بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

برقی تصویر(پہلی قسط)

برقی تصویر      (پہلی قسط)

حرفے چند جان دار کی شبیہ جو برقی آلات جیسے ٹی وی،موبائل وغیرہ پر نظر آتی ہے ،وہ تصویر کی ترقی یافتہ شکل ہونے کی بناء پر حرام ہے یاآئینے کے عکس کی مانند جائزہے ؟یہی اس تحریر کا موضوع ہے۔یہ موضوع چونکہ خاص ہے، اس لئے بحث کے دیگر اطراف وجوانب جیسے تصویر کی تاریخ ، حرمت ِتصویر کی علت، مذاہب فقہاء اور تصویر سے متعلق جزئی مسائل وغیرہ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔اسی طرح جس شبیہ کے نقوش مستقل اور پائیدار ہوں ،خواہ وہ فوٹو گرافک کاغذپر یا عام کاغذ پر پرنٹ ہویا پتھر اور دیوار پر نقش ہویا کسی اور ٹھوس سطح پر ثبت ہو، اس کا تصویر ہوناچونکہ غیر اختلافی ہے، اس لئے وہ بھی ہماری بحث سے خارج ہے۔ جیسا کہ ذکرہو ا کہ اصل موضوعِ بحث برقی شبیہ ہے، مگربحث کا آغاز رؤیت اور روشنی کے اصولوں سے کیا گیا ہے، کیونکہ ایک تو برقی شبیہ اول وآخر روشنی ہے ،دوسرے اس کے حصول وتشکیل کاعام ذریعہ کیمرا ہے اورکیمرے کو سمجھنے کے لئے آنکھ کے اصول کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ کیمرے کی بنیاد آنکھ کی ساخت پر ہے،آنکھ کو رؤیت کے لئے تو کیمرے کو حصول شبیہ کے لئے روشنی کی ضرورت ہے۔اگر اس نقطئہ نگاہ سے مضمون ملاحظہ کیا جائے گا تو اس میں ایک منطقی ربط اور معنوی تسلسل محسوس ہوگا۔ فہم میں سہولت اور ضبط میں آسانی کے لئے گفتگوکو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :پہلا حصہ فنی تجزیہ وتحلیل اور دوسرا حصہ فقہی نقد وتفصیل پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے کی حیثیت مقدمے اور تمہید کی ہے، جس میںزیادہ زور تعارف اور فنی نکات کی تشریح پرہے، مگر اس خیال سے کہ طبیعت کو دلچسپی نتائج سے ہوتی ہے اور مقدمات سے گھبراتی اور تمہیدات سے اُکتاتی ہے،ہربحث کے آخر میں نتیجہ بھی ذکر کردیا گیاہے ۔ جو حضرات فنی مباحث کو پسند ہی نہ کرتے ہوں ،وہ دوسرے حصے سے مضمون کو شروع کرسکتے ہیں۔ مضمون میںکہیںکہیںتکرار بھی محسوس ہوگا،لیکن معمولی تکرار کو مباحث کے تشنہ رہنے پر ترجیح دی گئی ہے۔یوں بھی سیاق وسباق بدل جائے تو تکرار ،تکرار نہیں رہتا ۔ کوشش کی گئی ہے کہ اصل مصادر اور مراجع کو بنیاد بنایا جائے، لیکن جہاں اصل مصادر دستیاب نہ تھے یا استفادے کی نوعیت ضمنی اور تائیدی تھی یا کسی کتاب کے مندرجات مسلمہ حقائق کا روپ دھار چکے ہیں، وہاں ثانوی مآخذ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ آخری گزارش یہ ہے کہ لاریب صرف کتاب اللہ ہے اور معصوم صرف انبیاء کرام علیہم السلام ہیںاور محفوظ ہستیاں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ہیں ،ان کے علاوہ نہ کوئی عصمت کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ کوئی اپنی رائے کو خطا سے پاک قرار دے سکتا ہے ،اس لئے جواہل علم کسی و جہ استدلال کی کمزوری یا کسی اورخامی کی نشاندہی فرمائیں گے، شکریے کے ساتھ اس کی اصلاح کردی جائے گی ۔ حصہ اول:فنی تجزیہ و تحلیل برقی تصویر کی تمثیل ٹی وی وغیرہ پر جو صورتیں نظر آتی ہیں، وہ دراصل روشنی کے چھوٹے چھوٹے نقطے ہوتے ہیں، ان نقطوں کی وضاحت کے لئے ہم اخبار میں شائع شدہ تصویر کی مثال لے سکتے ہیں۔ اگر آپ اخبار میں چھپی کوئی تصویر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ چھوٹے چھوٹے باریک نقطوں سے مل کر بنی ہے ،یہ نقطے کسی جگہ بہت گہرے اور سیاہ ہیں اور کسی جگہ ہلکے اور مبہم ہیں ،تصویر کے روشن حصے میں نقطے بہت باریک ہیں، جب کہ سیاہ حصے میں کافی موٹے ہیں، ا ن ہی سیاہ وسفید نقطوں سے مل کر تصویر بنتی ہے اور یہی تصویر کے اجزاء کہلاتے ہیں ۔ اخبار کی تصویر کی طرح ٹی وی اور موبائل پر ظاہر ہونے والی صورتیں اور شکلیںبھی چھوٹے چھوٹے نقاط کا مجموعہ ہوتی ہیں ،جنہیں(dots (یا(pixels)کہا جاتا ہے ۔ان نقطوں پر جب پیچھے سے روشنی پڑتی ہے تو یہ چمکنے لگتے ہیں اورسب مل کر تصویر کی تشکیل کرتے ہیں۔(۱) یہ صورتیں جو اسکرین پر نمودار ہوتی ہیں،کیمرا اُنہیں کیسے بناتا اور دکھاتا ہے؟یہ سمجھنے کے لئے آنکھ کے طریقہ کا ر کو جاننا ضروری ہے، کیوں کہ کیمرے کی بنیاد آنکھ پر ہے اور ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ کیمرا آج بھی بڑی حد تک آنکھ کے اصولوں پر کام کرتاہے۔ رؤیت کی شرائط: آنکھ دیکھتی ہے ،مگر جب دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں ،کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو آنکھ دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔امام فخر الدین محمد بن عمر الرازیؒ نے ’’الأربعین فی أصول الدین‘‘ میں ان شرطوں کو بیان کیا ہے جن کی موجودگی میں آنکھ دیکھ پاتی ہے اور جن میں سے کسی شرط کی غیر موجودگی میں آنکھ اپنی کار فرمائی سے معذور رہتی ہے۔چنانچہ امام فخر الدینؒ لکھتے ہیں کہ’’ موجودہ دنیا میں کسی شئے کو دیکھنے کی آٹھ شرطیں ہیں :  ’’إن الاشیاء التی یجب حصول الأبصار فی الشاہد عند حصولہا ثمانیۃ: أحدہا :سلامۃ الحاسۃ، وثانیہا: کون الشئ بحیث أن یکون جائز الرؤیۃ، وثالثہا: أن لایکون فی غایۃ البعد، والرابع: أن لایکون فی غایۃ القرب، والخامس: أن یکون مقابلاً للرائی أو فی حکم المقابل، والسادس: أن لایکون فی غایۃ اللطافۃ، والسابع: أن لایکون بین الرائی و المرئی حجاب، والثامن: أن لایکون فی غایۃ الصغر۔ قالوا: عند حصول ہذہ الأمور الثمانیۃ یجب حصول الأبصار،إذ لولم یجب لجاز أن یحصل بحضرتنا جبال عالیۃ… ونحن لانراہا۔‘‘(کتاب الأربعین فی أصول الدین للإمام فخر الملۃ والدین محمد بن عمر الرازیِؒ المتوفی سنۃ ست وستمائۃ من الہجرۃ ، الطبعۃ الأولیٰ المطبوعۃ بمجلس دار المعارف العثمانیۃ، ص:۲۱۲ ۔) ’’۱:…آنکھ کا صحیح وسالم ہونا۔ ۲:…اس چیز کی رؤیت کا ممکن ہونا۔ ۳:…اس کا بہت زیادہ دور نہ ہونا۔ ۴:…اس کا بہت زیادہ قریب نہ ہونا۔ ۵:…اس کا دیکھنے والے کے مقابل یا مقابل کے حکم میں ہونا۔ ۶:…اس کا بہت زیادہ لطیف نہ ہونا۔ ۷:…اس میں اور دیکھنے والے کے درمیان کسی چیز کا حائل نہ ہونا۔ ۸:…اس کا بہت زیادہ چھوٹا نہ ہونا۔ ان شرطوں کی موجودگی میں اس شئے کی رؤیت ضروری ہوجاتی ہے، ورنہ لازم آئے گا کہ ہمارے سامنے اونچے اونچے پہاڑ ہوں اور وہ ہم کو نظر نہ آئیں۔‘‘(۲) ’’امام رازیؒ‘‘ نے رؤیت کے لئے جو شرطیں بیان کی ہیں،وہ اگر چہ اپنی جگہ صحیح اور درست ہیں، مگر تشریح طلب ہیں۔موقع ومحل اور مقام کا تقاضا ہے کہ اُنہیں ذرا کھول کر بیان کیا جائے ،وضاحت کے لئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ سے بہتر اور کوئی شخصیت نہیں ہوسکتی ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دقیق اور پیچیدہ مسائل کو عام فہم اور عوامی انداز میں بیان کرنے کا خصوصی ملکہ عطا کیا ہوا ہے ، ان کی تقریر سے مذکورہ شرائط کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے۔ حضرت کی تقریر اگر چہ طویل ہے، مگر دلچسپ ہے اورمقام کی وضاحت کے لئے ضروری بھی۔آنکھ کے دائرۂ علم کو تنگ اور محدود ثابت کرتے ہوئے حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’آنکھ کا علم اول تو صرف جسمانیات تک محدود ہے ،وہ مادیات کو تو دیکھ سکتی ہے، روحانیات کو نہیں ۔باوجود انتہائی قریب ہونے کے آنکھ نے آج تک اپنی روح کو بھی نہیں دیکھا ،جس سے واضح ہے کہ معنویات اور لطائف کے ادراک سے اُسے کوئی سروکار نہیں ۔آنکھ سے اگر صورت پوچھو تو بتا دے گی ،لیکن اگر اس کی حقیقت اور معنویت پوچھنے لگو تو معذور رہ جائے گی۔ پھر جسمانیات کے دائرے میں بھی اسے ماضی اور مستقبل کے دیکھ لینے سے کوئی واسطہ نہیں۔جو چیزیں جاچکی ہیں یا جو آنے والی ہیں، آنکھ اُن کے دیدار سے محروم ہے، اس لئے اس کا دائرہ عمل صرف حال رہ جاتا ہے۔ پھر جو چیزیں زمانہ حال میں موجود ہیں ،ان کے دیکھنے کے لئے بھی تقابل شرط ہے کہ وہ آنکھ کے سامنے ہوں ، دائیں بائیں یا پس پشت ہوئیں تو آنکھ ادراک سے عاجز رہ جائے گی۔پھرجو چیزیں سامنے ہوں ان کے لئے بھی شرط ہے کہ نہ زیادہ دور ہوں، نہ بہت قریب ہوں، بلکہ معتدل فاصلے پر ہوں۔پھر اس معتدل فاصلے کے لئے بھی شرط ہے کہ بیچ میں کوئی حائل اور حجاب نہ ہو، اگر ذرا سا پردہ بھی بیچ میں آجائے تو آنکھ پھر دیدار سے معذور رہ جاتی ہے۔اور اگر آنکھ بلاحائل ہوکر دیکھے، پھر بھی اس چیز کا سکون میں ہونا شرط ہے، اگر وہ متحرک ہوگی تو نگاہ اس پر جم نہ سکے گی ،اور اگر خواہ مخواہ نگاہ جما دی جائے تو گو دیدار ہو جائے گا، مگر غلط ہوگا ،شئے کچھ سے کچھ دکھائی دینے لگے گی۔‘‘       (خطبات حکیم الاسلام ج:۳، ص:۳۶۹ بتلخیص وتغییر یسیر)  رؤیت کی شرطوں کی اچھی طرح وضاحت ہوچکی ہے ،تاہم ایک ایسی ضروری اور بنیادی شرط کا ذکر ابھی باقی ہے ،جو اصل مقصود ہے اورجس پر آگے کی گفتگو مبنی ہے، اور جسے ذکر کئے بغیر بحث ناقص اور نامکمل رہے گی۔ روشنی کی ضرورت: پیچھے جن آٹھ شرطوںکا بیان ہوا، وہ تمام کی تمام موجود ہوں،مگر روشنی نہ ہو تو آنکھ پھر بھی ادراک سے قاصر رہتی ہے۔ اس شرط کی ضرورت پر زیادہ دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، روزمرہ کا مشاہدہ اور دن رات کا تجربہ اس پر دلیل ہے۔ اندھیرے میں توہم ارد گرد پڑی اشیاء کو، بلکہ اپنے آپ کو بھی دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔یہ کوئی نیاسائنسی انکشاف یا جدید نظریے کی دریافت بھی نہیں ہے،انسان اس ضرورت سے بہت پہلے سے آگاہ ہے۔افلاطون کے ’’نظریۂ امثال ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے نا مور مغربی فلسفی’’ برٹرینڈرسل‘‘ لکھتا ہے: ’’افلاطون واضح عقلی تصور اور مخلوط حسی ادراک کے درمیان فرق واضح کرنے کی کوشش میں حس بصارت سے ایک تمثیل پیش کرتا ہے،وہ کہتا ہے کہ حس بصارت دوسرے حواس سے مختلف ہے ،کیوں کہ اس کے لئے نہ صرف آنکھ اور شئے درکار ہے، بلکہ روشنی بھی ۔ہم ان اشیاء کو واضح طور پر دیکھتے ہیں جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ۔شفق یا دھندلکے میں اشیاء غیر واضح دکھائی دیتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں تو دکھائی ہی نہیں دیتیں ۔‘‘                (فلسفۂ مغرب کی تاریخ ،برٹرینڈ رسل،ص: ۱۷۳) د ل کش اور البیلے اندازِ بیان کے مالک، مولانا مناظر احسن گیلانی ’’الدین القیم ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ابتدامیں، میں نے فلسفیوں کے اس گروہ کا ذکر کیا تھا جو سارے عالم کو چند گنے گنائے اوصاف پر ختم کردیتے ہیں، ان کو نارنگی میں زردی، ترشی، طول وغیرہ چند صفات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ شجر وحجر، قرات وسیارات، شمس وقمر، سب کو صرف رنگ وروشنی کے مختلف مظاہر سمجھتے ہیں، ان کا بیان ہے کہ ان دو صفتوں یعنی’’ رنگ وروشنی ‘‘کو عالم سے سلب کرلو تو پھر آنکھ کے لئے یہاں کچھ بھی نہیں رہتا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رنگ بھی بالآخر روشنی ہی کے چندبھیسوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ‘‘(۳) (الدین القیم، ص:۱۱۲ مکتبہ اسعدیہ کراچی) حواشی ۱:- اخبار میں چھپی تصویر اور برقی تصویر میںچند وجوہ سے فرق معلوم ہوتا ہے:ایک کا مادہ روشنی اور دوسرے کا سیاہی ہے،ایک متحرک اور دوسری ساکت ہے، ایک آناً فاناً تبدیل ہوتی رہتی ہے اور دوسری نقش اور ثبت ہوتی ہے۔یہ تینوں فرق کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ؟آگے ان پرگفتگو ہوگی۔  ۲:-’’الاربعین‘‘ میں امام فخر الدین رازیؒ نے علم کلام کے چالیس مسائل بیان کئے ہیں ،جن میں رؤیت باری کا مسئلہ بھی ہے۔ معتزلہ نے اس مسئلے میں جمہور امت سے کٹ کر الگ راہ اختیار کی ہے۔یہ فرقہ رؤیت باری کا انکار کرتا ہے اور عقلیت پسند ہونے کی وجہ سے اپنے موقف پر عقلی دلائل پیش کرتا ہے۔ امام رازیؒ عقل اور نقل کے جامع ہیں،بلکہ عقلیات کے تو امام ہیں،اس لئے جب کسی مسئلے پر قلم اٹھاتے ہیںتوموافق و مخالف اورعقلی ونقلی دلائل کا ڈھیر لگادیتے ہیں اور ان پر تنقید کرتے جاتے ہیں۔مذکورہ شرطیں معتزلہ کے موقف کی وضاحت میں امام رازیؒ نے ذکر کی ہیں،ہم نے انہیں استدلال میں اس لئے پیش کیا ہے کہ’’ امام رازیؒ‘‘ نے ان کے فی نفسہ درست ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اشکال نہیں کیا ہے، بلکہ رؤیت کے مسئلے میں ان کا غیر متعلق ہونا بیان کیا ہے ۔ ۳:- حاصل یہ ہے کہ روشنی کے ذریعے اور وسیلے سے آنکھ دیکھ پاتی ہے اور یہی روشنی کے متعلق عوامی تصورہے، مگر محققین اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ انسان ‘حقیقت میں روشنی کو ہی دیکھتا ہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی کے حوا لے سے گزر چکا ہے کہ’’روشنی کو عالم سے سلب کرلو تو پھر آنکھ کے لئے یہاں کچھ نہیں بچتا‘‘۔ جبکہ حجۃ الاسلام، قاسم العلوم والخیرات ،مولانا محمد قاسم نانوتویؒ لکھتے ہیں:     ’’یوں تو سا رے اجسام معروض نور ہو تے ہیں اور اسی کے اعتبار سے سب محسوس ہوتے ہیں، اگر وہ نہ ہو تو پھر احساس اشکال اجسام، اور دیدار الوان اجسام کی کو ئی ضرورت نہیں ۔غرض اصل میں نور ہی نظر آتا ہے ،اور اسی کی یہ رنگا رنگی الوان ہو تی ہے۔‘‘(قبلہ نما،ص: ۱۹:مطبع قاسمی دیوبند، سن: ۱۹۲۶)                             (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین