بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ایک اورجنتی بسوئے فردوسِ بریں

ایک اورجنتی بسوئے فردوسِ بریں

 ساری تعریفیں اس رب لایزال کو سیوا ہیں، جس کی صفتِ قدیمہ ’’لکل شئ محیط‘‘ کے ساتھ ساتھ’’ علٰی کل شئ شہید‘‘ بھی ہے، جس نے اپنی رضا کے لئے جان جان آفریں کے سپرد کرنے والوں کو شہید کا لقب دے کر کائنات کو آگاہ کردیا کہ موت ایسی چیز ہے کہ ہر چیز کو فنا کردیتی ہے، شکست وریخت سے دوچار کر دیتی ہے اور ہرشئے کو ہست سے نیست میں بدل دیتی ہے، مگر شہادت وہ حقیقت ہے کہ موت کو بھی ہرادیتی ہے، موت کی حقیقت نے ہر چیز کو شکست دی ہے ،لیکن شہادت سے خود شکست کھاگئی ہے۔ نبوت وہ اعلیٰ مقام ہے کہ جس کی موجودگی میں دین ودنیا کے کسی بھی مقام ومنصب کی تمنا ہیچ ہوتی ہے، لیکن نبوت کے باوصف نبی‘ آپ کو شہادت کی آرزو کرتے ہوئے نظر آئیںگے، اس لئے اگر کوئی نبی میدانِ کار زارمیں شہید نہ ہوا ہو تو نبی کی طبعی موت کو بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں شہادت شمار کیا جاتا ہے، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے اس عزت لازوال اور سعادتِ بے پایاں سے نوازاہو ۔ برادر مکرم، شہید فی سبیل اللہ حضرت مولانا مفتی محمد عبد المجید دین پوری اور میرے شیخ رئیس المجاہدین حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ ،حضرت اقدس رئیس الاولیاء فی عصرہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ،حضرت اقدس مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ ،حضرت اقدس برادر مکرم مفتی عبد السمیعؒ ،حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا عنایت اللہ شہیدؒ ،جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا حمید الرحمن شہیدؒ ،ان حضرات کو مرحوم، رحمۃ اللہ علیہم یا متوفی کہتے اور لکھتے ہوئے بدن عجیب سی جُھرجھری محسوس کرتاہے، زبان اور قلم رکنے لگتے ہیں، لیکن شہادت کے اعلیٰ مقام کو دیکھ کر ان کی قسمتوں اور اعلیٰ مقام پر رشک آتا ہے اور اس پر تسلی واطمینان اورخوشی بھی ہوتی ہے کہ یہ حضرات بہت اونچے تھے، تب ہی تو اللہ نے اس دار الغرور والخداع سے نکال کر دار الحرور والسرور میں بلندیاں عطا کیں۔ ہر کمالے را‘زوالے اس دنیا میں بعض وہ حضرات ہیں کہ کمال کو پہنچنے کے بعد ان پر ان کی زندگی میں زوال بھی آیا ہے، جن کی لمبی فہرست بھی ہے اور جس پر گردشِ لیل ونہار گواہ بھی ہیں، خود سورج نصف النہار کے وقت اپنے کمال کو پہنچنے کے بعد جاکر غروب ہوجاتاہے، یہ اس کا زوال اور ناتمامیت ہے، چاند کمال کے مدارج طے کرتے ہوئے چودہویں تاریخ تک کمال کو جب پہنچتا ہے تو پندرہ تاریخ سے آخر ماہ تک اس کو زوال کا سامنا رہتا ہے ، لیکن خالقِ کائنات کی علماء دیوبند اور میرے اساتذہ پر کتنی رحمت اور توجہ ہے کہ کمال پر پہنچا کر ان کو اسی کمال ہی کی حالت میں اپنے پاس بلاتا ہے، بلکہ شہادت کی نعمت دے کر ان کے کمال پر مہر ثبت فرما دیتاہے کہ اب ان کے زوال پر ابدی زوال آچکا ہے، جو کبھی ہمارے مشائخ کے کمال کے درپے نہیں ہوسکتا۔ مفتی عبد المجید دین پوریؒ اور ان کی شہادت جن دنوں میں برادر مکرم مفتی عبد المجید دین پوریؒ کو شہید کیا گیا، ان ہی دنوں میں مجھ سے کچھ لوگوں نے یہ پوچھا کہ صرف اور صرف علماء دیوبند کو کیوں شہید کیا جاتا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ لومڑی، گیدڑاور چوہے کا کون شکار کرتا ہے؟ شکار تو خالص حلال وپاکیزہ چیزوں کا یا پھرشیر کا کیا جاتا ہے! انگریز اور اس کی روحانی ذریت کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس ملک کے شیر اور بہادر ، اعتقاد وعمل میں مخلص وپاکیزہ صرف علماء دیوبند ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ مفتی عبد المجید دین پوریؒ اور آپ کی مقبولیت اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس عاجزی انکساری اورتواضع سے نوازا تھا، وہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، باوجود اتنے علم اور اس اونچے مقام (بنوری ٹاؤن کے نائب رئیس دارالافتائ) کے پھر بھی میرے جیسے نالائق اور کم فہم لوگوں کے ساتھ انتہاء کی تواضع ،خندہ پیشانی اور اخلاق سے پیش آتے تھے، جو ان کی مہر ومحبت کی انتہاء ہے، جزاہم اللّٰہ علی ذلک۔ حضرت دین پوریؒ اور سندھی زبان چونکہ حضرتؒ سندھ میں کافی رہ چکے تھے، اس لئے سندھی زبان سے خاص تعلق اور دلچسپی تھی، میری اور آپ کی گفتگو اکثر سندھی زبان میں ہوتی تھی، آپ مجھ سے علم وعمل، تقویٰ و طہارت اورعمر میں بھی بڑے تھے، لیکن آپ کے رویہ سے کبھی بھی ہم نے کوئی بڑائی محسوس نہیں کی، بلکہ میرے جیسے نالائق کو آپ سائیں سائیں کے الفاظ سے پکار تے تھے۔ جو لوگ سندھی زبان جانتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ لفظ’’سائیں‘‘ سندھی زبان میں احترام کی انتہاء کو چھونے کے لئے استعمال ہوا کرتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ سندھی زبان کے اس لفظ کی چاشنی کسی دوسری زبان میں نہیں ہے، بلکہ میرے اور آپ کے اس انداز کو دیکھ کر میرے پیارے بھائی مفتی رفیق احمدبالاکوٹی بھی میرے لئے لفظ سائیں استعمال کرنے لگے ہیں۔ فقہی مجالس اور مفتی عبد المجیدؒ علماء کرام اور مفتیان عظام جانتے ہیں کہ ایک زمانہ سے دارالعلوم کراچی، بنوری ٹاؤن، جامعہ فاروقیہ ودیگر اہل مدارس کے مابین علمی اور فقہی مجالس کا انعقاد ہوا کرتا تھا، اب اس سلسلے کو لوگوں کی بچتیں اکٹھا کرنے والی بینکوں کے مسائل نے پارہ پارہ اور منتشر کرکے رکھ دیا ہے، شاید بینکوں نے ’’لقد تقطع بینکم ‘‘کا کردار ادا کردیا۔ چند سال پہلے دارالعلوم کراچی میں تصویر اور سی ڈیز کے مسائل زیر بحث آئے، اس موقع پر احقر کے لہجے میں شدت اور بے ادبی محسوس فرماکر مجلس کے اختتام پر آپ نے سندھی زبان میں احقر کی فہمائش کرتے ہوئے ادب واحترام کے دامن سے وابستہ رہنے کی تاکید وتلقین اور تنبیہ بھی فرمائی، نور اللّٰہ مرقدہ وجزاہ اللّٰہ علی ذلک۔ آپ ہمارے بڑے تھے، آپ سے ہمیشہ علمی استفادہ کا سلسلہ جاری رہا، خاص طور پر حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ اور برادر مکرم مفتی عبد المجید دین پوریؒ جیسے عظیم حضرات جب اتنی عزت دیتے تھے تو ان کی اس نرمی اور عزت دینے کی وجہ سے میں تو کافی جری اور دلیر بن گیا تھا، اس وجہ سے ہم دیگر علماء سے بھی بے تکلف ہوکر گفتگو کرتے تھے، اس میدان میں برادر مکرم مفتی شعیب عالم صاحب اور مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب بھی شاید میری بے باکی اورسنگ باری کی زَد میں آتے رہتے  تھے، جس کی وجہ یہی بڑے حضرات ہیں جن کی شفقتوں نے ہمیں ہر کسی سے بے تکلف اورجری بنادیاتھا ۔ ایک دفعہ تو حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزئی ؒ کی گاڑی میں مفتی عبد المجید دین پوریؒ، مفتی سمیع اللہ جامعہ فاروقیہ ، مفتی عبد الباری جامعہ فاروقیہ ہم سب ساتھ تھے، میں نے مفتی نظام الدین شامزئیؒ اور مفتی عبد المجید دین پوریؒ سے بے تکلفی وبے باکی کے ساتھ نیاز مندی شروع کردی ،برادرم مفتی سمیع اللہ پہلے تو روایتی آداب سے بے پروائی پرمجھے کچھ روکنے کی کوشش کرنے لگے، مگر ان حضرات کی خندہ پیشانی اور بشاشت کو دیکھا تو مفتی سمیع اللہ بھی خاموشی سے میری بے تکلفی سے محظوظ ہونے لگ گئے ۔ اللہ نے ہمیں ایسے اساتذہ اور ایسے اکابرین عنایت فرمائے ہیں کہ جن کی مثال دنیا میں شاید بہت ہی کم ملے۔ حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ادب او راحترام حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان شاید مفتی عبد المجید دین پوریؒ کے استاذ نہیں تھے ، لیکن اس کے باوجود برادر مکرم مفتی عبد المجید دین پوریؒ کو دیکھا کہ حضرت اقدس کا احترام استاذ سے بھی بڑھ کر کرتے تھے، جب بھی حضرت اقدس نے کسی مسئلہ پر آپ کو بلایا، حضرت مفتی صاحبؒ فوراً پہنچ جاتے تھے۔ یہ سب حضرت اقدس شیخ الاسلام علامہ بنوریؒ کے روحانی فیض کی مجسم تصویرہے۔ میں نے اپنے شیخ حضرت اقدس محمد عوامہ کو دیکھا ہے کہ حضرت اقدس بنوری کا جب بھی تذکرہ کرتے تو آپ کے آنسو رکتے نہیںتھے، بنوری ٹاؤن کے اس قافلہ کا سالار اور ان تمام عظیم اساتذہ کے فیوضات کا سر چشمہ حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی ذات بابرکات ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لگائے ہوئے اس عظیم باغ (جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن) کو تاقیام قیامت جاری رکھے اور اس کے فیض کو عام اور تام فرمائے، حضرات شہدائے کرام کے اس مقدس خون کی لاج رکھتے ہوئے اس ملک پر اور اس کے رہنے والوں پر رحم فرمائے اور ان کے قاتلوں کو ہدایت عنایت فرماکر توبہ کی دولت سے مالا مال فرمائے یا چن چن کر صفحۂ ہستی سے مٹا دے، آمین، اور اللہ تعالیٰ برادر مکرم مفتی عبد المجید دین پوریؒ اور مفتی صالح محمد کاروڑیؒ ودیگر شہدائے کرام کو غریقِ رحمت فرمائے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین