بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس

بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس


سن ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۹۸۵ء میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی  رحمۃ اللہ علیہ  نے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں طلبۂ دورہ حدیث کو بخاری شریف کا آخری حدیث کا درس دیا اور فضلاء کرام کو بیش قیمت نصائح سے نوازا، نیز حدیث کی درسی اَبحاث کے ساتھ ساتھ دین کے نام پر اُبھرنے والے بعض فتنوں کی نشاندہی فرمائی اور ان سے نجات کا حل بھی بتایا۔ حضرت مفتی صاحب ؒ کی مکمل تقریر تخصصِ علومِ حدیث کے طالب علم مولوی محمد طیب حنیف نے ریکارڈنگ کی مدد سے قلم بند کی ہے، جسے افادۂ عام کے لیے نذر قارئین کیا جارہا ہے۔  (ادارہ)

حدیث کا متن

’’عن أبي ہريرۃ -رضي اللہ عنہ-، قال: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: ’’کَلِمَتَانِ حَبِيْبَـتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ، خَفِيْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ۔‘‘ (۱) 
امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کو (اس سے قبل) دو مواقع پر ذکر کرچکے ہیں: ’’کتاب الدعوات ‘‘ میں اپنے استاذ ’’زہیر بن حربؒ   ‘‘کے حوالہ سے نقل کیاہے(۲)  ، جبکہ کتاب الأیمان والنذور میں ’’قتیبہ بن سعید بغلانیؒ‘‘ کی سند سےنقل کیا ہے (۳) ، مگر یہاں (کتاب کے آخر میں) احمد بن اشکابؒ کے طریق سے روایت ذکر فرمائی ہے۔ 

آخری حدیث کو احمد بن اشکابؒ کے طریق سے نقل کرنے میں نکتہ
 

ہمارے مولانا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  دورانِ درس اس حوالے سے عجیب نکتہ بیان فرماتے تھے کہ: ’’دراصل اس میں بھی امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے مناسبت کی رعایت کی ہے، آخری حدیث کے استاذ احمد بن اشکابؒ کے متعلق امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے خود لکھا ہے کہ: ’’یہ میرے آخری استاذ ہیں، جن سے میری ملاقات مصر میں ہوئی۔ ‘‘ عبارت یوں ہے: ’’آخر ما لقيتہٗ بمصر‘‘ اس بات کو حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ’’تہذیب التہذیب ‘‘ میں لکھا ہے۔(۴)  حافظ ابن حبانؒ نے مزید لکھا ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے ان شیخ کا انتقال اسی سال (سن ۲۱۷ھ) میں ہوگیا تھا۔ (۵)   چنانچہ اسی مناسبت کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو کتاب کے آخر میں ان استاذ کے طریق سے پیش کیا ہے۔ 
امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی سنن میں اس حدیث کو اپنے شیخ ’’یوسف بن عیسیٰ‘‘ کے طریق سے نقل کیا ہے، اور اس پر ’’حسنٌ صحیحٌ غریبٌ‘‘ کا حکم لگایا ہے(۶)، یہ بات میں نے آپ حضرات کے سامنے سننِ ترمذی کے دورانِ درس بیان کی تھی، اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس حدیث سے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث چار درجوں میں غریب ہے۔ 

کیا غرابت، صحت کے منافی ہے؟

علماء نے اس میں بھی مناسبت ذکر کی ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب کی پہلی حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ کو ذکر کیا، جو اصطلاحِ محدثین میں’’ غریب‘‘(۷)  تھی، اور یہ آخری حدیث بھی چار طبقوں میں غریب ہے۔(۸)   اس سے معلوم چلتا ہے کہ غرابتِ حدیث سے ضعف لازم نہیں آتا، یہی وجہ ہے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’لامع الدراري‘‘ (کے حاشیہ)میں لکھا ہے کہ ’’غرابتِ حدیث‘‘ صحتِ حدیث کے منافی نہیں ہے، لہٰذا غریب حدیث بھی پایۂ صحت کو پہنچ سکتی ہے، اگرچہ غریب کبھی شاذ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘ (۹) 
ترمذی کے درس کے دوران میں نے آپ حضرات کے سامنے ذکرکیا تھا کہ حضرت شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے غرابت کے مختلف معانی واِطلاقات ذکر کیے ہیں، چنانچہ بسااوقات سند میں ایسا لفظ ادا ہوتا ہے جس کی وجہ سے غریب کہا جاتا ہے، اور کبھی متن میں بعض الفاظ کی بنا پر غریب کا اطلاق ہوتا ہے۔ الحاصل حدیث کی غرابت سے اس کی صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ 
ذرا غور کریں! بخاری شریف کی پہلی اور آخری دونوں روایات غریب ہیں، اس حوالہ سے شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  نے بہت عجیب بات لکھی ہے کہ: ’’ہدایہ پڑھنے والے طلبہ‘ حنفی مستدلات پر پیش کردہ احادیث کی‎‎صحت کے حوالہ سے حاشیہ دیکھتے ہیں تو وہاں ’’غریب‘‘ لکھا ہوتا ہے، تو یہ بات جان لینی چاہیے کہ وہ حدیث ذکر کردہ الفاظ سے غریب ہوتی ہے، مگر اس کا معنی ومفہوم‘ کتبِ حدیث میں ملتا ہے۔‘‘(۱۰)  

رواۃ ِسند کا اجمالی تعارف اور باطل فرقوں کی دسیسہ کاری

سند میں ابو زرعہؒ، ان کا نام ہرم ہے، یہ طبقۂ تابعین میں سے ہیں(۱۱)  ۔ ابوزرعہ رازی مشہور جوامام ترمذیؒ کے استاذ ہیں: ’’عبیداللہ بن عبدالکریم‘‘ وہ تو بعد کے دور کے ہیں۔ انہوں نے حدیث کو ابوہریرہ  رضی اللہ عنہم  سے سنا ہے، جن کا نام ’’عبدالرحمٰن بن صخر‘‘ تھا، جن کوحفاظ ِحدیث کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، اللہ رب العزت نے حفظ ِ حدیث میں خاص ملکہ سے نوازا تھا۔ 
ہمارے زمانے میں شیعہ و مستشرقین جو مختلف اسلامی علوم وفنون سے متعلق لکھتے ہیں، یہ دونوں گروہ دو آدمیوں سے بہت خفا ہیں: (۱) ابوہریرہؓ (۲) ابن شہاب زہریؒ سے۔ 
حضرت ابوہریرہؓ تو صحابیت کے شرف سے ممتاز ہوئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی چادر کو سینے سے لگانے سے حفظِ حدیث کا عالی رتبہ اُن کو نصیب ہوا (۱۲)  ، اور ابن شہابؒ کا مقام امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ذکر کیا ہے کہ ان کے نزدیک دراہم ودنانیر کی حیثیت بکری کی مینگنیوں کے برابر تھی (۱۳)، مگر ذکر کردہ دونوں جماعتوں کے افراد ان پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ بنو اُمیہ کے لیے احادیث گڑھتے اور بناتے تھے۔ یہ سب جھوٹے افسانے احادیث کی صحت وحجیت کو مشکوک ٹھہرانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ 

شرحِ حدیث

آپ حضرات واقف ہوں گے کہ ان جملوں میں ’’کلمتان‘‘ خبر مقدم ہے اور آگے جملہ ’’سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم‘‘ مبتداء مؤخر ہے، یہی جمہور کا موقف ہے، اگرچہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ  نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ (۱۴)   مگر راجح قول پہلا معلوم ہوتا ہے، چونکہ نحو کی کتب میں ضابطہ درج ہے کہ جہاں خبر طویل ہو تو اس کو مقدم کردیا جاتا ہے، اور اس کی مثال ’’مختصر المعاني‘‘ میں شعر کی صورت میں ذکر ہے۔(۱۵) مگر قسطلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس سے زیادہ واضح مثال ہے۔ شعر یوں ہے:

ثَلَاثَۃٌ تُشْرِقُ الدُّنْيَا بِبَہْجَتِہَا
شَمْسُ الضُّحٰی وَ اَبُوْ إِسْحَاقَ وَ الْقَمَرٗ

’’تین چیزیں دنیا کو اپنی رونق سے روشنی بخشتی ہیں، چڑھتے دن کا سورج، ابو اسحاق(ممدوح) اور چاند‘‘۔(۱۶) 
یہاں مصرع اول‘ خبر مقدم، جبکہ مصرع ثانی‘ مبتداء مؤخر ہے۔ اس تقدیم وتاخیر کا مقصد خبر کی جانب تشویق وترغیب ہوتا ہے، چنانچہ جب ارشاد فرمایا کہ: ’’دو کلمے رحمٰن کو محبوب ہیں، زبان پر ہلکے اور میزانِ عدل میں انتہائی بھاری ہیں، اب خبر کی جانب شوق ورغبت پیدا ہورہا ہے، وہ کلمات کیا ہیں؟ : ’’سبحان اللہ وبحمدہٖ سبحان اللہ العظیم۔‘‘(۱۷)  

عملِ قلیل پر اجرِجزیل

’’حبیبتان إلی الرحمٰن‘‘: یہاں ایک لطیف مناسبت کی جانب شراحِ حدیث نے اشارہ کیا ہے کہ یہاں اللہ رب العزت کے متعدد اسماء کی جگہ ’’رحمٰن‘‘ کا انتخاب کیا، چونکہ معمولی عمل پر اتنا بڑا اجر دیا جانا یہ حق تعالیٰ کی رحمت وشفقت کی بنا پر ہے۔ (۱۸) 

قرآن مجید ایک مؤثر معجزۂ الٰہی

’’خفیفتان علی اللسان‘‘: آج دنیا میں بے شمار لوگ باری تعالیٰ کی صفات میں شریک ٹھہراتے ہیں، چنانچہ حق تعالیٰ شانہ نے اپنے کلام پاک کی آیات کو صفات واسماء پر ختم کیا ہے۔(۱۹)  ایک دن میں ایک نومسلم کی کتاب پڑھ رہا تھا، جس کا عنوان یہ تھا کہ: ’’میں مسلمان کیوں ہوا؟‘‘ اس کتاب میں متعدد عیسائیوں کے قبولِ اسلام کا ذکر تھا، ان میں ایک نومسلم نے لکھا تھا کہ: ’’میرے اسلام میں داخل ہونے کا سبب قرآن مجید ہے، چونکہ اس میں ہر آیت محکم اور حق تعالیٰ کی صفت پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔‘‘
یہاں ایک اور بات شارحین نے ذکرکی ہے کہ: اس کلمہ ’’خفیفۃ‘‘ کو بغیر تاء پڑھنا بھی درست ہے، حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک زبردست نکتہ پیش کیا ہے کہ: ’’ اگر کسی چیز کی توقع ہو تو اس کلمہ کو تاء سمیت ذکر کرتے ہیں، اور اگر وہ چیز ہوچکی ہوتی ہے تو اس کو بغیر تاء استعمال کرتے ہیں، ا س کی مثال بھی پیش کی ہے کہ اگر کسی جانور کو ذبح کرنے کا ارادہ ہو تو اس کو ’’ذبیحۃ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جیسا کہ عرب کہتے ہیں: ’’خذ ذبيحتک‘‘ یہ اس جانور سے متعلق کہا جاتا ہے جس کو ابھی تک ذبح نہ کیا گیا ہو، اور وہ جانور ذبح ہوجائے تو اس کو ’’ذبیح‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح ’’خفیف‘‘ اور’’ خفیفۃ‘‘ دونوں طرح استعمال درست ہے۔‘‘ (۲۰) 

خفّتِ کلمات سے متعلق توجیہات

شارح قسطلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ :’’چونکہ ان کلمات میں حروفِ استعلاء وشدت استعمال نہیں ہوئے، بلکہ یہ حروفِ مہموسہ ورخوت پر مشتمل ہیں، ا س وجہ سے زبان پر ان کی ادائیگی سہل ہے۔ (۲۱)  بعض نے ذکر کیا ہے کہ ان میں اسماء الٰہی کا ذکر ہے، افعال کو ذکر نہیں کیا، اور زبان پر افعال کی ادائیگی زیادہ ثقیل ہوتی ہے، پھر اسماء میں بھی غیر منصرف ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ 
’’ثقیلتان في المیزان‘‘: یہاں وزن و سجع کی رعایت کی گئی ہے، سابق میں’’خفیفتان‘‘ فرمایا، تو یہاں ’’ثقیلتان‘‘ ذکر کیا۔ (۲۲)

صفاتِ باری تعالیٰ کی اقسام

’’سبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم‘‘ حق تعالیٰ شانہٗ کی صفات دو قسم کی ہیں: (۱)صفاتِ ایجابی، (۲)صفاتِ سلبی۔ 
جن صفات میں حق تعالیٰ شانہ سے نقص وعیوب کی نفی ہو، مثلاً جہاتِ ستہ، جسم و شراکت سے پاک ہونا وغیرہ، ان کو ’’صفاتِ سلبیہ وعدمیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، ان کو’’صفات ِ جلال‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 
ذکر کردہ کلمات کے آغاز میں حق تعالیٰ شانہ کی صفاتِ سلبیہ کو ذکر کیا، جبکہ ’’وبحمدہٖ‘‘ اس سےصفاتِ ثبوتیہ ووجودیہ کی جانب اشارہ کیا ہے، جن کو ’’صفاتِ جمال واکرام ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ (۲۳)
’’سبحان اللہ وبحمدہٖ‘‘ میں قسطلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے چار قول ذکرکیے ہیں:
1-    اسمِ مصدر،  2- علَمِ مصدر تاکید،  3-مصدرِ نوعی، 4-  مصدرِمجاز بفعل۔ (۲۴)
مگر شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے زبردست بات لکھی ہے کہ: ’’ یہ اصل میں دوجملے ہیں، ’’أسبّح سبحانک‘‘ اور ’’أحمد حمدًا‘‘ میں آپ کی تسبیح بیان کرتا ہوں، میں اس کی اعلیٰ صفات سے حمد بیان کرتا ہوں۔ ‘‘ (۲۵)
اس کو دوسرے انداز میں یوں سمجھیں کہ ایک ’’تخلیہ‘‘ ہوتا ہے اور دوسرا ’’ تحلیہ‘‘ ہوتا ہے، اب ’’سبحان اللہ‘‘ یہ تخلیہ ہے، اور ’’وبحمدہٖ‘‘ تحلیہ ہے، اور یہ ترتیب، طبعی ہے کہ پہلے تخلیہ، تحلیہ پر مقدم ہو، چنانچہ پہلے صفاتِ سلبیہ سے پاک قرار دے کراس کے لیے صفاتِ ثبوتیہ ووجودیہ سے متصف قرار دیا۔ (۲۶)
ایمان اُمید وخوف کے درمیانی حالت وکیفیت کا نام ہے !
اور پھر آخری جملہ’’سبحان اللہ العظیم‘‘ ہے۔ علماءنے لکھا ہے کہ بخاری شریف کی یہ آخری حدیث خوف ورجاء پر مشتمل ہے، چونکہ ’’رحمٰن‘‘ میں رجاءوامید، جبکہ ’’عظیم‘‘ میں خوف ہے، اور ایمان حقیقتاً اُمید وخوف کے درمیانی کیفیت کا نام ہے۔ (۲۷)
ترمذی شریف، ’’کتاب الجنائز‘‘ میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ایک صحابی کے پاس تشریف لائے، وہ مرض الوفات میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دریافت کیا: کیف تجدک؟ طبیعت کیسی ہے؟ عرض کیا: بخدا اے اللہ کے رسول! اللہ سے ثواب کی اُمید اور گناہوں سے ڈر محسوس کررہا ہوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’لا يجتمعان في قلب عبد في مثل ہذا الموطن إلا أعطاہ اللہ ما يرجو وآمنہ مما يخاف۔ ‘‘ 
ترجمہ: ’’جب کسی شخص کے دل میں ایسی حالت میں یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو اللہ رب العزت اس کی اُمید کوضرور پورا فرماکر اس کو جس چیز سے خوف محسوس کررہا تھا، اس سے خلاصی عطا فرماتے ہیں۔‘‘ (۲۸)
امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’إحیاء العلوم‘‘ میں زبردست بات لکھی ہے کہ: ’’جوانی و تندرستی میں زندگی بسر کرتے ہوئے انسان پرخوف کی کیفیت کا غلبہ ہونا چاہیے، جبکہ بڑھاپے وموت کے قریب اُمید کا رجحان زیادہ بہتر صورت ہے۔‘‘ (۲۹)
بعض شراح نے لکھا ہے کہ: ’’جملہ’’سبحان اللہ العظیم‘‘ سابقہ جملے پر مرتب نتیجہ ہے، چونکہ سابقہ جملے میں تسبیح وحمد کا بیان ہے، تو التزاماً ’’ سبحان اللہ العظیم‘‘ اس کا نتیجہ ہے۔‘‘ (۳۰)
حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہاں مزید تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’یہاں صیغۂ تسبیح کو دو مرتبہ، جبکہ صیغۂ تحمید کو ایک دفعہ ذکر کیا گیا ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ تنزیہات کا اِدراک‘ عقول سے ممکن ہے، مگر تحمیدات وکمالات بغیر ورودِ شرع‘ عقل ان کے فہم واِدراک سے قاصر ہے۔‘‘ (۳۱)
الغرض امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نےبیش بہا وبیش قیمت نکات پر مشتمل حدیث پر اپنی کتاب کو ختم کیا ہے۔ 

پہلی اور آخری حدیث کے مابین مناسبت

بعض شارحین نے آخرِ کتاب میں اس حدیث کے انتخاب پر لکھا ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اشارہ فرمارہے ہیں کہ آغاز ِ کتاب میں ان کی نیت خالص تھی تو حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ سے افتتاح کیا، اب کتاب کی تکمیل پر بطور تشکر تسبیح وتحمید جاری ہے، چنانچہ اس باطنی کیفیت کی جانب بھی اشارہ کردیا۔ (۳۲) اس سے ہمیں بہت بڑا درس ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتداء اخلاص سے کی جائے اور اختتام پر تکمیل کی توفیق ملنے پر شکر بجالایا جائے، چونکہ ہر کام کی تکمیل حقیقتاً اللہ رب العزت کی توفیق پر موقوف ہے۔ 

اللہ والوں کی صحبت 

ولی اللّہی خاندان کے چشم وچراغ مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی  رحمۃ اللہ علیہما کے استاذ ومسندِ وقت حضرت شاہ عبدالغنی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں دور دراز علاقوں سے لوگ مستفید ہونے آتے تھے، ان کے حلقۂ درس میں ایک شخص حکیم نور الدین بھی تھا، جو فنِ حکمت میں اپنی مثل آپ تھا، یہ وہی شخص ہے جو بعد میں مرزا غلام احمد قادیانی کا خلیفۂ اول منتخب ہوا۔ یہ بات بھی حدِ شہرت کو پہنچتی ہےکہ مرزا ملعون کو دعوائے نبوت پر آمادہ کرنے والا بھی یہی شخص تھا، جیسا کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو’’ دینِ الٰہی ‘‘ کے نام سے موسوم ملحدانہ نظریات پر مشتمل مذہب پر ابو الفضل اور فیضی نے اُکسایا تھا۔ 
حکیم نور الدین ایک عالم شخص تھا، اس نے پنجاب ودیگر شہروں سے کسبِ علم کے بعد ہندوستان میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  سے سماعِ حدیث کیا۔ بہرحال، ایک دفعہ ختمِ بخاری شریف کا موقع تھا، ایسے موقع پر خوشی ومسرت کا ہونا طبعی امر ہے۔ بہرحال، ایسے موقع پر حضرت شاہ عبدالغنی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے حکیم نور الدین کو اپنے پاس تنہائی میں بلاکر فرمایا: ’’مجھے تمہارے چہرے پر خاص آثار نمایاں دکھائی دیتے ہیں، ہم نے تو تمہیں منقول علم کو معقول بناکر پڑھایا ہے، اب تم اس کو محسوس علم میں منتقل کرنے کی غرض سے کسی اللہ والے کے ہاتھ پر بیعت کرلینا، اس کی برکت سے یہ سارا علم محسوسی بن جائے گا، نورانیت نصیب ہوگی۔‘‘ (۳۳)
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف فتنوں کا دور ہے، عملی میدان میں مختلف فتنوں سے مقابلہ کی نوبت پیش آتی ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نےپیش گوئی فرمائی تھی کہ: ’’میں تمہارے درمیان بارش کے قطروں کی مانند بکثرت فتنوں کو برستا دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘(۳۴) ان فتنوں کی نوعیت ہمیشہ مختلف رہی ہے، بسااوقات سیاست کے راستے سے، کبھی سیادت وقیادت کے نشہ سے، اور کبھی مختلف فِرقِ باطلہ کے نظریات کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں۔ ان پُر فتن دور میں سب سے کارآمد ونجات والی چیز اللہ رب العزت سے تعلق ہے، جس کی صورت کسی حقیقی اللہ والے کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے، ا س حوالہ سے میں نشاندہی کرتا ہوں کہ مولانا عبدالعزیز صاحب سرگودھا والے، جو اس وقت صاحبِ فراش ہیں، ان جیسے اللہ والوں کے ہاتھ میں اپنی زندگی کی لگام دینا ان شاء اللہ فتنوں سے نجات دے گا۔ 

فتنۂ رافضیت اور اس کا مطالعہ

ہمارے ملک ِ پاکستان میں قدم بقدم مختلف فتنوں سے سامنا ہوتا ہے، گویا یہ ملک ہی فتنوں کے پھیلاؤ کی غرض سے بنایا گیا، مگر اب اس ملک کو توڑنا، اس کی بنیادوں کو کمزور کرنا یہ اس کو بنانے سے بڑی حماقت ہے، چنانچہ ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ شیعیت وخمینی کا ہے، جو بین الاقوامی حیثیت حاصل کرچکا ہے، ان کا منشا یہ ہے کہ تمام عرب ممالک کو فتنوں میں اُلجھاکر ا ن کی بیخ کردی جائے، مگر کیاہمارے حکمران ان کی خوشامد سے خود کو اس فتنہ سے محفوظ کرسکیں گے؟ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ 
مولانا منظور نعمانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب (۳۵) ہر صاحب اہلِ علم کومطالعہ میں رکھنی چاہیے، اس سے اس فرقہ کی دسیسہ کاریوں کا بخوبی علم ہوجا تا ہے۔ قادیانیت ایک بدترین فتنہ ہے، مگر میرے نزدیک رافضیت اس سے بھی خطرناک ترین فتنہ ہے۔ ہمارے طلبہ ساتھی بغیر سیاق وسباق بات کو چلتا کردیتے ہیں، اس سے احتیاط کیا کریں، لہٰذا میری اس بات کو پورا سمجھ کر سیاق وسباق سمیت علمی حلقوں میں نقل کرنے کی گنجائش ہے۔ 
دراصل قادیانیت تو اہلِ اسلام کے نزدیک متفقہ طور پر اسلام سے خارج قرار پائے ہیں، مگر یہ رافضیت سے متعلق ایسا فیصلہ نہیں کیا گیا، نیز فیصلہ کرنے کی صورت میں ان کو اقلیت قرار دیئے جانے پر قادیانیوں سے متعلق فیصلے میں کمزوری پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ بہرصورت، ہمارا ملک ِ عزیز اس وقت فتنوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ 
خود بینی وعجب پسندی کا مرض
آج ہمارے ملک میں خود بینی وخود رائی کا فتنہ بھی عام ہے، آپ اہلِ علم بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے علومِ عربیت کا سلسلہ مشکاۃِ نبوت جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  تک متصل ہوتا ہے، بعینہ اسی طرح ہمارا روحانی اصلاح وسلوک کا سلسلہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر کامل ومکمل ہوتا ہے، لیکن آج ان دونوں سلسلوں سے محروم رہنے والے افراد کا گروہ جو زبان کی شگفتگی اور خطابت کی شعلہ بیانی سے سادہ لوح عوام کو مرعوب کررہا ہے، اس فتنہ سے بھی مجھے بہت ڈر محسوس ہوتا ہے۔ 

اللہ رب العزت سے تعلق کی مضبوطی

آپ حضرات کو رسمی سندِ فراغت ملنے کے بعد اب اپنے علمی ذوق میں نکھار پیدا کرنا چاہیے، خود کو مطالعہ کا پابند کریں، اور ہر شخص اپنے اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی کوشش کرے، اس سے نسبت کو مزید تقویت دے، یہ واقعتاً بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ 
ایک بزرگ نے بہت عجیب بات کہی ہے کہ: 
’’دنیا میں انسان کے والدین، اساتذہ، دوست احباب سب رخصت ہوجاتے ہیں، مگر ایک سہارا نہایت ضروری ہے، جو اس کو ہر مرحلے میں رہنمائی کرنے والا ہو، وہ صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ ‘‘
کسی اللہ والے کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد ان کی جانب سے دیئے گئے اَوراد واذکار کی پابندی کرنا، جس طرح یہاں مدرسہ میں درسِ نظامی کی تکمیل کے لیے سالہا سال محنت کی، سو اس میں بھی پورا اہتمام کرنا۔ 

اصلاحِ خلق وتبلیغی کام
 

اگر یہ سب کچھ نہ ہوسکے تو تبلیغ میں ضرور وقت لگالینا، یہ بھی بہت محفوظ راستہ ہے۔ ایک شخص نے بہت اہم بات کہی ہے کہ علم کا حصول بسااوقات طلب کی بنا پر ہوتا ہے، مثلاً کسی مدرسہ میں والد اپنی اولاد کو علم کے حصول کی طلب میں داخلہ کراتا ہے، خانقاہ میں اپنے نفس کی اصلاح کی طلب میں جاتا ہے، مگر لاکھوں کروڑوں لوگ بغیر طلب گھوم رہے ہیں، ان کی اصلاح کون کرے گا؟ ان کو کون راہِ راست دکھائے گا؟ تبلیغ والے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا تبلیغ میں چلہ وسال لگائیں۔ میں تو ایسے ہی وقت ضائع کررہا ہوں۔ اب بس دعا کرلیں۔ 

حوالہ جات

۱- صحیح البخاري، کتاب التوحید، ۱۶۲:۹، رقم الحدیث ۷۵۶۳، دار طوق النجاۃ۔
۲ - کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۸/۸۶، رقم الحدیث : ۶۴۰۶، دار طوق النجاۃ۔
۳- کتاب الأیمان والنذور،باب إذا قال: واللہ لا أتکلم اليوم، فصلی أو۔۔۔فہو علی نیتہ، ۱۳۹:۸، رقم الحدیث ۶۶۸۲
۴- تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلاني، ۱/۱۶،مطبعۃ دائرۃ المعارف النظاميۃ، الہند۔
۵- الثقات لابن حبان ۶:۸، دائرۃ المعارف العثمانيۃ بحيدر آباد الدکن الہند۔
۶- سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب ماجاء في فضل التسبیح والتکبیر والتہليل، ۵۱۳:۵، رقم الحدیث: ۳۴۶۷، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابي الحلبي - مصر۔
۷- الحدیث الغریب: وہو الروایۃ التي یقع‎ ‎التفرد في أصل السند أو في أثناء السند۔(نزہۃ النظر، ۵۶:۱، مطبعۃ الصباح، دمشق)
۸- فتح الباري لابن حجر، ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۹- لامع الدراري،إفادات  الفقیہ المحدث الشیخ رشید أحمد الکنکوہي(المتوفی: ۱۳۲۳ھ)، التي ضبطہ المحدث أبو زکریا محمد یحیی الصدیقی(المتوفی:۱۳۳۴ھ)، وقد طبع من المکتبۃ الإمداديۃ ، مکۃ  المکرمۃ مع تعلیقات الشیخ محمد زکریا الکاندہلوي ـ رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ-  راجع إلی۔۴۰۶:۱۰۔
۱۰- لامع الدراري ، ۴۰۶:۱۰، المکتبۃ الإمداديۃ۔
۱۱- ہدی الساري مقدمۃ فتح الباری، الفصل السابع في تعیین الأسماء المبہمۃ،۲۴۳:۱، دار المعرفۃ۔
۱۲- اس سے اس مشہور واقعہ کی جانب اشارہ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے، الفاظ یوں ہیں:
’’عن أبي ہريرۃ، قال: قلت: يا رسول اللہ، إني أسمع منک حديثا کثيرا أنساہ؟ قال: ’’ابسط رداءک‘‘ فبسطتہ، قال: فغرف بيديہ، ثم قال: ’’ضمّہ‘‘ فضممتہ، فما نسيت شيئا بعدہ۔‘‘(صحیح البخاري، ۳۵:۱، رقم الحدیث: ۱۱۹، دار طوق النجاۃ)
۱۳- الفاظ ملاحظہ فرمائیے: ’’قال: ’’ما رأيت أحدا أنص للحديث من الزہري، وما رأيت أحدا الدنانير والدراہم أہون عليہ منہ إن کانت الدنانير والدراہم عندہ بمنزلۃ البعر۔‘‘ ( أخرجہ الترمذي بسندہ فی کتاب الصلاۃ، ۴۰۲:۲،ط: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابي الحلبي ، مصر)
۱۴- ذکرہ القسطلاني في شرحہٖ لصحیح البخاري، (۴۸۵:۱۰) ، و السخاوي أشار  في "الضوءاللامع لأہل القرن التاسع‘‘ (۸۳۱:۸)‎ ‎إلی أن ابن ہمام أملی في ہذہ القضیۃ رسالۃ، وقد أدخلہ السیوطي في ضمن ما صنفہ في إعراب الحدیث النبوي المسمّٰی ب"عقود الزبرجد علی مسند الإمام أحمد"، ونصہ: "الوجہ الظاہر أن "سبحان اللہ" ۔۔۔ إلی آخرہ، الخبر؛ لأنہ مؤخر لفظًا، والأصل عدم مخالفۃ اللفظ محلہ، إلا لموجب يوجبہ، وہو من قبيل الخبر المفرد بلا تعدد ( ۲/۴۴۳) ، دار الجیل، بیروت۔
۱۵- مختصر المعاني لسعد الدین التفتازاني، ۳۱۵:۱،ط:البشری۔
۱۶- إرشاد الساري شرح صحیح البخاري للقسطلاني،۴۸۵:۱۰،المطبعۃ الکبری الأمیریۃ۔
۱۷- فتح الباري لابن حجرؒ ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۱۸- منحۃ الباري لزکریا الأنصاري المصري، ۴۴۳:۱۰، مکتبۃ الرشد۔
۱۹- اس موضوع پر مزید تفصیل ومطالعہ کے لیے ملاحظہ ہو:  ختم الآیات بأسماء اللہ الحسنی لعلي بن سلیمان العبید، ط: دار التدمريۃ۔
۲۰- فتح الباري، لابن حجر، ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ۔
۲۱- إرشاد الساري شرح صحیح البخاري للقسطلاني، ۴۸۳:۱۰، المطبعۃ الکبری الأمیریۃ۔
۲۲- فتح الباري، لابن حجر، ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۲۳- فتح الباري، لابن حجر، ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۲۴- إرشاد الساري شرح صحیح البخاري للقسطلاني،۴۸۳:۱۰،المطبعۃ الکبری الأمیریۃ۔
۲۵-  لم أطلع علٰی ھٰذہ النکتۃ في مؤلفات العلامۃ الکشمیري رحمہ اللہ۔
۲۶- فتح الباري، لابن حجرؒ ۵۴۰:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۲۷- إرشاد الساري شرح صحیح البخاري للقسطلاني،۴۸۴:۱۰،المطبعۃ الکبری الأمیریۃ۔
۲۸- سنن الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء أن المؤمن يموت بعرق الجبين، ۳۰۲:۲، مطبعۃ مصطفی البابي الحلبي - مصر۔
۲۹- إحیاء علوم الدین، ۱۶۴:۴، بیان دواء الرجاء والسبيل الذي يحصل منہ حال الرجاء ويغلب، ط:دار المعرفۃ۔
۳۰- فتح الباري، لابن حجر، ۵۴۱:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۳۱- فتح الباري، لابن حجر، ۵۴۲:۱۳، دار المعرفۃ بیروت۔
۳۲- الکواکب الدراري في شرح صحیح البخاري لشمس الدین الکرماني،۲۵۱:۲۵،دار إحیاء التراث العربي۔
۳۳- ذکر ہذہ القصۃ الشیخ القاري المقرئ حکیم الإسلام محمد طیب في تقدمتہٖ علٰی ’’تاریخ دار العلوم دیوبند‘‘ للسید محبوب الرضوي، ص:۱۹، المیزان۔
۳۴- صحیح البخاري، کتاب الفتن، ۴۸:۹، رقم الحدیث: ۷۰۶۰، دار طوق النجاۃ۔

۳۵- حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا اشارہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کی تصنیف کردہ شہرہ آفاق کتاب ’’ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت‘‘  کی جانب ہے، یہ کتاب مختلف کتب خانوں سے شائع ہوچکی ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین