بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ایک کرنسی کی دوسری کرنسی کے بدلہ خرید وفروخت اور قرض کا حکم

ایک کرنسی کی دوسری کرنسی کے بدلہ خرید وفروخت اور قرض کا حکم

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:     عمر نے زید سے $1000/-(ڈالرز) اُدھار قرضہ لیا،پاکستانی Rs.106/-کے ریٹ سے، جبکہ اُس وقت ڈالر کا ریٹ Rs.100/-ہے، اُدھار کی مدت دوماہ طے ہوئی۔     یا زید نے عمر کو $1000/-(ڈالرز)فروخت کئے Rs.106/-کے ریٹ سے، جبکہ اُس وقت ریٹ Rs.100/-ہے، اب عمر نے کہا: مجھے یہ ریٹ منظور ہے، لیکن پیسے دو ماہ بعد لے لینا۔     عمر زید کو پاکستانی روپے میں رقم لوٹائے گا، تاکہ جنس بدل جائے اورایک جنس میں کمی زیادتی نہ ہوجائے۔ اس صورت میں چونکہ رقم زیادہ تھی، اس لیے زید نے پاکستانی روپے کے چیک عمر کودیئے۔ جب عمر نے ان پاکستانی روپے کو ڈالر ز میں Convert (تبدیل)کروالیا اور ڈالرز تبدیلی کی Slip (رسید)زید کو دی، تب زید نے کہا: اب معاملہ کرلو اور لکھ بھی لو۔سوال یہ ہے کہ:     ۱- کیا کرنسی کے لین دین میں اگر مختلف کرنسی میں لین دین ہو تو کمی زیادتی جائز ہے؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ کرنسی کے کاروبار میں ہر  Exchange Company کا اپنا ریٹ ہوتا ہے۔     ۲-اگر اوپر والی صورت میں لین دین ہوچکا ہو تو اب معاملہ درست کرنے کی صورت یا حل بتادیں۔ جزاک اللہ                                               مستفتی:محمد بن تصور خلیل، کراچی الجواب حامدًا و مصلیًا     ۱-صورت مسئولہ میں ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک کی کرنسی کے ساتھ خرید وفروخت کمی زیادتی کے ساتھ جائز ہے، بشرطیکہ معاملہ دونوں طرف سے ہاتھ در ہاتھ ہو، کرنسی کی خرید وفروخت میں اُدھار جائز نہیں۔     ۲-سوال کی ابتدا میں جو دو صورتیں ذکر کی گئیں ہیں وہ ناجائز ہیں، کیونکہ کرنسی کی اُدھار خرید وفروخت ناجائز ہے۔ اگر اس طرح کا معاملہ کیا جا چکا ہے تو اسے ختم کرنا واجب ہے اور اس لین دین کے نتیجے میں اگر کسی فریق کو کوئی مالی فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ بھی واپس کرنا واجب ہے۔     یہ بھی معلوم رہے کہ اس طرح کے لین دین کو اگرچہ قرض سمجھا جاتا ہے اور سوال میں بھی اُسے قرض سے تعبیر کیاگیا ہے، مگر حقیقت میں یہ قرض نہیں، بلکہ تبادلہ ہے، یعنی خرید وفروخت کا معاملہ ہے۔ ’’الدرالمختار‘‘میں ہے: ’’(وإلا) بأن لم یتجانسا ( شرط التقابض) لحرمۃ النسأ (فلو باع) النقدین (أحدہما بالآخر جزافًا أو بفضل وتقابضا فیہ) أی فی المجلس (صح و) العوضان (لایتعینان)… (ویفسد) الصرف (بخیار الشرط والأجل) لإخلالہما بالقبض۔  وفی الشامیۃ (قولہ: لحرمۃ النسأ) بالفتح أی التأخیر فإنہ یحرم بإحدی علتی الربا: أی القدر أو الجنس… الخ۔‘‘     (باب الصرف،ج: ۵،ص:۲۵۸-۲۵۹،ط:سعید) اور ’’الدرالمختار‘‘ ہی میں ہے: ’’(و) یجب (علی کل واحد منہما فسخہ قبل القبض) ویکون امتناعًا عنہ ابن ملک (أو بعدہ مادام) المبیع بحالہ جوہرۃ (فی ید المشتری إعدامًا للفساد لأنہ معصیۃ فیجب رفعہا۔ ‘‘                  (الدرالمختار،ج:۵،ص:۹۱،ط:سعید، کراچی)       الجواب صحیح           الجواب صحیح          الجواب صحیح               کتبہ     ابوبکرسعید الرحمن       محمد انعام الحق        شعیب عالم             محمد نقیب اللہ                                                                  تخصص فقہ اسلامی                                                        جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین