بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بینکاری سود کے متبادل کا سوال  اور اس کی اہمیّت و حقیقت

بینکاری سود کے متبادل کا سوال  اور اس کی اہمیّت و حقیقت


سودی نظام کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟ اسلامی معاشرے سے سود کاخاتمہ کیسے ممکن ہے؟ بینک کے بغیر عوام گزارہ نہیں کر سکتے، بڑے بڑے تعلیمی و تجارتی ادارے اپنے لین دین کے لیے بینک اکاؤنٹ کےمحتاج ہیں، بلکہ ملکوں کی معیشت اور بین الممالک مالیاتی تبادلے کے لیے بینک کی ضرورت کا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ایسی ضرورت سے چشم پوشی کیسے کی جاسکتی ہے؟ مختلف مناسبتوں سے یہ سوالات بڑی شدّت کےساتھ دہرائے جارہے ہیں۔
ان سوالات کے جوابات سے قبل خود ان سوالات کی حقیقت وواقعیت کا جائزہ اگر لیا جائےتو مناسب ہوگا۔ جہاں تک سود کے متبادل کاسوال ہے، اگر یہ علمی حلقوں سے اُٹھایا جاتاہےتواس کی کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں ہے، کیوں کہ اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی حرام کے ترک کی دعوت پر متبادل کاسوال کرنا اور حرام سے باز آنے کے لیے اپنی ترجیحات و مرضیات کے حامل متبادل کا اصرار کرنا یا حکمِ شرعی ماننے کے لیےنامعقول مطالبے کرنا، یاحکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی خواہش کے مطابق اختراعی متبادل کی صورت اپنانا اور مزعومہ متبادل نہ ملنے کی صورت میں حکمِ شرع کو نہ ماننے پر بضد رہنا، ماضی کی ایک خوئے بد کے شائبہ کی وجہ سے بےمحل ہے، ایسی خوئے بدکے سمجھنے کےلیےقرآنِ کریم کی درج ذیل آیات میں غور فرمایا جائے:
1: - مشرکینِ مکہ کو ترکِ شرک اور اختیارِ توحید کی دعوت دی گئی توانہوں نے جواب میں من پسند متبادل کا جو مطالبہ کیا، اس کی حکایت یوں فرمائی گئی ہے: 
’’وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَيْہِمْ ءَايَاتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ ‌بِقُرْءَانٍ غَيْرِ ہٰذَآ أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا يَکُوْنُ لِيٓ أَنْ أُبَدِّلَہٗ مِن تِلْقَآیٔ نَفْسِيٓ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوْحَیٰٓ إِلَيَّ إِنِّيٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۔‘‘   (يونس:۱۵) 
ان لوگوں نے قرآنِ کریم کی تعلیمات کو جوں کاتوں ماننے کی بجائے اپنی تجاویز و ترجیحات والا قرآن پیش کرنے پر اصرار کیا اور قرآنِ کریم کو ان کی مرضی کے مضامین پر مشتمل نہ ہونے تک دینِ اسلام کو اپنے مذہب ِ باطل کا متبادل تسلیم کرنے سے انکار کردیاتھا۔ (۱)
2:-بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ ہفتے کےدن کا تقدُّس قائم رکھنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے ظاہری عہدوپیمان کے باوجود ناجائز طریقے سے اس مقدّس دن کی بے حرمتی کے لیے ایک چور راستہ اختیار کیا اور اس حکم کی پامالی کے لیے اپنی خواہش کےمطابق خود ساختہ ایسا متبادل گھڑا جسے حرام کے ظاہری لیبل سے بچانے کے لیے ۵؍ مراحل میں یوں تقسیم کیا:
1:  پہلامرحلہ:     دریا یا سمندر کے باہر گہرے تالاب بنائے۔
2: دوسرا مرحلہ:     ان تالابوں میں دریا سے پانی لانے کے لیے نہریں کھودیں۔
3:  تیسرا مرحلہ:     ان نہروں میں دریا کا پانی چھوڑا۔
4:  چوتھا مرحلہ:     مچھلیاں آنے کے بعد ان کی واپسی کا راستہ بند کردیا۔
5:  پانچواں مرحلہ:     ہفتے کے دن مچھلی سے پرہیز ا ور اتوار کے دن ان کا شکار کیا۔
اس حیلہ بازی کے نتیجے میں جوق در جوق مچھلیاں آئیں اور تالاب بھرگئے اور انہوں نے مچھلیاں شکار بھی کرلیں اور اپنے خیال کے مطابق وہ لوگ ہفتہ کے دن کی بے حرمتی کے ظاہری لیبل سے بھی بچ گئے، مگر حکمِ خداوندی کے ساتھ حیلہ سازی کا جرم کم نہیں ہوا، کیونکہ وہ اس تدبیر کے ذریعہ حکمِ خداوندی سے فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے مخصوص معیار اور مقدار کی حامل غرضِ فاسد تک رسائی کے مرتکب قرار پائے تھے، جس کی پاداش میں ان کی شکلیں مسخ ہوگئیں، بندر بنادیئے گئے اور تاابد ملعون قرار پائے:
’’وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ۝۰ۚ فَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِیْ السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕیْنَ‘‘ (البقرۃ:۶۳-۶۵)
’’يٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِيْنَ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ ءَامِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰی أَدْبَارِہَآ أَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّآ أَصْحٰبَ ‌ٱلسَّبْتِ وَکَانَ أَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا۔‘‘ (النساء: ۴۷)
’’‌لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنۢ بَنِيٓ إِسْرَاءِيْلَ عَلَیٰ لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَی ٱبْنِ مَرْيَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۔‘‘  (المائدۃ: ۷۸)(۲)
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ کسی بھی غلط کاری اور حرام میں مبتلا لوگ اپنی غلط کاریوں سے باز آنے کے لیے جب مرضی کے متبادل کے لیے ضد کریں توعلمی حلقو ں کی طرف سے ان کی ضد کو پورا کرنا شرعاً ضروری نہیں، بلکہ وہ ’’حوصلہ شکنی‘‘ یاکم از کم’’ سلا مِ متارکہ ‘‘کے مستحق ہوتےہیں، اس لیے ہماری ناقص فہم کےمطابق حرام سود کے ترک کے حکم اوردعوتِ اجتناب کے سامنے متبادل کی شرط اورضد پورا کرنا‘ علماءِ دین کے ہاں اہمیت نہیں رکھتا، اس لیے کہ اہلِ علم کے سامنے ’’ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوٰ‘‘ (البقرۃ:۲۷۸) کا واضح حکم موجود ہے، جو یہی بتاتا ہے کہ سود سے اجتناب کے لیے شرطیں لگانا، مہلت مانگنایا دینا، یا اسے عبوری، وقتی کے عنوان یا سابقہ اقوام کی طرح ناموں کی تبدیلی اور متعین ومخصوص غرض تک پہنچنے کے لیے سودی قرضے کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کرکے حیلہ بازی کے ذریعہ دوام وبقا بخشنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس حکم کی روسے ترکِ رِبا کے بعد آپ اپنی معیشت کو محدود حلال تک محدود رکھیں یاکارِمعاش کو صفر سے شروع کریں، اس حکم کے سامنے تاخیری حربوں کی ذرہ بھر گنجائش نہیں ہے، اسی بنا پرہم نے عرض کیا کہ یہ سوال علمی حلقوں کی طرف سے غیر حقیقی اور غیر واقعی ہوسکتاہے۔
ہاں! اگریہ سوال لاعلم افراد اور عوام کی طرف سے ہو تو انہیں اس سوال میں صائب یا معذور سمجھا جاسکتاہےاور ان کی فہمائش کےلیے سودجیسے حرام کے متبادل کی راہ نمائی کرنااور متبادل بتانا (بنانا نہیں) اپنی تفصیلات کے ساتھ علماء کی ذمہ داری اور فرضِ منصبی ہے، ایسے عوام کی راہ نمائی کے لیے اہلِ علم کی طرف سے مستقل بنیادوں پر بارہا راہ نمائی ہوچکی ہے، ہورہی ہے اور ہوتے رہنا چاہیے، اختصار کے ساتھ اس راہ نمائی کے بنیادی اجزاء اور چند واقعات پیشِ خدمت ہیں:
1: متبادل کی مانگ اور پیشکش سے پہلے نظریاتی طور پر سود کی حرمت، شناعت اور قباحت کے اعتقا د کی دُہرائی اور تجدید فرمائی جائے، ۱۰؍ذوالحجہ حجۃ الوداع، ۱۰ھ سے لے کر رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ تک سود کے خاتمے کے لیے جتنے احکامات، اعلانات اور فیصلے ہوئے ہیں، انہیں اعتقاداً درست تسلیم کرکے سودی معاملات سے عملاً لاتعلّقی اختیار کی جائے، کسی قسم کی تاخیر اور مہلت سے کام لیا جائے، نہ ایساموقع دیاجائے، ایسے اقدامات سے اگرکوئی مسلمان ضرورت اوراضطرار کے دائرہ میں چلا جائے تو شریعت اسے ضرور سہارادے گی: ’’ان الأمر ‌إذا ‌ضاق ‌اتسع، وإذا اتسع ضاق۔‘‘ (۳)
مگر حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے بقول یہ شرط ملحوظ رکھنا ہوگی کہ ضرورت و اضطرار والجاء کے قاعدے لے کر سرمایہ داروں کے مسائل حل کرنے کی بجائے الجاء و اضطرار اور عیش پرستی و زراندوزی کا فرق سامنے رکھنا لازم ہے، حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کا مکمل ارشاد آخر میں آرہاہے۔ 
2:-یہ اعتقاد بھی پختہ کیاجائے کہ جس حکم میں اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیا ہے، اسی حکم میں اس کے متبادل (بیع)کی حلّت کو بیان فرمایا ہے: ’’وَأَحَلَّ ‌اللہُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوا ‘‘ (البقرۃ: ۲۷۵) (۴) جسے سودی معاملات سے لاتعلّقی اور اجتناب کے بنیادی فارمولے کا درجہ حاصل ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ترک ِ رِبا کے لیے نقدی پر اضافی نقدی یا نقدی کے اُدھار پر اجل کے عوض اضافی نقد لینے والے اعمال سے لاتعلق ہوکر نقدی کی بدلے اشیاء کے واسطے سے اضافی رقم لینے کی صورتیں اپنائیں، اس قرآنی اصول کے مطابق بینک جیسے نقدی کےادارے کو نقدی کی بنیاد پر سودی معاملات سے اجتناب کے لیے اشیاءکے کاروبار کی طرف آنا ہوگا، جیساکہ بینک کی اسلام کاری کے حوالے سے اپنے آغاز تا۱۹۹۰ء اسی نقطہ پر متبادل کی تلاش اور بحث جاری رہی اور اسلامی عقود میں سے شرکت و مضاربت کو بینک کے سود کا متبادل ٹھہرایا جاتا رہا۔ یہ نظام نظریاتی کونسل کی فائلوں میں اور ہمارے علماءکے کتب خانو ں کے اندر موجود ہے، جو مخلص احباب بینکوں کو سود سے پاک کرنے میں مخلص ہیں وہ بینکوں کو اس مجوزہ نظام پر راضی کرنے کی کوشش کرکے جائزہ لے سکتے ہیں کہ بینک اور بینکار حلال متبادل کے مطالبہ میں کتنے سچے اور مخلص ہیں؟ اور یہ کہ اس نظام کو کیوں قبول نہیں کیا گیا؟ اس نظام کو قبول کرنے سے بینک کی بینکیت پر کیا منفی اثر پڑ رہا تھا؟ اس موقع پر بینکرز کے اعذار کیا تھے؟ان اعذار میں کیا معقولیت تھی؟ ان نامعقول اعذار کو کیسے اہمیت ملی؟ اوراس اہمیت دلائی کے ذمہ دار کون لوگ ٹھہرے؟ جس سے یہ حقیقی تجارتی متبادل نظام‘ بیعِ مؤجل او ر مرابحۂ مؤجلہ میں سمٹ کر بینکوں کے لیے قابلِ قبول بن گیا۔ (۵)
یہاں ان تفصیلات کا فی الحال موقع نہیں ہے، البتہ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ شر کت ومضاربت پر مبنی متبادل ہمارے اکابر اور نظریاتی کونسل کی جانب سے دیا جاچکا ہے، یہاں اس کی طرف اشارہ کا مقصد یہ ہے کہ یہ عذر تمام ہوچکاہے کہ متبادل موجود ہے، بتایابھی جاچکا ہے، اصل تنازع متبادل کا نہیں، متبادل پر عمل درآمد اور بینک کی بینکیت (سود پر مبنی معاملات) کے قیام وبقا کا ہے۔ بااقتدار قوتیں اور بااختیار حلقے ایسے حقیقی متبادل کے نفاذ اور بینک اپنی روح سے محروم ہونے پر سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوتے، چنانچہ تجارت پر مبنی بینکاری میں نفع ونقصان کی بنیاد پر اشیاء کے کاروبار کا خطرہ (Risk) مول لینے کی بجائے بینک کی روح کے مطابق یعنی اصل رقم کی حفاظت اور مخصوص نفع کی یقین دہانی پر مبنی معاملات ہی کو برقرار رکھ سکتے ہیں، اسی لیے اپنی روح کشی کے لیے نہ کوئی بینک تیار ہوتا ہے، نہ ہی ام البنوک (Mother of Bank) اس کی اجازت دینے پر رضامند ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ امتناعِ رِبا کے حالیہ سقیم فیصلے کو قبول کرنے کی گنجائش بھی وہ نہیں دے رہی اور اس (اسٹیٹ بینک)نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کررکھی ہے۔ 
3: جب یہ طے شدہ امر ہے کہ بینک صرف نقدی کے لین دین کا ادارہ ہے، وہ قانوناً اشیاء کے کاروبار میں حصہ نہیں لے سکتا، اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئےبینک کے سود کےمتبادل کا مطالبہ اگر واقعۃً حقیقت پر مبنی ہو توایسے مخلص طلب گاروں کا پہلا امتحان یہ ہوگاکہ وہ کم از کم سودی بینک کو اس کے پیداواری فارمولے (M=M ) (المال یلد المال) سے باہر لائیں اور عام مارکیٹ( M-R-L-C=M ) کے (۶) فارمولے پر عملی تجارت کی طرف بڑھائیں، لیکن اگر بینکار حضرات بینک کے سود کو ترک کرنے کے لیے بینکنگ مارکیٹ کے پیداواری فارمولے کے مطابق ہی نفع اندوزی کےلیے بضد رہیں اور عام تجارتی مارکیٹ کے تجارتی فارمولے کی طرف آنے سے بھی گریزاں رہیں اور اہلِ علم سے اپنے بینکاری فارمولے کے مطابق ان کی نفع اندوزی کو حلال بنانے پر مُصر ہوں اورراس کے بغیربینک کے سود سے باز آنے کے لیے تیار نہ ہوں تو یہ ان کی ہٹ دھرمی کہلائے گی اوراگر اہلِ علم ان کے اس بے جا اصرار کی پرواہ یا ان کے منشا کے مطابق ان کی خدمت کے لیے آمادۂ پیکار ہوں گے تو ایسے حضرات خود بڑی غلطی کا شکار ٹھہریں گے، کیوں کہ بینک کے پیداواری فارمولے (M=M ) کے مطابق اسلامی عقود میں سے کوئی بھی عقد اس پیداواری عمل کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، البتہ بیع صرف (نقدی کے باہمی لین دین ) کے تحت یہ عمل آسکتا ہے، اس میں ہم جنس کے اندر ’’تفاضل‘‘ اور غیر جنس کے تبادلےمیں ’’اجل‘‘ کی وجہ سے رِبا پھر بھی برقرا ر رہے گا، جس سے احتیاط کرنا ناگزیر ہوگا۔(۷) یادرہے کہ جب بینکوں کے معاملات نقدی کےلین دین کے عقود ہیں تواس میں صرف ’’اجل‘‘ کا لفظ ہی بینکوں کے کاروبارکو سودی بنانے میں کافی رہے گا، جیسے سودی قرضے کو بیع مؤجل یا مرابحۂ مؤجلہ کہا جائےتو نقدی کے ادارے کی طرف سے ایسے معاملات کو ’’ربا نسیئہ‘‘ کے عنوان تلے رکھنے کے لیے کافی ہوگا، لقولہم:’’ لأنہا (بیوع الاٰجال) أکثر معاملات أہل ‌الربا‘‘ (۸)اسی وجہ سے بینک کے سود کے متبادل کے طور پر ہمیشہ سے شرکت و مضاربت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ ’’بیع مؤجل یا مرابحۂ مؤجلہ ‘‘جیسے عقود کو بینکوں کی مال کاری کے لیے استعمال کرتے ہوئے ماضی میں خطرناک حیلہ، سود کا چوردروازہ اور روایتی سودی معاملات کو جوں کا توں برقرار رکھنے، جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے، اور یہ ڈر محسوس کیا جاتا تھا کہ خدانخواستہ بیع مؤجل اور مرابحہ مؤجلہ جیسے خطرناک حیلوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہم کہیں اقوامِ سابقہ کی خوئے بد کے مرتکب نہ ٹھہریں، ولا سمح اللہ۔ (۹)
4:- اگر بینکا ر حضرات بینک کے سود کے متبادل کے لیے صدقِ دل سے خواہاں ہیں اور وہ مغربی سرمایہ داری کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے بینک کے تصور اورعمل سے باہر آنا چاہتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ آسکتے ہیں کہ مغربی بینکاری نظام سے باہر رہ کر بھی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے، یہ ناممکن نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے بعض ممالک میں ورلڈ بینک اور اسٹیٹ بینک کے سود آمیز ضوابط سے قدرے آزادی کے ماحول میں مرچنٹ بینکنگ اور مائیکرو فائنانس کے نا م سے جو آزاد سیکٹر میں سرمایہ کاری ہورہی ہے، ہمارے یہ حضرات اس نظام کی جزئیات اور تطبیقات سے متعلق سوالات لےکر علماء ِدین کے سامنے پیش کریں، ان تجارتی شکلوں کی ضروری اصلاحات و ترمیمات کے بعد بینک کےسود اور بینکنگ کے انٹرنیشنل نیٹ ورک سے وابستگی کی وجہ سے درپیش مشکلات کاعذربھی ختم ہوسکتا ہے، اور انہیں ’’سرمایہ دارانہ بینکاری‘‘ سے ’’سرمایہ کارانہ بینکاری‘‘ کا قابلِ مشق آئیڈیا میسر آسکتا ہے۔(۱۰) 
مگر اصل حقیقت یہ ہےکہ فی زمانہ بینکوں کے جواز وعدمِ جواز کی بحث میں متبادل کا سوال کئی وجوہ سے بے معنی ہے: 
(الف) : یہ سوا ل عموماً دینی امرکی راہ نمائی کی بجائے تحکُّم وتعجیز کے نقطۂ نظر سے کیا جاتاہے۔
(ب):سوال ’’متبادل ‘‘کا نہیں ’’مرضی کے متبادل ‘‘کا کیا جاتا ہے، مرض کا متبادل مانگنا یا فراہم کرنا یہ اقوامِ سابقہ کا قابلِ احتراز عمل ہے۔
(ج):متبادل کا سوال عمل کی بجائے دفع العمل کے لیے کیا جاتاہے جودینی و اخلاقی اعتبار سے کمزور بات ہے۔
(د):علماء سے سوال ’’متبادل‘‘بتانے کا نہیں ’’بنانے‘‘ کا کیاجاتاہے، جیسے بینک کے سودی قرضے کو حلال بتانے یا بنانے کے لیے ’’مرابحہ‘‘ کا عنوان استعمال ہوا، پھر بینک اور قرض خواہ کے درمیان قرضے کے معاملے سے سود کا لیبل سرکانے کے لیے اس کے مختلف حصے بخیے کیے گئے اور اسے ’’مرابحہ مؤجلہ للآمر بالشراء‘‘ کا نام دیا گیا اور صریح اشکالات کو ٹالنے کے لیے پانچ مراحل میں تقسیم کیا گیا اور نتیجہ کے طور پر اس عمل کے ذریعہ سودی قرضے کے روایتی مقاصد کی طرف سودی قرضے کے جملہ لوازم و معیارات کی رعایت کے ساتھ رسائی حاصل کی گئی اور اسے اسلامی بینکنگ (Islamic Banking) کا نام دیا گیا۔ ہم اپنی دیانتدارانہ رائے میں اس عمل کو شریعت کے موافق سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی وجہ سے اس طرح کے ماحول میں اس قسم کے متبادل کے سوال کو وقعت کی نگاہ سے دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرپاتے، جبکہ تجارتی راستے سے حقیقی متبادل بینکرز کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
اگر اس قسم کے فرمائشی متبادل مہیا کرنے کے لیے جرأت کرلی جائے تو یہ بڑا مشکل ترین کام ہوگا، یہ بالکل ایسا ہی ہوگاکہ چور یہ کہے کہ میں چوری سے باز نہیں آسکتا، میرا تجربہ یہی ہے، پس مجھ سے چوری چھڑانے کی بجائے میرے چوری کے عمل کو جائز بنا کر دے دیا جائے، اور ایسا متبادل مجھے دیا جائے کہ میرے سارقانہ عمل سے سرقہ کا لیبل ہٹ جائے، میرے ذریعۂ آمدن کا نام ’’غیرسرقہ‘‘، ’’بلاسرقہ‘‘ یا ’’چوری فری‘‘ پڑجائے اور عوام میرے ذریعۂ آمدن کو چوری کے لفظ کی وجہ سے نفرت کی بجائے رغبت سے دیکھنے لگ جائیں ۔ اگر کوئی طبقہ اس مطالبہ کو جائز تسلیم کرتے ہوئے فقہی ابواب میں سے ’’کتاب السرقۃ‘‘ کے ایسے جزئیات لے کر حل بتانے لگ جائے جو فنی باریکیوں کی وجہ سے ’’حدِ سرقہ‘‘ سے خارج شمار ہوتے ہوں، مثلاً: چور گھر میں جائے، وہاں سے قیمتی چیز اُٹھاکر باہر پھینک دے اور باہر سے دوسرا چور اُٹھاکر لے جائے، اگر یہ دونوں پکڑے جائیں تو ان کے عمل پر چوری کا فقہی اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے حدِسرقہ سے مستثنیٰ قرار پائیں گے، (۱۱) اب کیا اس فقہی تکییف کو ’’بلاچوری مال کاری‘‘ ( Robbery Free Finance)  کا عنوان دیا جاسکتا ہے؟ کیا اس فقہی تخریج سے وجود پذیر ہونے والا نظام ’’بلاچوری اسلامی نظام‘‘ (Islamic Robbery Free System)  کہلاسکتا ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کے مطالبے پوراکر نے کے لیےبظاہر اس محفوظ شریعت میں ایسا مرضی کا راستہ نہیں مل سکے گا اور اس طرح کی خدمات سے وجود میں آنے والے نظام کو ’’اسلامی‘‘ نہیں کہاجاسکتا۔

بینک کے سود کاخاتمہ:
 

اس سوال کا جواب کافی حد تک پہلے سوال کے ضمن میں آچکا ہے، یہاں چند باتیں منقّح رکھی جائیں :
1:بینک سے سود کے خاتمہ کے لیے متبادل کی بحث میں جو کچھ عرض کیا گیا، اس کاحاصل یہ ہے کہ بینک کا ادارہ نقدی کے کاروبار کی بجائے اشیاء کےحقیقی کاروبار کا ادارہ بن جائے، جیسے دنیا بھر میں بڑی بڑی تجارتی فرمیں، شورومز، بلڈرز اور بڑے بڑے سٹورز وغیرہ مصروفِ عمل ہیں، اگر بینک اپنی وضع اور بینکاری کے عالمی قوانین کی جکڑن کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتاتو وہ کم از کم سودی قرضہ جات اور سودی کھاتے (Saving) سے بالکلیہ دست بردار ہوجائے، کیونکہ بینک کے کاموں میں یہی دو بنیادی کام ہیں جو سب سے زیادہ محلِ نظر ہیں، اگر بینک کا ادارہ اس بنیادی کام سے دست بردار نہیں ہوتاتو بینک سے سود کے خاتمے کی صورت سامنے نہیں آسکتی۔
2: اگر سود کے خاتمے کا سوال بینک کے سود تک محدود نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کا مقصداسلامی معاشرت سے سود کے خاتمے کا ہو تو یہ عمل نسبۃً آسان ہے، وہ صرف مؤثّر تبلیغی اور تربیتی عمل کے ذریعہ بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے، وہ اس طرح کہ ہمارے ملک کی نصف سے زیادہ معیشت غیر دستاویزی (Undocumented) ہے، معاش کے اس فریق سے وابستہ مسلمانو ں کو تبلیغ، تلقین اور تربیت کے ذریعہ سودی معاملات سے اجتناب کادرس دیا جائے، یہ کام ہر مسجد کا عالمِ دین انجام دے سکتا ہے، بلکہ ہر امام مسجد کے فرائض میں شامل ہےکہ وہ اسلامی معاشرے میں سود خوری کی خرابیوں اوراس سے دوری کو اپنے خطبات اور دروس کا موضوع بنائےاور لوگوں کو یہ بھی سمجھائے کہ سود صرف بینک تک محدود نہیں ہے، آپ کے مختلف معاملات میں سودی آمیزے کی مختلف شکلیں ہیں، ان سے اجتناب کیا جائے، اس اصلاحی عمل کی افادیت اور تاثیر کے لیے علماء دین کواپنےاپنے مراکز میں رہ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اس عمل میں کامیاب ہوجائیں گے توہماری آدھی معیشت خود بخود ’’رِبا فری‘‘ ہو جائے گی اور بقیہ آدھی کے لیے علماء دین، آئین ساز و آئین گو اداروں کا باہمی علمی، انتظامی اور سیاسی رابطہ اور تعاون ضروری ہوگا، صرف چند تحریرات، تخطیطات اور چند اداروں کے ساتھ انتظامی وانتفاعی اشتراک کافی نہیں ہوگا۔
3:پاکستان میں معیشت کی اسلام کاری کے لیے بینکوں کے سود میں اُلجھے رہنے کی بجائے یہ دیکھا اور سمجھا جائے کہ پاکستان کے معاشی وسائل میں سب سے اہم عنصر کون سا ہےجس کی اصلاحات سے معیشت کا بہت بڑا حصہ درست ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ امور منقح رکھے جائیں کہ :
(الف) :بینک معاشی نظام کا آلہ کار ضرور ہے مگرمدار نہیں ہے، یہ معیشت کے وسیلے (زر) کے لین دین کا ادارہ ہے، جب کہ سامانِ معاش‘ نقدی کے علاوہ ہی ہوتاہے، صرف زر کو وسیلۂ معاش اور سامانِ معاش سمجھنا، یہ خالص مغربی نظریہ ہے، جسے مصر میں ’’المال یلد المال‘‘ کے عربی ترجمہ اور عنوان سے نوازا گیا تھا۔
(ب) پاکستان ایک ممتاز زرعی ملک ہے، یہاں اسلامی اصولوں پر معیشت کی اصلاح کا عمل پاکستان کے اس سب سے بڑے ذریعۂ معاش ’’زراعت‘‘ کی اصلاحات سے کیا جانا مناسب ہوگا، جس سے متعلق 1969ء - 1970ء میں ہمارے اکابر نے زرعی اصلاحات کا ایک مرتب خاکہ پیش فرمادیا تھا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر زرعی اصلاحات سے اسلامی معیشت کے قیام و نفاذ کا عمل شروع کیا گیا تو یہ زیادہ مفید، بار آور اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکے گا، اس کے برعکس اگر ہم صرف بینکاری اصلاحات سے ہی بات شروع کریں گے تو یہ شبہات جنم لے سکتے ہیں کہ کہیں خدانخواستہ ہم پاکستان میں حقیقی اسلامی معیشت کی اصلاح کی بجائے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے فکری سانچوں میں ڈھلی ہوئی معیشت ہی کو اسلامی معیشت کہلوانے کی خدمت کے خواست گار تو نہیں!!!الغرض معیشت کے دیگر بنیادی عناصر کو محورِ اِصلاح بنائیں گے تو عین ممکن ہے کہ سود کے خاتمے کے لیے مزید مناسب شکلیں رونما ہوسکیں۔
4: ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ بینکوں سے سود کے خاتمے کا خواب اس وقت چکناچورہونا شروع ہوجاتا تھا، جب ہم بینک کی اصلاحی مجالس میں بینکنگ کونسل کے نمائندوں کے دفاعی اعذار کو قبول کرلیتے تھے اور بینکوں کی نفع اندوزی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی نامناسب تجاویز کو بھی مان لیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے سود مختلف شکلوں اور ناموں کے ساتھ زندہ رہ جاتاتھا جو اَب تک باقی ہے، اور ہمارے لیے باہمی اُلجھنوں کا باعث ہے۔ (۱۲)
اب سود اوراس کی جملہ مختلف فیہ شکلوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہوگاکہ علماء میں سے کوئی بھی سودی معاملات والے اداروں کی پُشتہ بندی، پشت بانی اور پشت پناہی کے لیے اپنی خدمات انجام نہ دے، ورنہ بینکاروں کے قصور اور ہر طرح کے دفاع کے ہم ہی ذمہ دارٹھہریں گے، پس اگر ہم اپنے اصل کام حلال و حرام کی بے لوث راہ نمائی کی ذمہ داری تک محدود ہو گئےتوہمارے بینکرز ایسے ہی بے سہارا ہوجائیں گے جیسے ۱۹۹۰ء سے قبل تھے، پھر یا تو وہ ہمارے سہارے کے لیے ہماری ترجیحات وترمیمات کو فوقیّت دینے پر رضا مند ہوجائیں گے یا کم از کم اپنے معاملات کو مغربی بینکاری کی ترجیحات کے مطابق برقرار رکھنے میں ہمارا کندھا استعمال نہیں کرسکیں گے، حضرت علامہ کشمیریؒ کے بقول: ہمارا کام ہے مسئلہ کشف کرنا، باقی بینکرز نے جہاں جانا ہے خود ہی جائیں، ہمارا کندھا استعمال نہ کریں۔ (۱۳)

بینک اور عوام

رہا یہ خیا ل کہ بینک کے بغیر عوام کا گزارہ نہیں ہوسکتا، بینک مجبوری ہے، بینک ضروری ہے، وغیرہ وغیرہ، یہ بات کسی حد تک معقول بھی ہےاور انتہائی نامعقول بھی ہے۔
اس بات کی معقولیت یا نامعقولیت سمجھنے کےلیے دو باتوں کا مدِنظررکھناضروری ہے، ایک یہ کہ بینک کے کام کیا کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ بینک کس کام میں کس کی ضرورت ہے؟
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے مروجہ اسلامی بینکاری کا تعارف کراتے ہوئے ایک فہرست ذکر کی ہے، جس کے مطابق بینک کےبنیادی کام یہ ہیں : 
 ۱: محفوظ کھاتہ داری (ڈپازٹ رکھنا)۔

۲: جمع شدہ رقوم قرضوں پر دے کر نفع اندوزی کرنا۔
۳: ہنڈی بُھنانا (ڈسکاؤنٹنگ)۔ 

۴:کمبیالہ (بل آف ایکسچینج)۔
۵: ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھولنا۔

۶: تحویلِ قروض (لیکویڈیٹی)۔
۷: اسلامی بینکوں کے لیے معاییر کی تیاری۔ 

۸: سیف ڈپازٹ (لاکر برائے قیمتی اشیاء)۔
۹: اعمال السمسرہ (رابطہ کارایجنسی کا کام)۔

۱۰:اصل بینکیت : سرمایہ کے ذریعے سرمایہ کھینچنا۔
۱۱: Negotiable Instruments  (قابلِ بیع وشراء دستاویزات جاری کرنا)۔
۱۲: ترسیلِ زر کی سہولت۔

   ۱۳: تجارتی و صنعتی منصوبوں میں سرمایہ کاری۔ (۱۴)
اس فہرست میں ذکرکردہ امور میں سے تجارتی وصنعتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ذکر بھی ہے، آیا یہ واقعۃً ایسا ہوتا ہے یا سرمایہ کار کی سرمایہ کاری کو اپنی فراہم کردہ رقم کی پاداش میں بینک کی تجارت وصنعت سمجھ لیا جاتا ہے، جو محض سمجھ کا فرق یا سمجھ کی غلطی ہے، اسی طرح اسلامی بینکوں کے لیے معاییر کی تیاری کا عمل بھی قابلِ غور ہے، جس کی تیاری کے لیے آئی-یو-فی کے نام سے الگ ادارہ قائم ہے، البتہ اسٹیٹ بینک اس کی منظوری اور اگلے مراحل کی نگرانی کی خدمت انجام دیتا ہے، پس ان دو باتوں سے ہٹ کر جب آپ یہ کہتےاور سنتے ہیں کہ بینک معاشرے کا ایک ضروری ادارہ ہے، تو اس میں یہ دیکھا جانا چاہیے کہ ان مذکورہ کامو ں میں سے وہ کون سا کام اور کس فرد یا طبقے کے حق میں مجبوری یا ضرورت ہے؟ مثلاً کرنٹ اکاؤنٹ اپنی تفصیل کے ساتھ ہر مالدار شہری کی ضرورت ہے، مگر بچت کھاتہ کسی بھی مسلمان کی ضرورت شمار نہیں ہوسکتا، اسی طرح تھوڑی یازیادہ رقم کی ترسیل کئی افراد اور بعض یا تمام اداروں کی ضرورت ہوسکتی ہے، لیکن سودی قرضے کو کس کی ضرورت کہیں گے؟ اور کس کی نہیں ؟اس کی حقیقت پر مبنی تنقیح لازمی ہے۔
پھر یہ کہ سودی قرضہ‘ پیداواری قرضہ ہے یا صرفی اضطراری قرضہ ہے؟ ایسے کئی سوالات کے بعد بڑی مشکل سے سودی قرضے کی جہت متعین ہوتی ہے، بالعموم ایسے قرضے بڑے تجار اور تجارتی ادارے ہی لیتے ہیں جو فروغِ تجارت، زراندوزی، عیش کوشی یا زیادہ سے زیادہ کمائی کے لیے قرضے لیتے ہیں یا معیارِ زندگی کی مصنوعی بلندی کے لیے لیتے ہیں، ایسے قرضوں کو مزاجِ شریعت سے ہم آہنگ نہیں کہا جاسکتا، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلاضرورت تسلُّط آمیز قرضوں کے لین دین سے پناہ مانگی ہے: ’’......وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ، الخ۔‘‘(۱۵)
اس لیے اگرہم ایسے لوگوں کے حق میں سودی قرضوں کو ضرورت کہہ کر جائز کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ اسلامی معاشرے میں سودی قرضوں کا کاروبار ضروری ہے اور جو ادارے یہ خدمت انجام دیتے ہیں، گویاان کے ہاں نظریۂ ضرورت کے تحت ان معاملات کا وجود قابلِ تسلیم ہے۔ اس بنیاد پر اگرکوئی بینکوں کو ضرورت کہنے کے نتیجے میں اس کے بنیادی عنصر سودی قرضوں کو ضروری سمجھتا اور باور کراتا ہو تو ہم اس کے نظریے سے کسی طور پر بھی اتفاق نہیں کرسکتے اور ہم غیراضطراری سودی قرضوں کے اجراء اور سیونگ اکاؤنٹ کےلیے بینک کو فقہی اعتبار سے ضرورت ماننے کو جرمِ عظیم سمجھتے ہیں ۔
البتہ رقم کے تحفظ، کرنٹ اکاؤنٹ، ترسیلِ زر، ایل-سی وغیرہ کے ضرورت مند افراد کے حق میں متعلقہ تفصیلات کے ساتھ آپ کسی حد تک مجبوری کہہ سکتے ہیں، لیکن مجبوری کی ان مخصوص صورتوں کی آڑ میں پورے بینک بلکہ اس کے بنیادی کام’’ سودی قرضہ ‘‘کو حلال قرار دینے کا مطالبہ کرنا، ہمارے نزدیک ناجائز عمل ہے، ہم اسے مجبوری اور عوام کے لیے ناگزیر ہرگز نہیں مانتے۔
چنانچہ جواحباب بینک کو مجبوری کہتےہیں، انہیں چاہیے کہ وہ بینک کے کاموں میں سے مجبوری والےاور محض نفع اندوزی والے کاموں کو الگ رکھ کر بات کریں، نیز جو حضرات بینک کے سودی کھاتے اور قرضوں کو ضرورت اور مجبوری سمجھتےہیں، اگر ان کے ارشادات کو الگ ترازو میں رکھ کر تولا جائے تو اُمید ہے کہ بینک کے ضروری یا غیر ضروری ہونےکاسوال نہیں بچے گا، یہ واضح سی حقیقت ہے، مگر نہ جانے ہمارے بعض سمجھ دار عوام و خواص ا س تفریق اور تنقیح کے بغیر یہ سوال کیوں لے کر آجاتے ہیں کہ بینک ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔
البتہ اس سلسلے میں عوام کو معذور قرار دیا جاسکتاہے، کیوں کہ اس وقت دنیا میں مغربی معاشی نظام کو مضبوط گرفت اوربالا دستی حاصل ہے، سرمایہ کاری کے سارے راستوں اور چوراہوں پر اسی نظام کے ناکے ہیں، اس نظام کے اثرات ہر دل ودماغ اور اعصاب وزبان پر حاوی ہیں، ہم نے عملاً ان کے نظام کی بالادستی قبول کررکھی ہے، اس نظام کی نقالی اور پیروی ہمارا شعار بنی ہوئی ہے، اس نظام کے ساتھ تقریبی تعلق اورعلمی آہنگی کانظریہ مسلسل دعوتی واصلاحی کوششوں کے باوجود ۱۸۸۰ء سے ۲۰۲۲ء تک خوب توانا ہوچکاہے، ہم بسااوقات بے خبری یا جدت پسندی میں ان کے کام کو اپناکام سمجھ بیٹھتے ہیں اوران کی اصطلاحات تک کو بلا تدبّر انہی کے مفاہیم کے مطابق استعمال کرنے لگ جاتےہیں۔ ہمارے عوام اگرایسے ماحول کے اثرات کا شکار ہوکراس طرح کے سوالات کریں تو انہیں معذور کہنا بجا ہے، اس کی ایک انتہائی خطرناک مثال ’’ضرورت ‘‘کی اصطلاح بھی ہے، ایک طرف مغرب کا نظریۂ ضرورت ہے اور دوسری طرف اسلامی شریعت کا ’’درجۂ ضرورت‘‘ ہے، ہم لفظِ ضرورت کے اشتراک سے دونوں کوایک سمجھ کر مغرب کا سفر شروع کردیتے ہیں، حالا ں کہ دونوں نظریات میں جس قدر لفظی قرب ہے، اس سے بدرجہا معنوی بُعد بھی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ مغرب کا نظریۂ ضرورت محض نفسانی خواہشات کی تکمیل کانام ہے، جب کہ اسلا م کا نظریۂ ضرورت ’’ضرر‘‘سے ماخوذ ہے، یعنی ایسی مجبوری کاپیش آجاناکہ اس مجبوری میں اگر ممنوع کا استعمال نہ کیا تو آپ کو دین، عقل، مال، نفس یاکسی عضو سے محروم ہونے کانقصان و ضرر لاحق ہوسکتا ہو۔ (۱۶)
ہمارے جو احباب بینک کو ضرورت کہتے ہیں وہ ان دونوں نظریات میں خلط کی وجہ سے سب کے لیے ضرورت قرار دیتےہیں، اور عوام اس غلطی کی تمییز سے عجز کی بنیاد پر بینک کو ایسی کلّی ضرورت سمجھ بیٹھتے ہیں کہ بینک کے سودی قرضے اور سیونگ اکاؤنٹ بھی گویاشرعی ضرورت ہیں اور انہیں اسلامی نظریۂ ضرورت کے تحت حلال ہونا چاہیے،  لا حول ولا قوۃ إلا باللہ العليّ العظيم۔

حاصلِ مُرام

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، توحید، رسالت، قبر اور قیامت پر ہمارا ایمان ہے، پھر پاکستان اور کئی اسلامی ممالک کے سرکاری وسائل امت مسلمہ کے پاس موجود ہیں، اس کے باوجود سودی معاملات سے اجتناب کرنے کی بجائے مختلف بہانے کرنا، مرضی کے متبادل کے مطالبے کرنا، سود کے حقیقی متبادل کو نظر انداز کرنا اور سودی معاملات کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اس کو حلال قرار دینے پر مصر رہنا ہمارے معاشرے میں کیسے اثر ونفوذ پاگیا؟ یہ سوالات ومطالبات کس تمدن کی پیداوار ہیں؟ یہاں اصل اشکال کیا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اسلامی اصول کا اصل سرچشمہ کیا ہے؟ ہمیں جدید مسائل کے نام پر فقہی تطبیق وتکییف میں غلطیاں کہاں اور کیسے لگیں؟ اس کی طرف آج سے تقریباً ۶۰ ؍برس قبل اس نوعیت کے سوالات اور مسائل کے حل کے لیے بنیادی اصولوں کی رہنمائی کرتے ہوئے حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے یوں فرمائی تھی:
’’نہم :جدید تمدن کی بدولت غیر اسلامی ممالک میں بیشترایسے قوانین رائج ہیں جو روحِ اسلام کے منافی اور قطعیاتِ اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں، انہیں ’’اضطرار‘‘ کے بہانے سے اسلامی معاشرے میں جوں کا توں فٹ نہ کیا جائے، بلکہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اسلام میں اس کا جو ’’بدل‘‘ موجود ہے اسے اختیار کیا جائے، مثلاً،’’بینک کا سود ‘‘، ’’بیمہ‘‘ اور ’’کمیشن ایجنسی‘‘ کا مسئلہ ہے کہ اسلام میںاس کا بدل ’’شرکت‘‘ ،’’قراض‘‘ اور ’’کفالت‘‘ وغیرہ کی صورت میں موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے ان حرام امور کے ارتکاب کی ضرورت نہیں رہتی۔
اشکال کی جڑ (بنیاد) یہ ہے کہ ہم غیر اسلامی قوانین کو ان میں رتی بھر تبدیلی کیے بغیر اسلامی اصول پر منطبق کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ فٹ نہیں ہوتے تو گمان کرلیا جاتا ہے کہ اسلام معاذاللہ جدید دور کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔
 یہ یاد رہے! کہ اصولِ اسلامیہ کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے، جس کاعلم صحیح قیامت تک کے حوادث کو محیط ہے اور جس کی قدرتِ ازلیہ کاملہ کسی چیز سے عاجز نہیں، کیونکہ یہ شریعت اس ذات کی طرف سے آئی ہے جو علیم وخبیر بھی ہے اور ہر چیز پر قادر بھی۔
دہم: الجاء واضطرار کے درمیان اور عیش پرستی، زراندوزی اور امیر سے امیر تر بننے کی حرص کے درمیان جو نمایاں فرق ہے اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، ایک بھوکا ننگا فاقہ کش ہے، جسے قوت لایموت بھی میسر نہیں اور ایک وہ امیر کبیر ہے جس کا گھر طرح طرح کے اسبابِ تنعُّم سے پٹا پڑا ہے، مگر اس کی حرص کی جہنم کو صبر نہیں، یہ کتنابڑاظلم ہو گاکہ دونوں کاحکم یکساں قرار دیا جائے، پہلی صورت اضطرار کی ہے (جس میں سدِرمق تک مردار کھانے کی بھی اجازت ہے) اور دوسری اسراف وتبذیر کی، (جس کے لیے مجبوری کابہانہ مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے) اور کم فہمی (اسی طرح کے) مضحکہ خیز لطیفوں بلکہ ماتم انگیز حادثوں کو جنم دیا کرتی ہے، حق تعالیٰ رحم فرمائے اس پر جو انصاف سے کام لے ۔‘‘(۱۷) 

حواشی وحوالہ جات

۱:-’’ائت بکتاب آخر نقرؤہ ليس فيہ ما نستبعدہ من البعث وتوابعہ أو ما نکرہہ من ذم آلہتنا والوعيد علی عبادتہا أو بدلہ بأن تجعل مکان الآيۃ المشتملۃ علی ذٰلک آيۃ أخری۔‘‘(الآلوسی، محمود بن عبد اللہ، شہاب الدین، (۱۲۷۰ھ)، روح المعانی، سورۃ يونس، ج:۶، ص:۷۹، ط:دار الکتب العلميۃ، ۱۴۱۲ھ)
۲:- ’’وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِیْ السَّبْتِ‘‘ وذٰلک أنہم کانوا من داود عليہ السلام بأرض يقال لہا أيلۃ حرم اللہ عليہم صيد السمک يوم السبت، فکان إذا دخل يوم السبت لم يبق حوت في البحر إلا اجتمع ہناک حتی يخرجن خراطيمہن من الماء لأمنہا، فإذا مضی السبت تفرقن ولزمن البحر فذلک قولہ تعالی: ’’اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ۝۰ۙ لَا تَاْتِیْہِمْ۝۰ۚۛ‘‘ فعمد رجال فحفروا الحياض حول البحر وشرعوا منہ إليہا الأنہار، فإذا کانت عشيۃ الجمعۃ فتحوا تلک الأنہار، فأقبل الموج بالحيتان إلی الحياض، فلا تطيق الخروج لبعد عمقہا وقلۃ الماء فإذا کان يوم الأحد أخذوہا، وقيل: كانوا ينصبون الحبائل والشّصوص يوم الجمعۃ ويخرجونھا يوم الأحد، ففعلوا ذلک زمانا، فکثرت أموالہم ولم تنزل عليہم عقوبۃ، فقست قلوبھم وأصرّوا علی الذّنب، وقالوا: ما نری السّبت إلّا قد أحلّ لنا۔‘‘ (الثعلبی، احمد بن محمد بن ابراہیم، ابواسحاق (ت:۴۲۷ھ)، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن، (۱/۲۱۲) داراحیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۲ھ )
۳:-ابن نجيم، زین الدین بن ابراہیم بن محمد (ت: ۹۷۰ھـ)، الأشباہ والنظائر، ص:۷۲، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۹ھ
۴:-’’فرد اللہ تعالٰی عليہم وأبان قياسہم الفاسد بقولہ الحق: {وَأَحَلَّ ‌اللہُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوا } أي أن البيع لا يکون إلا لحاجۃ وہو معاوضۃ لا غبن فيہ، والربا محض استغلال لحاجۃ المضطر، وليس لہ مقابل ولا عوض، فقياسہم فاسد، فمن يشتري شيئا من الطعام ويدفع ثمنہ في الحال، ہو محتاج إليہ في الأکل أو البذر أو أي انتفاع يصون بہ حياتہ وجسدہ، أما من يرابي، فلا يعقد عقد معاوضۃ، وإنما يأخذ الزيادۃ عن أصل الدين وقت حلول أجل الوفاء بدون مقابلۃ شيء، بل إن المصارف اليوم تشبہ في عملہا أفعال الجاہليۃ بتجميع الفوائد المتراکمۃ أو المرکبۃ، وأخذ الفائدۃ وفائدۃ الفائدۃ مع مرور السنوات، فصار حملۃ أسہم المصرف يأکلون الربا أضعافا مضاعفۃ، وأخذ ہذہ الزيادۃ وتوابعہا ظلم موجب للإثم والمعصيۃ الکبيرۃ۔‘‘(الزحيلی، وہبۃ بن مصطفیٰ، التفسير المنير، ج:۳، ص:۸۷، ط:دار الفکر، دمشق، ۱۴۱۱ھ)
۵:- دیکھیں :’’بلاسود بینکاری‘‘ احسن الفتاویٰ، ج:۷، ص:۱۱۴ - ۱۱۵، ط: ایچ-ایم-سعید، کراچی، ۱۴۲۵ھ
۶:- دیکھیں: دروسِ سرمایہ داری- ایک تعارف، جاوید اکبر انصاری و دیگر مؤلفین، الغزالی پبلشرز، کراچی، ۲۰۲۱ء
۷:-’’(وإذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضموم إليہ: حل التفاضل والنساء) لعدم العلۃ المحرمۃ، والأصل فيہ الإباحۃ، (وإذا وجدا: حرم التفاضل والنساء) لوجود العلۃ، (وإذا وجد أحدہما، وعدم الآخر: حل التفاضل وحرم النساء)، مثل أن يسلم ہرويا في ہروي أو حنطۃ في شعير، فحرمۃ ربا الفضل بالوصفين وحرمۃ النساء بأحدہما۔‘‘ (المرغينانی، علی بن أبی بکر بن عبد الجليل الفرغانی، ابو الحسن برہان الدین (ت: ۵۹۳ھـ)، الہدايۃ، ج:۴، ص:۵۳۵، ط:دار السراج، المدينۃ المنورۃ، ۱۴۴۰ھ)
۸:-’’تنبيہ: قال اللخمي اختلف في وجہ المنع في بيوع ‌الآجال قال أبو الفرج؛ لأنہا أکثر معاملات أہل ‌الربا.وقال ابن مسلمۃ، بل سدا لذرائع ‌الربا فعلی الأول من علم من عادتہ تعمد الفساد حمل عقدہ عليہ وإلا أمضي فإن اختلف العادۃ منع الجميع وإن کان من أہل الدين والفضل۔‘‘(القرافی، شہاب الدین احمد بن ادریس بن عبد الرحمٰن المالکی (ت:۶۸۴ھـ)، ج:۳، ص:۱۰۵۶، ط:دار السلام، القاہرۃ، ۱۴۲۱ھ)
۹:- عثمانی، محمد تقی، فقہی مقالات، ج:۲، ص:۲۵۳-۲۵۴، بحوالہ ـخاتمۂ سود پر اسلامی نظریاتی کونسل کی اردو رپورٹ، صفحہ: ۱۳، ط:میمن اسلامک پبلشرز، ۲۰۱۵ھ
۱۰:- اس کے لیے ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی تجاویز کے لیے دیکھیں: اسلامی بینکاری- ایک تعارف، ۱۷۴-۱۸۴، زوار اکیڈمی، ۲۰۱۳ء
 ۱۱:- ’’وإذا نقب اللص البيت فدخل فأخذ المال وناولہ آخر خارج البيت فلا قطع عليہما۔‘‘(مختصر القدوری، (ص:۲۰۲)، ط:دار الکتب العلميۃ)
’’وإذا ‌نقب ‌اللص البيت فدخل وأخذ المال وناولہ آخر خارج البيت فلا قطع عليہما۔‘‘ (الہدايۃ فی شرح بدايۃ المبتدی، ج:۲، ص:۳۶۸، ط: دار احياء التراث العربی- بیروت - لبنان)
۱۲:- اس کی تفصیلی روئیداد کے لیے دیکھیں: ’’بلا سود بینکاری‘‘، احسن الفتاویٰ، ج:۷، ص:۱۱۱-۱۳۰، ط: ایچ ایم سعید، ۱۴۲۵ھ
۱۳:- ایضاً
۱۴:-غازی، محمود احمد، اسلامی بینکاری، ایک تعارف، ص: ۱۳۴-۱۴۸، ط: زوار اکیڈمی، ۲۰۱۲ء
۱۵:- أبوداود، سلیمان بن أشعث الأزدي، السجتاني، (۲۷۵ھ) السنن، ج:۲، ص:۶۵۱، ط: دارالرسالۃ العالمیۃ، ۱۴۳۰ھ
۱۶:- ’’فأما الضروريۃ، فمعناہا أنہا لا بد منہا في قيام مصالح الدين والدنيا بحيث إذا فقدت لم تجر مصالح الدنيا علی استقامۃ، بل علی فساد وتہارج وفوت حياۃ، وفي الأخری فوت النجاۃ والنعيم، والرجوع بالخسران المبين۔‘‘(الشاطبی، ابراہیم بن موسی بن محمد، ابواسحاق، (ت: ۷۹۰ھـ)، ج:۲، ص:۱۷-۱۸، ط:دار ابن عفان، ۱۴۱۷ھ
۱۷:-فتاویٰ بینات، جلد:۱، ص:۶۰-۶۱، ط:مکتبہ بینات، کراچی، ۲۰۱۷ء
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین