بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

برادرِ عزیز شکیل احمدؒ   کا سانحۂ ارتحال!

برادرِ عزیز شکیل احمدؒ   کا سانحۂ ارتحال!


کسی بھی غیر متوقع حادثے یا مصیبت اور پریشانی کے وقت مسلمانوں کے درمیان درج ذیل جملوں کا تبادلہ ہوا کرتا ہے:قدر اللّٰہ ماشاء، ماشاء اللّٰہ یکن ومالم یشأ لم یکن ، إن للّٰہ ما أعطی ولہٗ ما أخذ ، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ پہلے دو جملے تقدیرِ الٰہی کی اثر اندازی اور اس پر ایمان سے متعلق ہیں، جبکہ دوسرے دو جملے چھننے والی کسی نعمت بالخصوص جانی فقدان کے موقع پر دُہرائے جاتے ہیں، جو درحقیقت وہ درسِ فنا ہے جو ناقابلِ انکار حقیقت ہونے کے باوجود عقل مند انسانوں کے ہاں فراموش رہتا ہے۔ انسانوں کے درمیان موت کا ہروار اس درسِ فناء کی تذکیر اور زندہ انسانوں کو بقیہ زندگی کے سنوارنے اور دارِ آخرت کی تیاری کی تلقین کررہا ہوتا ہے: ’’خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔‘‘
۳؍جنوری ۲۰۲۰ء کی دوپہر کو تذکیر بالموت کا ایک جانکاہ جھونکا ہمارے گھر سے بھی گزرا، میرے برادرِ صغیر عزیزم شکیل احمد  رحمۃ اللہ علیہ  گھر کے قریب ایک معمول کے راستے سے گزرتے ہوئے گرگئے اور لڑھکتے ہوئے ایک سنگلاخ کھائی میں تیز نوکیلے پتھروں سے جا ٹکرائے، جہاں ان کے سر میں گہری چوٹیں آئیں۔ طبی رپورٹوں کے مطابق برادرِ عزیز‘ اچانک دماغی فالج کا حملہ ہونے پر بے ہوش ہوکر ایسے گرے ہیں کہ وہ سنبھل نہیں سکے اور ڈھلوان کی طرف سر کے بل لڑھکتے ہوئے کھائی تک پہنچے ہیں، جہاں ان کا سر دھاری دار پتھروں سے ٹکڑا کر زخمی ہوا ہے۔ بہرحال گر کر زخمی ہوئے یا بے ہوش کر گرے یہ حادثہ ’’أجل مسمی‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور انہیں سخت موسم اور دشوار راستوں سے گزارتے ہوئے A-M-I ایوب میڈیکل انسٹیٹیوٹ ایبٹ آباد پہنچایاگیا۔ سانحے کی اطلاع ملتے ہی مختلف علماء کرام اور ملی زعماء نے بروقت اور مناسب علاج کے لیے اپنا اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا اور اپنے وسائل ووسائط بروئے کار لانے کے لیے ہمارے خاندان سے بڑھ کر کوششیں فرمائیں اور ہفتہ بھر یہی سلسلہ جاری رہا۔ مختلف علاقوں، شہروں، بلکہ ملکوں میں اس خوش قسمت بھائی کے لیے خوب خوب دعائیں بھی ہوئیں، مگر ہماری ہر تدبیر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے عاجز ہی رہی، ہماری ہر دواء ودعاء بظاہر بے اثر ثابت ہوئی، شکیل احمد کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی اور وہ بدستور بے ہوشی میں ہی مقدر ساعتیں پوری کرتے رہے اور ۱۱؍جنوری ۲۰۲۰ء تقریباً ۵۰:۱۲ پر ہمارا چہیتا اور ہر دلعزیز بھائی شکیل احمد اس جہانِ فانی سے جہانِ باقی کا راہ رو بن گیا۔
عزیزم شکیل احمد رحمہ اللہ کی جتنی زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر تھی، وہ اسے پوری کرکے چلے گئے، مگر ان کی زندگی اور موت کے کئی پہلو خوش بختی سے عبارت اور رشک کا قرینہ ثابت ہوئے، ان کی زندگی خاندان، علاقے اور متعلقین کے لیے بھائی چارے، مواسات اور ضرورت مند کی معاونت سے عبارت تھی۔ غیرت وحمیت اور جرأت ودلیری ان کا نمایاں وصف تھا، اس وصفِ کمال کے متعدد واقعات زبان زد خاص وعام ہیں، یہاں ان واقعات کے بیان سے زیادہ یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ یہ اوصاف ایمانی رسوخ کا نتیجہ بھی ہواکرتے ہیں اور بندۂ مومن میں یہ اوصاف مطلوب بھی ہوا کرتے ہیں ۔
برادرِ خورد ٹیلرنگ (خیاطی) کا کام کرتے تھے اور الحمد للہ! اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنا اچھا اور مناسب روزگار اختیار کیے ہوئے تھے، حدیث شریف کی رو سے انسان کا اپنے گھر میں یا گھر کے قریب اپنی ضروریات کا پالینا بھی خوش بختی کی علامت ہے، پھر آپ کا روزگار‘ تنگدستوں، ضرورت مندوں اور بے کسوں کے کام بھی آتا تھا اور دن رات میں کوئی بھی ضرورت مند آپ سے رجوع کرتا تو اس کی ضرورت حسبِ استطاعت پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جس انسان کی کمائی دوسرے انسانوں کی منفعت اور ضرورت میں استعمال ہو وہ یقینا ’’خیر الناس‘‘ (بہترین انسان) بلکہ قابلِ رشک انسان ہے۔
گاؤں دیہات کی زندگی میں کوئی بھی سخت جان کام ہوتا تو برادرِ عزیز اپنی جوانی، طاقت اور صحت مندی کے صدقے کے طور پر ہر کس وناکس کے کام آتے تھے، حالانکہ ہمارے گاؤں کے لوگ ہمارے خاندان کے حق میں اتنے اچھے چلے آرہے ہیں کہ از راہِ احترام وہ ہمارے کام کاج بڑے خلوص سے کرتے ہیں، ہم سے ہمارے یا اپنے کام نہیں کرواتے، مگر برادرِ عزیز اپنے گاؤں کے ضرورت مند اور بے کس لوگوں کے لیے ’’تحمل الکل‘‘ (بوجھ بردار) کی سنت پر عمل پیرا رہتے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب عزیزم شکیل احمد مرحوم کا زخمی ہونے کا حادثہ پیش آیا تو گاؤں اور قرب وجوار کے چھوٹے بڑے، مرد وخواتین میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو تیمار داری کے لیے حاضر نہ ہوا ہو۔ یہ شکیل احمد کی زندگی کا وہ زندہ کردار ہے جو اس کی جدائی کے باوجود تادیر زندہ وقائم رہے گا اور ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ اپنے لیے تو ہر کوئی جیتاہے، یادگار زندگی وہی ہے جو دوسروں کے لیے جینے سے عبارت ہو۔ 
جہاں تک برادر عزیز شکیل احمد کی دل دہلا دینے والی موت کا تعلق ہے وہ بھی کئی پہلوؤں سے رشک اور سلوان کا مظہر ہے۔ جوانی کی موت ویسے بھی انسان کو جھنجھوڑنے اور دُکھادینے والی موت ہوا کرتی ہے، اگر وہ موت حاثاتی ہو تو اسے اور زیادہ بھاری اور درد بھری سمجھا جاتاہے، مگر بحیثیت مسلمان ’’کل شئ عندہٗ بأجل مسمی‘‘ ہمارا عقیدہ ہے، پھر حادثی موت مؤمن کے حق میں شہادت کا ایک درجہ ہے اور پھر بلندی سے پستی کی طرف لڑھکنے کے باعث اگر کسی کی جان جانِ آفریں کے سپرد ہوجائے تو ایسی موت‘ اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے حق میں شہادت کی فہرست میں شامل ہے۔ برادرِ عزیز کی موت جوانی میں ہوئی اور حادثاتی بھی ہوئی، یہ موت گہرے زخم دینے کے باوجود شہادت کی موت ہے، شہادت کی موت مسلمان کے حق میں انسانی کمال کو لازوال بنانے کے لیے بھی ہوتی ہے۔ نہ جانے باری تعالیٰ کو برادرِ عزیز کی کونسی خدمت یا ادا پسند تھی جس کی بدولت ان کی زندگی کا خاتمہ مہرِ شہادت کے ذریعہ فرمایا۔
جوانی اور حادثے کی موت بظاہر دکھ درد سے جتنی لبریز ہے اتنی ہی برادر مرحوم کے لیے ان شاء اللہ! خیر اور راحت کا ذریعہ بھی ہے، اس لیے کہ جب ان کے زخمی ہونے کی اطلاع عام ہوئی تو ملک بھر بلکہ حرمین شریفین کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں میں ان کے لیے بہت زیادہ دعائیں مانگی گئیں، جن کی قبولیت ظاہری صحت یابی کی صورت میں تو نظر نہیں آئی، مگر دعاء کی قبولیت کے پہلو سے وہ سب دعائیں برادر مرحوم کے لیے سفرِ آخرت کے لیے توشے کے درجے میں شمار ہوںگی، ان شاء اللہ!
پھر جب ۱۱؍جنوری ۲۰۲۰ء کو انتقال ہوا تو جامعہ، شاخہائے جامعہ، اقرأ روضۃ الاطفال اور مختلف مساجد ومدارس میں برادر مرحوم کی مغفرت کے لیے جتنی دعائیں مانگی گئیں اتنی دعائیں قریب زمانے میں شاید کسی اور کے حصے میں نہ آئی ہوں۔ ان دعائگو لوگوں میں معصوم بچوں سے لے کر کئی مقبولانِ بارگاہ کی دعائیں بھی شامل ہیں، جو مرنے کے بعد ہرمسلمان میت کی سب سے بڑی ضرورت ہواکرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوش قسمت کو اتنے لوگوں کی دعاؤں کا مورد بنایا۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کی دعاؤں کو مرحوم کے حق میں قبول فرمائے۔آمین
برادرِ عزیز کے جنازہ کا معاملہ بھی منفرد رہا، مانسہرہ کے مضافاتی علاقے عطر شیشہ میں جہاں ہماری عارضی رہائش ہے، جب انتقال کی خبر پھیلی تو مانسہرہ اور گرد ونواح کے لوگ کثیر تعداد میں وہاں پہنچے اور وہیں نمازِ جنازہ ادا کی گئی، پھر میت گاؤں منتقل کرتے ہوئے بسیاں کے مقام پر پہنچے تو وہاں بھی عوام وخواص کا ایک جمِ غفیر میت کے استقبال اور نمازِ جنازہ کے لیے منتظر تھا، اگلے روز ۱۲؍جنوری ۲۰۲۰ء کو صبح دس بجے گاؤں میں جنازہ تھا جس میں لاہور، گجرات، روات، راولپنڈی، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہزارہ بھر سے کثیر تعداد علماء، طلبہ اور عوام نے شرکت فرمائی۔ شدید سردی اور برفباری کی مشکلات جھیل کر گاؤں تک علماء وطلبہ اور عوام کا پہنچنا جہاں دینی رشتہ کی قدردانی کامظہر ہے، وہیں برادرِ عزیز کی اس بے لوث خدمت، محبت اور عقیدت کا صلہ بھی ہے، جس محبت سے وہ ہمارے گھر تشریف لائے مہمانانِ گرامی بالخصوص علماء کرام کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے، یہ علماء وطلباء دین کے ساتھ محبت کے اُخروی صلے کا ابتدائی مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس محبت وعقیدت کی بدولت برادرِ عزیز کو علماء وصلحاء کی اُخروی معیت نصیب فرمائے۔ 
برادرِ عزیز ہمارے گھر، خاندان بلکہ پورے علاقے کے لیے محنت، قوت، ڈھارس اور اُمید وآرزو سے عبارت تھے۔ حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے حق میں باری تعالیٰ نے بھائی کی نعمت کو موضعِ امتنان (نعمت جتلانے کے مقام) میں ذکر فرماتے ہوئے ’’سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیْکَ‘‘ کے ذریعہ اُخوت کے رشتہ کی جو اہمیت بتائی تھی ہم بہن بھائی اور خاندان فی الواقع اس قوت واعتضاد سے محروم ہوگئے ہیں، اس پر دلِ رنجور کی رنجیدگی قرار وطمانینت سے بالکل ہی بے گانگی پر تھی کہ سورۂ اعراف کی تلاوت کے دوران حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے وہ دعائیہ کلمات سامنے آئے جو انہوں نے اپنے اور اپنے بھائی حضرت ہارون  علیہ السلام کے لیے اپنے رب کے سامنے پیش فرمائے تھے، اس دعاء کے پڑھنے اور دُہرانے سے طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے قرار پیدا فرمایا۔ ان دعائیہ کلمات کو سکونِ قلب کے لیے ورد کے طور پر بھی دُہراتا ہوں تو قرار ملتا ہے۔ اُمید ہے ہمارے جیسے اور غم زدہ لوگوں کے لیے بھی باعثِ سکون ثابت ہوں گے، ارشاد ہے:
’’قَالَ رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَلِأَخِيْ وَأَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِکَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔‘‘ (الاعراف: ۱۵۱)
حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے تذکرہ کے دوران آپ کے اسی سفرِ طور کی آمد ورفت کی حکایت کے ضمن میں ذکر ہونے والے ایک اسرائیلی شخص کے حادثاتی واقعہ سے اپنے بھائی کی حادثاتی موت پر تسلی کا سامان ملا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام جب کلیمانہ راز ونیاز کے لیے کوہِ طور کی طرف رواں تھے تو دامنِ کوہ میں ایک اسرائیلی مومن سامنے آیا اور حضرت کلیم اللہ  علیہ السلام سے التجاء کی کہ جب اپنے رب سے ہم کلامی ہو تو میری اِک دعاء کی قبولیت کے لیے باگاہِ ایزدی میں سفارش کردینا اور وہ دعاء میرے رب کو معلوم ہے۔ جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام باری تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوکر فارغ ہوئے تو اس بندۂ مومن کے لیے دعاء بھول چکے تھے، باری تعالیٰ کے یاد دلانے پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے اس انسان کی دعاء کی قبولیت کی سفارش کی اور واپس آگئے۔ واپسی پر دیکھا کہ وہ ’’دعاء جو‘‘ بندہ پہاڑ کی بلندی سے ایسا گرا پڑا ہے کہ اس کے جسم کے اعضاء تک بکھرے پڑے ہیں، حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے حیرت واستعجاب کے ساتھ اپنے رب سے اس ماجرے کی حقیقت جاننا چاہی تو باری تعالیٰ کی طرف سے اس ماجرے کی حقیقت کشائی یوں ہوئی کہ یہ شخص مخلص مومن تھا، اس نے باری تعالیٰ کے ہاں قربِ خاص کا ایک مرتبہ مانگاتھا، اس مخلص مومن کی دعاء موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی سفارش اور ربِ کریم کی عطاء سے مقبول ہوگئی تھی، مگر اس بندۂ مومن کا مانگا ہوا قربِ خاص کا رُتبہ پانے کے لیے اس کے اعمال میں کمی تھی، ادھر اس مطلوبہ رُتبے کے حق میں دعاء بھی قبول ہوچکی ہے، اس مرتبۂ بلند تک پہنچانے کے لیے اس مخلص مومن کو بلند پہاڑ سے نیچے گرنے کی حادثاتی موت سے دوچار ہونا پڑا جو ظاہر میں جانکاہ حادثہ سہی، لیکن حکمتِ الٰہیہ کے تحت یہ حادثہ اس کے اعمال کی کمی کو پورا کرنے اور آخرت کی امتیازی سرخروئی سے ہم کنار کرنے کے لیے تقدیرِ الٰہی کے تحت پیش آنا تھا، اس لیے اس حادثے کو حادثے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کا وسیلہ سمجھا جائے۔
اس واقعہ سے برادرِ عزیز کے حادثے پر خوب تسلّی ملتی ہے کہ نہ جانے کس نیک نیت یا عمل کے صلہ میں انہیں جو مرتبہ دینا تھا وہ اس حادثے،اس حادثے کے نتیجے میں ہونے والی دعاؤں کی بدولت دینا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ قادرِ مطلق کے اس تقدیری فیصلے پر ہمارا ایمان ہے،فلانقول فیہ إلا مایرضٰی بہٖ ربنا ورسولہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
آخر میں! اپنے تمام اساتذہ کرام، دوست احباب، طلباء عزیز اور ان تمام مخلص مسلمان بھائیوں کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے برادرِ عزیز کی صحت یابی، پھر مغفرت کے لیے دعائیں فرمائیں، ایصالِ ثواب فرماتے رہے اور دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے شریک غم رہے، زبانی، تحریری اور بالمشافہ تشریف آوری کے ذریعہ تعزیت کے لیے مختلف مشقتیں اُٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے تمام اساتذہ اور دیگر احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہرقسم کی ناگہانی آفات اور دکھوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!
قارئین کرام سے جو ہوسکے برادر عزیز کے لیے ایصالِ ثواب اور دعاء کا اہتمام فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے ہمارے مرنے کے بعد دعاؤں کا ایسا غائبانہ سلسلہ قائم فرمائے،آمین!

إن للّٰہ ما أعطی ولہ ما أخذ ، کل شئ عندہ بأجل مسمی، اللّٰہم لاتحرمنا أجرہ ولاتفتنا بعدہ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین