بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بچوں کے مال اور اُن کو دیئے جانے والے تحائف کو  کھانے اور استعمال کرنے کا حکم!

بچوں کے مال اور اُن کو دیئے جانے والے تحائف کو  کھانے اور استعمال کرنے کا حکم!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
عام طور پر لوگ چھوٹے بچوں کو کھانے پینے اور دیگر استعمال کی چیزیں دیتے ہیں اور بہت چھوٹے (شیرخوار) بچوں کو دی جانے والی چیزیں بعض اوقات اُن کے استعمال میں نہیں آتیں، جس کی کئی وجوہات ہیں، مثلاً: کوئی کھانے کی چیز بچے کو کسی نے دی، اور بچے نے بچادی، یا اُس کے لیے نقصان دہ تھی یا وہ چیز زیادہ تھی یا استعمال کے کپڑے بچے کے استعمال میں نہیں آئے، اور بچہ بڑا ہوگیا یا موسم کے لائق نہیں تھے یا کوئی کھلونا بچے کی عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں اور اسی طرح دیگر چیزیں۔ ان سب کے بارے میں چند سوالات کا تفصیلی جواب مطلوب ہے: 
1 :-     کھانے پینے کی چیز کسی نے بچے کو دی اور وہ چیز بچ گئی، تو والدین کیا کریں؟
2 :-     والدین نے چیز کو بچے کے لیے نقصان دہ سمجھا اور بچہ کو کھانے کے لیے نہیں دی تو اب اُس کا کیا کریں؟
3 :-     استعمال کے کپڑے جو بچے کو دئیے گئے تھے، وہ اُس کے استعمال میں نہیں آئے، تو وہ کپڑے والدین کسی اور کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟
4 :-     بچہ اگر کوئی چیز اپنی مرضی سے استعمال نہ کرے یا نہ کھائے، تو کیا کریں؟
5 :-     بچہ کے لیے کوئی زیور بنوادیا، تو اُسے بچے کی ماں استعمال کرسکتی ہے یا نہیں؟
6 :-     بچے کے لیے کوئی بھی چیز ہو، اُسے کسی دوسرے بچے کو استعمال کرنے یا کھانے کے لیے دینا کیسا ہے؟ جبکہ اگر نہ دی جائے تو اس چیز کے ضیاع کا اندیشہ بھی ہو۔

مستفتی: محمد احمد، حسن اسکوائر، کراچی

الجواب حامدًا ومصلیًا 

بچوں کو اُن کے بچپن میں جو تحفے تحائف دئیے جاتے ہیں، اگر وہ ایسی چیزیں ہیں جو بچوں کے استعمال کی ہیں یا اُن کی ضرورت کے موافق ہیں تو ایسی چیزیں اُن بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی، والدین کے لیے اُن چیزوں میں تصرف کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔ اور ان کے علاوہ اگر کوئی اور چیزیں ہوں تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہے، اگر عرف یہ ہے کہ یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصودہوتے ہیں، صرف ظاہراً بچوں کے ہاتھ میں دئیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طورپر عقیقہ اور ختنہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اُن میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر وہ چیزیں والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ اُن کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو اُن کا مالک والد ہے۔ اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں تو پھر اُن کا مالک بچہ ہی ہوگا، اور اگر کسی موقع پر ہدیہ دینے والے صراحت کردیں کہ یہ بچہ کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔
مذکورہ تفصیل کے بعد سوالات کے جوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں:
1 :-     کھانے پینے کی کوئی چیز بچہ کو کوئی ہدیہ دے یا بچہ اپنی رقم سے خریدے تو اس کے والدین اور بھائیوں کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر اس چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو قیمت دے کر خود کھالے یا کسی اور کو دے دے، یا یہ صورت اختیار کی جائےکہ ابھی اس چیز کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے یا بچے کی یہ تربیت کرنے کے لیے کہ وہ تنہا نہ کھائے، بلکہ سب کو کھلایا بھی کرےتو اس کے ساتھ کھالے، اور جب بعد میں بچے کو کوئی چیز یا رقم دے تو اس میں اُس استعمال کردہ چیز کے عوض کی نیت کرلے تو اس سے بچے کی تربیت بھی ہوجائے گی اور نابالغ کے مال میں تصرف کا اشکال بھی نہیں ہوگا۔
2 :-     اگر وہ چیز والدین بچے کے لیے نقصان دہ سمجھیں تو اُن کو اس کی اجازت ہے کہ وہ بچے کو وہ چیز استعمال کرنے کے لیے نہ دیں ، اور اپنی طرف سے بعد میں کوئی چیز دیتے ہوئے اس کے بدل کی نیت کرلیں۔
3 :-     جو کپڑے بچے کے ملکیتی ہیں تو والدین کے لیے وہ کپڑے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ کپڑے والدین نے بچوں کو بناکر دئیے ہیں اور والدین نے ان کو مالک نہیں بنایا، بلکہ استعمال کے لیے دئیے ہیں تو ایسی صورت میں وہ کپڑے چھوٹے ہونے پر اس کے چھوٹے بہن بھائیوں یا کسی اور بچے کو دئیے جاسکتے ہیں، اور اگر کسی اور نے وہ کپڑے بچے کو تحفے میں دئیے ہیں اور موسم کے ناموافق ہونے یا کسی اور وجہ سے بچے کے استعمال میں نہیں آسکے اور نہ وہ کپڑے بعد میں بچے کے کام آسکتے ہیں تو ایسی صورت میں والدین یہ کپڑے کسی اور کو دے دیں اور بعد میں اس کے عوض بچوں کو ان کے مناسب کوئی کپڑا بنا کر دے دیں۔
4 :-     اس کا جواب پہلے سوال کے جواب کے ضمن میں آگیا ہے۔
5 :-     زیور اگر کسی نے بچے ہی کو بنا کردیا ہےتو اس کی والدہ کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
6 :-     تیسرے سوال کے جواب میں اس کا جواب آگیا ہے۔
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’ويباح لوالديہ أن يأکلا من مأکول وہب لہ، وقيل لا، انتہٰی، فأفاد أن غير المأکول لا يباح لہما إلا لحاجۃ وضعوا ہدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح لہ کثياب الصبيان، فالہديۃ لہ، وإلا فإن المہدي من أقرباء الأب أو معارفہ فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال ہذا لصبي أو لا، ولو قال: أہديت للأب أو للأم فالقول لہ، وکذا زفاف البنت، خلاصۃ، وفيہا: اتخذ لولدہ أو لتلميذہ ثيابا ثم أراد دفعہا لغيرہٖ ليس لہٗ ذلک ما لم يبين وقت الاتخاذ أنہا عاريۃ، وفي المبتغی: ثياب البدن يملکہا بلبسہا بخلاف نحو ملحفۃ ووسادۃ.
 (قولہ: وہب لہ) قال في التتارخانيۃ روي عن محمد نص أنہ يباح. وفي الذخيرۃ: وأکثر مشايخ بخارٰی علی أنہ لا يباح.وفي فتاوی سمرقند: إذا أہدي الفواکہ للصغير يحل للأبوين الأکل منہا إذا أريد بذلک الأبوان، لکن الإہداء للصغير استصغارا للہديۃ اہـ. قلت: وبہ يحصل التوفيق، ويظہر ذلک بالقرائن، وعليہ فلا فرق بين المأکول وغيرہ بل غيرہ أظہر فتأمل۔ (قولہ: فأفاد) أصلہ لصاحب البحر وتبعہ في المنح (قولہ إلا لحاجۃ) قال في التتارخانيۃ: وإذا احتاج الأب إلی مال ولدہٖ، فإن کانا في المصر واحتاج لفقرہٖ أکل بغير شيء وإن کانا في المفازۃ واحتاج إليہ لانعدام الطعام معہٗ فلہ الأکل بالقيمۃ اہـ
۔‘‘(فتاویٰ شامی، کتاب الہبۃ، ج:۵، ص: ۶۹۶، ط: سعید)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے:
’’ويباح للوالدين أن يأکلا من المأکول الموہوب للصغير کذا في الخلاصۃ أيضا، فأفاد أن غير المأکول لا يباح لہما إلا عند الاحتياج، کما لا يخفی۔ وأشار المؤلف إلی أن ما علم أنہ وہب للصغير يکون ملکا لہ، أما لو اتخذ الأب وليمۃ للختان فأہدی الناس ہدايا ووضعوا بين يدي الولد، فإن کانت الہبۃ تصلح للصبي مثل ثياب الصبيان أو شيء يستعملہ الصبيان فالہديۃ للصبي، وإن کانت غير تلک کالدراہم والدنانير والحيوان ومتاع البيت ينظر إلی المہدي إن کان من أقرباء الأب أو معارفہ فہو للأب، وإن کان من أقرباء الأم أو معارفہا فہو للأم، وسواء کان المہدي يقول عند الہديۃ ہٰذا للصبي أو لم يقل، وکذا لو اتخذ الوليمۃ لزفاف بنتہٖ إلی بيت زوجہا فأہدی أقرباء الزوج أو المرأۃ وہٰذا إذا لم يقل المہدي أہديت للأب أو للأم وتعذر الرجوع إلی قولہٖ، أما إذا قال شيئًا فالقول قولہ، کذا في الخلاصۃ. اہـ.‘‘ (البحر الرائق، ج:۷، ص: ۲۸۸، کتاب الہبۃ، ہبۃ الاب لطفلہ، ط: دارالکتاب الاسلامي)
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:
’’إذا وہب للصغير شيئًا من المأکول، قال محمد - رحمہ اللہ تعالی -: يباح لولديہ أن يأکلا منہ، وقال أکثر مشايخ بخارٰی رحمہم اللہ تعالٰی -: لا يحل، کذا في السراجيۃ. وأکثر مشايخ بخارٰی علی أنہ لا يباح، کذا في جواہر الأخلاطي. أہدی للصغير الفواکہ يحل لوالديہ أکلہا؛ لأن الإہداء إليہما، وذکر الصبي لاستصغار الہديۃ، ولو أن رجلا اتخذ وليمۃ للختان فأہدی إليہ الناس اختلف المشايخ رحمہم اللہ تعالی فيہا، قال بعضہم: ہي للولد سواء قالوا ہي للصغير أو لم يقولوا سلموہا إلی الأب أو إلی الابن؛ لأنہ ہو الذي اتخذ الوليمۃ للولد، وقال بعضہم: ہي للوالدين، وقال بعضہم: إذا قالوا للولد فہي لہ، وإن لم يقولوا شيئا فہي للوالد، قال الفقيہ أبو الليث - رحمہ اللہ تعالی -: إن کانت الہديۃ مما يصلح للصبي مثل ثياب الصبي أو شيء يستعمل للصبيان فہي للصبي، وإن کانت الہديۃ دراہم أو دنانير أو شيئا من متاع البيت أو الحيوان، فإن أہداہ أحد من أقرباء الأب أو من معارفہ فہي للوالد إذا اتخذ الرجل عذيرۃ للختان فأہدی الناس ہدايا ووضعوا بين يدي الولد فسواء قال المہدي ہٰذا للولد أو لم يقل، فإن کانت الہديۃ تصلح للولد، مثل ثياب الصبيان أو شيء يستعملہ الصبيان مثل الصولجان والکرۃ فہو للصبي؛ لأن ہٰذا تمليک للصبي عادۃ، وإن کانت الہديۃ لا تصلح للصبي عادۃ کالدراہم والدنانير ينظر إلی المہدي، فإن کان من أقارب الأب أو معارفہ فہي للأب، وإن کان من أقارب الأم أو معارفہا فہي للأم؛ لأن التمليک ہنا من الأم عرفا وہناک من الأب، فکان التعويل علی العرف حتی لو وجد سبب أو وجہ يستدل بہ علی غير ما قلنا يعتمد علی ذٰلک، وکذلک إذا اتخذ وليمۃ لزفاف ابنتہٖ فأہدی الناس ہدايا فہو علی ما ذکرنا من التقسيم، وہذا کلہ إذا لم يقل المہدي شيئا وتعذر الرجوع إلی قولہ، أما إذا قال: أہديت للأب أو للأم أو للزوج أو للمرأۃ فالقول للمہدي، کذا في الظہيريۃ.‘‘ 
(فتاویٰ عالمگیری، ج:۴، ص:۳۸۲، کتاب الہبۃ، الباب الثالث فيما يتعلق بالتحليل، ط: رشیدیہ)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے:
’’ولو اتخذ لولدہ ثيابا ثم أراد أن يدفع إلی آخر ليس لہٗ ذلک إلا أن يبين وقت الاتخاذ أنہ عاريۃ وکذا لو اتخذ لتلميذہ ثيابًا فأراد أن يدفع إلی غيرہ وإن أرادا الاحتياط يبين أنہا عاريۃ حتی يمکنہ أن يدفع إلی غيرہ. اہـ.
وفي ہامش منحۃ الخالق تحتہ: (قولہ ولو اتخذ لولدہ ثيابا إلخ) قال الرملي وفي الحاوي الزاہدي برمز (بم) دفع لولدہ الصغير قرصا فأکل نصفہ ثم أخذہ منہ ودفعہ لآخر يضمنہ إذا کان دفعہ لولدہ علی وجہ التمليک وإذا دفعہ علی وجہ التمليک وإذا دفعہ علی وجہ الإباحۃ لا يضمن، قال: عرف بہ أن مجرد الدفع من الأب إلی الصغير لايکون تمليکا وأنہ حسن. اہـ
.‘‘ (البحر الرائق، ج:۷، ص: ۲۸۸،کتاب الہبۃ، ہبۃ الاب لطفلہ، ط: دارالکتاب الاسلامي)
’’حاشیۃ الشلبي علی تبیین الحقائق‘‘ میں ہے:
’’وأما الأب إذا باع عقار الصغير بمثل القيمۃ، فإن کان الأب محمودا عند الناس أو مستورا يجوز حتی لو بلغ الابن لم ينقض البيع وإن کان الأب فاسقا لا يجوز البيع حتی لو بلغ الابن لہ نقض البيع وہو المختار.‘‘ (حاشیۃ الشلبي علی تبیین الحقائق، ج:۶، ص: ۲۱۲، کتاب الوصایا، باب الوصي، ط: المطبعۃ الکبرٰی الأميريۃ - بولاق، القاہرۃ)
 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیحکتبہ

 ابوبکر سعیدالرحمٰن

  محمد انعام الحق

محمد حمزہ منصور

  

  تخصصِ فقہِ اسلامی

  

 جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

                                    
                                                                 
                                                     
 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین