بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

برقی تصویر (تیسری قسط)

برقی تصویر      (تیسری قسط)

فقہی تبصرہ وتفصیل فنی تجزیہ اورتحلیل کرتے وقت کیمرے کے ذریعے منظر کشی کو تین مرحلوںمیں تقسیم کیا گیا تھا: ۱:…شبیہ کی تشکیل(Formation)   ۲:…شبیہ کا ضبط (Persistence)  ۳:…شبیہ کا اظہار (Presentation) ان تینوں مرحلوں کا حاصل یہ تھاکہ روشنی کی کرنیںعکس بناتی ہوئی کیمرے میں داخل ہوتی ہیں، جسے’’ عکس کا حصول‘‘ یا’’ شبیہ کی تشکیل‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں کیمرے کے اندرونی پرزے پر محفوظ کردی جاتی ہیں، جسے’’ عکس کا ضبط‘‘ یا’’ شبیہ کا ریکارڈ کرنا‘‘کہتے ہیں۔جب کہ تیسرے مرحلے میں محفوظ شدہ اوراخذکردہ شبیہ کو کاغذ یا پردے پر ظاہرکردیا جاتا ہے، جسے’’ شبیہ کا اظہار‘‘ یا’’اس کی نمائش‘‘کہتے ہیں۔گو یا’’اخذ شبیہ، ضبط شبیہ اور اظہار شبیہ ‘‘ ان تینوں مراحل سے گزر کر ایک مصنوعی برقی منظر نگاہوں کے سامنے آتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ: ۱۔ جب کیمرے کے ذریعے کوئی منظر لیا جائے تو اسے عکس بندی کہیںگے یا تصویر سازی؟ ۲۔جب اس منظر کو کسی آلے میں محفوظ کرلیا جائے تواس محفوظ موادکو عکس کہیں گے یا تصویر؟ ۳۔اور جب اس ضبط شدہ مواد کوکسی کاغذ یا پردے یا اسکرین پر دکھایا جائے تو اسے عکس نمائی کہیں گے یا تصویر نمائی ؟یہ تین سوالات ہیں اوران کے جواب پر برقی شبیہ کے حکم کامدار ہے کہ وہ تصویر ہے یا نہیں؟ نگاہ نگاہ کے فرق سے۔ ان تینوں سوالات کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتاہے : ۱۔۔۔۔ ایک یہ کہ تینوں مرحلوںمیں سے ہر ہرمرحلے کو انفرادی حیثیت سے دیکھا جائے۔ ۲۔۔۔۔دوسرا یہ کہ تینوں مرحلوں کا مجموعی حیثیت سے جائزہ لیا جائے۔  ہماری یہ بحث اسی وقت جامع اورمکمل کہلائے گی، جب ہم ہر ایک مرحلے پر جزوی اور انفرادی حیثیت کے ساتھ کلی اور مجموعی اعتبار سے بھی نگاہ ڈالیں۔ اس لئے پہلے ہر مرحلے کا انفرادی حیثیت سے جائزہ لیا جاتاہے اور پھر تینوں کا بہ حیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے گا۔ انفرادی جائزہ پہلا مرحلہ:حصول عکس اگر پہلے مرحلے تک نگاہ محدودرکھی جائے اورد رمیانی اورآخری مرحلے کونہ دیکھاجائے توکیمرا آلۂ عکاسی ہے،آ لۂ مصوری نہیں،اور وہ تصویر نہیں بناتابلکہ عکس اتارتاہے۔وجہ اس کی تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے کہ ہر کیمرا روشنی کی مدد سے آغاز میں عکس اتارتاہے اورجب کیمرے نے عکس اتاراتولامحالہ آلۂ عکاسی ٹھہرا۔نتیجہ یہ نکلا کہ عکس لینا،دیکھنااوردکھاناکوئی گناہ نہیںہے توکیمرے کے ذریعے منظرکشی میںبھی کوئی قباحت نہیں۔ دوسرا مرحلہ:عکس کا ضبط دوسرا مرحلہ عکس کے حفظ وضبط کا ہے۔ مختلف کیمرے مختلف طریقوں سے عکس کو محفوظ کرتے ہیں۔ جن کیمروں میں فلم استعمال ہوتی ہے ان میں تو تصویری نقوش کی صورت میں عکس محفوظ ہوتا ہے،جسے تفصیلی پراسس کے بعد انسانی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔اس عکس کے تصویر ہونے میںکسی کااختلاف نہیں ،اس لئے اس پر گفتگو کو طول دینے کی ضروت بھی نہیں ۔ ویڈیو کیمرے میں صرف برقی اشارے ہوتے ہیں، جب کہ ڈیجیٹل کیمرے میںصرف اعداد ہوتے ہیں جودراصل برقی لہریں ہوتی ہیں۔ان اشاروں اور لہروں کو ایسے آلے کے ساتھ ہمرشتہ کر دیاجاتاہے جو انہیں تصویر میں بدلنے کی قدرت اور صلاحیت رکھتاہے،چنانچہ ان ہی کی مدد سے بلکہ ان ہی لہروں سے اصل جیسا منظر تشکیل دیاجاتا ہے، جو اصل کی نقل اورمثنیٰ اوراس کی ہوبہو کاپی ہوتا ہے۔۔گویاماٰل اورانجام کے اعتبار سے یہ لہریںتصویر کاموادہوتی ہیںاورانہیں بایں معنی تصویر کا مادہ کہنا درست ہے کہ جب انہیں ظاہرکیا جائے گا تویہ صرف تصویر کی شکل میںظاہر ہوں گی، مگراس مرحلے میںاور موجودہ حا لت میںانہیں تصویر کہناسمجھ سے بالااور بعید از فہم ہے۔ کیوںکہ عکس جب تک ڈسک یا پٹی پر برقی لہروں اور اشاروںکی صورت میں ہو، اُسے عکس کہنا بھی درست نہیں ہے،چہ جائیکہ اُسے تصویرکہاجائے، مثلاً:حروف سے الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ سے جملے اورجملوںسے مضمون بنتا ہے۔ اب اگر کسی جاندار کے بارے میںایسا مضمون قلم بندکیا جائے ،جس میں اس کے ظاہری رنگ وروپ ،شکل و صورت اور چہرے مہرے کا بیان ہو تو اُسے تحریری منظرکشی کہیں گے ،مگرحقیقی تصویر نہیں کہہ سکتے ہیں،کیونکہ حروف کا مجموعہ مضمون اورمجازی تصویر ہوسکتاہے، مگرحقیقی تصویر نہیں ہوسکتا ہے ۔اسی طرح برقی لہروںاور اعداد کا مجموعہ بھی حقیقی تصویر نہیں ہوسکتا ہے۔زیادہ صاف لفظوںمیںیوںکہا جاسکتا ہے کہ حروف کوتصویر نہیں کہہ سکتے، تو اَعداد اوررموز کو کیسے تصویر کہا جائے گا؟ اس کی ایک واضح دلیل کتب حدیث میں ملتی ہے ۔شمائل میں سرکار دوعالم ا کا ایسا دل آویز نقشہ کھینچا گیا ہے کہ حلیہ مبارک آنکھو ں کے سامنے پھر جاتا ہے، مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مصوری کی ہے ۔اسی طرح ایک قادر الکلام شخص جب کسی واقعے کی منظر کشی کرتا ہے تواپنے زورِبیان سے غائب کو شاہدکردیتا ہے اور اپنے محسوسات کو یوں متشکل کردیتا ہے کہ سامع کے ذہن میں ایک تصویر ابھرکر سامنے آ جاتی ہے ،مگر اسے تصویرسازی نہیں کہتے ۔شاعر اپنے تخیل کی مدد سے پرچھائیوں کو جذبات اور محسوسات کو زبان دے دیتا ہے،مگراُسے صورت گری نہیںکہا جاسکتا۔مصور اگر رنگوں سے تصویر بناتا ہے تو شاعر لفظوںسے، اور شاعر کی بنائی ہوئی تصویر اکثر اوقات مصور کی تصویر سے بازی لے جاتی ہے، مگر الفاظ یا حروف کے ذریعے منظر کشی یا پیکر تراشی کو کوئی بھی حقیقی صورت گری نہیںکہتا ۔  بہرحال اس دوسرے مرحلے میں جو کچھ ان آلات میں موجود ہوتا ہے، اسے بایں معنیٰ عکس یا تصویر کا موادکہہ سکتے ہیں کہ جب اسے ظاہر کیا جائے گا تو وہ صرف عکس یا تصویر ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا ،مگر بحالت موجودہ اُسے حقیقی عکس یا تصویر نہیں کہا جاسکتا ۔(۱) تیسرا مرحلہ:عکس کا اظہار تیسرا مرحلہ منظر نمائی کا ہے۔جو منظر کیمرے نے محفوظ کیا ہے ،چاہے وہ فلم پر ہو یا ڈسک پر،رنگ وروغن کی صورت میں ہو یابرقی کرنو ں اور مقناطیسی اشاروں کی صورت میں،اب اُسے نگاہوں کے سامنے لایاجاتا ہے۔یہی اصل مقصودہوتا ہے اوراس سے پہلے کے تمام مرحلے اسی مقصد کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔اگر یہ تصویر ہے تو پچھلے دو مرحلے تصویر سازی کے ابتدائی اورناگزیر مرحلے ہونے کی بناء پرناجائزہیں اوراگر یہ عکس ہے توپچھلے دونوں مرحلے عکس کے مقدمات ہونے کی بناء پرجائزہیں۔ مجموعی جائزہ اب تک تینوں مرحلوں کاالگ الگ اور انفرادی حیثیت سے جائزہ لیا گیااورہرمرحلے کو مستقل سمجھ کر، علیحدہ جان کراورماقبل ومابعد سے صرفِ نظرکرکے اس پربحث کی گئی۔مگر حق یہ ہے کہ تصویر کی بحث میں کسی ایک مرحلے کوحکم کے لئے مدار بنانا اور اس کے ماقبل اور مابعد کو نظر انداز کردینادرست نہیں ، کیونکہ یہ تینوں مرحلے توصرف فنی اور تشریحی طورپرسامنے آتے ہیں،ورنہ حقیقت میںایک ہی مقصدکے حصول کے تین مرحلے ہیں۔ تینوں سلسلہ وارکڑیاں ہیںجوباہم مربوط اورپیوستہ ہیںاورتینوںکے مجموعے سے کل کی تشکیل ہوتی ہے،مقصود وجودپذیر ہوتاہے اورنتیجے کاحصول ہوتاہے۔ ان تینوں میں فرق اور امتیاز کرنا ایسا ہے جیسے مجسمے کو تو حرام کہا جائے، مگرمجسمہ سازی کے لئے ہتھوڑی سے پتھر پرضرب لگانے کواہمیت نہ دی جائے۔شراب سے نفرت کی جائے، مگراس کی تیاری کے لئے انگور نچوڑنے،پکانے اورچھاننے کے عمل کوغیرسنجیدگی سے لیاجائے۔ مقصد یہ ہے کہ تینوں پرایک کلی اورمجموعی نظرڈالنی چاہئے اورپھر ان تینوںمیں سے اصل مقصود شبیہ کا اظہار، یعنی تیسرا مرحلہ ہے، اس لئے اسی تیسرے مرحلے کو اہمیت اور وقعت دینی چاہئے،کیوںکہ شبیہ کاحصول اورضبط اس کے اظہارہی کے لئے ہے۔اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو توساری مشق سعی لاحاصل اورپورامشینی عمل فضول اوررائیگاں ہے۔ اس موقع پر عقل وفہم اوردانش وبینش کاجوفیصلہ ہے کہ مقصودی مرحلے کوچھوڑکرغیر مقصودی مرحلے پرحکم کی بنیادنہیں رکھنی چاہئے،یہی قواعد ِ شریعت کابھی تقاضا ہے،کیوںکہ شریعت بھی ماٰل اورانجام کودیکھتی ہے۔کوئی فعل جس کاحکم آغاز میںمعلوم نہ ہو،اس کی شرعی نوعیت جا نچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے انجام وماٰل اور نتیجے وثمرے کو ابتداء میں موجود فرض کرلیا جائے،اگر نتیجہ جائز نکلتا ہو تو فعل کا آغازجائز ٹھہرتا ہے اور اگر نتیجہ شریعت کے مخالف نکلتا ہو تو ابتداء بھی ناجائز ٹھہرتی ہے۔ مثلاً: قتل اگر ناجائز ہے تو قتل کی نیت ، قتل کی نیت سے تیاری، ہتھیارکا حصول اور اقدامِ قتل بھی ناجائز ہے ۔’’الأمور بمقاصد ھا‘‘ فقہ کامعروف قاعدہ ہے۔اس قاعدے کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اسکرین پر نمودارہونے والی صورت تصویر ہے تواس مقصد کے لئے عکس لینا اور اسے محفوظ کرنا بھی تصویر سازی ہے،اوراگرتصویرسازی معصیت ہے تو معصیت کا مقدمہ بھی معصیت ہے،اس لئے تصویر سازی کے لئے عکس لینا اور محفوظ کرنا بھی معصیت ہے۔  بت سازجب ہتھوڑی کے ذریعے چھینی پرضرب لگاتا ہے،آرٹسٹ جب کینوس پررنگ بکھیرتا ہے،مصورجب قلم کاغذ پررکھتا ہے تو اسی وقت گناہگارہوجاتا ہے،بلکہ گناہ کی ابتداء سے بھی پہلے جب کوئی شخص گناہ کا پکاعزم اورمصمم ارادہ کر لیتاہے تو قواعد ِ شریعت کے مطابق اس کے کھاتے میں گناہ لکھ دیا جاتا ہے۔ تنقیح مناط :عکس یا تصویر؟ تصویر صاحب ِتصویر کی حکایت ہے،اصل کی نقل وترجمان ہے ،انسانی صنعت کو اس میں دخل ہے، قائم وپائیدار ہے ،فتنے کا باعث ہے، زائد از ضرورت زیب وزینت ہے، پاکیزہ ارواح کے لئے باعث تکلیف ہے، غیر قوموں کے ساتھ مشابہت ہے، خدا کی صفت تخلیق کی نقالی ہے، اورشریعت کو اس سے سخت نفرت ہے۔ان وجوہ کی بناء پرتصویر حرام اور ناجائز ہے۔اس کے برعکس، عکس جائز ہے، کیونکہ:  عکس صاحب ِعکس کے تابع ہے، ذو عکس کی پرچھائیاں ہیں،اصل کی ہو بہو کاپی ہے، عارضی اور ناپائیدار ہے، روشنی سے مرکب ہے، قدرتی اور فطری ہے، لمحہ بہ لمحہ اورلحظہ بہ لحظہ وجود میں آتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے۔ تصویر سے شریعت کو سخت نفرت ہے، جب کہ عکس کا دیکھنا خود صاحبِ شریعت سے ثابت ہے۔اس لئے تصویر کے حرام ہونے اورعکس کے جائز ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اختلاف یہ ہے کہ اسکرین پر جو صورت دیکھنے میں آتی ہے ،وہ کیا ہے؟عکس ہے یا تصویر ہے؟ یا دونوں میں سے کس کے قریب ہے؟اس اختلافی نکتے کوبصیرت کے ساتھ حل کرنے اوراس ضمن میں دئیے جانے والے دلائل کی وضاحت کے لئے شروع میںیہ بحث کی گئی کہ عکس کیا ہے ؟کیسے اتارا جاتا ہے ؟کیسے محفوظ کیاجاتاہے ؟کیسے دکھایا جاتا ہے ؟اور اس ضمن میں کتنے آلات سے مدد لی جاتی ہے؟اوران نئے اور پرانے آلات کا فرق کیا ہے ؟اگریہ مقاصد نہ ہوتے تو ان مباحث کو چھیڑنا سوائے وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہ تھا۔  جواصل اختلافی نکتہ ہے کہ ا سکرین پر ظاہر ہونے والی صورت کیاہے ؟بعض اُسے ٹیکنالوجی کی جدت،تصویر کا تسلسل اوراس کی ترقی یافتہ شکل کہتے ہیں، جبکہ بعض اُسے آئینے کے عکس کے مانند جائز سمجھتے ہیں۔دونوں قول اہل علم کے ہیں اور دونوں کے پسِ پردہ دلائل ہیں۔ جواز کی مرکزی دلیل یہ ہے کہ برقی شبیہ عکس کی طرح ناپائیدار ہوتی ہے۔جب کہ عدم جواز کی مضبوط دلیل یہ ہے کہ تصویر کی طرح صورت محفوظ ہوتی ہے اور عرف میں اسے تصویر سمجھا جاتا ہے۔ دلائل کی یہ جنگ طویل بھی ہے اورشدید بھی۔ ہر فریق اپنی مرضی کامیدان منتخب کرتاہے اورمرضی کامحاذ کھولتاہے اور اپنے موقف کی تقویت کے لئے مختلف دلائل کا سہارا لیتاہے،مگر بنیادی دلائل وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ان کے علاوہ جو دلائل دئیے جاتے ہیں،وہ اس حیثیت سے ضمنی اور ثانوی نوعیت کے ہیں کہ ان سے اصل دلیل کو تقویت پہنچائی جاتی ہے یا اس کا دفاع کیا جاتا ہے یا جانب مخالف کی دلیل پر یااس کے دعویٰ پر اعتراض کیاجاتا ہے۔اور جن دلائل کو مرکزی دلائل سے تعبیر کیاگیا، وہ بھی حقیقت میں دلائل نہیں، بلکہ دعویٰ جات ہیں اوردعویٰ ثبوت کا محتاج ہوتاہے۔ ہمارا مقصود تمام دلائل کا استیعاب نہیں،بلکہ صرف اُن اہم نکات پر گفتگو ہے جو اس موضوع کے تعلق سے زیرِ بحث آتے ہیں اور ان کے بیان میں بھی استیعاب کے بجائے انتخاب کے اصول پر عمل کیا گیا ہے ۔ آگے اُن ہی چیدہ چیدہ نکات کا بیان ہے۔ صنعتِ انسانی ایک پتھرجہاں پڑا ہے وہیں پڑارہے گا،ایک درخت جہاں کھڑا ہے وہیں جمارہے گا، کیوں کہ قانونِ قدرت کے تحت مجبورہے۔اسی لئے پتھروں،درختوں اور پہاڑوں پرفردجرم عائدکرنے کے لئے عدالت کی کرسی نہیں لگائی جاتی،مگر انسان جرم کرتاہے توسزاکامستحق ٹھہرتا ہے، کیوں کہ اختیاراورقدرت رکھتا ہے اوراسی بنا پر اپنے افعال کا ذمہ داراوراپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہوتا ہے ۔اسی قدرت واختیارپرتمام بنیاد قائم ہے۔ اب ذرااس فرق پر غورکیجئے کہ عکس اورتصویرمیںانسان کاعمل ودخل کس قدرہے؟انسان جب آئینے کے سامنے آتا ہے توآئینے کے روبروآنا تو اس کے اختیار میں ہے اورخود آئینہ بھی انسانی صنعت گری کاکمالِ شاہکار ہے، مگر عکس وا انعکاس میں انسان کے ارادے اور اختیار کا دخل نہیں ہے۔ جب بھی عکس کے اسباب جمع ہوںگے،عکس بن کررہے گااورانعکاس ہوکر رہے گا، جیسا کہ جب بھی سورج نکلے گاتوروشنی پھیل کررہے گی اورجہاں بھی کوئی چیز ہوگی تواسے دایاں اور بایاں،فوق اورتحت کی اضافت حاصل ہوکررہے گی۔ دوسری طرف ان برقی آلات کی نمائش گاہوں پر جوصورتیں جلوہ افروز ہوتی ہیں، ان میں انسانی قصد وارادہ اورقدرت واختیارکا بھرپوردخل ہوتا ہے۔اس سلسلے میں ایسی قدآورشخصیت اوربلند پایہ ہستی کا حوالہ مناسب رہے گا،جو عقلائے یونان کی غلطیوں کودرست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورجواگر چاہتے تومنطق یونان کے مقابل ایک نئی منطق کی بنیادرکھ سکتے تھے۔ اگرخیال رازیؒ اورغزالیؒ جیسی ہمہ جہت اورجامع شخصیتوں کی طرف متوجہ ہوتوحرج نہیں،جامع المعقول والمنقول، قاسم العلوم والخیرات،حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ عقلیات میںان بزرگوں سے کچھ کم نہ تھے۔حضرت نانوتویؒ نے عکس اورتصویرمیں یہی فرق بیان کیا ہے،تحریر فرماتے ہیں: ’’اتحاد شکل کی کل دوصورتیں ہیں :ایک تصویرکشی،دوسری انعکاس،سوتصویرکشی تو فعل اختیاری مصورہے اورتصویراس کی سا ختہ وپرداختہ،اورانعکاس ایک اضافت بے اختیاری ہے اور عکس ایک نتیجہ ضروری۔۔۔۔۔تقا بل توکسی قدراختیار میں ہو تا ہے، پھرانعکاس اورعکس دونوں اختیار سے باہر ہیں۔‘‘ (۲)  ایک آئینہ پرکیا موقوف! ۔۔۔۔انسان جب بھی کسی شفاف چیزکے سامنے آئے گا،چاہے وہ صاف پانی ہویا چمکدار پتھر ہویا چمکیلا فرش ہو،اس کا عکس بن کر رہے گا۔اس لئے نفس عکس تو قدرتی اور فطری ہے اوراس کا بننا اختیار سے باہر ہے اور اس سے بچنے کا حکم دینا اصولِ شریعت کے منافی ہے،کیوں کہ شریعت کی عمارت ’’عدمِ حرج ‘‘ کے اصول پر قائم ہے،جب کہ عکس کی ممانعت اورحرمت سخت تنگی کا باعث ہے ۔اس کے بر عکس ان بجلی کے آلات پر جو صورتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں،وہ پوری طرح مصنوعِ انسانی اور اس کی قدرت واختیار میں ہوتی ہیں۔  حضرت نانوتوی ؒنے عکس اور تصویر میں جو فرق بیان کیاہے،لغت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، کیوںکہ تصویر’’باب تفعیل‘‘ کا مصدر ہے اور اس باب کی خاصیت’’جعل وصنعت ‘‘ہے۔ اس لئے تصویر تو’’مصنوع انسانی ‘‘ہوتی ہے اور اس میں انسان کا عمل ودخل ہوتا ہے، مگر نفس عکس انسانی طاقت واختیار سے باہر ہوتا ہے۔ مفتی احمد ممتاز صاحب مد ظلہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ شبیہ کی کل چار قسمیں ہیں: ۱:…سایہ    ۲:…عکس…    ۳:…مجسمہ     ۴:…تصویر آگے لکھتے ہیں کہ پہلی دو غیر اختیاری ہیں، اس لئے جائز ہیںاورآخری دواختیاری ہیں، اس لئے ناجائز ہیں۔ مشہورعرب عالم شیخ ناصر الدین الالبانیؒ کی وہ بحث بھی اس مقام پر مناسب اور برمحل معلوم ہوتی ہے، جو انہوں نے ان لوگوں کی تردید میں فرمائی ہے جوہاتھ سے بنائی ہوئی اور کیمرے سے کھینچی گئی تصویر میں فرق روا رکھتے ہیں۔ملاحظہ کیجئے: ’’وقریب من ھذا تفریق بعضھم بین الرسم بالید وبین التصویرالشمسی یزعم أنہ لیس من عمل الإنسان !ولیس من عملہ فیہ إلا إمساک الظل فقط، کذا زعموا ۔أما ذ لک الجھد الجبار الذی صرفہ المخترع لھذہ الآ لۃ حتی استطاع أن یصور فی لحظۃ ما لا یستطیعہ بدونھا فی ساعات، فلیس من عمل الإنسان عند ھو لاء ۔ و کذالک تو جیہ المصور للآ لۃ و تسد ید ھا نحو الھدف المراد تصویرہ ،و قبیل ذلک تر کیب ما یسمو نہ با لفلم ثم بعد ذالک تحمیضہ و غیر ذالک مما لا أعرفہ، فھذا أیضاً لیس من عمل الإنسان عند أولئک أیضا۔۔۔۔و ثمرۃ التفریق عندھم أ نہ یجوز تعلیق صورۃ رجل مثلاً فی البیت إذا کانت مصورۃً بالتصویر الشمسی ۔ولا یجوز ذالک إذا کانت مصورۃً بالید،  أما أنا فلم أرلہ مثلاً إلا جمود بعض أھل الظا ھر قدیماً مثل قول أحدھم فی حدیث:’’ نھی رسول اﷲ ا عن البول فی الما ء  الراکد ‘‘۔ قال : فالنھی عنہ ھو البول فی الماء مبا شرۃً ،أمالو بال فی إناء ثم أ راقہٗ فی الماء فھذا لیس منھیاعنہ‘‘۔(۳) ترجمہ:۔۔۔۔’’ اس سے ملتی جلتی بات بعض لوگوں کا ہاتھ سے بنائی ہوئی اور عکسی تصویر کے در میان فرق کرنا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ عکسی تصویرکے لینے میں انسان کا عمل و دخل نہیں ہے۔ انسان نے تو صرف سایہ روک دیا ہے،بس اتنا ہی انسان کا عمل و دخل ہے ۔یہ ان لوگوں کا خیال ہے، ورنہ وہ انتھک محنت اور سخت جدوجہد جو موجد نے اس آلے کے ایجاد کرنے پر صرف کی ہے ،اور جس کی بدولت وہ لمحوں میں اتنی تصویریں بناسکتا ہے جتنی گھنٹوں میں بھی اس کے بغیر نہیں بناسکتا، وہ ان کے نزدیک انسانی عمل ودخل نہیں ہے ۔ اسی طرح جس چیز کی تصویر کھینچنی مقصود ہو، اس کی طرف آلے کو درست کرکے لگانا اور اس سے پہلے اس کے اندر فلم لگانا اور پھر اس کی صفائی، دھلائی اور اس کے علاوہ نجانے کتنے کام !یہ سب کے سب کام بھی ایسے ہیں کہ ان کے نزدیک ان میں انسان کے عمل کودخل نہیں۔ ان حضرات کے نزدیک دونوں قسم کی تصاویر میںفرق کایہ نتیجہ نکلے گا کہ کسی انسان کی عکسی تصویر کو لٹکانا ان کے نزدیک جائز ہوگا، لیکن ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر کو لٹکانا جائز نہیں ہوگا ۔ میں نے سوائے بعض قدیم اور خشک اہل ظاہر کے ایسے کوئی لوگ نہیں دیکھے ہیں،جو کہتے ہیں کہ یہ جو حدیث شریف میں ہے کہ:’’ حضور اقدس ا نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔اس حدیث میں براہ راست پانی میں پیشاب کرنے سے ممانعت ہے ،لیکن اگر کوئی شخص کسی برتن میں پیشاب کرے اور اُسے پا نی میں بہادے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ‘‘۔ تصویرکا غیرمرئی ہونا ڈیجیٹل تصویرکے جواز میں یہ دلیل کثرت کے ساتھ پیش کی جا تی ہے کہ ڈیجیٹل کیمرے میں تصویری نقوش کی صورت میں شبیہ محفوظ نہیں ہوتی ہے ۔ ماضی میں جب کبھی ٹی وی یا ویڈیوکیسٹ کے جواز میں یہ نکتہ پیش کیا گیا کہ اس کے کیمرے میں صرف برقی اشارے ہوتے ہیں، جبکہ تصویرغیر مرئی ہوتی ہے، تو حضراتِ اکابر نے اسے ایک غیر معقول اورناقابلِ قبول دلیل کہہ کر مسترد کیا ہے۔قافلۂ شہداء کے سپہ سالار حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ایک سائل کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرا جو تصویریں لیتا ہے، وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں، لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے اور اس کو ٹی وی پر دیکھا اور دکھایا جاتا ہے۔ اس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کی بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ ایجاد کرلیا ہے۔لیکن جب شارع نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے تو تصویر سازی کا طریقہ خواہ کیسا ہی ایجاد کرلیا جائے ،تصویر تو حرام ہی رہے گی۔‘‘(۴) ’’تصویر بہرحال محفوظ ہے‘‘ یہی وہ فیصلہ کن نکتہ ہے جو برقی تصویر کو عکس سے جدا کردیتا ہے۔ آگے جو ارشاد فرمایا کہ ’’اس کوٹی وی پر دیکھا اور دکھایاـجاتا ہے‘‘اس عبارت سے حضرت شہیدِ حق  ؒ نے اپنے دعویٰ کہ’’تصویر بہرحال محفوظ ہے‘‘ کو مدلل کردیا اور اس طرف اشارہ بھی فرمادیا کہ فنی عمل کے نتیجے میں تصویر غیر مشہود ضرور ہے، لیکن ایسا نہیں کہ موجود بھی نہیں۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ نے بھی اس دلیل کومسترد کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’۔۔۔۔صرف اتنی سی بات کو لے کر کہ ویڈیو کے فیتے میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا انکار کردینا کھلا مغالطہ ہے۔‘‘(۵) مزید لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔کتنے ہی لوگ ہیں جو کھپ گئے، دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، مگر ان کی متحرک تصویریں ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کوئی۔۔۔۔ بھی عکس نہیں کہتا۔‘‘(۶) جو لوگ کہتے ہیں کہ ویڈیو کیسٹ میں تصویری نقوش کا مشاہدہ نہیں کیاجاسکتا،اس بناء پر وہ تصویر کی تعریف سے خارج ہیں ۔حضرت مفتی صاحبؒ نے یہی دلیل اُلٹ کر ان کے خلاف استعمال کی ہے اوراسی دلیل سے جواز کے برعکس عدمِ جواز ثابت کیا ہے: ’’۔۔۔۔اگر یہ منطق تسلیم کرلی جائے کہ فیتے میں تصویر محفوظ نہیں، معدوم ہے اور ویڈیو کیسٹ میں محفوظ نقوش ٹی وی اسکرین پر جاکر تصویر بنادیتے ہیں تو اس لاحاصل تقریر سے اصل حکم پر کیا اثر پڑا؟ تصویر محفوظ ماننے کی تقدیر پر ٹی وی صرف تصویر نمائی کا ایک آلہ تھا،اب تصویر سازی کا آلہ بھی قرار پایا کہ صرف تصویر دکھاتا نہیں، بناتا بھی ہے۔اب تو اس کی قباحت دو چند ہوگئی،یک نہ شد دوشد۔‘‘(۷) جس حقیقت کو لدھیانہ کے دونوں بزرگوں نے عام فہم اور عوامی انداز میں سمجھایا ہے، ماہنامہ گلوبل سائنس نے اسے فنی اور تیکنیکی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ایک استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’ویڈیوکیمرے یا ڈیجیٹل کیمرے میں محفوظ کی گئی شبیہ،طبعی یا ظاہری اعتبار سے شبیہ نہیں ہوتی،لیکن معنوی اعتبار سے شبیہ ہوتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب شبیہ کے اظہار کا مرحلہ آئے گا تو وہ شبیہ اسی شکل میں ظاہر ہوگی جسے ابتداء میں محفوظ کیا گیا تھا، نہ کہ کسی اور صورت میں،لہٰذا مخصوص سائنسی اصطلاح میں بھی رموز (کوڈز) میں پوشیدہ اس شبیہ کو شبیہ ہی کہا جائے گا۔‘‘ امریکی عدالت اپیل نے بھی ڈیجیٹل ذریعے میں موجود ڈیٹا کو تصویر قرار دیا ہے: ’’۔۔۔۔ہمارا  فیصلہ ہے کہ غیر ڈیو یلپ شدہ فلم بصری تصویر ہے ۔۔۔۔ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ الزام لگائے جانے والے قانون کی رو سے کمپیوٹر g.i.f files بصری تصویرکی تعریف میں آتی ہیں۔‘‘ انسان میں جہاں اور بہت ساری فطری خصوصیات ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بغیر نظیر اور مثال کے کسی چیز کے ماننے میں اسے سخت دشواری پیش آتی ہے ۔یوں ماننے کے لئے کہا جائے تو جبراً وقہراً آدمی سب کچھ مان سکتا ہے اور مان لیتا ہے، لیکن اطمینان وآشتی کے لئے وہ نمونہ اور مثال ونظیر کا محتاج ہے۔ ماہنامہ ’’بینات‘‘ شوال ۱۴۰۸ ھ کے شمارے میں مولانا کبیر احمد نے مختلف نظائر وامثال کے ذریعے سے مذکورہ دلیل پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں: ’’آیئے! مولانا کا دوسرا اصول بھی دیکھ لیجئے! مولانا نے ان تصویروں کو عکس اور پرچھائیں فرمایا ہے اور دلیل بھی کتنی جاندارکہ:۱:۔۔۔۔’’ وہ نظر نہیں آتیں۔۔۔۔‘‘ لیکن یہ دنیا ئے علم کے لئے ایک افسوس ناک حادثہ ہے کہ اتنا بڑا عالم اتنی چھوٹی اور نیچی باتیں کررہا ہے ۔ کیاکسی چیز کا نہ دکھائی دینا اس کے نہ ہونے کی دلیل ہے؟ ہزاروں چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں،لیکن ان کے وجود کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی نظیریں علوم وفنون کے ہرشعبہ میں ہیں۔شرعیات میں دیکھئے کہ دواعئی زنا یعنی بوس وکنار جو اسباب زنا ہیں، ان پر وہی حکم لگتا ہے جو زنا کا حکم ہے، یعنی رشتہ ٔ مصاہرت ثابت ہوجاتا ہے،جب کہ زنا بالفعل موجود نہیں ہے،لیکن چونکہ بالقوۃ موجود ہے کہ ان اسباب سے جرم زنا کا صدور ہوسکتا ہے، اس لئے ان پر حکم زنا ثابت کیا گیا۔ اسی طرح ٹیلی ویژن، ویڈیو کیسٹ کے فیتہ پر تصویریں اگرچہ بالفعل نظر نہیں آتی ہیں، لیکن بالقوۃ ہر وقت نظر آرہی ہیں،اس طرح کہ جب چاہے بٹن دبایئے اور ساری تصویریں ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ناچنے لگیں، اس لئے بالقوۃ کا حکم وہی ہوگا جو بالفعل کا ہے۔ نحویات میں اس کی مثال لیجئے کہ ضمائر متصلہ جو نظر نہیں آتی ہیں،لیکن تمام اہلِ فن وہاں پر ضمائر کو تسلیم کرتے ہیں اوران کے وجود کو مانتے ہیں۔اسی طرح مفعول مطلق اور مفعول بہ میں بعض مقامات پر افعال بظاہر موجود نہیں ہوتے ہیں،لیکن ان کے انکار کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ ہمارے جسم کی کیفیات: سرور وغم نگاہوں سے مستور ہیں،لیکن ان کے انکار کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا ۔ اعتقادیات کے باب میں خدائے پاک نظروں سے مخفی ہیں،لیکن اس کے باجود اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا،اور سائنسیات کی کتاب الٹا یئے کہ برقی لہریں نظر نہیں آتیں، مگر کوئی ان کے وجود کا انکار نہیںکرتا۔ توآخرکیا مصیبت ہے کہ زندگی اور علوم وفنون کے ہر شعبہ میں تو کسی چیز کو ماننے کے لئے ظاہری مشاہدہ کو شرط نہیں قرار دیا جاتا،لیکن جب ویڈیو کیسٹ کا مسئلہ آتا ہے تو اس میں رؤیت کی شرط لگادی جاتی ہے، جو تمام گوشہ ہائے حیات میں ٹھکرائی جاچکی ہے… اب اربابِ نظر خود فیصلہ کرلیں کہ مولانا کی پیش کردہ دلیل کتنی ایٹمی قوتوں کا مجموعہ ہے؟‘‘(۸) پائیداری اورناپائیداری کی بحث جو چیز عکس کو تصویر سے ممتاز کرتی ہے، وہ عکس کاناپائیدار اور تصویر کاپائیدار ہونا ہے ۔عکس جائز ہے، اس لئے کہ ناپائیدار ہوتاہے اور تصویر ناجائز ہے، اس لئے کہ پائیدار ہوتی ہے۔ یہی وہ فرق ہے جس کو پوری اہمیت اور وضاحت کے ساتھ سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’’تصویر کے شرعی احکام ‘‘میں بیان فرمایا ہے۔حضرت لکھتے ہیں: ’’فوٹو کے آئینہ پر جو کسی انسان کا عکس آیا،اس کوعکس اسی وقت تک کہا جاسکتا ہے جب تک اس کو رنگ وروغن اور مسالہ کے ذریعے قائم اور پائیدار نہ بنادیا جائے،اور جس وقت اس عکس کو قائم اور پائیدار بنادیا، اسی وقت یہ عکس تصویر بن گئی ۔‘‘(۹) مگر قیام وپائیداری سے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی مراد کیا ہے؟علماء کا اس کی تفسیر میں اختلاف ہے۔مذکورہ بالااقتباس میں حضرت مفتی اعظمؒ نے اپنی منشاء کے بیان کے لئے جو الفاظ چنے ہیں، اگر وہی پڑھے جائیں اور جو پڑھا جائے وہی سمجھا جائے توقائم اور پائیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز اپنے محل پر نقش اور ثبت ہوجائے اور اس طرح قرار پکڑ لے جس طرح حرف کاغذ پراوررنگ دیوار پر قرار پکڑ لیتا ہے تو وہ قائم اور پائیدار ہے۔اس تفسیر کی رو سے برقی تصویر حرام تصویر کے ذیل میں نہیں آتی، کیونکہ وہ بایں معنیٰ اپنے محل پر قائم وثابت نہیں ہوتی ہے ۔جو علماء برقی تصویر کو تصویر محرَّم نہیں سمجھتے، وہ پائیداری کے اسی مفہوم کو مد نظر رکھ کر تصویر کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:  ’’جاندا ر کی ایسی شبیہ جو کاغذ ،کپڑے یا دیوار جیسی ٹھوس شئے پر نقش ہو۔‘‘  مگر زیادہ حقیقت پسندانہ اور منصفانہ رویہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرتؒ کے کلام کے کسی ایک حصے کو ان کا یقینی منشا نہ قرار دیا جائے، بلکہ ان کی دیگر عبارات کو بھی دیکھا جائے، کلام کے سیاق وسباق پر نظر رکھی جائے،اورپورے کلام سے جو مجموعی تأثر ابھرتا ہو،اُسے ان کا منشأ اورمقصد قراردیاجائے۔اس طرزِ تعبیر وتشریح سے ایک توکلام‘ تضاداورتناقض سے محفوظ رہتاہے اور دوسرے اہمال اورابطال جیسے ناپسندیدہ طرزِتشریح کا ارتکاب نہیں کرنا پڑتاہے۔  بلاشبہ مذکورہ بالا عبارت کا ظاہری مفہوم وہی ہے جو جواز کے قائل علماء نے اخذ کیا ہے، مگر حضرتؒ کی ایک دوسری عبارت سے ثابت ہوتا ہے کہ عکس وہ ہے جو اپنی اصل کے تابع ہو اور تصویر وہ ہے جو اصل کے تابع نہ ہو، فرماتے ہیں: ’’۔۔۔اور جب اس عکس کو رنگ وروغن کے ذریعہ شیشہ پر مرتسم پائیدار بنادیا تو اب یہی عکس تصویر بن گئی،اس لئے اس کے بعد وہ ذی ظل کے تابع نہیں رہتی، صاحب ظل یہاں سے چلا جاتا ہے، مگر تصویر آئینہ پر قائم رہتی ہے۔‘‘(۱۰) ایک اور مقام پر بھی حضرت نے قائم اور پائیدار کی تشریح ’’اصل کے تابع نہ ہونے‘‘ سے کی ہے، ارشاد فرماتے ہیںکہ: ’’واقعہ یہ کہ ظل اور سایہ قائم و پائیدار نہیں ہوتا، بلکہ صاحب ظل کے تابع ہوتا ہے ،جب تک وہ آئینہ کے مقابل کھڑا ہے تو یہ ظل بھی کھڑا ہے ،جب وہ یہاں سے الگ ہوا تو یہ ظل بھی غائب اور فنا ہوگیا۔۔۔‘‘(۱۱) ان عبارا ت سے صاف ظاہرہوتاہے کہ حضرت کے کلام میں رنگ وروغن کا ذکر ایک امر واقع کے طور پرہے اورپائیداری سے حضرتؒ کی مراد یہ ہے کہ اصل کے تابع نہ ہو، شیخ الحدیث مفتی سید نجم الحسن امروہی مد ظلہ کے بقول:  ’’رنگ وروغن اور مسالے کی قید احترازی نہیں، بلکہ اتفاقی ہے… حضرتؒ کی یہ قید اتفاقی ہے بیاناً للواقع، نہ کہ احترازی۔‘‘(۱۲) اور اگر قیام اور پائیداری سے وہی مراد ہو جو جواز کے قائل علماء بیان کرتے ہیںکہ تصویر اپنے محل پر قرار پکڑ لے تو برقی تصویر بایں معنی بھی قائم اورپائیدار ہیں، تاہم اس کاقرارواستقرار اوراس کی پائیداری اس کی نوعیت کے مطابق ہے۔آگے آئے گا کہ ہر چیز کی پائیداری و ناپائیداری اس کی مخصوص نوعیت کے مطابق ہوتی ہے ۔ہر علم وفن میں اس کے نظائر مل جاتے ہیں، مثلاً: فقہ کا قاعدہ ہے کہ ہر چیز کا قبضہ اس کی مخصوص نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔فقہاء کہتے ہیں:’’قبض کل شیء بمایناسبہ‘‘بعض چیزوں کو ہم ہاتھ میںلے سکتے ہیں ،بعض کو جیب میں ڈال سکتے ہیں،مگر زمین ،مکان ،جہاز، وغیرہ کے ساتھ یہ عمل نہیں ہوسکتا۔ایسی صورتوں میں قبضہ ان اشیاء کی نوعیت کے مطابق حکمی اور تعبیری ہوگا۔ مکان کی کنجی حوالے کردی تو سمجھا جائے گا کہ مکان کا قبضہ دے دیا گیا۔ حروف معانی کاقاعدہ ہے کہ’’ فائ‘‘ تعقیب کے لئے ہے، مگر ہر چیز کی تعقیب اس کی مناسبت سے ہوتی ہے۔ شیخ جمال الدین بن ہشام الانصاریؒ جنہیں ابن خلدون نے ’’أنحیٰ من سیبویہ‘‘کہا ہے،انہوں نے ’’مغنی اللبیب‘‘میں اس کی کئی مثالیں دی ہیں،ان نظائر پر قیاس کرتے ہوئے روشنی کے لئے بھی اس کی نوعیت کے مطابق قرار کی شرط لگانی چاہئے۔روشنی لطیف کرنیں ہیںاور کرنیں چمک سکتی ہیں، مگر رنگ کی طرح چپک نہیں سکتی ہیں ۔اس لئے روشنی میں قرار وثبات کی شرط لگانا اس میں رنگ کے خواص ڈھونڈنا ہیں۔ علاوہ ازیں جس عہد میں حضرت مفتی صاحبؒ نے مذکورہ تحریر لکھی تھی، اس کے احوال بھی حضرت مفتی صاحبؒ کا منشا سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔حضرت کا رسالہ جیسا کہ معلوم ہے حضرت سید سلیمان ندویؒکے جواب میں تھا ،حضرت سید صاحبؒ نے فوٹومیں پائیداری کی شرط کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا، ان کی عبارت ہے: ’’فوٹو گرافی در حقیقت عکاسی ہے ۔جس طرح آئینہ ،پانی اور دیگر شفاف چیزوں پر صورت کا عکس اتر آتا ہے اورا س کو کوئی گناہ نہیں سمجھتا ،اسی طرح فوٹو کے شیشہ پر مقبل صورت کا عکس اترتا ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ آئینہ وغیرہ کا عکس پائیدار اور قائم نہیں رہتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگاکر قائم کرلیا جاتا ہے، ورنہ فوٹو گرافر مصور کی طرح اعضاء کی تخلیق وتکوین نہیں کرتا ۔‘‘(۱۳) حضرت مفتی صاحبؒ کے پیش نظر عکس اور فوٹو کے مابین فرق بیان کرنا تھا اور اس زمانے میںٹیکنالوجی بس اس حد تک تھی کہ صرف رنگ وروغن کے ذریعہ ہی تصویر کو پائیدار بنایا جاسکتا تھا،مگر اب جب کہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے تصویر کو رموزو اشارات کی صورت میں بھی محفوظ کرنا ممکن ہوگیا ہے، تو اسے بھی تصویر کہنا چاہئے ۔ خود حضرت مفتی صاحبؒ بھی تصویر کے لئے اپنے محل پر چھپ جانے کی شرط کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اس خیا ل کی تائید حضرتؒ کے اس فتوی سے ہوتی ہے، جس میں انہوں نے سینما کی تصویر کو بھی تصویرمحرم قرار دیا ہے، حالانکہ سینما کے پردے پر صرف روشنیا ں پڑتی ہیں اور اس پر اس طرح نہیں چھپتیں جس طرح حروف کاغذ پر چھپ جاتے ہیں: ’’اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سینما کا دیکھنا اگر دوسری خرابیوں سے قطع نظر بھی کی جائے تو اس کی ممانعت کے لئے صرف یہ کافی ہے کہ اس میں تصاویر دکھلائی جاتی ہیں ۔‘‘(۱۴) اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ملک میںٹی وی کی آمدہوچکی تھی ،جس کے بعد ایک مدتِ مدید تک حضرت مفتی اعظمؒ حیات رہے ہیں،مگر اس عرصے کاکوئی ایسا فتویٰ نظر سے نہیں گزرا،جس میں انہوں نے ٹی وی کی تصویرکو ناپائیدار ذرات کی وجہ سے تصویر کی تعریف سے خارج قرار دیا ہو۔یہ منطقی نقض اس موقع پر واردکرنادرست ہوگاکہ عدم کودلیل بنانادرست نہیں،یعنی اگر جوازکافتویٰ حضرت سے منقول نہیں توعدم جوازبھی ان سے ثابت نہیں۔مگر سینما کے بارے میں حضرت مفتی اعظمؒ کاجو فتویٰ اوپر منقول ہوا،اس سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ حضرتؒ کے نزدیک ٹی وی کی تصویر بھی حرام تصویر ہی تھی،کیونکہ سینما کی تصویر ٹی وی کی تصویر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ناپائیدارہے۔ ان حقائق کے باوجود اگر قراروثبات کی شرط کوئی منصوصی شرط ہوتی تو اس پر اصرار نہ صرف درست اورمناسب تھا،بلکہ ازروئے شرع لازم اورضروری تھا،مگر نصوص میں ایسی کسی شرط کاذکر نہیں ہے۔ احادیث مطلق ہیں، جن میں بغیر کسی قید کے تصویر کی حرمت وارد ہے۔محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ لکھتے ہیں:  ’’حدیث نبوی میں تصویر سازی پرجو وعید شدید آئی ہے، وہ ہرجاندارکی تصویر میں جاری ہے ۔۔۔۔‘‘(۱۵) فقہاء کا کلام بھی عام ہے، جس میں پائیدارو ناپائیدار کی تخصیص نہیں اور لغت کی دلالت برقی منظر کو بھی شامل ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عرف میں بھی اُسے تصویر سمجھاجاتا ہے۔لغت اور عرف کی بحث مضمون کے آخر میں آئے گی۔ ’’والحق أنہ لا ینبغی تکلف أی فرق بین أنواع التصویر المختلفۃ حیطۃً فی الأمر ونظراً لإطلاق لفظ الحدیث‘‘(۱۶) ترجمہ :’’حق بات یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ مطلق ہونے پر نظر کرتے ہوئے اور حکم کو جامع بنانے کے لئے تصویر کی مختلف اقسام کے درمیان فرق کا تکلف کرنا مناسب نہیں ‘‘۔ حواشی و حوالہ جات (۱)اس بحث سے ان آلات کاحکم بھی واضح ہوجاتاہے جویادرکھنے اورمحفوظ کرنے کے کام آتے ہیں اورجن میں عارضی یامستقل طور پر ڈیٹا کو محفوظ کیاجاتاہے، جیسے سی ڈی(Cd)، ریم(Ram)، وی سی ڈی(vcd)، ڈی وی ڈی(dvd)، فلاپی ڈسک(Floppy Disk) اور ہارڈڈسک(Hard Disk) وغیرہ۔  غورکرنے سے ڈیٹا محفوظ کرنے والے یہ آلات چندقسم کے معلوم ہوتے ہیں:بعض وہ آلات ہیںجوعارضی طور پر ڈیٹا کو محفوظ کرتے ہیں، جیسے: ریم وغیرہ۔جب تک کمپیوٹر کو بجلی کی فراہمی بحال ہے اورکمپیوٹرچل رہاہے،ریم میںڈیٹامحفوظ رہتاہے اوراگر بجلی منقطع ہوجائے یاغلطی سے کمپیوٹر بندکردیاجائے توریم میں موجودساراکاساراڈیٹاضائع ہوجاتاہے،اسی لئے ڈیٹا بار بار محفوظ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے،اورجب ہم ڈیٹا(save)کرتے ہیں تو اس کا مطلب ریم سے ہارڈ ڈسک میں ڈیٹا کی منتقلی ہوتاہے، تاکہ وہ محفوظ رہے ۔کچھ وہ آلات ہیں جن میں مستقل طور پر ڈیٹا محفوظ رہتا ہے، جیسے: ہارڈ ڈسک اور فلاپی ڈسک وغیرہ۔پھران ڈیٹا محفوظ کنندہ آلات میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن میں ڈیٹاپتھرپرلکیرکے مانندہوتا ہے، مثلاً: ریڈ ایبل سی ڈی ، وغیرہ ۔سی ڈی کے برعکس فلاپی ڈسک اورہارڈ ڈسک میں مقناطیسی خواص کی بدولت ڈیٹا بدلا جاسکتا ہے،گویا یہ قسم ان پرزہ جات کی ہے، جن میں تبدیلی ممکن ہے۔’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ یہ مصرعہ زمانہ حال میں ٹیکنالوجی پر خوب صادق آتاہے ۔اب سی ڈی میں بھی ڈیٹا کی تبدیلی ممکن ہوچلی ہے۔بہرحال ان آلات میں جو کچھ بھرا جاتا ہے، اُسے بعد ازاں کمپیوٹر اسکرین، ایل سی ڈی، یاہائی ایف ٹی کے پردے پردیکھاجاسکتاہے۔ سی ڈی وغیرہ آلات کاشرعی حکم وہی ہے جوایک خالی آڈیوکیسٹ کاہوتاہے۔آڈیو کیسٹ کاحکم اس کے موادکے تابع ہوتاہے۔ تلاوت، نعتیں، نظمیں،تقریریںوغیرہ اس میں بھرنا جائز ہے اورایسی کیسٹ کی خریدوفروخت بھی جائزہوتی ہے اوراگراس میںناجائزموادبھرا جائے، مثلاً:گانے وغیرہ تو بھرائی کایہ عمل بھی ناجائز اوراس کا خریدنابیچنابھی ناجائزہوتاہے۔یہی حکم سی ڈی،ڈی وی ڈی، وغیرہ کابھی ہے،البتہ اگرسی ڈی،ڈی وی ڈی، وغیرہ میںعلاوہ جان دار کی شکلوں اورصورتوںکے، کوئی اورشرعی محظورنہ ہوتواس کاحکم کیاہوگا؟جواب کامداران شکلوں اورصورتوں کے تصویرہونے یانہ ہونے پرہے اورہماری اس کاوش کامقصد اسی کاتعین کرناہے۔ جس سی ڈی میں تصویریں ہوں، وہ اگرسامنے ہو تونمازبلاکراہت جائزرہے گی، کیوںکہ بحالت موجودہ اس میں عکس یا تصویرکا مواد ہے،حقیقی عکس یا تصویر نہیں اور اگر تصویر فرض کرلی جائے توفقہ کا مسئلہ ہے کہ تصویراگر مستورہو، یعنی تھیلی میں یا جیب میں ہویاکپڑے میںلپٹی ہوئی ہو یامٹی سے لیپ دی گئی ہو تواس کے سامنے یا اس کے ساتھ نمازبغیر کراہت جائزہوتی ہے۔ جواہل علم سی ڈی کا مواد اسکرین پر ظاہر ہونے کے بعد بھی اس کے تصویر ہونے کے قائل نہیں،ان کی رائے پرتوکوئی سوال ہی پیدانہیںہوتا۔ ’’(۲۸۴۵)وان طینت رء وس التماثیل بالطین حتی محاھا الطین فلم تستبن فلابأس بذالک(۲۸۴۶) وکذالک لو کان التماثیل فی بیت فأذھبت وجوھھا بالطین أو الجص فإن الکراھۃ تزول بہ وإن کان بحیث لو شاء صاحبھا نزع الطین‘‘۔ (شرح السیر الکبیر،ص:۱۴۶۴، ۱۴۶۳، باب مایکرہ فی دارالحرب ومالایکرہ ، ط: المکتب للحرکۃ الثوریۃ الإسلامیۃ ، افغانستان) ترجمہ:…’’اگر تصویروں کے سروں کومٹی سے اس طرح لیپ دیاجائے کہ مٹی اُنہیں مٹادے اوروہ واضح نہ ہوںتو (ایسی تصاویر کے استعمال میں)کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح کسی گھر میں تصاویر ہوں اورمٹی یا چونے سے ان کی شکلیںمٹادی جائیں تو اس طرح کرنے سے کراہت زائل ہوجائے گی ،اگرچہ ان کواس طرح لیپا گیا ہو کہ مالک چاہے تو مٹی ان سے ہٹادے‘‘۔ ’’لاتکرہ أمامہ من فی یدہ تصاویر لأنھا مستورۃبالثیاب لاتستبین فصارت کصورۃ نقش خاتم۔اھ۔ومفادہ کراھۃ المستبین لاالمستتربکیس أو صرۃأو ثوب آخر(قولہ:أو ثوب آخر)بأن کان فوق الثوب الذی فیہ صورۃ ثوب ساتر لہ فلا تکرہ الصلٰوۃ فیہ لاستتارھابالثوب‘‘۔( رد المحتار،کتاب الصلوۃ،باب مکروھات الصلوۃ،۱؍۶۴۸،ط:سعید) (۲)قبلہ نما،ص :۳۳،مطبع قاسمی دیوبند،سن: ۱۹۲۶ئ۔ (۳)آداب الزفاف للألبانی، بحوالہ تکملہ فتح الملہم ، کتاب اللباس والزینۃ،،حکم الصور الشمسیۃ،ص:۹۷، ج:۴، ط: دارالقلم، دمشق۔ (۴)آپ کے مسائل اور ان کا حل،فلم دیکھنا،ج:۸،ص:۴۴۲،۴۴۱،ط:مکتبۂ لدھیانوی۔ (۵)احسن الفتاویٰ،کتاب الحظر والاباحۃ، رسائل،ٹی وی کازہر ٹی بی سے مہلک تر،ج:۸،ص:۳۰۲،ط:سعید۔ (۶)ایضاً،کتاب الحظر والاباحۃ،رسائل،ٹی کا زہر ٹی بی سے مہلک تر،ج:۸،ص:۳۰۲،ط:سعید۔ (۷)ایضاً۔ (۸) ماہنامہ’’بینات‘‘شوال المکرم ۱۴۰۸ھ بمطابق جون ۱۹۸۸ء ،جلد:۵۰،شمارہ:۱۰۔ (۹) تصویر کے شرعی احکام، ص:۶۰، ادارۃ المعارف، کراچی ۔ (۱۰)ایضاً۔ (۱۱)حوالہ بالا،ص:۵۹۔ (۱۲)ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کی حرمت پر مفصل مدلل فتویٰ، تالیف:مفتی نجم الحسن امروہی،ص:۱۰۶،۱۴۴،ط: جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن۔ (۱۳)مجسمہ اور تصویر کے متعلق اسلام کا شرعی حکم، معارف اعظم گڑھ، اکتوبر۱۹۱۹ء بمطابق محرم الحرام ۱۳۳۸ھ جلد:۴،شمارہ:۴۔ (۱۴)تصویر کے شرعی احکام ،ص:۹۰،ادارۃ المعارف، کراچی۔ (۱۵)ماہنامہ ’’بینات‘‘ شعبان ۱۳۸۸ھ ، جلد:۱۳،شمارہ:۲۔ (۱۶)فقہ السیرۃ،ص: ۳۸۰،شیخ محمد سعید رمضان البوطی رحمۃ اﷲ علیہ،بحوالہ تکملہ فتح الملہم ، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم تصویر الحیوان الخ، حکم الصور الشمسیۃ،ص:۹۷،ج:۴،ط:دارالقلم،دمشق۔ (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین