بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

باؤنس چیک پر وصول کیے گئے چارجز کا حکم!

باؤنس چیک پر وصول کیے گئے چارجز کا حکم!

 


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ہمارا کام ڈسٹری بیوشن کا ہے، ہمارے سیلزمین دکانداروں کو مال فروخت کرتے ہیں، بعض دکاندار نقد کے بجائے چیک کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں اور یہ چیک کبھی باؤنس بھی ہوجاتے ہیں، (یعنی دکاندار کے اکاؤنٹ میں رقم نہیں ہوتی جس پر بینک وہ چیک ہم کو واپس کردیتا ہے)۔ بینکوں کا قاعدہ تھا کہ وہ باؤنس چیک پیش کرنے والے سے ۱۰۰ روپے چارجز وصول کرتے تھے، لہٰذا ہر ایسے چیک پر کمپنی کے اکاؤنٹ سے ۱۰۰ روپے کٹ جاتے تھے۔ کمپنی یہ ۱۰۰ روپے اپنے اس سیلزمین سے وصول کر لیتی تھی جو یہ چیک لایا تھا اور وہ یہ چارجز دکاندار سے وصول کرلیتا تھا، یعنی یوں سمجھیں کہ باؤنس چیک کے چارجز کی وصولی کی ترتیب درج ذیل ہوتی تھی:
    بینک                           کمپنی                           سیلزمین                              دکاندار
وسیع کاروبار کی وجہ سے روزانہ ہی بہت سارے چیک باؤنس ہوتے تھے اور یہ ایک مستقل کا معمول تھا، اس لیے کمپنی کی یہ پالیسی بن گئی کہ جس سیلزمین کا لایا ہوا چیک باؤنس ہوجاتا تھا، کمپنی مہینے کے اختتام پر ایسے تمام چیکوں کی گنتی کرکے ہر سیلزمین کی تنخواہ میں سے اس کے لائے ہوئے چیکوں کے حساب سے چارجز کی کٹوتی کرلیتی تھی، جوکہ سیلزمین متعلقہ دکاندار سے یاتو پہلے ہی وصول کر چکا ہوتا تھا یا پھر بعد میں وصول کرلیتاہے اور یا پھر وہ اپنے تعلقات اچھے رکھنے کے لیے اپنی صوابدید پر دکاندار سے کچھ بھی وصول نہ کرتا اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بعض چالاک سیلزمین دکاندار سے ۱۰۰ روپے سے زیادہ بھی وصول کرلیتے (لیکن ایسا کرنے والے کم تھے اور یہ ان کا ذاتی فعل تھا جس کا کمپنی سے کوئی تعلق نہ تھا) چونکہ سیلزمین کا دکاندار سے چارجز وصول کرنا یا نہ کرنا ان دونوں کے درمیان کا معاملہ ہوتا تھا، لہٰذا کمپنی نہ تو اس کے پیچھے پڑتی تھی اور نہ ہی اس کی کوئی معلومات کمپنی کے پاس میسر ہوتی تھی کہ کس سیلزمین نے دکاندار کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟
اب چند سال قبل واقعہ یہ پیش آیا کہ بینک نے خصوصی سہولت کے طور پر باؤنس چیک پر ہم سے یہ چارجز وصول کرنا بند کردیئے، لیکن ہمارا طریقۂ کار اسی طرح جاری رہا (جس کی وجہ یہ تھی کہ چلتی ہوئی پالیسی کو تبدیل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ ہوئی) چنانچہ بینک نے کمپنی سے تو کٹوتی بند کردی، لیکن کمپنی حسبِ سابق اپنے سیلزمینوں سے وصول کرتی رہی (اور وہ آگے دکانداروں سے حسبِ تفصیلِ سابقہ) اب یہ معلوم نہیں کہ بینک نے یہ کٹوتی کب بند کی، البتہ ا س کو بند ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں، لیکن یہ عرصہ ۵،۷،۱۰، ۱۲ کتنے سال کا ہے؟ کوشش کے باوجود ہمیں معلوم نہیں ہو سکا۔
واضح رہے کہ بعض بینکوں کا عمومی اصول اب بھی چارجز لینے کا ہے، لیکن ہماری کمپنی کو انہوں نے مستثنیٰ کردیاتھا۔ اس وجہ سے یہ معلوم نہیں کہ ایسا کب ہواتھا اور نہ ہی بینکوں سے یہ معلوم کرنا آسان ہے، کیونکہ یہ کافی پرانا معاملہ ہے، نیز متعلقہ ملازمین/افسران بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس باؤنس چیک کے چارجز کی مد میں پیسے جمع ہوتے رہے، جو سیلزمینوں کی تنخواہ سے کٹتے تھے اور یہ چیکوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے بہت بڑی مقدار میں ہیں۔ ہمارے پاس Computer میں محفوظ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں باؤنس چیک کی کل تعداد تیس ہزار سے زیادہ بنتی ہے، جس کو ۱۰۰ روپے سے ضرب دیں تو ۳۰ لاکھ سے زیادہ کی رقم بنتی ہے۔ نیز اس محفوظ ریکارڈ میں صرف دکاندار کا نام ہے (جس کا چیک باؤنس ہواتھا) لیکن سیلزمین کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ کس سیلزمین سے یہ رقم وصول کی گئی تھی؟ کیونکہ وہ ریکارڈ کمپیوٹر میں نہیں ہوتا تھا، بلکہ کاغذ پر ہوتا تھا اور وہ کاغذات کچھ عرصہ میں ضائع کردیئے جاتے تھے۔خلاصہ یہ ہے کہ:
ہمارے پاس صرف چھ سال کا ریکارڈ موجود ہے اور ہمیں اس بات کا درست علم نہیں کہ کتنے سال پہلے بینک نے یہ رقم وصول کرنا بند کی؟
اتنے طویل عرصے کے دوران جن سیلزمینوں سے ہم نے چارجز لیے تھے، ان کا کوئی ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے اور نہ ا س کا معلوم کرنا ممکن ہے؟
البتہ سیلزمین نے جن سے لیا (یا نہیں لیا) ان دکانداروں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ہمارے علم میں یہ بات آئی تو آئندہ کے لیے تو اس وصولی کو روک دیاگیا، تاہم گزشتہ کے حوالے سے درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:
۱:ہمارے لیے موجودہ صورت حال میں گزشتہ وصول کردہ چارجز کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟
۲:باؤنس چیکوں کا جو چھ سالہ ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے، اس کا حکم کیاہے؟
۳:کیا یہ رقم دکانداروں کو لوٹانا ضروری ہے؟ جبکہ ہم نے یہ رقم اپنے سیلزمین سے وصول کی تھی، نیز بعض سیلزمین دکاندارسے تعلقات اچھے رکھنے کے لیے یہ رقم دکاندار سے وصول کرنے کے بجائے اپنی جیب سے دے دیتے تھے۔
۴:یا یہ رقم سیلزمین کو پہنچانا ضروری ہے؟ جبکہ ان کا ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ کس کے کتنے چیک باؤنس ہوئے تھے؟ اور کتنے چارجز اس سے وصول کیے گئے تھے؟ نیز بے شمار ملازم اس عرصے میں آئے اور چلے بھی گئے۔
نوٹ: واضح رہے کہ اصل حقداروں (سیلزمین ) کے لیے کوئی اعلان بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ایک تو مطالبہ کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوگا، دوسرا یہ کہ اتنی کثیر تعداد ہوگی کہ جس سے بہت بڑا انتشار اور طوفان کھڑا ہوجائے گا اور لوگ جھوٹے سچے کلیم کریںگے، جس کی پہچان کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔
۵:یا یہ تمام رقم صدقہ کرنا ضروری ہے؟
۶:اگر صدقہ کرنا ضروری ہے تو کیا صرف فقراء کی ملکیت میں تملیکاً دینا ضروری ہوگا؟ یا رفاہی کاموں میں بغیر تملیک کے بھی خرچ کرسکتے ہیں؟
۷:اگر یہ کسی ایسے ضرورت مند کی مدد میں خرچ کیے جائیں جو مستحقِ زکوٰۃ تو نہ ہو، لیکن علاج معالجہ، شادی بیاہ، مکان، بچوں کی تعلیم، روزگار وغیرہ کی مدات میں ضرورت مند ہو، تو اس کو دینے کا کیا حکم ہوگا؟ نیز اگر ایسے شخص کی ضرورت میں تملیک کے بغیر خرچ کردیئے جائیں تو کیا حکم ہوگا؟
۸:اگر نمبر ۷ میں مذکور شخص کمپنی کا ملازم ہو تو اس کی مدد کرنے کا کیا حکم ہوگا؟
۹:اگر رفاہی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت ہے تو کیا کمپنی اپنی ہی برانچوں پر اپنے ملامین کی عمومی ضرورت میں خرچ کرسکتی ہے؟ مثلاً نماز کے مصلوں کی تعمیر اور ان کا نظام، وضو خانوں کا انتظام، پانی کے کولروں وغیرہ کا انتظام، دھوپ سے بچنے کے لیے شیڈ کا انتظام کرنا، وغیرہ، وغیرہ)
۱۰:اگر بالفرض بینک نے یہ کٹوتی چھ سالوں سے بھی پہلے بند کردی ہو (جس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں) اور اس کا ریکارڈ بھی ہمارے پاس موجود نہیں، ان سالوں کے حوالے سے کیا احکامات ہوں گے، جن کے بارے میں ہم بالکل اندھیرے میں ہیں؟ براہِ کرم جواب دے کر ممنون فرمائیں۔  والسلام:

 مستفتی: اظفر اقبال رشید، مشیر شرعی امور برق کارپوریشن، کراچی

الجواب باسمہٖ تعالٰی

صورتِ مسئولہ میں بینک کی طرف سے چارجز کی وصولی بند ہونے کے بعد کمپنی نے سیلزمینوں کی تنخواہ سے جو کٹوتی کی، وہ ناحق اور ناجائز تھی، یہ کمپنی کی غفلت تھی کہ چلتی ہوئی پالیسی کو تبدیل نہ کیا، پالیسی کی تبدیلی میں جو مشکل تھی وہ کافی عذر نہ تھا۔ اب حکم یہ ہے کہ کٹوتی کی مد میں جمع شدہ رقم سیلزمینوں کو لازماً لوٹا دی جائے، کیونکہ کمپنی نے براہِ راست کٹوتی ان ہی سے کی ہے۔ اگر کسی سیلز مین نے دکاندار سے وصولی نہ کی ہو، پھر بھی اسے اس قدر لوٹانا ضروری ہے، کیونکہ سیلز مین خود کمپنی کو ادائیگی کرچکا ہے اور اس نے چونکہ دکاندار کا واجب دین اداکیا ہے، اس لیے وہ وصولی کا بھی مستحق ہے۔
کٹوتی کی مد میں جو رقم کمپنی کے پاس جمع شدہ ہے، اس کا حکم مالِ مغصوبہ کا ہے جو واپس لوٹانا ضروری ہے، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ کمپنی نے ناحق رقم وصول کی ہے، اس وجہ سے اصل حقدار کو حق کا پہنچانا بھی کمپنی کی ذمہ داری ہے، اصل حقدار دکاندار ہے، کیونکہ وہی مظلوم فریق ہے، کمپنی نے سیلز مین سے اور اس نے دکاندار سے وصولی کرلی ہے، تاہم کمپنی نے چونکہ سیلز مین سے کٹوتی کی ہے، اس لیے کمپنی سیلز مین کو رقم واپس کرے اور سیلز مین کی ذمہ داری ہے کہ وہ دکاندار کو ادائیگی کرے۔ اگر سیلزمین نے اپنی طرف سے ادائیگی کی ہے تو پھر بھی رقم اُسے لوٹانا ضروری ہے، کیونکہ اس نے دکاندار کے ذمہ واجب دین ادا کیا ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتاہے کہ سیلزمینوں کو کس طرح تلاش کیا جائے؟ کمپنی اپنے ریکارڈ سے مدد لے سکتی ہے، ورنہ اس سلسلے میں اعلانِ عام کیا جاسکتاہے اور آج کل اعلان کے جو باوقار وسائل ہیں وہ اختیار کیے جاسکتے ہیں، جب تک اصل حقداروں یا ان کے ورثاء سے مایوسی نہیں ہو جاتی اس وقت تک یہ رقم صدقہ نہیں کی جاسکتی، اور نہ ہی رفاہی وفلاحی منصوبوں میں خرچ کی جاسکتی ہے۔ ہاں! اگر اصل حقدار یا ان کے ورثاء معلوم نہ ہوں تو کسی مستحقِ زکوٰۃ آدمی کو صدقہ کردیا جائے اور ساتھ یہ تحریری وضاحت بھی بطور یادداشت کے کمپنی کے ریکارڈ میں محفوظ کی جائے، اگر اس رقم کا کوئی حقیقی مالک سامنے آگیا تو اس کے حصے کی رقم اُسے ادا کردی جائے گی، ایسی صورت میں صدقے کا ثواب کمپنی کے ذمہ داروں کے لیے ہوجائے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’علیہ دیون ومظالم جہل أربابہا وأیس من علیہ ذٰلک من معرفتہم فعلیہ التصدق بقدرہا من مالہ وإن استغرقت جمیع مالہٖ، ہٰذا مذہب أصحابنا۔‘‘ (فتاویٰ شامی ، ج:۴، ص:۲۸۳،ط:سعید) 
 

خالف الحق۔‘‘(الفتح الرباني للإمام الشوکاني، ج:۵، ص:۲۲۹۳، الفقہ واصولہ، بحث فی نقض الحکم اذا لم یوافق الحق، ط:مکتبۃ الجیل)
     

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد انعام الحق

ابوبکر سعیدالرحمٰن

وحید مراد

 

 

الجواب صحیح

الجواب صحیح

تخصص فقہ اسلامی

شعیب عالمرفیق احمد

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین