بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ  (پہلی قسط)

اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ

       (پہلی قسط)

 

مدارسِ دینیہ علوم ومعارف کے اِیسْتادَہ مینار ہیں، تقویٰ کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہیں سے امتِ مسلمہ کو قران و سنت کی صحیح تشریح ملتی ہے۔مدارس سے فارغ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام، امت کو فکری و نظریاتی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ انہی مدارس سے امت کو وہ رجال اللہ ملتے ہیں جو کہ مختلف محاذوں پر کام کرتے ہیں، تاکہ امت کی بنیادی دینی ضروریات پوری ہوں۔ نیز یہ علمائے کرام سیاسی، سماجی، و معاشرتی میدان میں بھی اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ان مدارس سے حفاظِ کرام، شیخ الحدیث، قاری، مفتی، عالم، فقیہ، مفسر، مبلغ، مناظر، عربی علوم کے ماہر، مصنف، اور دینی علوم کو اپنی اصلی حالت میں اگلی نسل تک پہنچانے والےرجال اللہ پیدا ہوتے ہیں۔انہی مدارس سے ہمیں عربی اور اردو ادب کو فروغ دینے والے بے نظیر علمائے کرام بھی نظر آتے ہیں، انہی میں تاریخ دان بھی ہیں اور صرف و نحو کے ماہر بھی اور انہی مدارس سے وہ علمائے کرام بھی تیار ہوتے ہیں جو کہ ہر محاذ پر باطل قوتوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور اُمتِ مسلمہ کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
جب ہم ان مدارس کا تقابل عصری تعلیمی اداروں یعنی کالج و یونیورسٹیوں سے کرتے ہیں تو جو بنیادی خصوصیات ہمیں ان مدارس میں نظر آتی ہیں وہ تقویٰ، اخلاص اور للہیت ہے۔ ان خصوصیات کا حصول طلبائے کرام مدارس کے مُتَّقِیانَہ ماحول میں کئی سال گزارنے کے بعد حاصل کرتے ہیں، حتیٰ کہ مدارس میں مطبخ میں بھی متقی لوگوں کو کھانا پکانے کی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں، تاکہ طلبائے کرام کو جو کھانا ملے ان میں اُن کے ذکر کے انوارات بھی شامل ہوں۔ بعض مدارس میں کھانا بناتے وقت قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، تاکہ کھانا بھی نور بن کر اُن طلبائے کرام کو مزید تقویت دے اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنے۔ بعض فاضل علمائے کرام مشائخ کے ساتھ صحبت اختیار کرتے ہیں اور سلوک و احسان کے درجات طے کرتے ہیں اور مشائخ سے فیض حاصل کرنے کے بعد امت کی باطنی اصلاح میں مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں۔ بعض علمائے کرام دعوت و تبلیغ کی محنت میں جڑ کر اپنی زندگی دین کی محنت میں صرف کردیتے ہیں۔ بعض علمائے کرام دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے درس و تدریس اور افتاء کے شعبوں سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ بعض اعلائے کلمۃ اللہ اور احیائے سنت کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیتےہیں۔ غرض یہ تقویٰ، اخلاص، للہیت اور تربیتِ ظاہر و باطن ہی ہے جو کہ ان مدارسِ دینیہ کا خاصہ ہے۔ اب اگر یہ اخلاص، تقویٰ اور للہیت مدارسِ دینیہ سے عنقاء کردی جائے تو عصری علوم کے اداروں سے فراغت حاصل کرنے والوں اور مدارسِ دینیہ سے فارغ علمائے کرام میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علمائے کرام معاشرے میں سدھار پیدا کرسکیں گے ؟ اورپھر کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علمائے کرام اسلام اور ملک و ملت کواپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے؟ نیزپھر ان مدارس سے فارغ ہونے والوں میں اور مغربی ممالک کے لادینی عصری اداروں سے دینی اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ 
غرض یہ مدارسِ دینیہ ہی ہیں جو کہ دین کو اپنی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معاون و مددگارہیں۔ مسلمانوں کو کمزور اورختم کرنے کے لیے باطل کی چالوں میں سے ایک چال یہ ہے کہ کسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کو کمزور اور ختم کردیا جائے۔ باطل قوتوں کا زور اس بات پر ہے کہ مدارسِ دینیہ خدانخواستہ کچھ اس شعر کی مصداق ہوجائیں کہ بقول شاعر:

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک

نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ!

راقم کا یہ مضمون مدارس میں ہونے والے ارتقاء سے متعلق ہے جس کو راقم نے اپنے مدارس سے متعلق کئی سال سے زیادہ کے مشاہدات اورتَعامُل میں محسوس کیا۔ راقم نے مدارس سے باضابطہ تعلیم تو حاصل نہیں کی ہے، البتہ مدارس، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام سے گہرا تعلق اور قلبی لگاؤ ہے۔ اس مضمون میں اربابِ مدارس اور اکابرینِ امت کی خدمت میں راقم بحیثیت کمپیوٹر سائنسدان، جو کہ مدارس کے نظام کو باہر سے دیکھ رہا ہے اور اپنے تأثرات و مشاہدات قلمبند کر رہا ہے، اپنی چندگزارشات بڑے دردِ دل سے پیش کر رہا ہے، تاکہ اکابرینِ مدارس، مدارسِ دینیہ کی ظاہری اور باطنی حفاظت کے بارے میں مزید فکر فرمائیں۔بندہ کو اپنی کم علمی کا احساس ہے اور بندہ سراسر خطاکار ہے، بس اس امید سے یہ کچھ سطور لکھ رہا ہے کہ قارئین لکھنے والے کو نہ دیکھیں گے، بلکہ جن اسلاف کی خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کو دیکھیں گے اور انہی کا اتباع بھی کریں گے۔ اُمید قوی ہے کہ بندہ کی اس جرأت، جسارت، کمی کوتاہیِ آداب کو حضرات علمائے کرام اور اکابرین درگزر فرمادیں گے، جزاھم اللہ خیراً أحسن الجزاء في الدارین۔
 تاریخی طور پر مدارسِ دینیہ کو کمزور اور ختم کرنے کی بے شمار کوششیں ہوتی رہی ہیں اور آج بھی ایسی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم اگر ہم مدارس کو ختم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیں تواُن کی دو بنیادی اقسام ہیں: اول ظاہری کوششیں ہیں اور دوم خفیہ کوششیں ہیں۔

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی ظاہری کوششیں

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی جو ظاہری کوششیں ہیں ان میں عالمی اِسْتِعْماری قوتوں کا حکومتِ وقت پر اثر انداز ہوکر ایسی پالیسیاں مرتب کروانا ہوتا رہا ہے جن سے مدارس کو سرے سے ہی ختم کردیا جائے یا کم از کم مدارس اور عوام کے رشتے کو کمزور کیا جائے،مثلاً موجودہ مدارسِ دینیہ کی رجسٹریشن کے عمل کو پیچیدہ بنانا، نئے مدارس بنانے میں قانونی وانتظامی پیچیدیگیاں پیدا کرنا، بار بار مدارسِ دینیہ کو مختلف حکومتی محکموں کے زیرِ اثر لانا، مدارس کو مالی امداد ملنے والے ذرائع جن میں زکوٰۃ، صدقات وغیرہ شامل ہیں کو کنٹرول کرنا، عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی کھالوں کو مدارس تک نہ پہنچنے دینا سے لے کر میڈیا پرمدارس کے خلاف منظم پروپیگنڈہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان ساری باطل کی کوششوں کے سدِ باب کے لیے الحمدللہ علمائے کرام کوششیں کرتے آئے ہیں اور اپنی جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اللہ پاک پاکستان بھر کے علمائے کرام کو عمومی طور پر اورخصوصی طور پر وفاق المدارس کے گزشتہ اور موجودہ اکابرین کو جزائے خیر دے کہ ان حضرات کی مدارس کو بچانے کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی ظاہری کوششوں پر دیگر حضرات نے پیشتر گفتگو فرمائی ہے، لہٰذا ہم کوشش کریں گے کہ اس مضمون میں ہم مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں پرتھوڑی تفصیل سے بات کریں۔

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششیں

مدارس کو ختم اور کمزورکرنے کی خفیہ کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ مدارس کو اس کے اصل مقصد سے ہٹایا جائے، تاکہ وہاں سے تقویٰ، للہیت اور اخلاص کو سرے سے ختم کردیا جائے، یعنی پھر مدارس تو رہیں، درس وتدریس بھی ہو، طلبائے کرام بھی رہیں، مفتیانِ کرام بھی رہیں، ’’علماء‘‘ اور ’’مفتی‘‘ بھی تیار ہوں، مگر اُن میں سےوہ تقویٰ، اخلاص، للہیت، دینی پختگی اور تصلّب کی بنیادی روح غائب کردی جائے یا کمزور کردی جائے جو کہ مدارس کا خاصہ ہے۔ دیکھیے! مدارسِ دینیہ کے مقاصد و موضوع بالکل واضح ہیں۔ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بارہا اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ:
’’ ہماری دینی درس گاہوں کا اصل موضوع علومِ کتاب و سنت ہیں، انہیں کی افہام وتفہیم، تَعَلُّم و تعلیم، توضیح و تشریح، تعمیل و اتباع اور تبلیغ و دعوت اور ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم رکھ سکیں، بس یہی ان مدارس کا مقصودِ اصلی ہے۔‘‘ (حرفِ آغاز، ماہنامہ دارالعلوم، ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ، مطابق مئی ۲۰۰۷ء)
قارئین! آپ بار بار مدارس کے مقصد کو پڑھیے کہ مدارسِ دینیہ کا اصل مقصد کیا ہے؟ اب ہم غور کریں کہ مدارس کو ختم و کمزورکرنے کی ظاہری کوششوں کا تو ہمیں کافی حد تک اِدراک ہے، وہ ہمیں نظر بھی آتی ہیں اور اس کے تدارک کے لیے ممکنہ تدبیریں بھی اختیار کی جاتی ہیں، مگر مدارس کو ختم و کمزور کرنے کی جو خفیہ کوششیں ہیں اُن کو عوامی سطح پر سمجھنے کی اور اُن کے خلاف بھی کافی مضبوطی کے ساتھ کام کرنے کی اشدضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمارے اکابرین کو جزائے خیر دے کہ نہ صرف یہ کہ وہ ان ظاہری کوششوں سے بھی واقف ہیں، بلکہ وہ خفیہ کوششوں کا بھی پورا ادراک رکھتے ہیں اور اس کے لیے وقتاً فوقتاً تدارک کی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششیں کئی جہتوں پر مُحیط ہیں، ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ یہاں پر کرتے ہیں، تاکہ عوامی سطح پر حالات کی سنگینی کا احساس ہو اور ہم اس کے تدارک کے لیے مادی اسباب کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ کو اختیار کریں، تاکہ مدارسِ دینیہ کی حفاظت ہو۔

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوشش نمبر-۱، نصاب میں جوہری تبدیلی

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش مدارس کے نصاب میں جوہری تبدیلی ہے، مگر الحمد للہ حضرات علمائے کرام اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں کبھی یہ دعوت دی گئی کہ مدارس سے سائنسدان، انجینئر، ڈاکٹر اور وکیل فارغ ہونے چاہئیں، تو کبھی یہ دعوت دی گئی کہ مدارس کو کمپیوٹر کی تعلیم لازمی دینی چاہیے۔ دیکھیے! ضرورت کے درجے میں تو ان عصری علوم کا مدارس میں آنے سے تو کوئی انکاری نہیں، مگر بنیادی مقصد ہی سے ہٹ کر مدارس سے یہ توقع رکھنا کہ یہاں سے ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، محققین، معاشی ماہرین اور وکلاء نکلیں گے، یہ بات قطعاً درست نہیں اور مدارس کے مقاصد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: مضمون ’’سائنسی تحقیق، عصری علوم، اور دینی مدارس‘‘، ماہنامہ بینات، ربیع الاول ۱۴۴۳ ھ - نومبر۲۰۲۱ء)
اسی نصاب کی تبدیلی کے حوالے سے ذیل کا اقتباس کافی اہمیت کا حامل ہے:
’’اگلے دن بعد مغرب اسی مدرسے میں ایک مقدس بزرگ شیخ محمد عبد الکریم (حفظہ اللہ) کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ وہ حضرت شیخ امجد الزھاوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے رفقاء میں سے ہیں اور انہوں نے عصری جامعات کے ’’ڈگری زدہ‘‘ طریقے کے بجائے قدیم طریقے پر ماہر اساتذہ و شیوخ سے علومِ دینیہ کی تکمیل فرمائی ہے۔’’ماجستیر‘‘ اور ’’دکتوراہ‘‘ کے اس دور میں ایسے علماء کی قدر و قیمت پہچاننے والے بہت کم ہیں۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ علمِ دین کی جو خوشبو اور شریعت و سنت کی جو مہک ان بوریہ نشینوں کے پاس محسوس ہوتی ہے، وہ عموماً یونیورسٹیوں کے عالیشان عمارتوں اور ان کے پرتکلف ماحول میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے جہاں کہیں جانا ہوتا ہے، ایسے علماء کی تلاش رہتی ہے۔ شیخ موصوف مدرسے کے پہلو میں ایک سادہ سے فلیٹ میں مقیم ہیں۔قدیم عربی طرز کی نشست، آس پاس کتابوں کے ڈھیر، دروازہ ہر آنے والے کے لیے کھلا ہوا، چہرہ ہمہ تن گلاب کی طرح متبسم، باتوں میں بلا کی معصومیت، برجستگی اور بے تکلفی، تصنع اور دکھاوے سے کوسوں دور، پہلی ہی نظر میں زیارت سے دل باغ باغ ہوگیا۔ڈاکٹر محمد شریف صاحب (مستشاروزارۃ الاوقاف) نے شیخ کو پہلے سے فون پر ہمارے آنے کی اطلاع کردی تھی، اور شیخ یہ سن کر بہت مسرور تھے کہ ناچیز کو انہی پرانے طرز کے دینی مدارس اور ان کے علماء سے خادمانہ نسبت حاصل ہے۔ چناچہ ابتدائی سلام و کلام کے بعد ان کا پہلا سوال ہمارے مدارس کے نصاب ونظام سے متعلق تھا،اور جب میں نے اپنی درسی کتب میں سے کافیہ، شرح جامی، شرح تہذیب، نورالانوار اور توضیح جیسی کتب کا نام لیا تو وہ تقریباً چیخ پڑے، اور وصیت فرمائی کہ اس قسم کی ٹھوس استعداد پیدا کرنے والے نظامِ تعلیم کو آپ کبھی نہ چھوڑئیے، کیونکہ ہم اس نظام کو چھوڑنے کے نتائجِ بد اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (مفتی محمد تقی عثمانی ، جہانِ دیدہ، صفحہ: ۲۲، ادارۃالمعارف، کراچی)
بقول شاعر:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف

کوشش نمبر -۲، انگریزی کا علم

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش علمائے کرام کو انگریزی سکھانے کے خوشنما عنوان سے ہے جس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ انگریزی سیکھ کر علمائے کرام دین کی ترویج و اشاعت مزید مؤثر طریقے سے کرسکیں گے۔ذیل میں ہم کچھ اقتباس نقل کرتے ہیں جس سے ہماری تشویش کو قارئین کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ 
’’مدارسِ دینیہ چونکہ اسلام، اسلامی تہذیب و ثقافت، اور امتِ مسلمہ کی چودہ صدیوں کے عظیم الشان دینی اور علمی ورثہ کے امین ہیں، مدارس کی شبانہ روز محنتوں سے اسلام اپنی حقیقی روح و عمل کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے۔ یہ مدارس ہی ہیں جن کی جہدِ پیہم کی وجہ سے آج برِصغیر پاک و ہند استعمار کی شدید ترین کوششوں کے باوجود ’’اندلس‘‘ نہیں بن سکا ہے، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ساٹھ سے زائد مسلمان ممالک اپنے تمام تر وسائل کے باوجود بھی ان استعماری سازشوں کا مقابلہ نہیں کرسکے، بلکہ اس پر مستزاد دُکھ دینے والی صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک استعماری سازشوں کا شکار ہو کر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔چوں کہ مغربی استعماری قوتوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں آخری رکاوٹ ’’دینی مدارس‘‘ ہیں، اس لیے ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی بھی طرح سے مدارس کو موجودہ ’’دہشت گردی‘‘ کے ساتھ نتھی کرکے اُنہیں راہ سے ہٹا دیا جائے، اگر ایسا نہ ہوسکا (اور یقیناً نہیں ہوگا ان شاءا للہ تعالیٰ!) تو ان کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کروائی جائیں کہ مدارس سے بھی ’’لارڈ میکالے‘‘ کے دیئے ہوئے نظامِ تعلیم کی طرح انہی کے پروردہ لوگ نکلیں، جن میں دنیا کو حقیقی اسلام سے متعارف کروانے کی صلاحیت مفقود ہو، جو ہر طرح کے جذبۂ حریت سے خالی ہوں۔‘‘ (مفتی ابو الخیر عارف محمود، اگر یہ مدارس نہ رہے تو!، ماہنامہ بینات، محرم الحرام ۱۴۳۸ ھ- نومبر ۲۰۱۶)
اکبر الہ آبادی مرحوم کا مشہور شعر ہے، بقول شاعر:

مشرقی تو سر دشمن کو کچل دیتے ہیں

مغربی اس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں

’’ حاصل یہ ہے کہ مغربی ذہنیت یہ ہے کہ اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو زیر کرنے کے لیے تیغ و سنان کے بجائے، تعلیم کے نام پر دماغوں اورمزاجوں کو بدل دیتے ہیں اور اپنے نظریات و خیالات کے مطابق ان کو ڈھال لیتے ہیں، میں اوپر اس نظامِ تعلیم کے بانی ’’لارڈ میکالے‘‘ کی تصریح نقل کرچکا ہوں کہ وہ اس نظام سے ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو، مگر مزاج اور فکر اور نظریات و خیالات کے لحاظ سے انگریز ہو، کیا اس کے بعد بھی کسی کو ہماری بات کی صداقت میں شک و شبہ کی گنجائش ہے؟ ‘‘(ماہنامہ دارالعلوم (دیوبند)، شمارہ۷، جلد:۸۹ ، جمادی الاول، جماد ی الثانی ۱۴۲۶ہجری مطابق جولائی۲۰۰۵ء)
یعنی اگر ہم اوپر کے اقتباس میں تھوڑی تبدیلی کریں تو اب باطل قوتیں، مدارس کے اندر اپنی خفیہ کوششوں کو بَرُوئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ظاہری حُلیےکے اعتبار سے تو ’’عالم‘‘ اور ’’مفتی‘‘ ہو، مگر مزاج اور فکر اور نظریات و خیالات کے لحاظ سے لادینی ہو اور دَر پردہ مدارس کے نظام کے اندر رہتے ہوئے اور ’’مولانا‘‘، ’’مفتی‘‘ کے ٹائٹل استعمال کرتے ہوئے مدارس کے نظام کو گُھن کی طرح کھوکھلا کردیں۔ بقول شاعر:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کے غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

’’اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے آسان اور بہتر راستہ ایسا نظامِ تعلیم جاری کرنا تھا، جو مسلمان نوجوانوں کے دل و دماغ سے دینی روح، جذبۂ اسلامی اور فکرِ اسلامی کو یکسر ختم کردے، اور ان میں ایسا مادی نقطۂ نظر پیدا کردے جو انہیں مادی زندگی کا رسیا اور عارضی وفانی زندگی کا دلدادہ بنادے، خود اعتمادی جاتی رہے، اور شک وریب میں مبتلا ہوجائے۔‘‘  (مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، نقوشِ اقبال، صفحہ:۱۳۰)
دیکھیے! ہم قطعاً انگریزی زبان ضرورت کے درجے میں سیکھنے کے مخالف نہیں ہیں، مگر جو ہماری تشویش ہے وہ یہ کہ انگریزی سیکھنے کے عنوان سے کہیں ہم لاشعوری طور پر باطل کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور اس طرح مدارس کے مقاصد کو نقصان پہنچے۔عصری تعلیمی اداروں کا تو حال کچھ ایسا ہے کہ بقول شاعر:

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار

ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بے زار

مگر کیا یہی کچھ ہم مدارس میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے مدارس طرزِ سلف سے بے زار ہوجائیں؟ میں نے کئی علمائےکرام سے باتیں کی ہیں تو مجھے عجیب تشویش محسوس ہوئی کہ جن نوجوان مفتیانِ کرام نے انگریزی پڑھ لی ہے تو ان کے اندر میں نے بات کی تردید کرنے کےانداز میں تَکَبُّر، تَعَلّی، تَفَوُّق محسوس کیا اور جن علمائے کرام نے انگریزی نہیں پڑھی، ان کے اندر میں نے تواضع اور عاجزی محسوس کی، میری بات کو انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی، اور مجھے سے بہت سے سوالات کیے اور پھر انہوں نے میری بات کو مانا بھی اور تسلیم بھی کیا اور ان کے اندازِ گفتگو میں عاجزی کا عنصر تھا۔اور دوسری طرف ایسے علمائے کرام جو انگریزی سیکھے ہوئے ہیں اور جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور’’ ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل اپنے ساتھ لگا لیا ہے، ان سے بھی میں نے باتیں کیں، مگر ان کے انداز سے مجھے محسوس نہیں ہوا کہ مجھ سے جو ہم کلام ہے وہ کوئی مدرسہ کا بہت بڑا مفتی ہے جس نے قرآن و حدیث اور بخاری شریف پڑھی ہو۔ یہ میری فیلنگز اور احساسات ہیں اور میں بڑے درد سے کہتا ہوں کہ اہلِ مدارس اس طرف توجہ دیں کہ انگریزی جب سکھائیں تو اس بات کی طرف توجہ فرمائیں کہ ہم آئندہ نسل میں کیا منتقل کررہے ہیں؟!
یہ بات اب مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی ہے کہ اکابر اور جید مفتیانِ کرام تو انگریزی سیکھ کر بھی عاجزی، تواضع، اور للہیت کے پیکر ہیں اور جب اُن حضرات کے سامنے حق بات رکھی گئی تو انہوں نے اسے قبول فرمالی، جبکہ نوجوان مفتیانِ کرام جنہوں نے انگریزی سیکھ لی ہے اور ’’ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل بھی لگا لیا ہے، اُن میں راقم کو یہ صفات نظر نہیں آئیں، البتہ چند ایسے بھی تھے جو واقعی اکابر کی طرز پر برقرار تھے، ان کے اندازِ گفتگو میں عاجزی وانکساری کا عنصر محسوس ہوا۔

کوشش نمبر-۳،  اسمارٹ فون کا بے دریغ استعمال 

موبائل فون (اسمارٹ فون) کا مدارس میں اور خاص طور پر طلبائے کرام میں بے دریغ استعمال بھی مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش ہے۔ مدارسِ دینیہ کے طلباءکو پابند کیا جائے کہ وہ موبائل فون پر دورانِ تعلیم اجتناب برتیں۔اس اجتناب کا مقصد ٹیکنالوجی کا انکار نہیں، مگرمدارس میں تقویٰ کے معیار کو قائم رکھنا اور طلبائے کرام کو اُن کے اصل مقصد یعنی دینی تعلیم کی طرف پورے انہماک کے ساتھ توجہ دینے کی ایک کوشش ہے۔ 
موبائل فون (اسمارٹ فون) کی ظاہری و باطنی تباہ کاریوں سے کون انکار کرسکتا ہے؟! مغربی ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی جو سائنسدان، محققین، اور پروفیسر حضرات سنجیدگی سے کام کرتے ہیں اورسائنس کی دنیا میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں وہ بھی موبائل فون سے عملاً دور رہتے ہیں اور اپنے تحقیقی اور سائنسی کام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور بقدرِ ضرورت موبائل فون کو استعمال کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز یہ نہیں ہے کہ وہ موبائل فون میں اس حد تک منہمک ہوگئے ہیں کہ چوبیس گھنٹے اسی میں لگ گئے ہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا کے نامور محققین، سائنسدان، اور علمی شخصیات کا پورا ایک نظام الاوقات مرتب ہوتا ہے اور اُسی کے تحت وہ اپنی پوری زندگی گزارتے ہیں اور یہی کچھ ہمارے علمائے کرام بھی بتلاتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ طلبائے کرام تو موبائل فون کےاس فتنے میں پڑ ہی گئے تھے، اچھے اچھے علمائے کرام بھی ہر وقت موبائل فون کے ساتھ لگے ہوتے ہیں اور بہت ہی زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں جن میں کئی مفاسد ہیں۔ نیز سوشل میڈیا پر ہونے والے گناہوں سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ میوزک، نامحرم کی تصاویر، جاندار کی تصاویر، وقت کا ضیاع، اور سیاسی و غیر فائدہ مند مواد سے بچنا تقریباً ناممکن ہے، لہٰذا اگر ہم نے مدارسِ دینیہ کے تقویٰ کو قائم رکھنا ہے تو موبائل فون کو مدارس سے بالکل دور رکھنا ہوگا۔
راقم جب فرانس میں پی ایچ ڈی کرنے گیا تو وقت میں برکت کے لیے علمائے کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے ارشادفرمایا کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا سے بالکل دوری اختیار کرلو اور صرف اپنے تحقیقی کام پر فوکس کرو۔ الحمدللہ! حضرات مفتیانِ کرام کی بات پر عمل کرنے سے بہت فائدہ ہوا اور نہ صرف یہ کہ پروفیسر حضرات میری تحقیقی کارکردگی پر خوش ہوئے، بلکہ مجھے پی ایچ ڈی میں سب سے اعلیٰ ڈگری کا ایوارڈ بھی ملا جسے فرنچ زبان میں Très honorable یعنی ویری آنرایبل کا اعزازکہا جاتا ہے۔

کوشش نمبر -۴، علمِ معاشیات کی آڑ میں علماءراسخین کی تحقیر 

ایک اہم خفیہ کوشش مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی علمِ معاشیات کی آڑ میں علماء راسخین کی تحقیر کے عنوان سے ہے۔اس کوشش کے ذیل میں نوجوان مفتیانِ کرام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے اور وہ یوں سمجھ رہے ہیں کہ علمِ معاشیات میں روایتی مدارس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور ان کا کسی درجے میں کوئی ذکر نہیں۔ قارئین حیران رہ جائیں گے کہ جب راقم نے خود ایسے نوجوان مفتیانِ کرام سے بات کی جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں خیبر پختونخواہ کے مدرسے والوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور فلاں کراچی کے بڑے مدرسے کی کوئی حیثیت ہی نہیں، کیونکہ ان کو تو جدید معاشیات کی ہوا بھی نہیں لگی، یعنی اتنے بڑے بڑے مدرسے، جہاں ہزاروں طلباء ہوتے ہیں، کیا ان لوگوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے؟ کیا وہ معاشیات کو کچھ نہیں سمجھتے؟ ان نوجوان مفتیانِ کرام نے تھوڑی بہت انگریزی کیا پڑھ لی ہے کہ ساری معاشیات یہ سمجھ گئے ہیں اور وہ جو ہدایہ اور احادیثِ مبارکہ کی کتب میں کتاب البیوع پڑھتے پڑھاتے ہیں تو اُن حضرات علماء راسخین سے متعلق یہ نوجوان مفتیانِ کرام کہتے ہیں کہ ان کو معاشیات کی کچھ خبر نہیں، یعنی جن علماء نے انگریزی نہیں پڑھی ان کے بارے میں یہ نوجوان مفتیانِ کرام سمجھتے ہیں کہ ان کو معاشیات کی شُد بد بھی نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب انہی انگریزی پڑھے ہوئے نوجوان مفتیانِ کرام کو عالمی معاشی ماہرین کی سائنسی تحقیقات کی طرف متوجہ کیا جائے تو وہ اس کو بھی نہیں مانتے۔ نیز تھوڑی بہت انگریزی جاننے والے نوجوان مفتیانِ کرام کی خود اپنی سائنسی علوم اور معاشیات پر گرفت اور استعداد نہایت کمزور ہے۔ 
یہ نوجوان مفتیانِ کرام نہ جانےکس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انگریزی میں دو چار مقالے غیر معیاری سائنسی جرائد میں چھاپ کر اور ’’ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل ساتھ لگا کر بس سمجھنے لگتے ہیں کہ وہی اب سب کچھ ہیں،یعنی بزبانِ حال وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سارے مدارس پرانے وقتوں کے ہیں، نعوذ باللہ۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو راقم قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس سوچ کی نفی کی جائے اور مدارس کو اس شدید خفیہ فتنے سے بچایا جائے۔
دیکھیے! مصر و شام سے سارا علم دین ختم ہوا، وہ کیوں ختم ہوا؟وہاں اسی طریقے سے عصری علوم کو اور عصری ادارے والوں کو ترجیح دیتے رہے اور جو پرانے دین دار علماء راسخین تھے ختم ہوتے رہے۔ساری دنیا میں اسی طریقے سے باطل نے اپنےپنچے گاڑے۔ اللہ کا شکر تھا کہ ابھی تک پاکستان میں یہ پنجے گاڑ نہیں سکے تھے، مگر اللہ خیر فرمائے، اب انہوں نے یہاں پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے ہیں اور ان کو مدارس کے اندر سے ہی یہ لوگ مل گئے جو کہ علماء راسخین کو اہمیت نہیں دیتے،یعنی جو علمائے کرام ساری زندگی کتاب البیوع پڑھنے پڑھانے پر لگا دیں تو اُن کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کو معاشیات کی ہوا بھی نہیں لگی۔جب یہ ذوق بن جائے گا تو پھراللہ ہی حفاظت فرمائے، یہی تو باطل کی سازشیں ہمیشہ سے چلی آرہی ہیں۔
اسی تناظر میں ایک اہم بات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ہمارے اکابرین حضرات ابھی تک الحمدللہ ایسے نوجوان مفتیانِ کرام کی راہ میں رکاوٹ ہیں جن کے اذہان تبدیل ہوچکے ہیں اور جو روایتی مدارس اور علماء راسخین کو مدارس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔راقم کی بذاتِ خود ایسے نوجوان مفتیانِ کرام سے بات ہوئی اور اپنے کانوں سے سنا کہ ان میں سے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ جو بڑےاکابر بیٹھے ہوئے ہیں یہ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ایک معتبر صاحب نے اسی سے ملتی جلتی بات ذکر کی کہ اُن کوحضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید  رحمۃ اللہ علیہ  نے بعض موجودہ اکابر کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ایک دن دفتر ختمِ نبوت میں یہ بات بتائی تھی کہ اللہ حفاظت فرمائےہمارے موجود اکابر کی، اگر یہ لوگ چلے گئے تو پھر پتہ نہیں ہمارے نوخیز مفتیانِ کرام کیا کچھ کرجائیں گے۔ 
اللہ پاک خوب جزائے خیر عطا فرمائے ہمارے اکابرین کو کہ جنہوں نے اُمت کو پہلے ہی ایسے تمام فتنوں کے بارے میں اپنی دینی فراست اور دوراندیشی کے ذریعے آگاہ کردیا۔        

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین