بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بچوں کا ’’نام‘‘ رکھنے کے احکام وآداب

بچوں کا ’’نام‘‘ رکھنے کے احکام وآداب


نام کسی بھی چیز کی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ خاص کر انسان کی شناخت کا اہم حصہ اس کا نام ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے حضرت آدم  علیہ السلام  کو سب سے پہلے تمام چیزوں کے نام سکھلائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے ’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَاءَ‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے کہ: حضرت آدم  علیہ السلام  پر ان کی تمام اولادوں کے نام ایک ایک کر کے پیش کیے گئے تھے۔ (۱)
نام انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نام ہی وہ پہلا مظہر ہے جو کسی موسوم سے روشناس کراتا ہے۔ نام رابطے اور محبت و حسن وسلوک میں زینے کاکام دیتا ہے۔ نام انسان کو مختلف کیفیات سے دوچار کراتا ہے۔ نام اگر کسی خوبصورت چیز سے وابستہ ہو تو سرور حاصل ہوتا ہے۔ نام اگر قابلِ احترام ہستی سے وابستہ ہو تو سن کر دل و نگاہ عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔ محبوب سے وابستہ ہو تو سن کر آتشِ شوق بھڑک اُٹھتی ہے۔ مکروہ یا بدصورت چیز سے وابستہ ہو تو انسان کی طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔ ڈراؤنی اور ہیبت ناک چیز سے وابستہ ہو تو دل پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ مخاطب اگر اپنے نام کا اسم بامسمٰی ہو تو طبیعت خوش ہوتی ہے، اور اگر نام اپنے موصوف کی صفات کا عکس ہو تو حیرت ہوتی ہے۔ نام انسان کے مزاج میں تبدیلی لاتا ہے، اس کی عادات و اطوار پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ اچھے اور عمدہ معانی والے نام انسان کو مثبت سوچ کاحامل بناتے ہیں، جبکہ بُرے نام انسان کو منفی سوچ میں ڈوبا رکھتے ہیں۔ 
زمانے مختلف گزرے ہیں، چاہے وہ قدیم یونان کا برج پرست زمانہ ہو، یا ہندوؤں کا دیو مالائی ذہن، یا عربوں کا کہانت زدہ معاشرہ، یا مصر کا ساحرانہ ماحول، جدید دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ہوں، یا ترقی پذیر ممالک، ہر ایک قوم نے اپنے اپنے انداز سے نام کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ اور اس کے لیے مختلف طریقے بھی اپنائے ہیں:
کسی نے زائچے بنا کر لمحات، ساعات، اور ستاروں کی رفتار کو جانچا، پرکھا، تولا اور اس کے زیر اثر مولود کا نام رکھا۔ کسی نے علم الاعداد کے حوالے سے سود و زیاں کو جانچا، سعد اور نحس کی گھڑیوں کی نسبت سے سوچا اور پھر نام رکھا۔ کسی نے اپنے مذہبی عقائد کے حوالے سے دیوی ، دیوتاؤں، اور بتوں کی نسبت سوچ کر نام رکھا۔ کسی نے پیدائش کی ساعت، دن اور گھڑی ، مہینے یا اس دن سے منسوب کسی واقعہ سے نام منسوب کردیا۔ غرض ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے نام رکھنے کا رواج بنایا۔(۲)
صحرائے عرب میں طلوعِ اسلام سے قبل جہاں بہت ساری بیماریاں تھیں، وہیں ایک بات ان میں یہ بھی تھی کہ وہ اپنے بچوں کے نام رکھنے میں کسی احسن طریقے کے قائل نہ تھے۔ ایسے نام جن کے معانی خوبصورت ہوں، اور انہیں سن کر مخاطب لطف اندوز ہو، ایسے ناموں کو وہ ناپسند کرتے تھے، بلکہ اس کے اُلٹ وہ نام جن کو سن کر انسان پر ہیبت طاری ہو، جنہیں سن کر ذہن سختی، مشکل، کھردرے پن، صعوبت، لرزہ اور رعب ودبدبہ والی کیفیت سوچنے لگے ، ایسے نام انہیں بھاتے تھے۔ 
علامہ ابن دُریدؒ (متوفی:۳۲۱ھ) جو کہ لغت اور اسماء ومعانی کے ایک بڑے اور مسلم امام مانے جاتے ہیں، وہ اپنی کتاب ’’ الاشتقاق‘‘ میں یوں فرماتے ہیں: ’’اپنے بچوں اور غلاموں کا نام تجویز کرنے میں عربوں کااپنا ہی ایک طریقہ تھا، لہٰذا کبھی تو یہ ہوتا کہ دشمن پر غلبہ پانے کے لیے وہ نیک فالی کے طور پر اپنے بچوں کا وہ نام رکھتے تھے جن میں غلبہ کا معنیٰ شامل ہو، جیسے کہ: غَالِب، غَلَّاب، ظَالم، عَارم، وغیرہ۔ کبھی دشمنوں کو دھمکانے کے لیے وہ درندوں کے نام رکھتے تھے، جیسے: اَسَد، لَیْث، ذِئب، ضِرْغَام وغیرہ، کبھی نیک فالی کے طور پر سخت اور کھردری چیزوں کے نام رکھتے تھے، جیسے کہ: حَجَرْ، حَجَیر، صَخْر، فَہْر وغیرہ۔ یا پھر کانٹے دار درختوں یا پودوں کے نام پر نام رکھتےتھے۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آدمی گھر سے نکلتا تھا اور جو چیز سب سے پہلے اسے نظر آتی، اس کے نام پر نام رکھ دیا جاتا تھا، جیسے: ثَعْلَبْ، ثَعْلَبَۃ، ضَب، کَلب، حِمار، قِرد وغیرہ، یا پہلا پرندہ جو نظر آجائے، اس کے نام پر نام رکھ دیتےتھے، جیسے کہ: غُرَاب، صِرْدْ وغیرہ۔ علامہ ابن دریدؒ فرماتےہیں کہ : عتبی ؒ سے کسی نے کہا کہ یہ عربوں کی کیا عادت ہے کہ اپنے بچوں کے نام نہایت ہی قبیح رکھتے ہیں، جبکہ اپنے غلاموں کے نام اچھے رکھتے ہیں؟ عتبیؒ نے کہا: کیوں کہ انہوں نے اپنے بچوں کے نام اپنے دشمنوں کے لیے، جبکہ غلاموں کے نام اپنے لیے رکھے ہیں۔‘‘(۳)

نام اور تعلیماتِ نبوی

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اچھے نام رکھنے کا حکم فرمایا ہے اور برے ناموں سے منع فرمایا ہے۔ اس حوالے سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کئی ارشاد وواقعات احادیثِ کتب میں مذکور ہیں، چنانچہ شعب بیہقی میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی وَالِدِہٖ اَنْ يُّحْسِنَ اسْمَہٗ۔‘‘(۴)
ترجمہ: ’’باپ پر بچہ کا حق ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔‘‘
ایک اور جگہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں تمہارے ناموں میں سے سب سے پسندیدہ نام ’’عبداللہ‘‘ اور ’’عبدالرحمٰن‘‘ ہیں۔‘‘ (۵)

 ناموں کی تبدیلی

مختلف وجوہات کی بنا پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے نام تبدیل فرمائے ہیں ۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں: ’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قبیح ناموں کو تبدیل فرما دیاکرتے تھے۔‘‘(۶) ایک موقع پر ایک وفد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں آیا، آپ نے سنا کہ ان میں سے ایک شخص (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کو لوگ ابو الحکم کی کنیت سے پکا ررہے ہیں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں بلایا اور فرمایا: اللہ ہی حَکم( انصاف کے ساتھ صحیح فیصلے کرنے والا) ہے اور اسی کی طرف سے ہی تمام فیصلے قرار پاتے ہیں، تو تمہاری کنیت ابو الحکم کیوں ہے؟ تو انہوں نے کہا: میری قوم میں جب بھی کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں، پس میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، تو دونوں فریقین راضی ہوجاتے ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ تو بہت اچھی بات ہے، لیکن کیا آپ کی کوئی اولاد نہیں؟ کہا: میرے تین بیٹے ہیں: شُرَیح، مسلم اور عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ان میں سے بڑا کون ہے؟ کہا: شریح۔ فرمایا: پس اب آپ کی کنیت ابو شریح ہے۔‘‘ (۷) یہاں صحابیِ رسول کا نام ایسا تھا جو صفاتِ باری تعالیٰ میں سے تھا، اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ نام تبدیل فرمایا۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں: پہلے میرا نام بَرۃ تھا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نام تبدیل فرما کر زینب رکھ دیا۔(۸) کیوں کہ اس نام (بَرۃ)میں اپنے نفس کا تزکیہ تھا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی مواقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نام تبدیل فرمائے ہیں، چنانچہ آپ نے عاصیہ (نافرمانی کرنے والی) کو بدل کر جمیلۃ(خوبصورت) (۹)، اَصْرَمْ ( کٹے ہوئے)کو بدل کر زرعۃ(کھیتی) (۱۰)، حَزَنٌ ( غم و پریشانی)کو بدل کر سَہْل (سہولت و نرمی) (۱۱) نام تجویز فرمایا۔ 
ناموں کے علاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف مواقع پر کئی چیزوں کے نام تبدیل فرمائے۔ امام ابو داود ؒ فرماتے ہیں :
’’وَغَیَّرَ النَّبِیُّ ﷺ اسْمَ الْعَاصِ، وَعَزِیزٍ، وَعَتَلَۃَ، وَشَیْطَانٍ، وَالْحَکَمِ، وَغُرَابٍ، وَحُبَابٍ، وَشِہَابٍ، فَسَمَّاہُ ہِشَامًا، وَسَمّٰی حَرْبًا: سَلْمًا، وَسَمّٰی الْمُضْطَجِعَ: الْمُـنْبَعِثَ، وَاَرْضًا تُسَمّٰی عَفِرَۃَ (۱۲) سَمَّاہَا خَضِرَۃَ، وَشِعْبَ الضَّلاَلَۃِ سَمَّاہُ شِعْبَ الْہُدٰی، وَبَنُو الزِّنْیَۃِ سَمَّاہُمْ بَنِی الرِّشْدَۃِ، وَسَمّٰی بَنِيْ مُغْوِیَۃَ: بَنِيْ رِشْدَۃَ۔‘‘ (۱۳)
ترجمہ: ’’اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاص(نافرمانی کرنے والا)، عزیز(غالب/اللہ کی صفت) ، عتلۃ(سختی اور شدت)، شیطان(ابلیس مردود)، حکم(فیصلہ کرنے والا/اللہ کی صفت)، غراب( کوا ، خبیث پرندہ)، حباب (شیطان کا نام) جیسے نام تبدیل فرمائے۔ اسی طرح شہاب(شعلہ، چنگاری) نام تبدیل فرما کر ہشام(فیاضی وسخاوت) رکھا۔ اور حرب (جنگ)کو تبدیل کر کے سلم (صلح وسلامتی) نام رکھا۔ اور مضطجع(لیٹنے والا) کو بدل کر منبعث(اٹھنے والا) رکھا۔ اسی طرح ایک زمین جو عفرۃ(بنجر زمین) کہہ کر پکاری جاتی تھی اس کا نام خضرۃ ( سرسبز و شاداب)رکھا، اور شعب الضلالۃ ( گمراہی کی گھاٹی) کو بدل کر شعب الہدیٰ (رہنمائی کی گھاٹی) رکھا۔ اسی طرح بنو الزِنیۃ(زنا کی اولاد) کو بدل کر بنو الرِّشدۃ (بھلائی والے)کیا۔ اور بنو مُغویۃ (گمراہی والے) کو بدل کر بنو رِشدۃ  کیا۔ ‘‘

ناموں کے متعدی اثرات

نام کا اثر صرف انسان پر ہی نہیں پڑتا، بلکہ خطوں اور زمینوں ، علاقوں اور قبیلوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس کے خاندان، اس کی جائےرہائش ، اس کے ارد گرد کے ماحول سبھی پر پڑتا ہے۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب ؒ اپنے والد سے یہ روایت نقل کرتے ہیں: ان کے والد ( یعنی سعید بن المسیبؒ کے دادا) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے ان کا نام دریافت فرمایا، انہوں نے کہا : میرا نام حَزن (غم و پریشانی) ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو بدل کر فرمایا کہ آپ کا نام حزن کے بجائے سھل(سہولت ونرمی) ہے۔ انہوں نے کہا: جو نام مجھے میرے والد نے دیا ہے‘ اسے میں تبدیل نہیں کر وں گا۔ 
حضرت سعید بن المسیب ؒ فرماتے ہیں: ’’اس نام کا اثر بعد میں مزاج کی سختی کی صورت میں ظاہر ہوا کہ ہمارا مزاج سخت رہا۔‘‘ (۱۴)
اسی طرح ایک موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک اونٹنی کے دودھ دوہنے کا اعلان فرمایا کہ کون اس کا دودھ دوہے گا؟ ایک صحابیؓ کھڑے ہوئے اور کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ کہا: مُرَّۃ ( کڑوا)، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر اعلان فرمایا: کون اس کا دودھ دوہے گا؟ پھر ایک صحابیؓ کھڑے ہوئے اور کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟کہا: حَرْب (جنگ)، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: بیٹھ جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر اعلان فرمایا: کون اس کا دودھ دوہے گا؟ پھر ایک صحابیؓ کھڑے ہوئے اور کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟کہا: یَعِیْش (زندہ رہنے والا)۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: آپ دودھ دوہیں۔(۱۵)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرح اچھے ناموں پر خوش، جبکہ برے ناموں کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ موطا کی ایک روایت میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ امام مالک ؒ روایت نقل کرتے ہیں کہ: 
’’اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِرَجُلٍ: مَا اسْمُکَ؟ فَقَالَ: جَمْرَۃُ۔ قَالَ: ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: ابْنُ شِہَابٍ۔ قَالَ: مِمَّنْ؟ قَالَ: مِنَ الْحُرَقَۃِ۔ قَالَ: اَیْنَ مَسْکَنُکَ؟ قَالَ: بِحَرَّۃِ النَّارِ۔ قَالَ: بِاَیِّہَا؟ قَالَ: بِذَاتِ لَظٰی۔ قَالَ عُمَرُ: اَدْرِکْ اَہْلَکَ فَقَدِ احْتَرَقُوْا۔ قَالَ: فَکَانَ کَمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ۔‘‘ (۱۶)
ترجمہ: ’’حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  نے ایک شخص سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: جمرۃ (آگ کا انگارہ)، آپؓ نے فرمایا : کس کے بیٹے ہو؟ کہا: شہاب (آگ کا شعلہ )کا، آپؓ نے فرمایا : وہ کس کا بیٹا ہے؟ کہا: حرقۃ ( آگ کا جلایا ہوا) کا، آپؓ نے فرمایا : کہاں رہتے ہو؟ کہا: حرۃ النار (آگ کا علاقہ ) میں، آپؓ نے فرمایا: کس وادی میں؟ کہا: ذات لظی(شعلے والی ) میں۔ آپ نے فرمایا : اپنے گھر والوں کی خبر لو، وہ سب جل چکے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : ایسا ہی ہوا، جیسا کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا تھا۔ ‘‘

ناموں سے نیک فالی اور بدفالی

دینِ اسلام کے معلم اعلیٰ نے نام کا تعلق تقدیر سے جوڑا، نہ ہی اچھے برے اعمال کو مطلقاً نام کے تابع قرار دیا، البتہ انسان کی اس اکلوتی پہچان کو عزت اور خوبیِ فکر کا لباس ضرور بخشا، تاکہ کہیں ذم کا پہلو لیے ہوئے نام کی بنا پر سرِعام کسی فرد کی رسوائی نہ ہوجائے۔ تجربہ گواہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صفت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ ہر اچھے اور پسندیدہ نام کو چاہتا ہے۔ آدمی تو آدمی‘ اچھی چیزوں کے ناموں کو بھی یہی تاثیر ملی ہے۔ آم کا تصور کرتے ہی منہ میں ذائقہ بھرنے لگتا ہے، جبکہ کریلے کا تصور ہی انسان کو کڑوا کردیتا ہے۔ 
قرآن وحدیث کی روشنی کے مطلعِ اول ، افضل البشر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی انسان کی اس کیفیت کو جانتے تھے۔ آپ خود بھی اچھے نام سے اچھا تصور لیتے تھے، چنانچہ حضرت بریدہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: 
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی چیز سے فال نہیں لیتے تھے، لیکن جب کسی خاص شخص کو کسی خاص مہم پر روانہ فرماتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، نام اچھا ہوتا تو خوش ہوتے، اور وہ خوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرۂ مبارک پر دیکھی جاتی تھی، اور اگر نام اچھا نہ ہوتا تو ا س کی کراہیت کے آثار چہرۂ مبارک پر نظر آنے لگتے۔‘‘ (۱۷)
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار کی طرف سے مختلف سفیر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پا س آئے، لیکن بات نہ بنی، اتنے میں حضرت سہیل بن عمرو  رضی اللہ عنہ  (جو اَب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) قریش کی طرف سے تشریف لائے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں دیکھ کر فرمایا:’’قَدْ سَہُلَ لَکُمْ مِنْ اَمْرِکُم۔‘‘ (۱۸) یعنی اب تم پر معاملہ آسان ہو گیا۔ اور ایسا ہی ہوا۔

نام اور مقصدیت

انسان کے ہر فعل کے پیچھے کوئی مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ مقصد جتنا عظیم ہو، اس کے لیے اتنی ہی عظیم منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ کسی عمارت کا نقشہ ہمیشہ اس کے مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے، اور پھر اسی مجموعۂ مقاصد کو کسی ایک نام میں سمو کر عمارت کو مجوزہ نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ دیگر مذاہب و اقوام اس معاملے کو کتنا سنجیدہ یا غیر سنجیدہ لیں، یا انہیں اس سلسلے میں رہنمائی کی گئی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر اسلام نے اس معاملہ میں ہماری مکمل رہنمائی کی ہے۔ نام اپنے مسمیٰ کا پرتو ہوتا ہے، جس شخصیت کے نام پر نام رکھا جاتا ہے، اس کے اثرات بچہ پر پڑتے ہیں، اسی لیے خاتم الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بارے میں اُمت کی رہنمائی فرمائی، چنانچہ کہیں فرمایا کہ:
 ’’إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَاَحْسِنُوْا اَسْمَاءَکُمْ۔‘‘(۱۹)
ترجمہ:’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: بے شک تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤگے، لہٰذا تم اچھے نام رکھو۔ ‘‘
ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’تَسَمَّوْا بِاَسْمَاءِ الْأنْبِیَاءِ۔‘‘ (۲۰)
ترجمہ: ’’تم انبیائے کرام ( علیہم السلام ) والے نام رکھا کرو۔ ‘‘

موجودہ نام اور خرابیاں

آج کل لوگوں میں بچوں کے ناموں کے سلسلے میں ایک بیماری پیدا ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ناموں میں بڑی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے تمام بچوں اور بچیوں کے ناموں میں یکسانیت ہو، سب کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ یہ التزام غیر ضروری ہے، بسا اوقات یہ ترتیب بڑی بھونڈی معنویت پیداکردیتی ہے۔ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ نام قرآن مجید میں مذکور ہونا چاہیے، چاہے اس کامعنی کچھ بھی ہو، بلکہ کبھی ایسا نام رکھا جاتا ہے جس کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا، چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے ایک بچی کانام ’’أنْعَمْتَ‘‘ رکھ دیا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سورۃ الفاتحہ میں یہ نام موجود ہے۔ اسی طرح ایک بچہ کا نام ’’ لَنْ تَـنَال‘‘، ایک بچی کانام’’ اَسَاوِر‘‘ (بمعنی کنگن) دیکھا گیا۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔
اس لیے بچوں کے نام بہت سوچ سمجھ کر اہلِ علم سے مشورے کے بعد رکھنے چاہئیں، کیونکہ ناموں اور کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کے درمیان گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ناموں میں غلطیوں کی وجہ سے اور غیروں کی تقلید کی وجہ سے مسلم بچوں کے اخلاق خراب ہو رہے ہیں اور بچے دین سے دور جا رہے ہیں۔ اس کا سب سے بہترین اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ یا بچی پیدا ہو تو اس کو کسی نیک، متبعِ سنت بزرگ کے پاس لے کر جائے، اور اس سے بچے کے حق میں دعائے برکت کی اور نام رکھنے کی درخواست کرے، تاکہ بچہ پر اچھا اثر پڑے۔ 
(واللہ اعلم بالصواب) 

حوالہ جات

۱:تفسیر ابن أبي حاتم: ۱/۸۰، طبع: مکتبۃ عصریۃ 
۲:نام اور القاب، تالیف: مسعود عبدہ، ص:۱۲، مطبوعہ: مشربہ علم و حکمت۔
۳:کتاب الاشتقاق، علامہ ابن دُریدؒ (۳۲۱ھ)، ص: ۵، مطبوعۃ: دار الخیل ، بیروت۔
۴:شعب الإیمان للبیھقي، رقم الحدیث: ۸۶۶۷۔
۵:صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب: النہي عن التکني بأبي القاسم، رقم الحدیث: ۲۱۳۲۔
۶:سنن ترمذي، أبواب الأدب، باب ما جاء في تغییر الأسماء، رقم الحدیث: ۲۸۳۹۔ 
۷:سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في تغییر اسم القبیح، رقم الحدیث: ۴۹۵۵۔
۸:صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تغییر الاسم القبیح إلی حسن، رقم الحدیث: ۲۱۴۲۔ 
۹:سنن أبي داود، کتاب الأدب، رقم الحدیث: ۴۹۵۲۔
۱۰:سنن أبي داود، کتاب الأدب، رقم الحدیث: ۴۹۵۴۔
۱۱:سنن أبي داود، کتاب الأدب، رقم الحدیث: ۴۹۵۶۔
۱۲:ایک روایت میں (عَقِرَۃ) کا لفظ بھی آیا ہے۔
۱۳:سنن أبي داود، کتاب الأدب، رقم الحديث: ۴۹۵۶۔
۱۴:صحیح بخاري، کتاب الأدب، باب اسم الحزن، رقم الحدیث: ۶۱۹۰۔
۱۵:موطأ مالک، کتاب الاستیذان، باب ما یکرہ من الأسماء۔ 
۱۶:موطأ مالک، کتاب الاستیذان، باب ما یکرہ من الأسماء۔
۱۷:سنن أبي داود، کتاب الطب، باب في الطیرۃ، رقم الحدیث: ۳۹۲۰۔ 
۱۸:صحیح البخاري، کتاب الشروط، باب الشروط في الجہاد، رقم الحدیث: ۲۷۳۳۔ 
۱۹:سنن أبي داود، باب في تغییر الأسماء، رقم الحدیث: ۴۹۴۸۔
۲۰:سنن أبي داود، باب في تغییر الأسماء، رقم الحدیث: ۴۹۵۰۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین