بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اے اہلِ ایمان! ۔۔۔ سچوں کے ساتھ رہو

اے اہلِ ایمان! ۔۔۔ سچوں کے ساتھ رہو


سچے کون ہیں؟ اور اُن کی علامات کیا ہیں؟ ان کی شناخت ہم کیسے کریں؟ اب تو سچے کہاں؟ اب توجھوٹوں کی بہتات ہے؟ جائیں تو کہاں جائیں؟ کس کا ساتھ دیں؟ بس اللہ ہی مدد فرمائے، باقی حالات عجیب ہیں۔
یہ وہ باتیں ہیں جو اکثر و بیشتر لوگوں کی زبان پر آتی رہتی ہیں، کبھی تو یہ الفاظ اس وقت کہے جاتے ہیں کہ دینی ودنیاوی اعتبار سے کوئی پریشان ہوتا ہے، پریشانی ہر طرف سے اس کو گھیر لیتی ہے، اور کبھی اس وقت یہ الفاظ بولے جاتے ہیں جب اہلِ حق وصدق حق بات سمجھانے کے لیے کسی سے گفتگوکر رہے ہوتے ہیں۔ جب مخاطب لاجواب ہوجاتاہے تو اس طرح کے مایوس کن الفاظ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتاہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں کے پیچھے اپنی سستی، دینی غفلت، لاپرواہی، راہِ حق کی طلب کا فقدان، نشست وبرخاست کا اُن لوگوں کے ساتھ ہونا جو خود اخلاقی بدتری کا شکار ہوتے ہیں، دین سے صرف نام کی حد تک تعلق ہوتا ہے، دین کو صحیح سمجھنے کے لیے کبھی زحمت برداشت نہیں کی، جو ذہن میں آیا اس کو دینِ حق سمجھ بیٹھے۔ اس پر اتنا ڈٹ گئے کہ مجال ہے ذرا بھی اس سے ہٹنے کو تیار ہوں، (العیاذ باللہ) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حق کو سورج کی طرح روشن کردیا ہے، حالانکہ قرآن، حدیث، قرآن والے، حدیث والے ابھی تک موجود ہوں، پھر بھی مایوس کن باتیں کرنا اس پر افسوس کے سوائے کیا کہا جاسکتا ہے؟
اہلِ حق وصدق ہمیشہ رہے ہیں اور رہیں گے، اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیا ہوا ہے۔ دنیا کا کوئی علاقہ یا شہر ایسا نہیں ہے جہاں اہلِ حق وصدق کی جماعت موجود نہ ہو اور افراد نہ ہوں۔ خانقاہوں، مدرسوں، مسجدوں میں رہنے والے یہ ہی تو اہلِ حق وصدق ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اپنے کردار، اعمال اور اقوال سے سچ / حق کی آواز بلند کی ہے، کمی ہے تو اپنی ہے کہ ہم میں اہلِ حق کو تلاش کرنے کا فقدان ہے۔ قرآن وحدیث میں جابجا اہلِ حق وصدق کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے ساتھ رہنے کا تاکیدی حکم بھی دیا گیا ہے ارو ان کی مخالفت پر وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں اور ان کے ساتھ تعلق نہ رکھنے پر دینی ودنیا وی نقصانات بھی بتائے گئے۔ 

قرآن کریم میں صادقین کی علامات 

درج ذیل آیات میں صادقین کی علامات بیان کی گئی ہیں:
1:’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِہِمْ   فِیْ   سَبِیْلِ  اللہِ   اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ ۔‘‘  (الحجرات:۱۵)
ترجمہ: ’’ پورے مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول ( علیہ السلام ) پر ایمان لائے، پھر شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے رستے میں محنت اٹھائی یہ لوگ ہیں سچے۔‘‘     (ترجمہ حضرت تھانویؒ)
فائدہ:     اس آیت میں بتادیا کہ ایمان میں سچائی لازم ہے۔ (انوار البیان:ج:۴، ص:۳۰۰)
2: ’’لِلْفُقَرَائِ  الْمُھٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِہِمْ  یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ  اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔‘‘  (الحشر:۸)
ترجمہ: ’’ اور ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً وظلماً ) جدا کردیے گئے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضامندی کے طالب ہیں۔ اور وہ اللہ اور رسول (کے دین) کی مدد کرتے ہیں (اور) یہی لوگ (ایمان) کے سچے ہیں۔‘‘
3: ’’وَالَّذِیْ  جَائَ  بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ  بِہٖٓ  اُولٰٓئِکَ  ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔‘‘(الزمر:۳۳)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ سچی بات لے کر آئے اور اس کو سچ جانا تو یہ لوگ پرہیزگار ہیں۔‘‘
فائدہ:     اس آیتِ مبارکہ میں سچائی اختیار کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں صفتِ تقویٰ سے متصف فرمایا ہے۔ (انوار البیان، ج:۴، ص:۳۰۰)
4:وعدہ پورا کرنے میں سچائی ہو:
’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللہَ عَلَیْہِ۔‘‘  (الاحزاب:۲۳)
ترجمہ:’’ان مؤمنین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے جس بات کا وعدہ کیا تھا، اس میں سچے اُترے۔‘‘

مفسرین کی تفاسیر میں بیان کردہ صادقین کی علامات

اسی طرح حضرات مفسرین نے بھی اہلِ صدق کی مزید علامات بیان فرمائی ہیں، جوکہ حسب ذیل ہیں:
1: دین کے معاملات میں سچے ہوں، یعنی صرف اللہ کو راضی کرنے کی نیت ہو۔
2: اقوال (باتوں) میں سچے ہوں، پھرنے والے نہ ہوں۔
3: اعمال (کردار) میں سچے وپختہ ہوں۔(البحر المحیط، ج:۵، ص:۱۱۳۔ تفسیر نسفی، ج:۲، ص:۳۹۳۔ الکشاف، ج:۲، ص:۳۵۶۔ روح المعانی، ج:۶، ص:۴۵)
4: ظاہر وباطن ایک جیساہو۔ (قرطبی:ج:۸، ص:۲۶۲) یہ نشانی تمام نشانیوں کو جامع ہے۔
5: دن کی روشنی میں اور رات کی تاریکی میں ان کی زبان سچ سے لبریز ہو۔ برسرِعام اور خفیہ دونوں صورتوں میں اُن کی زبانیں سچ سے تر ہوں۔
6: اپنے گناہوں، خطاؤں، کمی، کوتاہیوں، پر توبہ کرنے اور رجوع الی اللہ میں سچے ہوں۔ (بیضاوی، ج:۳، ص:۱۰۰)
7: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ: صادقین وہ ہیں جو اپنے ایمان میں سچے ثابت ہوئے اور جو اللہ ورسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اطاعت پر معاہدہ کیا ہے، اس میں سچے ثابت ہوں۔ (روح المعانی، ج:۶، ص:۴۵)
خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے سچ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہو اور اپنے اعضاء کی طرح سچ کو بھی اپنے جسم کا جز سمجھتے ہوں۔
حضرات مفسرین نے مخاطبین کے فہم وذکاء کا لحاظ کرتے ہوئے ایک بات کو مختلف انداز میں سمجھانے کی پوری پوری کوشش کی ہے، تاکہ ہرآدمی اپنے حال، فہم/ذکاء کے اعتبار سے سمجھ سکے اور عمل کرے۔ مذکورہ بالا علامات کے ذریعہ عام سے عام آدمی اہلِ صدق کی شناخت کرسکتاہے۔ جب کسی فرد/جماعت کے بارے میں تحقیق وتفتیش سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ سچے ہیں تو ان کی حمایت/تعاون اور ان کا ساتھ دینا لازم ہوجاتاہے، چاہے زبانی ہو یا عملی ہو، ان کی مخالفت جائز نہ ہوگی، مخالفت برائے مخالفت کی صورت میں گناہ کا طوق اس کی گردن میں توبہ تک ہوگا۔
اہلِ صدق وحق کے ساتھ تعاون /مدد کرنے اور ان کا ساتھ دینے کے بارے میں قرآن وحدیث میں جابجا تاکیدی حکم مذکور ہے، لیکن ہم صرف یہاں پر ایک آیت کو ذکر کرتے ہیں، ساتھ ساتھ اس آیت کے ذیل میں حضرات مفسرین نے جو رموز، معارف/ نکتے، حقائق بیان کیے ہیں، وہ بھی ہم ’’فائدہ‘‘ کے نام سے ذکر کریںگے، شاید کسی کو بات سمجھ میں آجائے اور ہدایت کا ذریعہ بن جائے:
’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔‘‘  (التوبہ:۱۱۹)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور عمل میں سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
’’یعنی جو نیت اور بات میں سچے ہیں، ان کی راہ چلو کہ تم بھی صدق اختیار کرو۔‘‘ (بیان القرآن، ص:۴۲۱) 

آیتِ مذکورہ کا ماقبل سے ربط وتعلق 

اس کے بارے میں حضرات مفسرین کے دو قول ہیں:
1:  حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کا ہے، وہ ربط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’چونکہ کعب بن مالکؓ وغیرہ کی معافی محض پرہیزگاری اور سچ بولنے کی وجہ سے ہوئی، اس لیے عام مسلمانوں کو تقویٰ، پرہیزگاری اور صادقین کی معیت اور صحبت کا حکم دیا جاتا ہے کہ صادقین کی معیت اور صحبت اختیار کرو اور منافقین کی صحبت سے پرہیز کرو، اس لیے کہ نبوت کے بعد درجہ صدق کا ہے: ’’فَاُولٰٓئِکَ مَعَ  الَّذِیْنَ  اَنْعَمَ  اللہُ  عَلَیْھِمْ  مِّنَ النَّبِیّٖنَ   وَ الصِّدِّیْقِیْنَ  ، الخ۔‘‘ (معارف القرآن، ج:۳، ص:۵۳۳)
2:  علامہ اندلسی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:
 جملہ معترضہ ہے، صدق کی اہمیت، افادیت وضرورت پر تنبیہ کرنے کے لیے لایاگیاہے: ’’واعترضت ہٰذہ الجملۃ تنبیہا علی رتبۃ الصدق کفی بہا أنہا ثانیۃ لرتبۃ النبوۃ۔‘‘  (البحر المحیط:ج:۵، ص:۱۱۳)

آیتِ مذکورہ سے مستنبط فوائد اور نکات

 

ایما ن اور تقویٰ کے ساتھ صحبتِ صالحین بھی ضروری ہے

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بعد تقویٰ ضروری ہے اور پھر صادقین اور صالحین کی معیت بھی ضروری ہے، کیونکہ ’’اتَّقُوا اللہَ‘‘ کے بعد ’’وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کا حکم دیاگیا ہے، جو وجوب اور لزوم کے لیے ہے، کوئی کمال بدون کامل کی صحبت کے حاصل نہیں ہوسکتا۔صحابیت کی حقیقت ہی شرفِ صحبت ہے۔ (معارف القرآن، ج:۳، ص:۵۳۳، کاندھلویؒ)
حضرت مولانا عاشق الٰہی مہاجر مدنیؒ اس آیت کا مفہوم ومطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’حضرات مفسرین کرامؒ نے ’’وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کا ایک مطلب تو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’کونوا مثلہم في صدقہم‘‘ (روح المعانی:ج:۶، ص:۴۵) یعنی جو لوگ صادقین ہیں ان ہی کی طرح ہوجاؤ، یعنی صدق ہی کو اختیار کرو اور ایمانی اقوال، اعمال، احوال میں صادقین کی راہ پر چلو، اور جس واقعے کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اس کی مناسبت سے یہی معنی زیادہ اظہر ہے، کیونکہ حضرت کعبؓ اور ان کے دونوں ساتھی جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے ساتھ جانے سے رہ گئے تھے، وہ ان کے ساتھ عملِ صدق میں شریک نہ ہوئے تھے۔
 لیکن الفاظ کا عموم اس بات کو بھی بتاتاہے کہ صادقین کی صحبت اختیار کرو، صحبت کا بڑا اثر ہوتاہے، اچھی صحبت اور بری صحبت دونوں بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں، جو اچھوں کی صحبت اُٹھائے گا اس میں خوبی پیدا ہوگی اور جو بروں کی صحبت میں رہے گا، اس میں برائیاں آتی چلی جائیںگی۔‘‘
(انوار البیان، ج:۴، ص:۳۵۳)
آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سچوں کے ساتھ ہونے میں تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں گے، تقویٰ کا حکم دینے کے بعد سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا ہے، اپنے لیے بھی صادقین کی مصاحبت کی کی فکر کریں اور اپنی اولاد کے لیے بھی اسی کو سوچیں، صادقین کے ساتھ بھی رہیں، ان کی کتابیں بھی پڑھیں، کتاب بھی بہترین ساتھی ہے، مگر کتاب اچھی ہو، اچھائی سکھاتی ہو اور اچھے لوگوں کی لکھی ہوئی ہو۔ (انوار البیان:ج:۴، ص:۳۵۳)

’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کی تعبیر اختیار کرنے میں ایک اہم نکتہ

یہاں پر حضرات مفسرین نے ایک اور باریک نکتہ بھی بیان فرمایا کہ: ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کے بجائے ’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کیوں نہیں کہا گیا؟ اس بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ:
 ’’کونوا مع العالمین‘‘ اور ’’کونوا مع الصالحین‘‘ کے بجائے ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کا لفظ اختیار فرما کر عالم اور صالح کی پہچان بھی بتلادی کہ صالح/عالم صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جس کا ظاہر وباطن یکساں ہو، نیت وارادے کا بھی سچا ہو، قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔(معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)
’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ صفتِ تقویٰ حاصل کرنے لیے طریقۂ صالحین وصادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، اس میں شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت ومجالست اور ان کے مشورے کو بھی دخل تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہیے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہیے۔ (معارف القرآن، ج:۴، ص:۴۸۵)
 صادقین کی معیت میں رہ کر دنیا وآخرت کی بے شمار خوبیاں حاصل ہوتی ہیں، لیکن ہم یہاں صرف تین کو ذکر کرتے ہیں، جو جامع ومانع ہیں:۱:-اجتماعیت، ۲:-تربیت یعنی اخلاقِ ظاہرہ، اخلاقِ باطنہ کی تربیت ہوگی۔ ۳:-دینی ودنیاوی معاملات میں ترقی ہوگی۔ (مواعظِ جمعہ مولانا عبد الکریم  ؒ، ملتان، ص:۲۶۳)
 حضرات مفسرین کرامؒ نے آیتِ بالا کے ذیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’اس طرح درجہ بدرجہ ہر زمانے میں صالح بندگانِ خداوند تعالیٰ کا ساتھ دینا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے زمانۂ خلافتِ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے وقت آیتِ مذکورہ سے استدلال کرکے فرمایا کہ: ’’اے لوگو! حضرت علیؓ اور ان کے اصحاب کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ (مواہب الرحمٰن، ج:۳، ص:۵۷)

راہِ حق کی تین اقسام 

راہِ حق کی تین اقسام ہیں: 1:ایمان، 2:تقویٰ، 3:صدق ۔ اور ان اعمال کا تعلق دل سے ہے، کیونکہ ان کے حقائق کشفِ انوار الغیوب سے درست ثابت ہوتے ہیں، جب یہ حقائق ثابت ہوگئے تو بندے کو ایمان سے آیاتِ قرآنی کے حقائق ملتے ہیں، اور تقویٰ سے مشاہدۂ صفات، اور صدق سے مشاہدۂ انوارِ ذات حاصل ہوتے ہیں، واضح ہوکہ پہلے ان کو مؤمنین کہا، پھر ان کو اس مقام سے مقامِ تقویٰ کی طرف بلایا اور وہ مشاہدۂ جلال وعظمت کا مقام ہے کہ تمام اغیار سے بیزار ہوجائے۔ پھر تقویٰ سے مقامِ صدق کی طرف بلایا اور وہ مقامِ استقامت مع اللہ عز وجل ہے، چنانچہ صادق اس کی بلا وامتحان سے گریز نہیں کرتا اور اس میں اشارہ ہے کہ جو مؤمن ہے، اس میں تقویٰ، صدق کی استدعا (تقاضا) ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بیان بھی ہے کہ صادقین سے مخالفت نہ کرو، چنانچہ صادقین کو جو علوم واسرار حاصل ہوتے ہیں ان میں اتباع کرنے والوں کو بھی فیض حاصل ہوتا ہے۔  (مواہب الرحمٰن، ج:۳، ص:۱۶)
نیز اس آیتِ بالا کے ذیل میں حضرات مفسرینؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’صالحین وصادقین کی موافقت ومتابعت کسی صورت میں بھی ترک نہ کرے، اگرچہ صادقین، صالحین کی مخالفت پرایک جم غفیر آیا ہو۔‘‘  (مواہب الرحمٰن، ج:۳، ص:۵۷)

آیتِ مذکورہ اجماع کی حجیت کی دلیل ہے

بعض علماء کا قول ہے کہ یہ آیت اجماعِ امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے، یعنی جن اُمور پر اجماع ہوجائے، ان کا ماننا ضروری ہے، کیونکہ ’’کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ فرمایاگیا ہے: 
’’والآیۃ تدل علی أن الإجماع حجۃ؛ لأنہ أمر بالکون مع الصادقین، فلزم القبول لہم۔‘‘   (تفسیر نسفی، ج:۲، ص:۲۹۳۔ تفسیر الکبیر، ج:۶، ص:۱۶۶۔ مواہب الرحمٰن، ج:۳، ص:۵۹)

صادقین ہر زمانے میں ہوں گے

امام رازیؒ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ: اہلِ ایمان کو صادقین کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیاتو اس میں یہ بھی اشارہ کردیا کہ صادقین کی جماعت ہر زمانے میں رہے گی: 
’’إنہٗ تعالیٰ أمر المؤمنین بالکون مع الصادقین، فلابد من وجود الصادقین في کل وقت۔‘‘  (تفسیر الکبیر، ج:۶، ص:۱۶۶)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  آیتِ مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سچوں کی صحبت رکھو، اور ان ہی جیسے کام کرو، دیکھ لو! یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے۔ منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو ’’درکِ اسفل‘‘ کے مستحق بنے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ج:۱، ص:۵۸۷)
حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’بعض نے معیت کی تفسیر مخالطت ومقارنت سے کی ہے، کذا في الروح، اس میں ترغیب ہے صحبتِ صالحین کی۔‘‘  (بیان القرآن، ص:۴۲۱)
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ    تفسیر حقانی (ج:۲، ص:۵۲۳) میں لکھتے ہیں:
’’صادقین کے جو کچھ فضائل آئے ہیں، وہ بیان سے باہر ہیں، جب آدمی اپنے خدا تعالیٰ سے سچا رہتا ہے تو دین ودنیا کی برکات نصیب ہوتی ہیں، چونکہ صدق بھی نبوت کا ایک جزوِ اعظم ہے، اس لیے صدیق کا درجہ نبی کے بعد ہے۔‘‘  (تفسیر حقانی، ج:۲، ص:۵۲۳)

صحبتِ صالحین کی ضرورت سے متعلق چند احادیث مبارکہ

ہرشخص کو معاشرت کے لیے، اُٹھنے بیٹھنے کے لیے، مسافرت کے لیے اور مصاحبت کے لیے صادقین کی صحبت اختیار کرنا لازم ہے، جیسے ساتھی ہوںگے ویسا ہی خود ہوجائے گا، جیساکہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے:
1:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، سو تم میں سے ہر شخص غور وفکر کرے کہ اس کی دوستی کس سے ہے؟: ’’الرجل علٰی دین خلیلہٖ، فلینظر أحدکم من یخالل۔‘‘
2:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور تیرا کھانا متقی کے سوا کوئی نہ کھائے: ’’لاتصاحب إلا مؤمناً ولایأکل طعامک إلا تقي۔‘‘ (الترمذی، ج:۲، ص:۶۵) 
3:حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: اگر تم میں سے کسی کا ارادہ صادقین کی معیت وصحبت اختیار کرنے کا ہو تو دو کام کرو، تم کو صادقین کی معیت نصیب ہوجائے گی: ۱:- دنیا میں رہ کر زہد اختیار کرو، ۲:-اہلِ دنیا سے اپنے آپ کو بچاتے رہو۔  (ابن کثیر، ج:۴، ص:۳۹۹)
اس آیتِ مبارکہ میں سچائی کی اہمیت اور ضرورت بتانے کے لیے عامۃ المسلمین کو حکم دیاگیا ہے کہ سچوں کا ساتھ دو، تاکہ صفتِ صدق حاصل ہوجائے، نیز آیتِ مذکورہ میں سچ بولنے اور تمام معاملات میں سچائی اختیار کرنے کی ضمناً ترغیب دی گئی ہے، اس لیے کہ سچ تمام خوبیوں /نیکیوں کی جڑ ہے اور تمام نیکیوں سے افضل واحسن ہے اور سچ اچھی عادت/خصلت کی بنیاد ہے اور ہر سعادت وخیر کے حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور صدق سے ہی ہرکمال حاصل ہوتا ہے۔ سچائی کا نتیجہ سو فیصد کامیابی ہے، لہٰذا جب تمام مقامات میں سچ کا لحاظ کیا جائے گا، یعنی دل، فکر، نیت، قول، عمل صدق سے لبریز ہوگا تو پھر اس کے نتائج بھی شاندار روح افزا نکلیں گے۔ سچ کا اثر حالتِ نیند پر بھی ہوگا اور خواب سچے آئیںگے، دل پر آنے والی چیز بھی سچی ثابت ہو گی۔ اس پر آنے والے احوال درست ہوںگے۔ امورِ وہبیہ، مشاہدات میں بھی نتیجہ سچا آئے گا، اگر یوں کہا جائے کہ سچ شجرۂ کمال کی اصل ہے، احوالِ صادقہ کے ثمر کا بیج ہے تو بجا ہوگا۔ ساتھ ساتھ جھوٹ بولنے پر اور تمام معاملات میں جھوٹ بولنے پر ضمناً سخت وعید بھی دی گئی ہے، اس لیے کہ جھوٹ تمام برائیوں میں سے سب سے قبیح ہے اور جھوٹ ہربرائی کی جڑ ہے اور ہر بری عادت وخصلت کی بنیاد ہے۔ ہر شقاوت کے حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے، جھوٹ کا نتیجہ سو فیصد ناکامی وذلت ہے۔ (تفسیر قاسمی، ج:۵، ص:۵۲۵)

صدق اور سچائی سے متعلق چند احادیث مبارکہ

1: روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہا کہ میں آپ پر ایمان لانا چاہتاہوں، لیکن میں تو شراب، زنا، چوری اور جھوٹ کا گرویدہ ہوں، ان کو میں چھوڑ نہیں سکتا اور آپ توان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں اور میں ان اعمال کا شیدائی ہوں کہ چھوڑ نہیں سکتا، اگر آپ ان میں سے کسی ایک کے چھوڑنے کا حکم دیںگے تو میں مؤمن ہو جاؤں گا، باقی اعمال حسب عادت کرتا رہوں گا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی گفتگو سن کر فرمایا کہ ٹھیک ہے تو مسلمان ہو جا، لیکن جھوٹ نہ بولنا، وہ مسلمان ہوگیا اور چلا گیا، جب اس پر شراب پیش کی گئی تو اس نے کہا کہ اگر میں نے شراب پی لی توحضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے شراب کے پینے کے بارے میں پوچھا تو اگر میں نے جھوٹ بولا تو یہ وعدہ خلافی ہوگی اور اگر میں نے سچ بولا تو مجھ پر حد قائم ہوگی، اس لیے بس میں شراب چھوڑتاہوں، پھر اس پر زنا پیش کیا گیا، اس وقت بھی یہی صورت حال ہوئی، تو زنا بھی چھوڑدیا، اسی طرح چوری کرنے کے ارادے میں بھی یہی صورت حال سامنے آئی اور چوری کرنا چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ شخص حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے تو میرے ساتھ بہت ہی اچھا کیا کہ آپ نے مجھے جھوٹ سے روکا، اس سے تمام برائیاں مجھ سے چھوٹ گئیں اور باقی تمام گناہوں سے توبہ کرلی۔ معلوم ہوا کہ جھوٹ نہ بولنے کے بہت فوائد ہیں۔ (تفسیر الکبیر، ج:۶، ص:۱۶۷، تفسیر سراج منیر، ج:۱، ص:۶۵۶)
2: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’تم اپنی جانوں کی طرح مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتاہوں: ۱:-بولو، تو سچ بولو، ۲:-وعدہ پورا کرو، ۳:-جو امانتیں تمہارے پاس رکھی جائیں انہیں ادا کرو، ۴:-اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، ۵:-اپنی نظروں کو نیچا رکھو، ۶:- اپنے ہاتھوں کو ظلم وزیادتی سے بچائے رکھو۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۴۱۵)
3: حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ : ’’ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے گھر میں تشریف فرماتھے۔ میری والدہ نے کہا: آ ! میں تجھے دے رہی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم نے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر تو اُسے کھجور بھی نہ دیتی تو تیرے اعمال نامہ میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔‘‘ (مشکوۃ، ص:۵۱۶)
4:حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم سچ کو پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور بے شک نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور انسان برابر سچ اختیار کرتاہے اور سچ ہی پر عمل کرنے کی فکر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیاجاتاہے اور تم جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ گاری کی طرف لے جاتاہے اور گناہ گاری دوزخ میں لے جاتی ہے اور انسان جھوٹ کو اختیار کرتا ہے اور جھوٹ ہی کے لیے فکرمند رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (سنن الترمذی، ج:۱، ص:۱۹)
5:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جب تیرے اندر چار خصلتیں ہوں تو ساری دنیا بھی اگر تجھ سے جاتی ہے تو کوئی ڈر نہیں:1:امانت کی حفاظت، 2:بات کی سچائی، 3:اخلاق کی خوبی، 4:لقمہ کی پاکیزگی۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص:۴۴۵)
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو دنیا وآخرت میں اہلِ صدق وحق کی رفاقت نصیب فرمائے۔

آمین! بجاہ سید المرسلین ، صلی اللہ علیہ وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین