’’مؤرخہ ۱۷؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کے تحت وفاقی وزیر برائے مذہبی امور محترم جناب سردار محمد یوسف صاحب کی زیرِصدارت کراچی میں ’’بین المذاہب ہم آہنگی ۔۔۔ دورِ جدید کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے کانفرنس منعقد ہوئی۔ سردار صاحب کی خصوصی دعوت پر جامعہ کے استاذ و ناظمِ تخصصِ فقہِ اسلامی مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب مدظلہٗ نے کانفرنس میں شرکت فرمائی، موضوع کی مناسبت سے جو اظہارِ خیال ہوا، اس کے تفصیلی مندرجات افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین ہیں۔‘‘ (ادارہ)
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین، أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ’’قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ‘‘ (آل عمران:۶۴) ’’لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘(البقرۃ:۲۸۵) ’’روي عن علي رضي اللہ عنہ أنہٗ قال: إنما بذلوا الجزيۃ لتکون دماؤہم کدمائنا، وأموالہم کأموالنا۔‘‘ (نصب الرايۃ، ۳/۳۸۱، ط: مؤسسۃ الريان، بیروت)
مذاہب اور مسالک کے درمیان ہم آہنگی، دورِ جدید کی وہ ضرورت ہے، جس کا احساس ہر دور میں زندہ رہا ہے، وطنِ عزیز میں، وزارتِ مذہبی امورکے تحت اور ہمارے مذہبی جذبات کے موزوں ترجمان، نیک دل وزیر محترم، جناب سردار محمد یوسف صاحب کی قلم روائی کے تحت اس خوشنما عنوان کی طرف بڑھناقابلِ تحسین اور لائقِ تبریک ہے، ہم اس قسم کے پروگرامات سے اچھی توقعات رکھتے ہیں۔
ہم اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل ’’ہم آہنگی‘‘ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لفظ فارسی ترکیب کے مطابق ایک دوسرے کے لیے دل و دماغ میں جگہ پیدا کرنے کا نام ہے،بالفاظِ دیگر ایک دوسرے کے لیے اپنے رویے اور عمل میں عدم برداشت کی بجائے برداشت، تصادم کی بجائے تعاون، تشدد کی بجائے تحمل سے کام لینے کا عنوان ہے۔ ہم آہنگی کو عربی زبان میں ’’مدارات‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور انگلش میں Harmony/Orbits کہا جاتا ہے۔
ہم آہنگی کا دائرہ یوں تو انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں تناؤ آمیزی کو معمول پر لانے اورباہمی رویوں کے عدمِ توازن کو متوازن بنانے کے لیے مطلوب سمجھا جاتا ہے، مگر مذہبی شناختوں کے حوالے سےاس کی اہمیت اور ضرورت کا احساس و اِدراک سنجیدہ طبقات کو ہمیشہ رہا ہے اور موجودہ زمانے میں اولاًمختلف مذاہب کے درمیان اورپھر اسلامی مسالک کے درمیان ہم آہنگی کی جتنی ضرورت ہے، اِسے اس دور کے اہم تقاضوں میں سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ اس وقت انسانی دنیا‘ مذہبی حوالے سے دو طرح کے تصادم یا تناؤ کی زد میں ہے:
پہلا تناؤ مذہبیت اور لا مذہبیت کے درمیان ہے۔ اس وقت لامذہبیت اور دہریت، انسانیت کوہر قسم کے دین و دھرم سے دور کرنے یا ہر قسم کی آسمانی، اخلاقی اور اقداری تعلیمات سے محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے اور لامذہبیت کایہ فتنہ مذہبیت کو بری طرح اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، چنانچہ من حیث المذہب تمام مذاہب کے علمبرداروں سے دورِ جدید کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی اقوام کو کم از کم دہریت و لا مذہبیت کے شکنجے میں کسنے سے بچائیں؛ کیوں کہ ہم تمام مذاہب والے اپنی اپنی متعین اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر انسانیت کی اچھی طرح خدمت کرنا چاہیں تو یہ نسبۃً آسان ہے، جب کہ لا مذہبیت جو غیر اقداری رویہ یا روش ہے، اس کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے کوئی تھیوری یا ایسافارمولہ سامنے رکھنا مشکل ہے، جس کی بنیاد پر ہم انسانیت کو حیوانی اقدار کے حوالے ہونے سے بچاسکیں، اس لیے لامذہبیت کے مقابلے میں تمام مذاہب والوں کا اپنی اپنی اقدار کی پاسداری کے ساتھ مشترکات و مسلمات کے لیے مل بیٹھنا، اس وقت تمام مذاہب کی ضرورت ہے اور تمام مذاہب کے زعما ءکی ایک طرح سے ذمہ داری بھی ہے۔
اسی طرح اگر ہم اسلام سے نسبت رکھنےوالے مسالک کی طرف آ جائیں تو بین المسالک ہم آہنگی توبین المذاہب ہم آہنگی کےمقابلے میں زیادہ ضروری معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ لامذہبیت اور مذہبیت کے شدید عالمی تناؤ سے بڑھ کر اس وقت انسانیت، دنیائے کفر اور دنیائے اسلام کے دو مذہبی تصادم، عد م برداشت اور غیر متوازن رویوں کی زد میں ہے۔ کون نہیں جانتاکہ دنیائے کفر، اسلامی دنیا کے معاملے میں تاریخ کے بدترین اسلام فوبیا کا شکار ہے، وہ تمام اسلامی مسالک کو محض مسلمان کہلانے کی وجہ سے ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، میڈیائی اور مسلح جنگ کی زد میں رکھے ہوئے ہے۔ دنیائے کفر اپنے اس ظالمانہ رویے میں ہماری داخلی تفریقی شناختوں کی کوئی تفریق نہیں کرتی۔ مغربی دنیا‘ اہلِ اسلام کو نشانہ بناتے ہوئے شیعہ سنی کی تفریق کرتی ہے، نہ مقلدوغیر مقلد کی تقسیم سے اُسےکوئی غرض ہے اور نہ ہی دیوبندی یا بریلوی کی تمییز اس کے لیے امتیاز کا ذریعہ ہے، وہ ہمیں بلا امتیاز اپنالقمۂ تر بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، اس لیے دورِ جدید کا ہنگامی اور لازمی تقاضا ہے کہ اسلام سے نسبت رکھنے والے تمام مسالک اپنی اپنی مسلکی شناختوں کو تھامتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں کے سامنے وحدت اور ہم آہنگی کا بہترین مظہر بن جائیں اور یہ تسلیم کر لیں کہ جو مذہب اسلام‘ غیر اسلامی مذاہب کے ساتھ مشترکات ومسلمات پر مل بیٹھنے کی تلقین کرتا ہے، اس مذہب کے اپنے پیروکار کفر کے مقابلے میں دفاعِ اسلام اور اپنے تحفظ کے لیے اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے؟ بلکہ تمام مسالک کے ماضی کے اکابر نے ہمیشہ مشترکات و مسلمات پر اکٹھے ہونے کی بہترین مثالیں چھوڑی ہیں، جن میں تحریکِ پاکستان، تحریکِ آئین سازی، تحریکِ ختم نبوت کے مختلف ادوار، متحدہ مجلس عمل، اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ اور پیغامِ پاکستان جیسے مسلکی وقومی اتحاد ہمارے سامنے ہیں۔
ہمارے اکابر کے درمیان اس قسم کے اتحاد ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ہمارا مسلکی تنوع ہرگزتصادم کا باعث نہیں ہے، بلکہ عدم برداشت پر مبنی تحزّب (گروہ بندی) ہمارا المیہ ہے، اس لیے دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت کے رویوں سے بالاتر ہوں اور مشترکات و مسلمات کے لیے ہم آہنگی کے فروغ کی بہترین مثال بنیں۔ فی زمانہ اسے اسلام کا بنیادی تقاضا بھی کہہ سکتے ہیں۔
آئیے! ہم بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے چند بنیادی اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں:ـ
الف- مذہبی اختلافات کے باوجود، مسلمات و مشترکات پر اتفاقِ رائے و عمل قرآنی حکم ہے:
’’قُلْ يٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ‘‘ (آل عمران:۶۴)
’’آپ فرمادیجیےکہ اےاہل کتاب! آؤایک ایسی بات کی طرف جوکہ ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلم ہونے میں) برابر ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
’’دارہم ما دمت في دارہم۔‘‘ (لمعات التنقيح شرح مشکاۃ المصابيح:۸/۳۷۱، ط: دار النوادر)
’’غیرمسلموں کے ساتھ مدارات سے رہیں۔‘‘
ب- تمام مذاہب کے مقدسات کا احترام کیا جائے:
’’إذا أتاکم کريم قوم فأکرموہ۔‘‘ (شعب الإيمان، ۱۳/۳۶۴، ط:مکتبۃ الرشد ، رياض)
’’جب تمہارا سامنا کسی قوم کے عزت دار سے ہو تو اسے عزت دو۔‘‘
ج- ایک دوسرے کے ساتھ تعامل میں تمام مذاہب کے تقدس کی پاسداری کے ساتھ ساتھ انسانی تعظیم و تکریم کو بھی ملحوظ رکھا جائے، کسی بھی موقع پرمذہب کے اختلاف اور تفاوت کی وجہ سے نفسِ انسانیت کا اشتراک واحترام متاثراور فراموش نہیں ہوناچاہیے :
’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ‘‘ (الاسراء:۷۰)
’’اورہم نے آدم کی اولادکوعزت دی۔‘‘ (بیان القرآن)
’’الناس کلہم بنو آدم وآدم خلق من تراب‘‘ (سنن الترمذي:۵/۷۳۴، ط:الحلبي مصر)
’’ساری انسانیت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا شدہ ہیں۔‘‘
د- مذہب و مسلک کی بنیاد پر اشتعال انگیزی سے اجتناب کو یقینی بنایا جائے، معارضے ومقابلےکے موقع پرمذہبیات اور مذہبی شخصیات کے درمیان توہین آمیز تقابل نہ کیا جائے:
’’وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَيَسُبُّوْا اللہَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ‘‘ (الانعام:۱۰۸)
’’اوردشنام مت دو ان کوجن کی یہ لوگ خداکوچھوڑکرعبادت کرتے ہیں، پھروہ براہِ جہل حدسے گزرکراللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔‘‘ (بیان القرآن)
ھ- ایک دوسرے کی توہین و تحقیر کا عمل صراحۃً تو درکنار، اشارات، کنایات اور موہوم کلمات کے ذریعے بھی نہ کیا جائے، بلکہ ایک دوسرے کا تذکرہ ایسےغیر مبہم الفاظ میں کیا جائےجس سے غلط فہمی جنم نہ لے سکے:
’’يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوْا انْظُرْنَا‘‘ (البقرۃ:۱۰۴)
’’اےایمان والو! تم (لفظ) ’’رَاعِنَا‘‘ مت کہا کرو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہہ دیا کرو۔‘‘ (بیان القرآن)
و- ہمارے باہمی اختلافات، بلا شبہ ایک حقیقت ہے، مگر ان اختلافات کو عام مجامع، شاہراہوں، چوراہوں اور بازاروں میں عام کرنے، بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کیا جائے اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ اپنےاپنے مخصوص حلقوں میں تعلیم گاہوں تک محدود رکھا جائے، تاکہ گروہی تصادم کا فتنہ جنم نہ لے سکے، ایسےفتن کی روک تھام اور سدِباب مذہبی پیشواؤں کی ذمہ داری ہے:
’’وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ‘‘ (البقرۃ:۱۹۱)
’’اورفتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
’’حدثوا الناس بما يعرفون۔‘‘ (صحيح البخاري:۱/۵۹، ط: دار ابن کثير، دمشق)
’’لوگوں کے سامنے صرف وہی چیزیں بیان کریں جو وہ اِدراک کرسکیں۔‘‘
’’علماؤہم شرّ من تحت أديم السماء، من عندہم تخرجُ الفتنۃُ وفيہم تعود۔‘‘ (شعب الإيمان:۳/۳۱۸، ط:مکتبۃ الرشد، رياض)
’’ (قربِ قیامت میں اپنے فرائض سے غافل اس امت کے) علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین لوگ کہلائیں گے اورفتنہ کا اول آخر وہی ہوں گے۔‘‘
ز-مختلف مذاہب ہوں یا ایک مذہب کے متنوع مسالک، ان کے درمیان ہم آہنگی، پرامن بقائے باہمی، خیال داری، صبر و تحمل، دوراندیشی، وسعتِ ظرفی اور حلم و بردباری سیکھنے اور سمجھنےکےلیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کےوہ معاہداتی پہلو سامنےرکھے جائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے مذہبی و فکری مخالفین کے ساتھ پیش فرمائے تھے۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں تین معاہدات و مواثیق ہیں:
ؓ سب سے پہلا نمایاں معاہدہ میثاقِ مدینہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودِ مدینہ کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے طے پایا تھا۔
ؓ دوسرا معاہدہ اہلِ مکہ کے ساتھ ہواتھا، جسے صلح حدیبیہ کا عنوان حاصل ہے۔ اس معاہدے میں مخالفین کی وقتی ترجیحات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےایسی دور اندیشی سے قبول فرمایا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا اور فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
ؓ جب کہ تیسرا اور بڑا معاہدہ نجران کے نصاریٰ کے ساتھ ہوا تھا،یہ معاہدہ ان تمام معاہدات میں سب سے تفصیلی ہے، بلکہ یوں کہنا بجاہےکہ کسی بھی اسلامی ریاست کے زیر نگین غیر مسلم اقوام کے لیے مفصل میثاقِ امن (Charter of Space) کا درجہ رکھتا ہے۔ اس معاہدے میں نصاریٰ نجران کے لیےمذہبی ، سماجی، قانونی اور ضروری انتظامی حقوق، بطورِ خاص متعین فرمائےگئےتھے:
ؓ مثلاً کسی بھی مذہب کی بنیاد اس کاعقیدہ ہوتاہے، اہلِ نجران کواعتقادی تحفظ حاصل تھاکہ انہیں ان کے عقائد کے معاملے میں کسی قسم کی تشویش سے دوچار نہیں کیاجائے گا۔
ؓ اسی طرح ان کی عبادت گاہوں کومکمل تحفظ بخشا گیا تھا۔
ؓ نیز ان عبادت گاہوں میں اپنے عقیدہ وعمل کے مطابق مصروفِ عبادت لوگوں سے بھی عدمِ تعرض کی تلقین کی گئی تھی، اسی طرح ان کے اپنے دینی مناصب کے حامل افراد اور انتظامی عہدیداروں کوبرقرار رکھنے کے احکامات شامل تھے۔
ؓ مزید یہ کہ اپنے مذہبی مناصب کے ذمہ داروں کے تعین وتقررمیں انہیں مکمل آزاد چھوڑا گیا تھا۔
ؓ اسی طرح ان کی عزت وآبرواور جان ومال کی حفاظت مدنی ریاست کے فرائض میں شمار کی گئی تھی۔
ؓ مزید برآں خیبر کے موقع پریہود کی شرارتوں کےباوجودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہودکومالی تحفظ فراہم کیا تھا:
’’ألا لا تحل أموال المعاہدين إلا بحقہا۔‘‘ (مسند أحمد، ج:۲۸، ص: ۱۶، ط: الرسالۃ)
’’خبردار! عہد وپیمان والے لوگوں کا مال ناحق ہتھیانے کو میں حلال قرار نہیں دیتا۔‘‘
ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفائے راشدینؓ نے بھی اس سنتِ حسنہ کو زندہ رکھااور اپنے ادوار کی فتوحات میں غیر مسلم مخالفین کے معاملے میں نرم خوئی، عدل وانصاف ، رعایت وحفاظت کے خصوصی احکامات دیےجاتےتھے، یہاں تک کہ نئےمفتوحہ لوگوں کے حیوانات، ان کی فصلوں اور باغات کے تحفظ کے لیے بھی خصوصی تاکیدات کی جاتی تھیں، جب کہ بچے، بوڑھے، عورتیں اور خالص مذہبی سرگرمی تک محدود افراد کو ہر قسم کا تحفظ دینے کا حکم ہر دور میں زندہ تابندہ چلاآرہاہے اور اب بھی ہماری فقہی کتب میں کتاب الجہاد والسیر کے ضمن میں أحکام أہل الذمۃ کے عنوان سے واضح انداز میں موجود ہے۔
اس ساری تفصیل کا نتیجہ اور حاصل یہ ہے کہ الحمدللہ! ہماری اسلامی تعلیمات غیر مسلم اقلیتوں کے مذہبی ، معاشرتی اور مالی و انتظامی حقوق کے حوالے سے بالکل واضح ہیں۔ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اہلِ اسلام کا رویہ ہمیشہ ان تعلیمات سے ہم آہنگ رہا ہے اور رہنا چاہیے اوریہ کہ مذہب کے نام پر کبھی کسی غیرمذہب والے کے ساتھ امتیازی سلوک کی اسلام میں کہیں بھی گنجائش نہیں ہے۔ اب ہمارے اہلِ علم اور اربابِ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی رعایا کے غیر مسلموں کے ہر نوع مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ کریں اورہم وطن غیرمسلموں کی صلاحیتوں کوملکی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کریں۔
ہم ایک بار پھر شکر گزار اور دعا گو ہیں اپنی حکومت اور وزارتِ مذہبی امور کے نیک دل وزیر محترم جناب سردار محمد یوسف صاحب کے لیے، جنہوں نے وطن عزیز میں بسنے والے تمام مذاہب اور تمام مسالک کے مذہبی نمائندوں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے کا ماحول فراہم کیا اور وفاق سے لے کر صوبہ، ڈویژن اور ضلعی سطح تک اس پروگرام کو فروغ دینے کے لیےوہ پرعزم ہیں۔
الحمدللہ! واضح طور پر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس پروگرام کے تمام شرکاء، اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کارِ خیر کے لیے ہمارے سردار‘ یوسفِ زمان کی حسنِ کارکردگی میں اضافے کے لیےان کےشانہ بشانہ ہوں گے، ان شاءاللہ۔
اور مجھے یہ بھی یقین ہےکہ ملکی سطح پر مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان قربتوں کے لیے سردار صاحب کا پرعزم کردار، انتہائی مثبت نتائج کا حامل ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔
الحمدللہ! ہم جس قدر آسانی سے اپنی معروضات، یہاں پرمحترم سردار صاحب کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، اسی طرح ہمیں توقع ہے کہ ہم آہنگی کے اس قومی سفر سے بین الاقوامی سفر تک بھی سردار صاحب، ہمارے جذبات کی یوں ہی قدردانی اور ترجمانی کا فريضہ نبھائیں گے، چنانچہ اس موقع کی مناسبت سے دو ضروری گزارشات کی طرف اہلِ علم اور اپنے وزیر محترم کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں:
۱- مذاہب و مسالک کے درمیان ہم آہنگی کا یہ سفر باہمی عزت و احترام، خیال داری، رواداری اور قومی ایشوز پر باہمی تعاون واتفاق پر مبنی ہونا چاہیے، یہ شرعی اصطلاح میں ’’مدارات‘‘ ہے، یہاں تک ہمارا ہر قسم کا تعاون حاضر ہے، جب کہ دوسری طرف بعض سیاسی یا مذہبی حلقے تمام تر مذہبی و مسلکی شناختوں کے امتیازات کے خاتمے کے ساتھ اتحادِ امت کی دعوت دیتے ہیں جوکہ درحقیقت مذہبیت سے لا مذہبیت کی طرف سفر کا آغاز ہے، ہم ایسے افکارو اقدامات کو نہ صرف یہ کہ رد کرتے ہیں، بلکہ اسے ’’مدارات‘‘ کی بجائے ’’مداہنت‘‘ تصور کرتے ہیں جو کہ شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہے:
’’وَدُّواْ لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ‘‘ (القلم: ۹)
’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے (منصبی کام یعنی تبلیغ میں)ڈھیلے ہوجائیں تویہ لوگ بھی ڈھیلے ہوجائیں۔‘‘ (بیان القرآن)
’’لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ (الکافرون: ۲)
’’میں نہیں پوجتاجس کوتم پوجتے ہو۔‘‘ (تفسیر عثمانی)
’’الإدہان، وہو المحاباۃ في غير حق، والمساہلۃ في الأمر، والتليين في الکلام، والمداہنۃ: أن يری منکرًا ولم يغيرہ مع القدرۃ عليہ لاستحياء، أو قلۃ مبالاۃ في الدين، أو لمحافظۃ جانب المرتکب۔‘‘ (لمعات التنقيح في شرح مشکاۃ المصابيح:۸/۳۷۰، ط: دار النوادر، دمشق)
۲- اس وقت مذہبی ہم آہنگی کامثبت تصور ہمارے سامنے پیش ہوا ہے اور اس کو عام کرنے کے لیے ہم سب دل وجان سےحاضر باش ہیں۔ اس کے برعکس مذہبی ہم آہنگی (Religious Harmony) کا جو مغربی تصور ہے، اس کے تحت ’’وحدت ِادیان‘‘ کی عالمی تحریک اور ایک برادر اسلامی ملک میں ’’بیتِ ابراہیمی‘‘ کے نام سے تمام ادیان و مذاہب کے امتیازات کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مذہبی ملغوبہ تیار کرنے کا جو پروگرام ہے، وہ ہمیں کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ ہم مذہبی ہم آہنگی کےایسے افکار کو اسلام کی بالادستی و برتری سے متصادم سمجھتے ہیں اور حق و باطل کے التباس واجتماع کا جرم تصور کرتے ہیں، نیز دینِ اسلام کے تبلیغی و ترویجی اہداف کے منافی بھی قرار دیتے ہیں :
’’إنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْإِسْلَامُ‘‘ (آل عمران: ۱۹)
’’بلاشبہ دین( حق اورمقبول)اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ ‘‘ (بیان القرآن)
’’وَلَا تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ‘‘ (البقرۃ: ۴۲)
’’اورمخلوط مت کروحق کوناحق کے ساتھ۔‘‘ (بیان القرآن)
’’ہُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلٰی الدِّيْنِ کُلِّہٖ‘‘ (التوبۃ: ۳۳)
’’(چنانچہ)وہ اللہ تعالیٰ ایساہےکہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اس کو تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کردے۔‘‘ (بیان القرآن)
’’اَمْ ہَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ‘‘ (الرعد: ۱۶)
’’کیا کہیں تاریکی اورروشنی برابر ہوسکتی ہے؟‘‘ (بیان القرآن)
’’الإسلام يعلو ولا يعلی۔ ‘‘ (صحيح البخاري:۱/۴۵۴، ط:دار ابن کثير، دمشق)
’’اسلام برتر رہے گا، اس پر برتری نہیں ہوگی۔‘‘
الحمدللہ! وطنِ عزیز کی حد تک ہمیں اس قسم کے خدشات سےتو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے، یہاں تو مذہبی رواداری کے التزام کے ساتھ قرآن و سنت کو آئینی بالادستی حاصل ہے اور پارلیمنٹ میں موجود ہمارے علمائے کرام اور سردار صاحب جیسے مذہب پسند وزراء، مسلم قوم کے جذبات کے نہ صرف یہ کہ ترجمان ہیں، بلکہ محافظ بھی ہیں۔ ہماری اس مؤخرالذکر گزارش کا مقصد صرف یہ ہےکہ ہمارے ان جذبات کویہاں کی طرح مذہبی ہم آہنگی کےعالمی تصورات کے سامنے بھی تحفظ حاصل رہے۔ ہماری دعائیں اور توقعات سردار صاحب جیسے لوگوں سے وابستہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
وصلی اللہ وسلم علٰی سیدنا محمد وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین