بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

بارش اور سیلاب سے متاثرہ قبروں کی مرمت کا طریقہ


بارش اور سیلاب سے متاثرہ قبروں کی مرمت کا طریقہ


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ہماری اوکھائی میمن جماعت برادری کے اپنے قبرستان ہیں، جن میں حالیہ بارشوں میں بہت قبریں گرگئی ہیں، قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ جن قبروں میں میت کی باقیات نہیں ہیں، ان کی تعمیر کا کیا طریقہ کار ہے؟ اور جن قبروں میں میت سلامت ہے، ان کا کیا طریقہ کار ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔   مستفتی: عبدالواحد آدم کاٹھ

الجواب باسمہ الرحمٰن

صورتِ مسئولہ میں بارش کے باعث جو قبریں بیٹھ گئی ہیں، ان کے بارے میں ایک اصولی  بات یہ ہے کہ قبر کا دوبارہ کھولنا شرعاً جائز نہیں ہے ،خواہ اس میں میت کی باقیات ہوں یا نہ ہوں۔ 
متاثرہ قبور کو صحیح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس قبر کی مٹی ہٹ گئی ہو اوراس قبر کا کچھ حصہ کھل گیا ہو تو اگر اس کھلےحصہ پر تختہ، سلیب، یا پتھر لگا نا ممکن ہو تو ان چیزوں کے ذریعہ اس حصے کو بند کرکے اس پر مٹی ڈال دی جائے، اگر تختہ، سلیب یا پتھر لگا نا ممکن نہ ہو تو اسے مٹی سے بھر دیا جائے۔
اور جوقبر کھلی نہ ہو صرف مٹی نیچے دب گئی ہو اس پر مزید مٹی ڈال کرقبر کو درست کرلیاجائے، آئندہ کے لیے قبروں کی حفاظت کی خاطر قبر کے اطراف میں اینٹیں رکھ کر مٹی کا لیپ کیا جاسکتاہے۔
’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے :
’’ولو وضع لغير القبلۃ، فإن کان قبل إہالۃ التراب عليہ، وقد سرحوا اللبن أزالوا ذٰلک؛ لأنہ ليس بنبش، وإن أہيل عليہ التراب ترک ذٰلک؛ لأن النبش حرام۔‘‘  (بدائع الصنائع، ج:۱، ص: ۳۱۹، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے :
’’ولايسع إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا کانت الأرض مغصوبۃ وأخذت بالشفعۃ وإن وقع في القبر متاع، فعلم بذٰلک بعد ماأہالوا عليہ التراب ينبش۔‘‘(فتاویٰ قاضی خان، ج:۱، ص:۱۹۵، علی ہامش الہندیۃ، ط: رشیدیہ)
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’(ولا يخرج منہ) بعد إہالۃ التراب (إلا) لحق آدمي کـ(أن تکون الأرض مغصوبۃ أو أخذت بشفعۃ) (قولہ إلا لحق آدمي) احتراز عن حق اللہ تعالٰی کما إذا دفن بلا غسل أو صلاۃ أو وضع علی غير يمينہٖ أو إلٰی غير القبلۃ، فإنہٗ لا ينبش عليہ بعد إہالۃ التراب کما مر۔‘‘     (فتاویٰ شامی، ج:۲، ص:۲۳۸، ط: سعید)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے:
’’وإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينہا، کذا في التتارخانيۃ، وہو الأصح وعليہ الفتوی، کذا في جواہر الأخلاطي۔‘‘ (فتاویٰ ہندیہ، ج:۱، ص:۱۶۶، ط: رشیدیہ) 

2:  سوال میں مذکورہ حدیث کا جواب یہ ہے کہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں اکثر وبیشتر صاحبِ نصاب گھر کا بڑا ایک فرد ہوا کرتا تھا اور وہی قربانی کرتا تھا، باقی سب قربانی نہیں کرتے تھے، لیکن جو قربانی ہوتی وہ سب گھر والوں کی طرف منسوب ہوتی تھی، اور یہ اس لیے ہوتا تھا کہ گھر کے افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ جانور کو ذبح کرنے میں معاونت کرتے اور اکٹھے مل کر گوشت کھاتے اور انتفاع حاصل کرتے۔ حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک قربانی گھر کے متعدد صاحبِ نصاب عاقل، بالغ کی طرف سے کافی ہوجائے گی۔
’’المسوی شرح الموطا‘‘ میں ہے:
’’وتأویل الحدیث عندہم أن الأضحیۃ لاتجب إلا علی غني ولم یکن الغني في ذلک الزمان غالباً إلا صاحب البیت ونسب إلٰی أہل بیتہ علی معنی أنہم یساعدونہ في التضحیۃ ویأکلون لحمہا وینتفعون بہا۔‘‘ (المسوی شرح الموطا، باب التضحیۃ سنۃ کفایۃ لکل أہل بیت، ج:۱، ص:۲۲۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن

محمد انعام الحق

عبدالحمید

الجواب صحیح

 

دارالافتاء

محمد شفیق عارف 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین