بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ایمان!حقیقت ونوعیت

ایمان!حقیقت ونوعیت

ایمان کا لغوی معنی ایمان کا لغوی معنی ہے امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو سچا سمجھ کر اس کی بات پر یقین کرنا، وغیرہ۔ ایمان کا اصطلاحی وشرعی معنی نبی کریم ا سے دین کی جو بات قطعی طور پر ثابت ہے، اُسے دل وجان سے تسلیم کرنا۔ ایمان کی تعریف پر تفصیلی نظر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ حضور ا کو صادق ومصدوق سمجھیں، آپ ا کی رسالت پر دل سے اعتقاد رکھیںاور زبان سے اس کی گواہی وشہادت دیں۔ایمان کی حقیقت اصل میں ’’تصدیق قلبی‘‘ ہے اور رہا زبان سے اس کا اقرار کرنا تو یہ اقرار صرف اس لئے ہے، تاکہ ظاہر میں اب آپ پر مسلمان ہونے کے احکام جاری کئے جاسکیں اور یہ بھی ہے کہ زبانی اقرار’’ تصدیق قلبی‘‘ کی علامت بھی ہے، کیونکہ زبان دل کی ترجمان ہے۔ ہاں! یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص گونگا ہے یا جبراً اس سے کلمہ کہلایاگیا ،یا پھر زبان سے اقرار کرنے کی اُسے مہلت نہ مل سکی، لیکن اس کے قلب میں تصدیق موجود تھی تو ایسی تمام صورتوں میں زبانی اقرار کی ضرورت نہ ہوگی۔ ’’نبراس‘‘ شرح ’’شرح عقائد‘‘ میں درج ہے کہ:  ’’إنہ ہو التصدیق بالقلب، وإنما الاقرار شرط لإجراء الأحکام فی الدنیا من حرمۃ الدم والمال وصلوٰۃ الجنازۃ علیہ ودفنہ فی مقابر المسلمین۔۔۔۔ فمن صدق فی قلبہ ولم یقر بلسانہ فہو مؤمن عند اﷲ سبحانہ وإن لم یکن مؤمناً فی أحکام الدنیا‘‘۔           (نبراس،شرح ’’شرح عقائد‘‘،ص:۵۲۰،مولانا عبدالعزیز پرہاڑیؒ) ایمان کے اجزاء محدثین کے یہاں ایمان کے تین اجزاء ہیں: ۱…تصدیق، ۲…اقرار ، ۳…عمل۔ اسی لئے تو محدثین ایمان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا نام ہے۔ اور ہمارا خیال تو یہ ہے کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، کیونکہ جو کچھ محدثین کہتے ہیں کامل ایمان تو حقیقتاً یہی ہے۔ بے عمل کا ایمان بہرحال ناقص ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ ایمان، تصدیق قلبی کا ہی نام ہے، اعمال اس کی حقیقت میں داخل نہیں، اگرچہ کمال ایمان، اعمال صالحہ ہی سے وجود میں آتا ہے۔ (شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، ایمان کیا ہے؟ مترجم مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، ص:۸۳) ایمان کے درجے ایمان کے دو درجے ہیں: ۱…ایمان تحقیقی، ۲…ایمان تقلیدی۔ ایمان تحقیقی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل ہو اور انہیں دلائل سے ثابت بھی کر سکتا ہو۔ اور ایمان تقلیدی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل تو ہو، مگر انہیں دلائل سے ثابت نہیں کرسکتا۔ دونوں قسم کا ایمان معتبر ہے، تاہم ایمان تحقیقی، ایمان تقلیدی سے رتبے میں بڑھ کر ہے۔  ’’قال أبوحنیفۃؒ وسفیان الثوریؒ ومالکؒ والأوزاعیؒ والشافعیؒ واحمدؒ وعامۃ الفقہاء وأہل الحدیث رحمہم اللّٰہ تعالیٰ: صلح إیمانہ ولکنہ عاص بترک الاستدلال بل نقل بعضہم الإجماعَ علی ذلک‘‘۔ (شرح فقہ اکبر، ص:۱۴۳) ضروریاتِ دین پر ایمان ان تمام چیزوںکو جو نبی کریم ا سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں، ضروریات دین کہا جاتا ہے۔ مومن کے لئے ان تمام ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ضروریاتِ دین بہت ساری ہیں، مثلاً: اللہ کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں، آسمانی کتابوں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں، قیامت، تقدیر، موت کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ ارکان اسلام کی فرضیت کا قائل ہونا، سود، زنا، جھوٹ اور فرائض اسلام کی عدم ادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔ ضروریاتِ دین بعض تفصیل کے ساتھ بتلائی گئی ہیں اور بعض اجمالاً ۔جو ضروریاتِ دین تفصیلاً بتلائی گئی ہیں ان پر تفصیلاً ایمان لانا ضروری ہے، مثلاً نماز پر اس کے متعلق بتلائی گئی ہیئت وکیفیت سمیت ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا تو قائل ہے، لیکن اس تفصیل کے ساتھ قائل نہیں جو بتلائی گئی ہے تو وہ مومن نہیں۔ اور جو ضروریات اجمالاً بتلائی گئی ہیں، مثلاً: فرشتوں پر ایمان لانا، سابقہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانا وغیرہ تو ان پر اجمالاً ایمان لانا کافی ہے :(شرح المقاصد،ج:۳،ص:۴۲۰) ایمان اور اسلام میں فرق ایمان واسلام میں کوئی فرق نہیں، لیکن اس کے باوجود ایمان سے عموماً تصدیق قلبی واحوال باطنی مراد ہوتے ہیں اور اسلام سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت اور فرما نبرداری مراد لی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:  ’’قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا‘‘۔        (الحجرات:۱۴) ترجمہ:…’’اور کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے، تو کہہ کہ تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہوئے‘‘۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ حاصل اس تفصیل کا یہ ہے کہ جو مسلمان ہے وہ مومن بھی ہے اورجو مؤمن ہے وہ مسلمان بھی ہے۔ ان دونوں میں کوئی مغایرت واختلاف نہیں۔ علامہ کشمیریؒ لکھتے ہیں کہ: تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح پر نمودار ہوجائے تو اس کا نام اسلام ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ایمان کے نام سے موسوم ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی حقیقت ہے، لیکن اختلافِ مواطن سے اس کے نام مختلف ہوگئے اور اگر ایمان صرف قلب ہی میں ہو اور اسلام محض اعضاء پر نمایاں ہو تو یہ مغایر حقیقتیں ہیں، اب ان میں اتحاد نہ ہوگا۔ (فیض الباری، ج:۱،ص:۶۹) ایمان کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن کی تصدیق کی جاتی ہے، یعنی اعتقادات سے۔ اسلام کا تعلق ان چیزوں سے ہے جنہیں عملی طور پر بجالایا جاتا ہے، یعنی اعمال ظاہرہ: نماز، روزہ، وغیرہ سے۔ لیکن قرآن وحدیث میں ان کا آپس میں ایک دوسرے پر اطلاق بھی کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعاً دونوں کا مصداق تقریباً ایک ہی ہے یا دونوں ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل یا غیر معتبر ہے:  ’’قال أہل السنۃ والجماعۃ الإیمان لاینفصل عن الإسلام والإسلام من الإیمان۔ من کان مؤمناً کان مسلماً ومن کان مسلماً کان مؤمناً، وإن کان الإیمان غیر الإسلام لغۃً کالبطن لایتصور بدون الظہروالظہر بدون البطن وإن کانا غیرین فإن الإیمان ہو التصدیق والإسلام ہو الانقیاد، فمن کان مصدقاً ﷲ تعالیٰ ولرسولہ کان مسلماً ومن کان منقاداً لہ ولرسولہ کان مؤمناً۔ وعند المعتزلۃ والروافض ینفصل أحدہما عن الآخر‘‘۔        (اصول الدین للبزدویؒ، ص:۵۴) ترجمہ:’’اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ ایمان اسلام سے الگ نہیں ہے، اور اسلام ایمان میں سے ہے، جو مؤمن ہوگا وہ مسلمان بھی ہوگا اور جو مسلمان ہوگا وہ مومن بھی ہوگا، اگرچہ لغۃً ایمان اسلام کا غیر ہے، جیسے پیٹ پیٹھ کے بغیر متصور نہیں ہے، اور پیٹھ پیٹ کے بغیر متصور نہیں ہے، اگرچہ وہ دونوں ایک دوسرے کے غیر ہیں۔ پس ایمان تصدیق کا نام ہے اور اسلام اتباع کا نام ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی تصدیق کرنے والا ہے وہ مسلم ہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کا تابع دار ہے وہ مومن ہے۔ اور معتزلہ اور روافض کے نزدیک یہ دونوں الگ الگ ہیں‘‘۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین