بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بنیادی اسلامی احکام اور ان کا شرعی معنی ومصداق!

بنیادی اسلامی احکام اور ان کا شرعی معنی ومصداق!

ایمان وکفر، نفاق والحاد، ارتداد وفسق     جس طرح نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اسلام کے بنیادی احکام وعبادات ہیں اور دینِ اسلام میں ان کے مخصوص معنی اور مصداق متعین ہیں، قرآن وحدیث کی نصوص اور حضرت رسول اللہ a اور صحابۂ کرام s کے تعامل سے ان کی حقیقتیں اور عملی صورتیں واضح ومسلم ہوچکی ہیں اور چودہ سوسال میں امت محمدیہ اور اس کے علماء ومحققین ان کو جس طرح سمجھتے اور عمل کرتے چلے آئے ہیں، اس تواتر وتوارثِ عملی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ان عبادات واحکام اور ان نصوص کی تعبیرات کو ان کے متواتر شرعی معانی سے نکال کرکوئی نئی تعبیر اور نیامصداق قرار دینا یقینا دین سے کھلا ہوا انحراف ہے۔ ٹھیک اسی طرح کفر، نفاق، الحاد، ارتداد اور فسق بھی اسلام کے بنیادی احکام ہیں، دین اسلام میں ان کے بھی مخصوص ومتعین معنی اور مصداق ہیں۔ قرآن کریم اور نبی کریم a نے قطعی طور پر ان کی تعیین وتحدید فرمادی ہے، ان الفاظ کو بھی ان شرعی معانی ومصادیق سے نکالنا کھلا ہوا دین سے انحراف ہوگا اور ان کو ازسر نو محل بحث ونظربنانا اور امت نے چودہ سوسال میں ان کے جو معنی اور مفہوم سمجھے اور جانے ہیں‘ نوبنوتاویلیں کرکے ان سے ہٹانا کھلا ہوا الحاد وزندقہ ہوگا۔     ایمان کا تعلق قلب کے یقین سے ہے اور خاص خاص چیزیں ہیں جن کو باور کرنا اور ماننا ایمان کے لیے ضروری ہے، جو کوئی ان کو نہ مانے قرآن کریم کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں اس کا نام کفر ہے اور وہ شخص کافر ہے۔ جس طرح ترکِ نماز، ترکِ زکوٰۃ، ترکِ روزہ اور ترکِ حج کا نام فسق ہے، بشرطیکہ ان کے فرض ہونے کو مانتا ہو، صرف ان پر عمل نہ کرتا ہو۔ اور اگر انہی تعبیرات، صلاۃ، زکوٰۃ، صوم، حج کو اختیار کرنے کے بعد کوئی شخص ان کو معروف ومتواتر شرعی معنی سے نکال کر غیر شرعی معنی میں استعمال کرے یا ان میں ایسی تاویلیں کرے جو چودہ سو سال کے عرصہ میں کسی بھی عالم دین نے نہ کی ہوں تو اس کا نام قرآن کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں الحاد ہے۔ قرآن کریم نے ان الفاظ: کفر، نفاق، الحاد، ارتداد کو استعمال فرمایاہے اور جب تک روئے زمین پر قرآن کریم موجود رہے گا، یہ الفاظ بھی انہی معانی میں باقی رہیں گے۔     اب یہ علماء امت کا فریضہ ہے کہ وہ امت کو بتلائیں کہ ان کا استعمال کہاں کہاں صحیح ہے اور کہاں کہاں غلط ہے؟! یعنی یہ بتلائیں کہ جس طرح ایک شخص یا فرقہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد مؤمن ہوتا اور مسلمان کہلاتاہے، اسی طرح ان ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے والا شخص یا فرقہ کافر اور اسلام سے خارج ہے، نیز علماء امت کا یہ فرض ہے کہ ان حدود وتفصیلات کو یعنی ایمان کے تقاضوں کو اور ان کفریہ عقائد واعمال وافعال کو متعین کریں، جن کے اختیار کرنے سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، تاکہ نہ کسی مؤمن کو کافر اور اسلام سے خارج کہا جاسکے اور نہ کسی کافر کو مؤمن ومسلمان کہا جاسکے۔ ورنہ اگر کفر وایمان کی حدود اس طرح مشخص ومتعین نہ ہوئیں تو دین اسلام بازیچۂ اطفال بن کررہ جائے گا اور جنت وجہنم افسانے۔     یاد رکھئے! اگر ایمان ایک متعین حقیقت ہے تو کفر بھی ایک متعین حقیقت ہے۔ اگر کفر کے لفظ کو ختم کرنا ہے اور کسی کافر کو بھی کافر نہیں کہنا ہے تو پھر ایمان واسلام کا بھی نام نہ لو اور کسی بھی فرد یا قوم کو نہ مؤمن کہو نہ مسلمان۔ رات کے بغیر دن کو دن نہیں کہہ سکتے، تاریکی کے بغیر روشنی کو روشنی نہیں کہہ سکتے، پھر کفر کے بغیر اسلام کو اسلام کیونکر کہہ سکتے ہو؟ اور پھر یہ کہنا اور فرق کرنا بھی سرے سے غلط ہوگا کہ یہ مسلمانوں کی حکومت ہے اور یہ کافروں کی اور یہ تو اسلامی حکومت ہے اور وہ کفریہ حکومت ہے، پھر تو حکومت سیکولراسٹیٹ یعنی لادینی حکومت ہوگی، غرض کفر اور کافر کا لفظ ختم کرنے کے بعد تو اسلامی حکومت کا دعویٰ ہی بے معنی ہوگا یا پھر یہ لفظ الیکشن جیتنے کے لیے ایک دل کش نعرہ اور حسین فریب ہوگا۔     غرض یہ ہے کہ علماء پر-کچھ بھی ہو- رہتی دنیا تک یہ فریضہ عائد ہے اور رہے گاکہ وہ کافر پر کفر کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور اس میں پوری پوری دیانت داری اور علم وتحقیق سے کام لیں اور ملحد وزندیق پر الحاد وزندقہ کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور جو بھی فرد یا فرقہ قرآن وحدیث کی نصوص وتصریحات کی روسے اسلام سے خارج ہو، اس پر اسلام سے خارج اور دین سے بے تعلق ہونے کا حکم اور فتویٰ لگائیں، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو، قیامت نہ آجائے۔     چونکہ کفر واسلام کے حکم لگانے کا معاملہ بے حد اہم اور انتہائی نازک ہے اور ایک شخص جذبات کی رو میں بھی بہہ سکتا ہے اور فکر ورائے میں غلطی بھی کرسکتا ہے، اس لیے علماء امت کی ایک معتمد علیہ جماعت جب اس کا فیصلہ کرے گی تو وہ فیصلہ یقینا حقیقت پر مبنی اور شک وشبہ سے بالاتر ہوجائے گا۔     بہرحال کافر، فاسق، ملحد، مرتد وغیرہ شرعی احکام واوصاف ہیں اور فرد یا جماعت کے عقائد یا اقوال وافعال پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں پر، اس کے برعکس گالیاں جن کو دی جاتی ہیں ان کی ذاتوں اور شخصیتوں کو دی جاتی ہیں، لہٰذا اگر یہ الفاظ صحیح محل میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ شرعی احکام ہیں، ان کو سب وشتم اور ان احکام کے لگانے کو دشنام طرازی کہنا یا جہالت ہے یابے دینی، ہاں! کوئی شخص غیظ وغضب کی حالت میں یا ازراہِ تعصب وعناد کسی مسلمان کو کافر کہہ دے تو یہ بے شک گالی ہے اور یہ گالی دینے والا خود فاسق ہوگا اور تعزیر کا مستحق اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی واقعی مسلمان کو کافر کہہ دے تو یہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔     علماء حق جب کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں تو درحقیقت ایک کافر کو کافر بتلانے والے اور مسلمانوں کو اس کے کفر سے آگاہ کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ اس کو کافر بنانے والے، کافر تو وہ خود بنتا ہے۔ جب کفریہ عقائد یا اقوال وافعال کا اس نے ارتکاب کیا اور ایمان کے ضروری تقاضوں کو پورا نہیں کیا، وہ باختیارِ خود کافر بن گیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ مولویوں کو کافر بنانے کے سوا اور کیا آتا ہے؟ سراسر جہالت ہے یا بے دینی۔     اگر علماء ایمانی حقائق اور اسلام کی حدود کی حفاظت نہ کرتے تو اسلام کا نام ہی صفحہ ہستی سے کبھی کا مٹ چکا ہوتا، جس طرح کسی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی مملکت کی حدود کی حفاظت کرے اور ان کے تحفظ کے لیے فوجی طاقت اور دفاعی سامانِ جنگ وغیرہ کی تیاری میں ایک لمحہ کے لیے غافل نہ ہو، اسی طرح ایمان، اسلام، اسلامی معاشرہ، مسلمانوں کے دین وایمان کو ملحدوں، افترا پردازوں اور جاہلوں کے حملوں سے محفوظ رکھنا علماء حق اور فقہاء امت کے ذمہ فرض ہے۔     ابھی چند دنوں کا قصہ ہے جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور حکومت ِپاکستان نے جہاد کا اعلان کیا اور پاکستان کی افواج قاہرہ اور عوام نے اس جہاد میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا تو بھارت کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ پاکستان ’’اسلامی حکومت‘‘ نہیں ہے اور یہ لڑائی اسلامی جہاد نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ہندوستان بھی اسی طرح دار الاسلام ہے جس طرح پاکستان۔ اسلامی قانون نہ وہاں نافذ ہے نہ یہاں۔ مسلمان وہاں بھی رہتے ہیں یہاں بھی۔     بھارت کو یہ کہنے کا موقع کیوں ملا؟ صرف اس لیے کہ نہ پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہے اور نہ اسلامی معاشرہ موجود ہے۔ یہ ہماری وہ کمزوریاں ہیں جن سے دشمن نے ایسے نازک موقع پر فائدہ اٹھایا۔ اگر اس ملک کے اندر نبوت کا مدعی اور ختم نبوت کا منکر مرزا غلام احمد قادیانی کی امت (مرزائی فرقہ) بھی مسلمان ہے اور پورے اسلام کے چودہ سوسالہ اسلامی عبادات ومعاملات کے نقشہ کو مٹا ڈالنے والا اور جنت ودوزخ سے صریح انکار کرنے والا غلام احمد پرویز اور اس کی جماعت بھی مسلمان ہے اور اگر قرآن کے منصوص احکام کو عصری تقاضوں کے سانچوں میں ڈھالنے والا، سنت رسول کو ایک تعاملی اصطلاح اور رواجی قانون بتلانے والا، سود کی حرمت سے قرآن کو خاموش بتاکر حلال کرنے والا بھی نہ صرف مسلمان ہے، بلکہ اسلامی تحقیقاتی ادارہ کا سربراہ ہے تو پھر یادرہے کہ محض قرآن کریم کو ’’زردوزی‘‘ کے سنہری حروف میں لکھوانے سے قرآن کی حفاظت قیامت تک نہیں ہوسکتی اور یہ دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے یا پھر عوام کو بے وقوف بنانے کا ہتھکنڈہ ہے۔     ابھی کل تک یہی ملحدین مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ قرآن مجید اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ ریشمی رومالوں میں لپیٹ کراس کو بو سے دیئے جائیں، پیشانی سے لگایاجائے اور سروں پر رکھا جائے، یہ تو مسلمانوں کے لیے ایک عملی قانون ہے، عمل کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ پھر آج اس حقیقت سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے کہ باہمی رضامندی سے زنا کو جرم نہیں قرار دیا جاتا۔ بینکاری سود کو شیرِ مادر کی طرح حلال قرار دے کر خود حکومت سود لے رہی اور دے رہی ہے۔ ریس کورس جیسی مہذب قمار بازی کے، شراب کی درآمد وبرآمد اور خرید وفروخت کے لائسنس دیئے جارہے ہیں، نکاح وطلاق ووراثت کا قانون سب صریح قرآن وسنت کی تصریحات کے خلاف جاری ہے، جرائم اور سزاؤں کا تو کہنا ہی کیا۔ غرض قرآن وسنت کو بالائے طاق رکھ کر قانون سازی کا سلسلہ جاری ہے اور زردوزی کے سنہری حرفوں میں لکھوا کر قرآن عظیم کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ نہایت صبر آزما حقائق ہیں۔ آخر مسلمانوں کو کیا ہوگیا کہ اتنے واضح حقائق کی فہم کی توفیق بھی سلب ہوگئی؟   أللّٰہم اہد قومی فإنہم لایعلمون۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین