بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ایمازون (Amazon)  1 :- ویب سائٹ ، 2 :- ڈراپ شپنگ (Drop Shipping)  3 :- ایف بی اے (F.B.A) کے ذریعہ کاروبار کا حکم

ایمازون (Amazon) 

1 :- ویب سائٹ ، 2 :- ڈراپ شپنگ (Drop Shipping)  3 :- ایف بی اے (F.B.A) کے ذریعہ کاروبار کا حکم

 

عرض یہ ہے کہ ایمازون کے متعلق درج ذیل سوالات کے شرعی جوابات دے کر ممنون فرمائیں۔
1 :- سوال یہ ہے کہ میں ایمازون ویب سائٹ کے ساتھ کمیشن کے عوض مارکیٹنگ میں کام  کرتا ہوں، ایمازون بہت بڑی ویب سائٹ ہے، یہ ویب سائٹ ملین مصنوعات فروخت کرتی ہے۔ ایمازون ویب سائٹ کے پروگرام میں آپ مفت رجسٹریشن کر سکتے ہیں، پھر آپ جن اشیاء کی مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، انہیں اختیار کریں اور پھر اس کی تشہیر وترویج کرکے اس کا لنک لوگوں تک پہنچائیں، توجو شخص بھی آپ کے مخصوص لنک کے ذریعے ویب سائٹ تک پہنچ کر وہ چیز خریدے گا تو آپ کو اس میں سے کمیشن ملے گا، یہ کمیشن اس چیز کی قیمت کا کچھ فیصدی حصہ ہوتا ہے، باقی یہ کمیشن بالکل متعین ہوتا ہے، ہر چیز میں ایک مخصوص فیصدی کمیشن ہوتا ہے۔ تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ کیا اس کی کمائی /آمدنی جائز ہے؟
2 :- ایمازون پر کاروبار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے جس کو ’’ڈراپ شپنگ‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ڈراپ شپنگ یہ ہے کہ ایمازون ویب سائٹ پر اسٹور بنایا جاتا ہے، اور جو اشیاء بیچنا مقصود ہیں،وہ اگر چہ آپ کے پاس نہیں ہیں، لیکن وہ کہیں سے خرید کر اس ویب سائٹ کو ارسال کردی جاتی ہیں، اور اپنے دام لگا کر اس کو آگے بیچا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس میں قبضہ مفقود شمار ہوگا، جس کی وجہ سے یہ ناجائز ہو گا؟ یا اس ویب سائٹ کا قبضہ ہماری طرف سے کافی ہے؟ کیا ویب سائٹ کا یہ قبضہ وکالت کے حکم میں آئے گا؟
3 :- نیز ایمازون ایف بی اے  (FBA) جو ایمازون پر کاروبار کرنے کا ایک رائج اور مشہور طریقہ ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
برائے مہربانی ان سوالات کے شرعی احکام بتا کر راہنمائی فرمائیں۔مستفتی: توصیف احمد

الجواب حامدًا ومصلیًا

1 :- ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، شرعاً یہ کام دلالی کے حکم میں ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے، جیسے مبیع کاحرام ہونا، لہٰذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہوں، جو چیزیں شرعاً حرام ہیں، ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کرنا ہو اس کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی اوصاف، قیمت وغیرہ واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لیے جمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔
مزید یہ کہ آرڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو آرڈر کینسل کرنے کا بھی اختیار ہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور افراد بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں، اس لیے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔ ’’الدرالمختار‘‘ میں ہے:
’’وأما الدلال فإن باع العين بنفسہٖ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع، وإن سعٰی بينہما وباع المالک بنفسہٖ يعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانيۃ۔‘‘
وفي الرد تحتہ:
’’(قولہ: فأجرتہ علی البائع) وليس لہٗ أخذ شيء من المشتري؛ لأنہ ہو العاقد حقيقۃ شرح الوہبانيۃ وظاہرہٗ أنہٗ لا يعتبر العرف ہنا؛ لأنہٗ لا وجہ لہٗ. (قولہ: يعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو عليہما بحسب العرف جامع الفصولين۔‘‘       (حاشيۃ ابن عابدین،ج:۴، ص:۵۶۰،ط:سعید)

2 :- واضح رہے کہ ڈراپ شپنگ کا عام طور پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے۔ رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے، یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے۔ مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔
اس طریقۂ کاروبار میں خریدار کا اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا بظاہر قبول ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دکان داراشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجادیتا ہے اوران پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہے، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے اور جیسے دکان پر دکان دار کا عمل قبول ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے بیع ’’تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اور اگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔ بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اُٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے، اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اُٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا۔
مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ چیز پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تووہ اسے قبول کرلیتا ہے، یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتا ہے۔
ایمازون کی ویب سائٹ پر اس طرح خریدوفروخت کرنا درست ہے، البتہ اس میں درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
۱: انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، یعنی ہاتھ در ہاتھ اور نقد ہونا ضروری ہے اور یہ صورت آن لائن خریداری میں ممکن ہی نہیں ، لہٰذا سونا، چاندی اور کرنسی کی آن لائن تجارت نہ کی جائے۔
۲: مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
۳: کوئی شرطِ فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
۴: صرف تصویر دیکھنے سے خریدار کا خیارِ رؤیت ساقط نہیں ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو یا دیکھنے کے بعد مشتری کو پسند نہ آئے تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
 ۵: ویب سائٹ پراپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔
۶: اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز اُن کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں، یعنی صارف (کسٹمر) ویب سائٹ والے کو خریداری کا وکیل بنادے، ویب سائٹ والا وکیل بن کر اس چیز کو مؤکل (صارف) کے لیے خریدے، نیز ایک صورت یہ بھی درست ہے کہ ویب سائٹ اپنے صارف کے ساتھ اس کی مطلوبہ چیز کی بیع کا وعدہ کرے اور جب وہ چیز قبضہ میں آجائے تو صارف سےعقدِ بیع کرکے وہ چیز صارف کو ارسال کرے۔
۷: ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے کو چاہیے کہ ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ یا ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن دے، کیوں کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے۔ نیز اگر اس پروڈکٹ میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے ، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ ’’المحيط البرہاني‘‘ میں ہے:
’’يجب أن يعلم أن شراء مالم يرہ المشتري جائز عندنا، وصورۃ المسألۃ: أن يقول الرجل لغيرہ: بعت منک الثوب ‌الذي ‌في ‌کمي ‌ہٰذا، والصفۃ کذا، أو الدرۃ التي في کفي وصفتہ کذا، أو لم يذکر الصفۃ، أو يقول: بعت منک ہٰذہ الجاريۃ المتبقيۃ۔‘‘   (المحيط البرہانی فی الفقہ النعمانی ،ج:۶، ص:۵۳۱،ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت) 
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’خيار العيب يثبت من غير شرط، کذا في السراج الوہاج. وإذا اشتری شيئًا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعيب يسيرٌ أو فاحشٌ فلہ الخيار، إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء ردہٗ، کذا في شرح الطحاوي. وہٰذا إذا لم يتمکن من إزالتہٖ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاريۃ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ،ج:۳، ص:۶۶، دارالفکر)
3 :- ہماری معلومات کے مطابق ایمازون ایف بی اے (Fulfilled By Amazon) کا طریقہ تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمازون پر کسی چیز کو فروخت کرتا ہےتو اولاً یہ شخص اس چیز کو مینوفیکچرر سے خریدلیتا ہے، دوسرے نمبر پر یہ شخص اس چیز کو ایمازون کے گودام میں پہنچانے کاحکم کرتا ہے، اس مرحلہ کے بعد یہ چیز ایمازون کے گودام میں اس شخص کی ملکیت کے طور پر محفوظ کردی جاتی ہے، اس مرحلہ تک تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمل فروخت کنندہ کی طرف سے ایجاب ہے، البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ فروخت کنندہ نے اپنی چیز فروخت کرنے کے لیے سامنے لائی، اس کے بعد جب کوئی خریدنے والااس چیز کو ایمازون پر مذکورہ فروخت کنندہ سے خریدتا ہے، تو اس شخص (مالک) کے حکم پر ایمازون اس چیز کو پیک کر کے خریدار کو بھیج دیتی ہے۔ اس صورت کے مطابق چونکہ فروخت کنندہ اولاً مینوفیکچرر سے خریدلیتا ہےاور اس کی ملکیت ثابت ہونے کے بعد ایمازون اس چیز پر بطور وکیل قبضہ کرتی ہےاور وکیل بن کر کسٹمر کو یہ چیز پہنچا دیتی ہے، لہٰذا اگر اس چیز کے بیع میں شرعاً ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ  ہو،(مثلاً وہ کوئی حرام شے نہ ہو، وغیرہ) تو ایمازون پر بیع کی مذکورہ صورت جائز ہے، لما قال العلامۃ الکاسانيؒ:
’’ (ومنہا) وہو شرط انعقاد البيع للبائع أن يکون مملوکًا للبائع عند البيع فإن لم يکن لا ينعقد۔‘‘(بدائع الصنائع، ج:۵، ص:۱۴۶، ط: دار الکتب العلميۃ، بیروت)
وقال في مجلۃ الأحکام العدلیۃ:
’’للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضہٖ إن کان عقارًا وإلا فلا۔‘‘ (مجلۃ الاحکام العدليۃ، ج:۱، ص:۵۲، ط: نور محمد)

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

محمد شفیق عارف  

محمد ابراہیم

نور اللہ

 

 

تخصص فقہ اسلامی

 

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین