بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ (دوسری قسط)


اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ

(دوسری قسط)


کوشش نمبر :۵: کچھ صاحبانِ علم کا کسی مسئلہ میں پارٹی یا فریق بننا

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش یہ ہے کہ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا مفاد ہی کسی مسئلہ سے وابستہ کردیا جائے، یعنی بعض مرتبہ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک کمپنی ہے اور اس نے کوئی پروڈکٹ یا سروس لانچ کی ہے اور اس کو شریعت کے دائرے میں لانا ہے اور اس صورت میں حضرات مفتیانِ کرام اس کمپنی کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے ممبر بن جاتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہوتی ہے کہ بعض مرتبہ کچھ مفتیانِ کرام کو اس سائنسی موضوع کی گہری معلومات ہوتی نہیں ہیں اور کمپنی کے مالکان اُلٹی سیدھی معلومات مفتیانِ کرام کے سامنے رکھ کر اپنی کمپنی کی پروڈکٹ اور سروس سے متعلق جواز کا فتویٰ حاصل کرلیتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: دیکھیے! اگر حاضر جج اگر خود ہی وکیل بھی بن جائے تو کیا اس کا اثر نہ ہوگا؟ یا کسی ایسے کیس کو دیکھے جس کا تعلق اس کی ذات سے براہِ راست ہو تو کیس پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ لہٰذا مفتیانِ کرام جب شریعہ ایڈوائزر بنتے ہیں تو بہت احتیاط اور ہمت کی ضرور ت ہے۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ حضرات اکابرین کی طرح اصولوں پر سمجھوتہ ہونے کی صورت میں استعفی دے دیں، لہٰذا اس سلسلے میں ہماری دو گزارشات ہیں: اول: یہ کہ تحقیق کے عنوان پر اور کمپنیوں کو اسلامی اصولوں کے تحت چلانے کے لیے مفتیانِ کرام کو پارٹی بننے سے بچایا جائے۔ دوم: یہ کہ اگر ایسا ہو کہ مفتیانِ کرام ٍخود اس مسئلے میں پارٹی بن جائیں تو اکابرین مفتیانِ کرام یہ فرماتے ہیں کہ ایسے مفتیانِ کرام سے، جن کا مفاد خود اس مسئلہ سے وابستہ ہو، عوامی سطح پر مسئلہ پوچھنے اور رائے طلب کرنے سے بھی گریز کیا جائے۔ یہ بات سائنسی علمی دنیا میں بھی مدِ نظر رکھی جاتی ہے اور اسے کانفلکٹ آف انٹرسٹ Conflict of Interest کہا جاتا ہے۔ 
ایک اور مثال سے اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھتے ہیں۔ فرض کریں کہ حکومتِ پاکستان نے ایک شریعہ کمیٹی بنائی جس کا کام یہ طے ہوا کہ اس نے پاکستان کے تما م ہوٹلوں کو اس بات کا پابند کرنا ہے کہ وہ شراب کی خریدوفروخت نہ کریں اور نہ ہی ان ہوٹلوں میں شراب صارفین کو دی جائے، جو کہ وہاں پر قیام وطعام کرتے ہیں، یعنی اس شریعہ کمیٹی کی ذمہ داری شریعہ کمپلائنس کرنا ٹھہری جس کے ذمہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پاکستان کے تمام ہوٹلز مکمل طور پر شرعی قوانین کے ہم آہنگ ہوں یا آسان الفاظ میں شراب کی خریدوفروخت سے اجتناب کریں۔ اب اگر اس شریعہ کمیٹی کے چئیرمین کسی شراب کی کمپنی میں شریعہ ایڈوائزی بورڈ کے بھی ممبر ہوں یا اُن کی ذاتی رائے یہ ہو کہ شراب کو کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہونا چاہیے تو کیا یہ بات عقل میں آسکتی ہے؟ کیا ان کا اس کمپنی میں شریعہ بورڈ ممبر ہونا یا ان کی یہ ذاتی رائے رکھنا، اس شریعہ کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری یعنی شریعہ کمپلائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ بادیُ النَّظَر میں تو بہت ہی مشکل لگتا ہے کہ ایسے مفتیانِ کرام پارٹی بھی بنیں اور اُن کا پارٹی بننا ان کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ کی ذمہ داریوں سے متصادم بھی نہ ہو، الا ما شاءاللہ۔

کوشش نمبر :۶: مسائل کا متبادل حل دینے کی آڑ میں اپنے دائرہ کار سے نکلنا

مدارس کو کمزور کرنے کے سلسلے میں نوجوان علمائے کرام کی ایک ذہن سازی یہ کی جارہی ہے کہ مسائل کا متبادل حل دینا علمائے کرام کی لازمی ذمہ داری ہے۔دیکھیے! اس میں تو دو رائے نہیں کہ متبادل ہونا چاہیے اور بتانا بھی چاہیے اور بعض جید مفتیانِ کرام مسائل کا جواب دیتے وقت متبادل بھی بتا دیتے ہیں اورسائل کو نصیحت بھی فرمادیا کرتے ہیں اور ان حضرات میں ہمارے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ، حضرت مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ  اور اس طرز کے دیگر اکابر قابلِ ذکر ہیں، مگر متبادل حل دینے کی آڑ میں ناجائز کو جائز تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیزیہ بھی ضروری ہے کہ متبادل نصوص کے احکامات کے ذیل میں ہونا چاہیے، یعنی مثلاً شراب حرام ہے، زنا حرام ہے، سُود حرام ہے تو کیا مسلمان مفتیانِ کرام کے ذمہ فرض ہے کہ وہ زنا، شراب، اور سُود کا متبادل دیں؟ بھئی متبادل تو شریعت نے پہلے ہی سے بتا دیا ہے، مثلاً زنا کا متبادل نکاح ہے، شراب کا متبادل دودھ یا کسی پھل کا جوس ہے، اور سُود کا متبادل کاروبار ہے۔ مگر متبادل ڈھونڈتے وقت یہ کہنا کہ نہیں ہم نے ہر حال میں متبادل دینا ہے اور شریعت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنا ہے، کسی صورت بھی مناسب نہیں، مثلاً سُود کا متبادل دیتے وقت سُود ہی کی کسی نئی شکل کو جائز قرار دینا کسی صورت بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ شراب کا متبادل دیتے وقت کسی نئی قسم کی شراب ہی کو جائز قراد دے دینا کسی صورت قابلِ قبول نہ ہوگا۔آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کیا اس طرح کےمتبادل قابلِ قبول ہوں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں! لہٰذا متبادل کی تلاش میں مسلمان مفتیانِ کرام پر ہرگز یہ لازم نہیں کہ وہ زبردستی حرام اور ناجائز چیزوں کو جائز و حلال بتلائیں۔
اسی تناظر میں ذیل کا اقتباس بہت اہم ہے:
’’بہرحال ہمارے ملک میں بڑی ضرورت ہے کہ فقہ اسلامی کی جدید تدوین کے ذریعہ جو قرآن و سنت اور حضرت حق جل ذکرہٗ اور حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے منشا کے مطابق صالحین کے موروثہ اثاثہ کی روشنی میں کی جائے، جدید پیدا شدہ مسائل کا حل تلاش کرکے فیصلہ کردینا چاہیے، تاکہ دینِ اسلام کا مضبوط اور حسین وجمیل قلعہ قیامت تک اعداء اور اغیار کے حملوں سے محفوظ رہے، مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ ہم یورپ کے جدید معاشی و اقتصادی نظام اور معاشرتی نظام کو پہلے ہی اپنا لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ جوں کا توں یہ پورا نظام‘ اسلام کے اندر فٹ ہوجائے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘(دینی مدارس کی ضرورت اور جدید تقاضوں کے مطابق نصاب و نظامِ تعلیم، انتخاب از مقالات محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ، جمع و ترتیب:مولانا محمد انور بدخشانی صاحب، صفحہ:۱۴۲)
متبادل دینے کی آڑ میں بعض صاحبانِ علم خَلْطِ مَبْحَث کرچکے ہیں۔دیکھیے! متبادل کی ایک بڑی وسیع تعریف ہوسکتی ہے۔ اگر شرعی تکییف کرکے یہ بتا دیا جائے کہ سُود حرام ہے اور آپ سُود سے بچیں، تو یہ تو حکم بتانے کے زمرے میں آتا ہے۔اگر یہ بتا دیا جائے کہ آپ سُود کے بدلے تجارت کرلیں تو یہ متبادل دینا کہلائے گا، مگر اگر متبادل دینے سے مُراد مسائلِ جدیدہ میں یہ ہے کہ حضرات علمائے کرام اپنے دائرہ کار سے ہی باہر نکل کر کام کریں تو یہ ہر گز مناسب نہ ہوگا۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں، فرض کریں کہ ایک دوائی ہے جس کو بنانے میں خنزیر یعنی سور کے خلیے استعمال کیے گئے ہیں، اب اس کا حکم بتاتے وقت یہ کہا جائے کہ اس کو استعمال کرنا منع ہے تو یہ حکم بتانے کے زمرے میں آئے گا، جیسا کہ درج ذیل ہے:
’’کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان ماہر دین دار طبیب یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔‘‘(فتوی نمبر: 144110200078 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )
 پھر اس کا متبادل دے دیا جائے کہ آپ اس حرام اجزاء والی دوائی کے بجائے فلاں حلال اجزاء والی دوائی استعمال کرلیجیے تو یہ بات بھی عقل میں آتی ہے، مگر یہ مفتیانِ کرام کا دائرہ کار نہیں کہ وہ ہر دوائی سے متعلق تحقیق کریں کہ فلاں دوائی کا متبادل کون کون سے ہیں۔ یہ سائل ہی کے ذمہ ہے کہ وہ حضرات مفتیانِ کرام سے پوچھ پوچھ کر مسلمان ماہر دین دار طبیب سے پوچھ کر متبادل تلاش کرے۔ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب نوجوان مفتیانِ کرام کی ذہن سازی کی جائے اور اُن کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ آپ خودتحقیق کیجیے اورجدید طبی علوم کو سیکھیے اور پھر سیکھ کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیجیے، یعنی نوجوان مفتیانِ کرام بذاتِ خود ایم بی بی ایس MBBS کریں، پھر ایم ڈی M.D کریں اور پھر کلینیکل پریکٹس کریں اور طبی دواؤں پر لیبارٹری میں تحقیق کریں اور پھر حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیں، یعنی مدارسِ دینیہ کے اندر طب کی تحقیق سے متعلق شعبے قائم ہوں جس کے اندر اس مسئلے پر تحقیق کی جائے اور اُمت کو نئی دوائی بنا کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل پیش کیا جائے جو کہ امت کی ضرورت کا حل ہو۔ ہماری گزارش ہوگی کہ یہ مسلمان علمائے کرام اور مدارس کی قطعاً ذمہ داری نہیں کہ وہ اس طرح کی تحقیق کریں، بلکہ یہ تو ان کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا اور جو صاحبانِ علم اس طریقے کی ذہن سازی کررہے ہیں ان کو خَلْطِ مَبْحَث ہوچکا ہے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ امتِ مسلمہ کو اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل ملنا چاہیے، مگر یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ اس کا تعیُّن ضروری ہے۔سب سے پہلے تو یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کرکے کہ مسلمانوں کے لیے حلال اجزاء والی دوائیاں ملک میں درآمد کرے اور عالمی دوا ساز کمپنیوں سے گفت و شنید کرے، تاکہ وہ عالمی دوا ساز کمپنیاں مسلمان ممالک میں حلال اجزاء والی دوائیاں ہی بھیجیں۔ اس کے لیے مسلمان ممالک او آئی سی کا فورم بھی متحرک کرسکتے ہیں، نیز ملک کے اندر حکومتی حلال کمیٹیوں کے ذریعے بھی اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اصولی طور پر تو مسلمان ممالک کو سائنس میں اتنی ترقی کرنی چاہیے کہ وہ خود ایسی دوائیاں ملک کے اندر تحقیق کے ذریعے بنائیں اور یہ مسلمان سائنسدانوں اور محققین کا کام ہے کہ وہ ایسی تحقیق کریں جس سے امت کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور متبادل حل پیش کرنا مسلمان سائنسدانوں اور اس متعلقہ شعبے کے ماہرین کی ہی ذمہ داری ہے۔
ہمارے ملکِ عزیز میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، یعنی جو انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات ہیں، بجائے اس کہ کہ وہ عالمی سائنسی تحقیق میں اپنا نام روشن کریں اور اپنے سائنسی شعبے میں مہارت حاصل کرکے پوری دنیا میں اپنا لوہامنوائیں اور امت کو درپیش جدیدمسائل کا متبادل سائنسی حل پیش کریں، وہ اپنی ذمہ داریاں تو تندہی سے انجام نہیں دے رہے، بلکہ ان ہی میں سے بعض انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات دینی مسائل میں اپنی رائے زنی شروع کردیتے ہیں، یعنی آپ کو بہت سارے انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان ایسے ملیں گے کہ جن کو اُن کے اپنے سائنسی شعبے میں تو مہارت حاصل نہیں اور وہ دینی مسائل میں عوامی سطح پر فتویٰ دینے شروع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو دینی اتھارٹی گرداننا شروع کردیتے ہیں۔یہ بالکل غلط روش ہے اور تاریخ امُتِ مسلمہ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جو امُت میں گمراہی پھیلی وہ اسی روش سے پھیلی اور انہی لوگوں کی دینی کم علمی، کم فہمی اور تکبر سے امُت نے بڑے بڑے فتنے دیکھے۔
 اُمتِ مسلمہ میں بعض استثنائی مثالیں ہیں جن میں بعض ڈاکٹر، محققین، انجینئر، اور سائنسدانوں ہی کو اللہ پاک نے اتنی مقبولیت نوازی کہ جنہوں نے پہلے علمائے کرام، مفتیانِ کرام اور مشائخ کی صحبت اٹھائی اور پھر انہیں خلافت بھی نصیب ہوئی اور پھر انہی حضرات سے اللہ پاک نے اتنا کام لیا کہ وقت کے بڑے بڑے علمائے کرام نے ان سے فیض حاصل کیا، مثلاً حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  کہ کئی خلفاء دنیاوی شعبوں سے وابستہ تھے اور دینی اور دنیاوی شعبوں کا حسین امتزاج تھے، مگر ان مثالوں سے ہم عمومی طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے کہ دین کی تشریح انجیئیر، پروفیسر، محققین اور سائنسدانوں کے ذمہ ہے اور نہ ہی عمومی سطح پر اس کا اطلاق کرنا چاہیے کہ ایسی پالیساں مرتب کی جائیں کہ آگے آنے والی نسلوں میں یہ استثنائی مثالیں عمومیت اختیار کرلیں۔
مستند مدارسِ دینیہ میں دارالافتاء میں جدید مسائل میں مختلف موضوعات پر ٹھوس تحقیق ہوتی ہے۔ ٹھوس تحقیق سے مراد یہ ہے کہ اس سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے، سائنسی مسئلہ کی ماہیت پر غور کیا جاتا ہے، شرعی تکییف کی جاتی ہےاور پھر کافی غور و خوض اور تحقیق کے بعد اس مسئلہ پر شرعی حکم بتایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک کی تفسیر ہو یا شریعت کے احکامات بتانا، احادیث مبارکہ سے مسائل کا استنباط ہو یا مختلف احادیث کی تطبیق، عوام کو مسائل کا حکم شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بتانا ہو یا دینی علوم میں غور وتدبر، یہ سب کام حضرات علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں سے ہیں اور انہی پر ججتے ہیں کہ وہ اس موضوع کے ماہر ہیں۔
اب اس کے برعکس صورتِ حال پر غور فرمائیے۔کچھ مدارسِ دینیہ میں بعض صاحبانِ علم یہ ذہن سازی کررہے ہیں کہ آپ خود ہی اس سائنسی مضمون کے ماہر بن جائیں، خود ہی سائنسی موضوع پر تحقیق کریں، اس پر سائنسی مقالے چھاپیں اور پھر اس سائنسی موضوع پر شرعی حکم بتائیے۔ یہ سراسر غلط سوچ ہے اور غلط طریقہ کار ہے کہ فتویٰ کی بنیاد سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیے بغیر ہی رکھی جائے۔اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے معاشرے میں جدید مسائل کے حوالے سے تشکیک پیدا ہوجاتی ہے اور علمائے کرام کی رائے میں اختلاف کی بنیاد پڑتی ہے، کیونکہ ایسے علمائے کرام کی سائنسی بنیاد ہی مضبوط نہیں ہوتی، اور وہ سائنسی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے اور اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے سائنسدان اور محقق بن گئے ہیں اور انہوں نے ’’مفتی‘‘ کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل بھی حاصل کرلیا ہے، لہٰذا اب وہ خود ہی سائنسدان، معاشی ماہر، اور محقق بن گئے ہیں۔راقم نے خود کئی بڑے مستند مدارس اور جید مفتیانِ کرام کے عمل کا مشاہدہ کیا، یہ تمام حضرات الحمدللہ سائنسی شعبے کے ماہرین سے سائنسی مسئلہ کی تکنیکی ماہیت سمجھتے ہیں اور پھر جدید مسائل کا حل اُمت کو پیش کرتے ہیں۔تو اس بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہر ایک اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرے، یعنی جو ذمہ داریاں حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی ہیں وہ اُن پر کاربند رہیں اور جو سائنسدانوں، محققین، پروفیسر اور انجینئر حضرات کی ذمہ داریاں ہیں، وہ اُن ذمہ داریوں کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دیں۔ اسی سے معاشرہ افراط و تفریط سے بچے گا اور ترقی کرے گا۔

کوشش نمبر :۷- تحقیق کے عنوان سے جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹنا

ایک خفیہ کوشش مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی یہ ہے کہ تحقیق کے عنوان سے مدارس کے اندر یہ رجحان پیدا کیا جائے کہ وہ جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کریں۔اس طریقے سے کئی مفاسد جنم لیں گے، مثلاً امت میں افتراق پھیلنے کا خدشہ ہوگا، عوام کا جمہور علمائے کرام سے اعتماد مجروح ہونے کا خدشہ ہوگا، کیونکہ عوام تو جس میں خواہش پوری ہو اورمطلب براری ہو اسی چیز کو اختیار کرتے ہیں، اس لیے بڑے نامور جمہورمفتیانِ کرام کے فتویٰ کو چھوڑ کر ان کے مقابلے میں عوام ان حضرات کی انفرادی رائے کو لے کرعمل اختیار کریں گے۔نیز جن مدارس میں جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹ کر رائے قائم کی جائے گی تو اس پر لامحالہ فتویٰ دینے والے حضرات عمل بھی کریں گے اور نتیجتاً ان حضرات کا بھی مشکوک و مشتبہ معاملات میں پڑنے کا امکان ہوگا۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ مدارس میں تحقیق کے حوالے سے جمود طاری کردیا جائے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: دیکھیے! مدارس کے نصاب میں جب قرآنِ پاک کی تفسیر پڑھائی جاتی ہے تو شراب کی حلت و حرمت پر تفصیلی بحث کی جاتی ہے، پھر جب احادیثِ مبارکہ کی کتب طلبائے کرام پڑھتے ہیں تو احادیث کے ذیل میں بھی شراب سے متعلقہ مسائل کا ذکر ہوتا ہے، اورپھر جب تفصیلاً فقہ پڑھائی جاتی ہے تو قدوری اور ہدایہ میں شراب سے متعلق بے شمار مسائل پر بحث کی جاتی ہے اور گہرائی میں جاکر شراب سے متعلقہ مسائل کو سمجھا جاتا ہے، پھر تخصص میں تو یہ ابحاث اس حد تک آگے چلی جاتی ہیں کہ شراب سے متعلق آئندہ پیش آنے والے مسائل کا نہ صرف یہ کہ مکمل احاطہ کیا جاتا ہے، بلکہ شراب کی ماہیت سے لے کر بالکل جدید مسائل میں بھی اُمت کی رہنمائی کی جاتی ہے، جیسے انقلابِ ماہیت یا استحالہ کے مسائل سے لے کر شراب کا دوائیوں میں استعمال، وغیرہ۔
مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ العیاذ باللہ، مدارس تحقیق کے نام پر شراب کشید کرنے کے طریقہ کار ہی مدارس کے طلبائے کرام کو سکھانے لگ جائیں، تاکہ وہ اس عمل سے پیسے کمائیں، اگر ایسا ہونے لگ جائے تو آپ اس کو کس چیز سے تعبیر کریں گے؟ اگر مدارس میں شراب کی خرید وفروخت کے آن لائن طریقہ کار کو تحقیق کے نام پر علمائے کرام ومفتیانِ کرام کو سکھایا جائے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟ اگر کسی شراب بنانے والی کمپنی کی پروڈکٹس کی تشہیر ہی مدارس میں شروع کردی جائے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟ اگر نئی ٹیکنالوجی کو مفتیانِ کرام کو متعارف کروانے کی آڑ میں (تاکہ مفتیانِ کرام مسئلہ کی ماہیت کو سمجھ کر اس کی فقہی تکییف کرسکیں) ایسے کورسز متعارف کروائے جائیں جن میں شراب کی خرید وفروخت اور اس کے ذریعے سے پیسہ کمانے کو نوجوان علمائے کرام کو سکھایا جائے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟ اگر ہزاروں نوجوان علمائے کرام کے لیے ٹیلی گرام، واٹس اپ اور فیس بک گروپ بنائے جائیں جن میں ان طلبائے کرام کو آن لائن شراب کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے پیسہ بنانے کا طریقہ سکھایا جائے، تاکہ نوجوان علمائے کرام خود کفیل ہوجائیں اور اُن کو ہُنر آجائے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟ یقیناً کوئی بھی دینی غیرت مند تحقیق کے نام پر مدارس میں شراب کی رتی برابر بھی تشہیر اور ترویج و اشاعت، اور طلبائے کرام اور علمائے کرام کو شراب کی آن لائن خرید وفروخت سکھانے کی تائید نہیں کرے گا۔ تائید تو درکنار، ایسی کسی بھی حرکت کو ببانگِ دُہل گھناؤنا عمل قرار دے کر اس سے بَراءت کا نہ صرف یہ کہ اظہار کیا جائے گا، بلکہ ایسے تمام اشخاص اور دینی اداروں کا مکمل طور پر بائیکاٹ بھی کیا جائےگا اور عوام میں شعور و آگاہی پیدا کی جائے گی کہ وہ تحقیق کے نام پر ایسی باتوں میں ہرگز نہ آئیں۔
نیز یہ دلائل بھی امت تسلیم نہیں کرے گی کہ چونکہ شراب کی ماہیت کے حوالے سے ہی علمائے کرام و سائنسدانوں میں اختلاف ہے، لہٰذا شراب کی خریدوفروخت کی پشت پناہی کی جائے۔امتِ مسلمہ یہ دلیل بھی کبھی تسلیم نہیں کرے گی کہ چونکہ روز نت نئی شراب کی پروڈکٹس بازار میں آرہی ہیں اور چونکہ شراب کی ماہیت بعض حلقوں میں زیرِ بحث ہے، لہٰذا اس کو جائز قرار دیا جائے۔یہ دلیل بھی کارگر ثابت نہ ہوگی کہ شراب کو سرکہ بنا کر پیش کیا جائے اور پھر اس کے جائز ہونے کو بیان کیا جائے۔اگر کوئی اس طرح سے طریقۂ واردات کرنے کی کوشش کرے گا کہ علمائے کرام اور علمی حلقوں میں تو یہ کہے کہ ہم شراب کی نئی پروڈکٹس کی ماہیت پر قانونی، فقہی، اور عملی جہتوں پر غور کررہےہیں اور اس کے بالمقابل عوامی سطح پر انہی شراب کی پروڈکٹس کی نہ صرف یہ کہ جواز کی تحریک چلائے، بلکہ پریس ریلیز کے ذریعے عوامی رائے ہموار کرے اور انگریزی و اردو فتویٰ جات و مضامین لکھے جس میں وہ شراب کی نئی پروڈکٹس کے جواز کا قائل ہو، اس کو بھی اُمتِ مسلمہ کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
دیکھیے! یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کون سے مدرسے میں تحقیق کے عنوان سے شراب کو جائز قرار دیا گیا ہے؟ ہم سو فیصد متفق ہیں کہ ایسا ہونا بعید اَز وَہم و خیال ہے کہ مدارس میں ایسے کسی کام کے بارے میں کوئی ذی شعور شخص سوچے بھی! پھر غور فرمائیے کہ کیوں ہم یہ بات کررہے ہیں کہ مدارس کو کمزور کرنے کی خفیہ کوشش میں سے ایک یہ ہے کہ تحقیق کے عنوان سے جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹایا جارہا ہے؟اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن میں قلیل تعداد میں مدارس کے اندرتحقیق کے عنوان سے ایسی رائے کو اختیار کیا گیا ہے جن کی سائنسی بنیاد کمزور یا غلط ہےاور جس کی وجہ سے مدراسِ دینیہ میں تقویٰ، اخلاص اور للہیت پراثر پڑے گا، یعنی اپنی غلط اور کمزور سائنسی تحقیق کی بنیاد کو نہ صرف یہ کہ صحیح سمجھا جارہا ہے، بلکہ اس پر اصرار کیا جارہا ہے اور جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کی جارہی ہے۔غرض تحقیق کے عنوان سے کچھ ایسی صورت حال پیدا کی گئی ہے، بقول شاعر:

خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
 

کچھ مدارس کے اندر تحقیق کے عنوان سے یوٹیوب پر اشتہارات سے متعلق یہ تأثر دیا گیا ہےکہ یوٹیوب استعمال کرنے والے کو اشتہارات کے دیکھنے نہ دیکھنے پر پورا کنٹرول ہے اور پھر اس کے ذیل میں یوٹیوب کی کمائی کو جائز قرار دیا گیا ہے، جبکہ مشاہدہ اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہے اور کمپیوٹر سائنسدان بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ویڈیو بنانے والے کو اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کا اشتہار چلانے پر یو ٹیوب کو پابند کرے، لہٰذا مستند دارالافتاء سے یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی سے اجتناب کا کہا گیا ہے۔ پھر جب نوجوان علمائے کرام یوٹیوب کی اس مشتبہ کمائی میں لگیں گے تو اس کمائی کا ان نوجوان علمائے کرام کے تقویٰ اور للہیت پر کیا اثر پڑے گا، اس کا آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ اسی طریقے سے ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس سے متعلق دیگر جدید مسائل میں بھی غلط سائنسی تحقیق کی بنیاد پرجمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کی گئی ہے۔                                        (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین