بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بچے، قرآن اور ہماری ذمہ داری!

بچے، قرآن اور ہماری ذمہ داری!

بچے اورقرآن، ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے، یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دنیا میں قرآن کے ماہرین بچپن ہی سے قرآن سے جڑے ہوئے تھے۔ جن بچوں کو ان کے والدین نے چھوٹی عمر میں قرآن سے جوڑا، ان بچوں کا قرآن سے تعلق ساری زندگی مضبوط رہا۔  یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بچپن سے قرآن کے ساتھ جوڑنے سے مراد یہ نہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے، یعنی بچے کو سکول سے واپس لاکر آدھے گھنٹے کے لیے مسجد کے قاری صاحب کے حوالے کردینا، جب کہ وہ بچہ انتہائی تھکاوٹ کا شکارہوتا ہے، اور پھر والدین نے بھی ساری ذمہ داری قاری صاحب پرڈال رکھی ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں اور والدین کبھی قاری صاحب سے ملاقات تک نہیں کرتے۔ اگر چہ موجودہ دور میں الحمدللہ! حفظِ قرآن کا رجحان زیادہ ہوا ہے، لیکن پھر بھی عموماً یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کسی ایک بچے کو حفظ کروا کر دس افراد کی بخشش کے پروانے پر خود ہی دستخط کرکے بیٹھ جاتے ہیں، یعنی اب جو بھی ہو، ہم بخشے بخشائے ہیں۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کو پاکیزہ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، بچہ مدرسہ سے آکر گھر میں موجود شیطانی آلات سے بھی مستفید ہورہا ہوتا ہے، فلمیں، ڈرامے اور کارٹون کی شکل میں دجالی ہدایات کے انجکشن اس کے قلب ودماغ پر لگتے رہتے ہیں۔ حفظ کے رجحان میں اضافے کے باوجود اب بھی نوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں جو بچے کو بچپن کی عمر میں قرآن سے نہیں جوڑتے، بلکہ جدیدزبانیں اور علوم ہی بچپن میں پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو بچے بچپن میں حفظ کرلیتے ہیں، ان کا حافظہ دوسرے بچوں سے زیادہ قوی ہوتا ہے، چنانچہ اگر بچوں کو سب سے پہلے یعنی پانچ چھ سال کی عمر میں حفظ کروانا شروع کردیا جائے تو باقی چیزیں بعد میں بچہ بہت اچھی طرح سیکھ لیتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بچے کو چھوٹی عمر میں جو چیز سکھائی جائے گی، ساری عمر اسی چیز کی چھاپ اس کی عملی زندگی میں بھی نظر آئے گی۔یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا، حالانکہ سات سال کے بچے پر ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی، ابھی تو مزید سات سال ہیں نماز فرض ہونے میں، یہ سارا ہتمام اسی وجہ سے ہے۔طبرانی میں حضرت علی q سے روایت ہے: ’’ أدبوا أولادَکم علٰی ثلاث خصال: حب نبیکم وحب آل بیتہ وتلاوۃ القرآن، فإن حملۃَ القرآن فی ظل عرش اللّٰہ یوم لاظل إلا ظلہٗ مع أنبیائہٖ وأصفیائہٖ ‘‘۔ ’’اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ:اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کے اہل بیت sکی محبت اور قرآن کریم کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم کو یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سائے میںانبیاء oساتھ اس روز ہوں گے جس روز اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘  مسلمان علمائِ تربیت نے بچوں کو قرآن کریم کی تلاوت اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے غزوات کی تعلیم اور مسلمانوں کے عظیم قائدین کے کارنامے بتلانے اور سکھلانے کے ضروری ہونے کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے، اس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص q فرماتے ہیں کہ:  ’’ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے غزوات اور جنگیں اسی طرح یاد کرایا کرتے تھے جس طرح اُنہیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے تھے۔‘‘ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ   نے احیاء العلوم میں یہ وصیت کی ہے کہ: ’’ بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔‘‘ علامہ ابن خلدون  رحمۃ اللہ علیہ   نے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے اور یاد کرانے کی اہمیت یوںبتائی ہے: ’’ مختلف اسلامی ملکوں میں تمام تدریسی طریقوں اور نظاموں میں قرآن کریم کی تعلیم ہی اساس اور بنیاد ہے، اس لیے کہ قرآن کریم دین کے شعائر میں سے ہے جس سے عقیدہ مضبوط اور ایمان راسخ ہوتا ہے۔‘‘ ابن سینا ؒ نے ’’کتاب السیاسۃ‘‘ میں یہ نصیحت لکھی ہے کہ: ’’ جیسے ہی بچہ جسمانی اور عقلی طور سے تعلیم وتعلم کے لائق ہو جائے تو اس کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے کرنا چاہیے، تاکہ اصل لغت اس کی گھٹی میں پڑے اور ایمان اور اس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔‘‘ پہلے زمانے کے لوگ اپنے بچوں کی تربیت کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو جب اساتذہ کے حوالے کرتے تو ان سے درخواست کرتے کہ ان بچوں کو سب سے پہلے قرآن کریم کی تعلیم دیںاور یاد کرائیں، تاکہ ان کی زبان درست ہو اور ان کی ارواح میں پاکیزگی وبلندی اور دلوں میں خشوع وخضوع پیدا ہو اور ان کے نفوس میں ایمان اور یقین راسخ ہو جائے۔ ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین