بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

باہمی امداد کے لیے رقم جمع کرنا!

باہمی امداد کے لیے رقم جمع کرنا!

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:     ۱-ہمارے محلے میں تعزیت کے لیے کمیٹی بنی ہے، جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ’’کمیٹی کاہرفردہرمہینے میں ۱۰۰ روپے جمع کراتاہے اور جس ممبر کے ہاں کوئی انتقال کرجائے تو کمیٹی والے اس ممبر کے ہاں کرسیاں ،قناتیں اور تین دن دو وقت کا کھانا بھیج دیتے ہیں اور تجہیز وتکفین بھی کرتے ہیں۔ شرعاً وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں کہ تین دن دو وقت کھانے کی شرعی حیثیت کیاہے؟ ایسا کرسکتے ہیں؟ اگرچہ شرع میں دو وقت کا کھانا مشروع ہے۔     ۲-ان پیسوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟اگر کمیٹی ممبر مرجائے تو اسی کے پیسوں کے بارے میں کیا کیا جائے؟ کمیٹی والوں کے پاس رہنے دیے جائیں یا وہ پیسے ورثاء کا حق ہیں اور ورثاء کو ملیں گے؟                                                                               مستفتی: حبیب اللہ الجواب باسمہٖ تعالٰی     ۱- صورتِ مسئولہ میں اگر تمام ممبران اپنی خوشی اور رضامندی سے ماہانہ رقم جمع کراتے ہیں، اس میں کسی قسم کا جبر نہیں ہوتا اور کبھی نہ دینے پر طعن کا یا کسی اور سزا کا مستحق بھی نہیں ٹھہرایا جاتا تو یہ رقم جمع کرنا امدادِ باہمی ہونے کی بنا پر جائز ہے اور جن مصارف کے لیے یہ رقم لی گئی ہے، ان مصارف میں اس رقم کا استعمال بھی شرعاً جائز ہے۔     میت کے گھر والوں کے لیے کھانا بھیجنا تو مستحسن ہے، البتہ اس موقع پر برادری اور اہل محلہ کی ضیافت کا اہتمام کرنا اور اسی کے لیے رقم جمع کرنا شرعاً درست نہیں، بلکہ بدعت ہے۔     ۲- اگر رقم دینے والے ممبران یہ رقم برادری کی مذکورہ ضروریات کے لیے وقف کردیتے ہیں تو یہ رقم ان کے انتقال کے بعد بھی برادری کی مقررہ ضروریات میں خرچ ہو سکتی ہے اور اگر یہ رقم مالکانہ حقوق کے ساتھ ادا نہیں کی جاتی، بلکہ ہر ممبر کو جب چاہے واپس لینے کا حق ہوتا ہے تو انتقال کی صورت میں مرحوم ممبر کی رقم ان کے ورثاء کے حوالے کی جائے۔     فتاویٰ شامی میں ہے: ’’قال فی الفتح: ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء والأباعد تہنیۃ طعام لہم لیشبعہم یومہم ولیلتہم ۔۔۔۔۔۔ ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ وفی البزازیۃ: ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔‘‘ (فتاویٰ شامی،ج:۲،ص: ۲۴۰ - ۲۴۱،ط:سعید)                                                                      فقط واللہ اعلم         الجواب صحیح               الجواب صحیح                           کتبہ      ابوبکرسعید الرحمن           محمد شفیق عارف                        عبد الحمید                                               دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین