بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے کا حکم!


بیوی کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے کا حکم!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
جب شادی ہوجاتی ہے تو بیوی کا نام شوہر کے نام سے تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ فرض کریں شوہر کا نام طلحہ ذیشان ہو اور ہونے والی بیوی کا نام مصباح کوثر ہو تو شوہر کے نام کے ساتھ مصباح ذیشان رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔   مستفتی: (خان) 
الجواب حامدًا ومصلیًا
واضح رہے کہ بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا جائز ہے، اور اس کا مقصد رشتۂ زوجیت کا اظہار، بیوی کا تعارف اور پہچان ہوتی ہے، بسا اوقات آدمی کی پہچان وَلاء یعنی جس نے غلام کو آزاد کیا ہے،اس سے ہوتی ہے، جیسے: ’’عکرمہ مولی ابن عباسؓ‘‘، کبھی تو آدمی کی پہچان پیشہ سے ہوتی ہے، جیسے: ’’قدوری، بزاز‘‘ وغیرہ، کبھی لقب و کنیت سے ہوتی ہے، جیسے: ’’اعرج،اعمش، ابو محمد وغیرہ، کبھی ماں سے ہوتی ہے، جیسا کہ اسماعیل بن ابراہیم جوکہ ابن علیہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، ان کے بارے میں امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’ابن عُلَيّۃ، ہي أمہ، وکان يکرہ أن يُنسب إليہا، ويجوز نسبتہ إليہا للتعريف۔‘‘ ، یعنی عُلیّہ اُن کی والدہ ہیں، اور وہ نا پسند کرتے تھے کہ (پکارنے میں) اُن کی نسبت والدہ کی طرف کی جائے، البتہ تعارف و پہچان کے لیے والدہ کی طرف نسبت کرنا جائز ہے۔ (تہذیب الاسماء واللغات، ج:۱، ص:۱۲۰، ط: دار الکتب العلميۃ)  
کبھی تو پہچان زوجیت کے ساتھ بھی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تعارف و پہچان کے لیے حضرت لوط، اور حضرت نوح n کی زوجہ اور فرعون کی زوجہ کی نسبت ان کے شوہروں کے ناموں کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: 
’’ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ کَفَرُوْا امْرَأَتَ نُوْحٍ وَامْرَأَتَ لُوْطٍ‘‘             (التحريم:۱۰) 
 ’’اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح  علیہ السلام  کی بی بی اور لوط  علیہ السلام  کی بی بی کا حال بیان فرماتا ہے۔‘‘                                                               (بیان القرآن) 
مزید اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: 
’’وَضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوْا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ‘‘                        (التحريم:۱۱) 
 ’’اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی (تسلی)کے لیے فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ ) کا حال بیان کرتا ہے۔‘‘                                                          ( بیان القرآن)
نیز حدیث شریف میں بھی بیوی کا تعارف شوہر کے نام سے کرایا گیا ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے: 
’’جاءت زينب امرأۃ ابن مسعود تستأذن عليہ، فقيل: يا رسول اللہ! ہٰذہٖ زينب، فقال: أي الزيانب؟، فقيل: امرأۃ ابن مسعودؓ، قال: نعم، ائذنوا لہا.‘‘
ترجمہ: ’’حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےکہ زینب جو امرأۃ ابن مسعود ہیں، یعنی حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  کی بیوی زینب، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئیں اور اجازت طلب کی۔ پوچھا گیا کہ کون سی زینب؟ جواب دیا گیا کہ: امرأۃ ابن مسعود، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں! اُسے آنے کی اجازت ہے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کا اپنے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لگانے کا مقصد تعارف وشناخت ہوتا ہے، اور تعارف کا مقصد والد کی نسبت سے بھی حاصل ہوجاتا ہے، اور شوہر کی نسبت سے بھی، لہٰذا شادی کے بعد شناخت کے لیے عورت کے نام کے ساتھ والد کا نام رہے یا شوہر کا نام آجائے،دونوں ہی جائز ہیں، اگرچہ عربی میں شوہر کے نام سے پہلے ’’امرأۃ‘‘ کا لفظ لگایا جاتا ہے، ہمارے برِصغیر پاک و ہند میں شادی کے بعد عورت کے نام کے ساتھ تعارف کے لیے شوہر کا نام لگایا جاتا ہے، لہٰذا اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
قال اللہ تعالٰی:
’’ ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ کَفَرُوْا امْرَأَتَ نُوْحٍ وَامْرَأَتَ لُوْطٍ کانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنا صَالِحَيْنِ فَخانَتَاہُما فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْئًا وَقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِيْنَ ، وَضَرَبَ اللہُ مَثَلاً لِّلَّذِيْنَ آمَنُوْا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قالَتْ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَکَ بَيْتًا فِيْ الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ. ‘‘  (سورۃ التحريم: ۱۰-۱۱)
ما في صحيح البخاري: 
’’جاءت زينب امرأۃ ابن مسعودؓ تستأذن عليہ، فقيل: يا رسول اللہ! ہٰذہٖ زينب، فقال: أي الزيانب؟، فقيل: امرأۃ ابن مسعودؓ، قال: نعم، ائذَنوا لہا.‘‘
                                (رقم:۱۴۶۲، باب الزکاۃ علی الاقارب، ط: دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۲ھـ)
                                        فقط واللہ اعلم
        الجواب صحیح               الجواب صحیح                     کتبہ
     ابوبکر سعید الرحمٰن            محمد انعام الحق                 محمد حمزہ رنگونی
                                                 متخصصِ فقہِ اسلامی
                                   جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین