بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بلاغاتِ امام مالک ؒ تعارف اور اِسنادی حیثیت


بلاغاتِ امام مالک ؒ

تعارف اور اِسنادی حیثیت


مؤطا امام مالک کا علمی مقام

’’الموطأ‘‘ امام دار الہجرۃ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   (۱۷۹ھ) کی شاہکار تصنیف ہے، جسے بقول علامہ ابن عبد البر مالکیؒ، حضرت امام مالکؒ نے ۴۰ سال میں لکھا ہے۔ (۱) جبکہ حافظ ابو نعیمؒ نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ ۶۰ سال میں تصنیف کی ہے۔ (۲) اس کتاب کے مرتبہ و مقام کے بارے میں حضرت امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے: ’’ما علٰی ظہر الأرض کتاب بعد کتاب اللہ أصح من کتاب مالکؒ۔‘‘ (۳) یعنی ’’روئے زمین پر امام مالکؒ کی کتاب سے زیادہ صحیح روایات پر مشتمل کوئی کتاب نہیں ہے۔‘‘ علامہ سیوطی ؒ نے اپنی کتاب ’’تنویر الحوالک شرح موطأ مالک‘‘ میں لکھا ہے کہ موطا کی مجموعی مرویات کی تعداد ۱۷۲۰ہے، پھر ان میں سے ۶۰۰ مسند، ۲۲۲ مرسل اور ۶۱۳ موقوف روایات ہیں، جب کہ ۲۸۵  اَقوالِ تابعین وغیرہ ہیں۔(۴)

بلاغاتِ امام مالکؒ کا مختصر تعارف

موطا امام مالک سے متعلق عام مباحث سے منفرد بحث ’’بلاغاتِ امام مالکؒ ‘‘ ہے۔ ’’بلاغات‘‘ سے مراد موطا کی وہ روایات ہیں جنہیں حضرت امام مالک ؒ نے سند کے بغیر ’’بلغني‘‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ ’’التمہيد‘‘ میں رقم طراز ہیں: 
’’باب بلاغات مالک و مرسلاتہٖ مما بلغہٗ عن الرجال الثقات وما أرسلہٗ عن نفسہٖ في موطئہٖ ورفعہٗ إلی النبي صلی اللہ عليہ وسلم وذٰلک أحد و ستون حديثا۔‘‘ (۵) 
یعنی ’’وہ روایات جو امام مالک ؒ تک ثقہ لوگوں سے پہنچی ہیں اور وہ جو انہوں نے اپنی طرف سے مرسلاً بیان کی ہیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کرکے مرفوع قرار دی ہیں، اِن جیسی روایات کی تعداد ۶۱ ہے ۔‘‘ 
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’المسوّیٰ شرح الموطا‘‘ میں لکھا ہے: 
’’کان الإمام مالک قرأ کتبا ونسخا لجماعۃ من أہل العلم، فرواہا عنہم بالوجادۃ، وعبر عن ذٰلک مالک بلفظ بلغہٗ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘(۶) 
یعنی ’’امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  نے اہلِ علم کی ایک جماعت کی مختلف کتابیں اور نسخے پڑھے تھے، اور انہیں ان علماء کی طرف سے وجادہ کے طور پر روایت کرتے تھے، اور ان کتب ونسخ کی روایت کو امام موصوف ’’بلغني عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے الفاظ سے ذکر کرتے تھے۔‘‘ 

بلاغاتِ امام مالکؒ کی اسنادی حیثیت 

بلاغاتِ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں امام سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  کا مشہور قول ہے: ’’إذا قال مالک: ’’بلغني‘‘ فہو إسناد قویّ۔‘‘ (۷) یعنی ’’جب امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  ’’بلغني‘‘ کہیں تو وہ قوی سند پوتی ہے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ احناف اور مالکیہ کے نزدیک مرسل روایت بلاشرط قابلِ استدلال ہے اور شوافع کے ہاں مرسل روایت بعض شرائط کے ساتھ قابلِ استدلال ہے، ورنہ نہیں، جبکہ بلاغاتِ امام مالک ؒ، احناف اور مالکیہ کے ہاں مطلقاً قابلِ احتجاج ہیں، اور شوافع کے ہاں بھی قابلِ استدلال ہیں، کیونکہ بلاغاتِ امام مالک کے لیے مسند روایتوں کی شکل میں مؤیّد روایات موجود ہیں۔ (۸) چنانچہ علامہ ابن عبد البر ؒ نے ان تمام بلاغات کی سندیں تلاش کی ہیں، تلاش کے بعد سوائے چار روایات کے سب کے سب کی سندیں انہیں ملی ہیں۔ 
’’تنویر الحوالک‘‘ میں علامہ سیوطی ؒ لکھتے ہیں: 
’’قال ابن عبداللہ: جميع طريق قولہ: بلغني و من قولہٖ: عن الثقۃ عندہٗ مما لم يسندہٗ: أحد وستون حدیثا، کلہا مسندۃ من غير طريق مالک إلا أربعۃ۔‘‘ (۹) 
یعنی ’’امام مالک ؒ    ’’بلغني‘‘ یا ’’عن الثقۃ عندي‘‘ جیسے الفاظ کہہ کر جتنی روایات بلا سند لائے ہیں، ان کی تعداد ۶۱ ہے، اور ان میں سے چار روایات کے علاوہ باقی سب روایتیں، امام مالک ؒ کے علاوہ دیگر سندوں سے ثابت ہیں۔‘‘
بعد ازاں علامہ ابن صلاح  ؒنے ان چار روایات کی اسانید تلاش کیں تو انہیں ان کی سندیں بھی مل گئیں اور ان کے متعلق انہوں نے ایک مستقل رسالہ ’’رسالۃ في وصل البلاغات الأربعۃ في المؤطأ‘‘ کے نام سے تالیف کیا، جو شیخ عبد اللہ بن صدیق الغماری ؒ کی تحقیق اور شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ  ؒ کے اعتناء کے ساتھ دار البشائر الإسلامیۃ بیروت سے شائع ہوچکا ہے۔ 
وہ چار روایتیں درج ذیل ہیں: 
1- قال حدثنا مالک بن أنس أنہ بلغہٗ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إني لا أنسٰی، ولکن اُنسّٰی لأسُنَّ. 
2- قال مالک أنہ بلغہٗ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول: إذا نشأتْ بحریّۃ ثم تشاءمت فتلک عینٌ غدیقۃ. 
3- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أري أعمار الناس قبلہٗ، فتقالّہا أو ماشاء اللہ من ذٰلک، فکأنہٗ تقاصر أعمار أمتہٖ أن لا يبلغوا من العمل الذي بلغ غيرہم في طول العمر، فأعطا اللہ ليلۃ القدر خيراً من ألف شہر. 
4- عن معاذ بن جبلؓ أنہٗ قال: آخر ما أوصاني بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حين جعلت رجلي في الغرز، قال: حسّن خلقک للناس معاذ بن جبل۔‘‘
(۱۰)

خلاصۂ کلام

1- امام مالکؒ کی کتاب موطا، صحیح احادیث کے مجموعات میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔
2- موطا میں ’’بلغني‘‘ (ومایشابہ ذٰلک) کے صیغے سے بلااسناد ذکر کی گئی ۶۱ احادیث کو ’’بلاغاتِ امام مالک ؒ    ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔
3- چونکہ بلاغاتِ امام مالکؒ دوسری سندوں سے ثابت ہیں، اِس لیے جمہور محدثین عظام وفقہاء کرام کے نزدیک قابلِ استدلال اور قابلِ عمل ہیں، محض سند ذکر نہ ہونے کی وجہ سے ان پر جرح کرنا یا ناقابلِ عمل وناقابلِ استدلال ٹھہرانا‘ علومِ حدیث سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

حوالہ جات

۱- الاِستذکار ، ج:۱، ص:۴۹، طبع دار إحياء التراث العربي 
۲- تنویر الحوالک، ص:۳۲، دار الحدیث، قاہرۃ 
۳-أيضاً 

۴- أیضاً
۵- التمہيد، ج:۹، ص: ۲۳۴، دار التراث العربي 
۶-المسویٰ، ج: ۱، ص: ۳۵، دار الکتب العلمیۃ، بیروت 
۷-أوجز المسالک (۱/۱۱۱) طبع شیخ سلطان بن زاھد 
۸- تنویر الحوالک، ص :۳۳ 

۹- أیضاً
۱۰ -رسالۃ في وصل البلاغات الأربعۃ في الموطأ (۱۹۱ تا ۱۹۶)  في ضمن خمس رسائل في علوم الحدیث بتحقيق الشيخ عبد الفتاح أبو غدۃ رحمہ اللہ 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین