت میں احادیث کی صحت وضعف کو پرکھنے کے لیے علماء کی نظر میں آپ ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ 
آپ کے زہد کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوگئے، تشخیصِ مرض کے لیے اطباء کو جب ان کاقارورہ دکھایا تو اطباء نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ تو ایسے راہب کا قارورہ معلوم ہوتا ہے جس نے عرصۂ درازسے سالن استعمال نہ کیا ہو۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ چالیس سال سے سالن استعمال نہیں کیا، صرف جَوکی سوکھی روٹی کھایا کرتے تھے۔ حکماء کے اصرار پر صرف یہ منظور کیا کہ جَوکی روٹی کے ساتھ صرف تین بادام استعمال کریں گے، یہی ان کا سالن تھا۔ 
ان کا علمی مقام اپنی جگہ پر مسلَّم، انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ علم حاصل کیا، بلکہ اس علم کی لاج بھی رکھی، آج کل اس چیز کی بہت کمی ہے، حالانکہ یہ بہت ضروری ہے کہ جب اللہ نے علم عطا فرمایا ہے تو اس کی لاج بھی رکھے، علم کی عزت کرے، اس کی توہین نہ کرے، اسے بے عزت نہ کرے، کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے علم بدنام ہو، اس کی تذلیل ہو۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کے ذمے پچیس ہزار درہم تھے اور وہ مسلسل ٹال مٹول کررہا تھا، دینا ہی نہیں چاہتا تھا، اس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔ امام صاحبؒ کے کسی دوست نے مشورہ دیا کہ حاکم وقت آپ کا معتقد ہے، آپ کے متعلقین میں سے ہے، آپ اگر اشارہ بھی کردیں تو آپ کی یہ رقم وصول ہوجائے گی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: وہ میرے علم کی وجہ سے میرا معتقد ہے، میں اپنے علم اور دین کو دنیا کے کسی کام کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتا، نہ اس سے دنیا کا کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتاہوں۔ حکمرانوں کا حال تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا بدلہ بھی چاہتے ہیں، آج وہ میرا یہ کام کردیں گے، کل مجھ سے اپنا کوئی کام لیںگے، دنیا کا کوئی کام میرے سپرد کریںگے اور میں دین کو چھوڑ کر کبھی دنیا اختیار نہیں کرسکتا۔ تو علم کا وقار اور اس کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے، آپ اس کا وقار بلند کریں، اسے ذلیل ورسوا ہونے نہ دیں۔ 
جیساکہ حضرت مفتی صاحب مدظلہٗ العالی نے فرمایا کہ: اللہ پاک نے آپ کو عالم بنادیا، آپ فارغ التحصیل ہوگئے، مگر اس پر غرور نہ کرنا اور یہ نہ سمجھنا کہ ہم تو اب عالم بن گئے، اب علم سیکھنے کی ضرورت نہیں، جس دن یہ خیال ذہن میں آگیا تو سمجھ لینا کہ یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جو امام دار الہجرہ کے لقب سے مشہور ہیں، آپ اپنے وقت کے مجتہد تھے، ہزاروں آدمی آپ کے مقلد تھے، خصوصاً مغرب کے لوگ تو اکثر آپ کے مقلد تھے۔ مغرب سے ان کے مقلدین کا ایک وفد چالیس مسائل لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ سے یہ مسائل پوچھے، آپ نے ان میں سے صرف چار مسئلوں کا جواب دیا، باقی چھتیس مسائل کے جواب میں آپ نے ’’لا أدری‘‘ (میں نہیں جانتا) فرمایا۔ آج کل تو ایک مرض یہ بھی ہے کہ اپنی علمیَّت اور قابلیت ضرور ظاہر کی جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو اس کا جواب ضرور دیا جاتا ہے، چاہے غلط ہی کیوں نہ ہو، اور یہ کہنے میں سبکی محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اس کا جواب نہیں معلوم، حالانکہ یہ بہت بڑا جہل ہے، بلکہ ڈبل جہل۔ اگر کوئی بات معلوم نہ ہو تو کہہ دینا چاہیے کہ مجھے معلوم نہیں۔ یہ اعتراف واقرار کرنا بھی ایک طرح کا علم ہے اور ابھی تو آپ کی ابتداء ہے، ابھی تو آپ میں صرف یہ صلاحیت پیدا ہوئی ہے کہ آپ کتاب سمجھ سکتے ہیں، اس سے مسئلہ معلوم کر سکتے ہیں۔ 
جو علم آپ نے حاصل کیا، اس کا مطالبہ اور تقاضا یہ ہے کہ آپ اس پر عمل پیرا ہوں، آپ کے اخلاق بلند ہوں، تکبر وغرور سے آپ دور ہوں، علم‘ تواضع اور انکساری چاہتا ہے۔ ہمارے اس ادارے کے بانی اور مؤسس محدث العصر مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ جن کی شخصیت، جن کے اخلاق، جن کے اخلاص سے آپ واقف ہیں، جنہوں نے کس حال میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی، اسباب وسائل سے تہی دامن تھے، مگر اخلاص وللہیت اور خدا پر اعتماد کی دولت سے آپ کا دامن لبریز تھا، اسی کو بنیاد بناکر یہ کام شروع کیا، کس حال میں شروع کیا تھااور کس طرح اللہ نے کامیابیوں سے نوازا، یہ سب آپ کے سامنے ہے، میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ یہی حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو اپنے ہاتھ سے آپ کے یہ بیت الخلاء صاف کیا کرتے تھے، اسی قسم کا ایک واقعہ آپ کے شیخ الشیخ، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، آپ ٹرین میں سفر کررہے تھے، ہر طرح کے لوگ اس میں سوار تھے، مسلمان بھی اور غیرمسلم بھی، ایک ہندو جو آپ کے برابر میں ہی بیٹھا ہوا تھا، قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء گیا، مگر ناک بھوں چڑھاتاہوا واپس آگیا کہ وہ تو بہت گندہ استعمال کے قابل نہیں، تھوڑی دیر میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ چپکے سے اُٹھے اور جاکر اپنے ہاتھوں سے اس طرح صاف کردیا، کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے یہاں غلاظت کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے اور اس ہندو سے کہا: آپ کو تقاضا تھا، آپ چلے جایئے، اس نے کہا: نہیں، وہ تو بہت گندا ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، وہ تو بالکل صاف ہے، میں ابھی ہوکر آیا ہوں، جب وہ ہندو وہاں گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا اور سمجھ گیا کہ اسی شخص نے یہ صاف کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسٹیشن آیا تو وہ ہندو اُتر کر دوسرے ڈبے میں سوار ہوگیا اور کہنے لگا: اگر تھوڑی دیر میں اور اُن کے پاس بیٹھتا تو مسلمان ہوجاتا۔ یہ تھے ہمارے اکابر اور بزرگ جو ا س قدر بلند اخلاق کے مالک تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جب ہم ان کے نام لیوا ہیں تو ان کے سے اخلاق بھی اپنے اندر پیدا کریں، تواضع اور انکساری اختیار کریں، تکبر اور اکڑ سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کی ذلت ورسوائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمارے اکابر کو جو بلند مقام حاصل ہوا وہ اسی تواضع اور اخلاقِ عالیہ کی بدولت۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اُسے بلند کرتا ہے۔ ‘‘
فارغ ہونے کے بعد ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ معاش کا سامنے آتا ہے اور ہرایک یہ سوچتا ہے کہ میں کھاؤں گا کہاں سے؟ اس سلسلہ میں ظاہری اسباب کے طور پر ہرایک کو باعزت ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس میں معاش کا مسئلہ بھی حل ہو اور علم کا وقار بھی بحال رہے، دین کی خدمت بھی ہوتی رہی۔ اس بارے میں ایک واقعہ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں:
دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے وقت کے صاحبِ دل اور مجذوب تھے، بہت بڑے بزرگ تھے، ایک دن کلاس میں آئے، یہ کہتے ہوئے: منواکر چھوڑا، منواکر چھوڑا، پوچھا گیا: حضرت! کیا منواکر چھوڑا، اور کس سے منوایا؟ فرمایا: ’’میں ایک عرصہ سے یہ دعا کرتا رہا کہ: ’’اے اللہ! جو بھی اس دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو اُسے معاشی لحاظ سے کبھی تنگی میں مبتلا نہ کر، یہ دعا میں ہمیشہ کرتا رہا، مگر آج تو اللہ پاک سے منوا کرہی چھوڑا، آج اللہ نے میری دعا قبول فرمالی۔ ‘‘
ہمارا بھی اسی دارالعلوم دیوبند سے تعلق ہے، اور یہ بھی بتادوں کہ ہمارے حضرت ؒ نے بھی اس ادارے، اس میں پڑھنے والے، اس کے متعلقین اور اس کے معاونین اور اس کے مخلصین سب کے لیے اس قدر دعائیں کی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں اور بس دیکھتا ہوں کہ آج جہاں کہیں بھی اس ادارے کے فضلاء دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں دنیا کے لحاظ سے کبھی تنگی نہیں ہوئی۔ آپ بھی یہ عزم کر لیجئے کہ ہم دین کی خدمت کریںگے تو ان شاء اللہ! کبھی آپ کو تنگی نہیں ہوگی۔ ہم نے بہت سے ایسے ساتھیوں کو دیکھا ہے جن کی علمی استعداد بہت کم تھی، مگر جب وہ اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت بھی لے رہا ہے اور دنیا کے اعتبار سے بھی وہ اچھی حالت میں ہیں۔ 
طالب علم اور اس کے فضلاء تو تنگی میں کیوں کر مبتلا ہوںگے؟! اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو اللہ نے بے انتہا نوازا۔ جامعہ کے مخلصین میں سے ایک حضرت کے پاس آکر بار بار یہ کہتے تھے کہ: ’’اس مدرسہ کی خدمت کی برکت سے اللہ نے مجھے بہت دیا‘‘ اور حضرت اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ: اللہ نے اسے اس قدر نوازا ہے کہ یہ ضبط نہیں کرپارہا اور اس کا اظہار کرنے پر مجبور ہے۔ 
آپ بھی معاشی مسئلہ سے پریشان نہ ہوں، دین کے سپاہی بن جائیں اور دین کی خدمت کا عزم مصمم کرلیں تو یہ سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔ 
حدیث پڑھنے والوں کے لیے تو بشارتیں ہیں، ان کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں فرمائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، اس کو یاد کیا اور پھر جیسے سنا تھا اسی طرح دوسروں کو پہنچادیا۔ ‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظِ قدسیہ جو یاد کرتے ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں، ان کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں، ان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہے اور یہ بہت بڑا شرف ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! میرے خلفاء پر رحم فرما۔ ‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے پیغمبر! آپ کے خلفاء کون ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جومیری احادیث یاد کرتے ہیں اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ‘‘
علم دین حاصل کرنے والوں کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو علم کے راستہ پر چلتے ہیں اللہ ان کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔ ‘‘ اس بشارت میں جس طرح علم دین حاصل کرنے والے داخل ہیں، اسی طرح وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حصولِ علم کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی اعانت کرتے ہیں۔ 
ایک بہت بڑا انعام آپ پر یہ ہوا کہ آپ کو ’’سندِ حدیث‘‘ مل گئی۔ ’’سندِ حدیث‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا اتصال ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا جوڑ قائم ہوگیا، کیونکہ ہم نے یہ علم اپنے اساتذہ سے حاصل کیا، ہمارے اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے، اسی طرح سلسلہ درسلسلہ ہرایک نے اپنے اساتذہ سے یہ علم حاصل کیا، تبع تابعینؒ نے تابعینؒ سے، تابعینؒ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل m کے واسطہ سے یہ علم سکھایا، تو اللہ پاک عطاکرنے والے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تقسیم کرنے والے ہیں۔ 
یاد رکھو کہ جب تک کوئی یہ علم دین کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے نہیں سیکھے گا، کسی کی باقاعدہ شاگردی اختیار کرکے اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوگا، اس وقت تک نہ یہ علم حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ اس کی برکات وفیوضات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف مطالعہ کرنے اور تراجم پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جو ایسا کرتا ہے وہ ضلالت وگمراہی میںجاپڑتا ہے، اس علم سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے وہ نقصان اُٹھاتا ہے اور بغیر کسی استاذ کے حاصل کیا جانے والا علم بسااوقات الحاد وزندقہ کا سبب بنتا ہے۔ 
یہ ان مدارس کی برکت ہے کہ وہ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جوڑ قائم کرتے ہیں اور وہ علم عطا کرتے ہیں جو ہدایت ورہنمائی کا سبب بنتا ہے، جس سے دنیا اور آخرت دونوں سنورتی ہیں، ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے یہ دینی مدارس جو شاخیں ہیں دارالعلوم دیوبند کی، یہ اسلام کے قلعے ہیں، جو دین اسلام اور ایمان کی حفاظت کررہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصدہی یہ تھاکہ باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جائے اور لوگوں کے دین وایمان کی حفاظت کی جائے۔ اور میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا: آج ہمیں جو کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ پڑھنا نصیب ہوا ہے اور ہم مومن ہیں، یہ سب ان دینی مدارس کی برکت ہے۔ اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے تو نہ جانے ہمارا کیا حشر ہوتا۔ آج جہاں کہیں بھی اسلام کی کرن نظر آتی ہے وہ سب ان مدارسِ دینیہ کی رہینِ منت ہے، جیساکہ حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا، میں بھی اس کی تائید کروںگا کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیجئے، ان سے بیعت ہوجائیے، آج کل یہ بہت ضروری ہے۔ ہمارے حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: آج کل بیعت کرنا اور کسی اللہ والے کی صحبت میں بیٹھنا فرض عین ہے، کیونکہ سب سے بڑا فرض ایمان ہے، اس کی حفاظت اللہ والے کی صحبت اختیار کیے بغیر ممکن نہیں۔ یہ اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اس سے انسان اللہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اللہ والے کی صحبت میں بیٹھ کر انسان بہت جلد وہ منازل طے کرلیتا ہے جو سوسال عبادت سے بھی طے نہیں کرسکتا، اسی لیے کہا گیا ہے: ’’کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا سوسالہ مقبول اور بغیر دکھاوے کی عبادت سے بہتر ہے۔ ‘‘ تو آپ بھی کسی اللہ والے کا (جسے آپ مناسب سمجھیں، جس کی طرف آ پ کا رجحان ہو) انتخاب کرکے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں۔ 
 اور حضرت مفتی صاحب کی اس بات کی بھی تاکید کروں گا کہ اصلاح کا ایک بہترین ذریعہ ’’تبلیغی جماعت‘‘ بھی ہے، آج روئے زمین پر یہ سب سے بہتر جماعت ہے، اس سے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے۔ یہ ہمارا، آپ کا سب کا مشاہدہ ہے، تو اس میں بھی آپ وقت لگایئے۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ آج تک آپ اس مدرسہ کی چار دیواری تک محدود تھے، اب آپ عملی میدان میں قدم رکھیں گے، آپ کوطرح طرح کے فتنوں سے واسطہ پڑے گا، کہیں قادیانیت کا فتنہ ہے، کہیں روافض کا فتنہ، کہیں انکارِ حدیث کا فتنہ ہے اور بہت سے نئے نئے طرح طرح کے فتنے ہیں، میں آپ سے یہ کہوں گا کہ آپ عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ان فتنوں کے خلاف ہرطرح سے مسلح ہوں، ایسا نہ ہو کہ کسی ملحد سے آپ کا واسطہ پڑے اور آپ خالی ہاتھ ہوں، اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگیں، اس سے پہلے ہی آپ ہر طرح سے مسلح ہوجائیں ارو ان فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ 
بخاری شریف کا ختم ہوا ہے، بڑی مبارک مجلس ہے، اس موقع پر بھی اور اس کے علاوہ بھی آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں اپنے لیے، اپنے عزیز واقارب کے لیے، اپنے اساتذہ کے لیے اور خصوصاً حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ اور اس ادارے کے لیے، اس سے آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور اس ادارے اور اپنے اساتذہ سے تعلق بھی برقرار رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہرمیدان میں کامیاب کرے، آپ کو دین کا سپاہی بنائے، اور آپ سے دین کی خدمت لے، اور ہرموقع پر آپ کی دستگیری فرمائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین