بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ (تیسری اور آخری قسط)

اہلِ مدارس کے لیے لمحہ فکریہ

(تیسری اور آخری قسط)


کوشش نمبر: ۸،  فتویٰ کی بنیاد غیر معیاری و غیر مستند سائنسی مواد پر رکھنا

مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوشش میں ایک یہ بھی ہے کہ فتویٰ کی بنیاد غیر معیاری و غیر مستند سائنسی مواد پر رکھی جائے۔ اس عمل سے دنیا دار طبقہ میں مدارس سے متعلق نفرت جنم لے گی اور وہ یہ تأثر لیں گے کہ مفتیانِ کرام کسی مسئلہ کو بیان کرتے وقت مستند سائنسی معلومات پر انحصارنہیں کرتے۔ مدارس میں تحقیق کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی سائنسی موضوع پر بات کرنے کے لیے اس سائنسی موضوع کے ماہرین سے اس موضوع کو سمجھا جائے اور اس موضوع کی سائنسی و تکنیکی تفصیلات سمجھنے، پرکھنے اور جاننے کے بعد پھر کوئی اس مسئلہ سے متعلق شرعی تکییف کی جائے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ مدارس میں مسئلہ کی سائنسی تفصیلات جاننے کے لیے غیر معیاری اور غیر مستند سائنسی مواد پر بھروسہ کیا جارہا ہے، نیز سائنس کے بنیادی اصولوں کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جارہا۔ کچھ مدارس میں نوجوان مفتیانِ کرام اپنے آپ کو ترقی پسند Progressive ظاہر کرنے کے لیے ہر نئے سائنسی مسئلہ پر فتویٰ جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ سے یعنی نوجوان مفتیانِ کرام سے کس نے کہا ہے کہ کسی بھی سائنسی موضوع کےخود ساختہ ماہر بن کر ہر نئے سائنسی مسئلہ پر فتویٰ جاری کریں؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ مسئلہ بتاتے ہوئے، فتویٰ کی تمہید باندھتے ہوئے نوجوان مفتیانِ کرام خود سائنسدان اور معاشی ماہر بن جائیں؟ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی نیا سائنسی مسئلہ بتاتے وقت کئی عالمی سائنسی ماہرین سے رجوع کرلیا جائے اور بنیادی سائنسی مآخذ کی مراجعت کر لی جائے، تاکہ فتویٰ کی سائنسی بنیاد درست ہو۔ الحمدللہ ہمیں اطمینان ہے کہ مستند دینی مدارس اور دارالافتاء میں سائنسی ماہرین اور متعلقہ شعبے کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے، جس چیز سے متعلق مسئلہ بیان کرنا ہوتا ہے، اس کی اصل ماہیت کو سمجھا جاتا ہے اور پھر اس سے متعلق مسئلہ بتایا جاتا ہے، مگر کچھ مدارس کا تخصص کے طلبائے کرام کومُبَیَّنَہ طور پر ا س منہج پر تربیت دینا کہ کسی بھی سائنسی مسئلہ پر سطحی معلومات، غیر معیاری، غیر سائنسی مواد اور سوشل میڈیا پر موجود مواد کو بنیاد بناکر تحقیق کے عنوان سے مسئلہ بتا دینا اور پھر مصدقین دارالافتاء اور مصحین دارالافتاء کا فتویٰ لکھنے والے متخصص کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اس فتویٰ کو جاری کردینا، یہ مزید تشویش کی بات ہے۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ ایسا دانستہ طور پر ہورہا ہے۔ ہماری رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مدارس میں ایک نئی سوچ پروان چڑھائی جارہی ہے جس کے اندر یہ کہا جارہا ہے کہ مدارس ہی کے طلباء سائنسی موضوعات کے بھی ماہر ہوں گے۔

ایں خیال است و محال است و جنوں

بس یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں پر غلطی ہورہی ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نوجوان مفتیانِ کرام شریعت کے بھی ماہر ہوں اور دنیا کے چوٹی کے سائنسدان بھی ہوں اور اُن کو سائنسی مضامین پر بھی پورا عبور حاصل ہو، الا ما شاءاللہ!

کوشش نمبر: ۹، مستقبل کے خوف اور طعنوں سے ہرنئی ٹیکنالوجی کو جائز کہنا

مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوشش میں ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان علمائے کرام کے ذہنوں میں یہ بات ذہن نشین کروائی جارہی ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں ہر نئی آنے والی چیز کو جائز سمجھو۔ اس تناظر میں خاص طور پر کمپیوٹر سے متعلقہ جتنی بھی نئی ڈیجیٹل بیسڈ ٹیکنالوجیز آرہی ہیں، یہ نوجوان علمائے کرام سب کے جواز کے قائل ہو رہے ہیں۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ جب اُس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق سائنسی شواہد اور دلائل سے پتہ بھی چل جائے کہ اس میں شرعی محظور ہیں، پھر بھی ضد پر اَڑے رہنا اور اس کے جواز کے ہی قائل رہنا؟ اور جب ایسے صاحبانِ علم سے مؤدبانہ طور پر اشکال کیا جائے تو وہ حضرات یہ دلیل دیں کہ اگر ہم ابھی اس کے عدمِ جواز کے قائل ہوگئے اور اس کو ناجائز قرار دے دیا تو مستقبل میں کیا ہوگا؟ ہمیں لوگوں کے طعنے ملیں گے کہ دیکھو اولاً یہ مفتیانِ کرام ہر نئی آنے والی چیز کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے میں اس کے رائج ہوجانے کے بعد اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیتے ہیں اورپھر اُسی چیز کو جائز قرار دے دیتے ہیں اور اس کا استعمال بھی شروع کردیتے ہیں۔ پھر مزید یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کسی نئی آنے والی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو ہم نے ناجائز قراردے دیا اور پھر اس کی ماہیت تبدیل ہوگئی اور لوگوں میں اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا اس حد تک رواج ہوگیا کہ اس سے بچنا ہی ناممکن ہوا تو پھر بھی تو ہمیں جواز کی طرف جانا ہوگا، لہٰذا ہم کسی بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عدمِ جواز کی رائے نہیں دیں گے، چاہے ابھی اس میں کتنے ہی شرعی محظور کیوں نہ ہوں۔ حضرات مفتیانِ کرام فرماتے ہیں کہ یہ سوچ ہی غلط ہے، کیونکہ جب کوئی مسئلہ بتایا جاتا ہے تو اس کی موجودہ صورت اور ماہیت کو سامنے رکھ کر بتایا جاتا ہے، نہ کہ مفروضات کی بنیاد پر کسی مسئلہ کا حکم بتاتے ہیں، ہاں! جب کبھی مستقبل میں کوئی استثنائی صورت بعد میں پیدا ہوجائے یا چیز کی ماہیت ہی تبدیل ہوجائے تو اسی کے حساب سے حضرات مفتیانِ کرام اس مسئلہ کی مزید وضاحت و حکم ارشاد فرمادیں گے۔
لہٰذا مدارس کے منتظمین حضرات اور خاص طور پر دارالافتاء کے حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ جدید سائنسی مسائل پر ایسے نیوٹرل دنیا کے سائنسدانوں اور معاشی ماہرین کی تحقیقات سے استفادہ کیا جائے جو کہ پروپیگنڈہ کے زیرِ اثر نہ ہوں اور عالمی سطح پر سائنسدان اور معاشی ماہر تصور کیے جاتے ہوں۔ نیز مدارس کی سطح پر ایسے اصول وضوابط بنا دیئے جائیں کہ جدید سائنسی مسئلہ سے متعلق تکنیکی تفصیلات اُس شعبے کے عالمی سائنسی ماہر سائنسدانوں سے معلوم کی جائیں جن کو سائنسی دنیا تسلیم کرتی ہے اور ان کا حوالہ اور ان کے نام، مقام اور اہلیت بھی ذکر کی جائے، تاکہ سائنسی اعتبار سے کوئی بات ادھوری اور نامکمل سامنے نہ آئے اور پھر سائنسی تحقیق کو سامنے رکھ کر اُس سائنسی مسئلہ کا حکم بتایا جائے۔ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بے تحاشا نوجوان مفتیانِ کرام اس ذہن سازی سے مرعوب ہوچکے ہیں اوروہ اَب یہ برملا کہتے ہیں کہ کسی بھی نئے معاملے کو ناجائز اور حرام قرار دے دینا بہت آسان ہے، بالمقابل اس پر غور و خوض کیا جائے اور مسلمانوں کے لیے اس کے جائز ہونے کی کوئی صورت اپنائی جائے۔ دیکھیے! یہ جو ذہن سازی کی بات ہم نے پہلے عرض کی، اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں اور اس پر گزشتہ کئی دہائیوں سے کوششیں کی جارہی ہیں۔

کوشش نمبر: ۱۰،  مشتبہ ٹیکنالوجی سے پیسہ کمانے کے طریقے علمائے کرام کو سکھانا

مشتبہ ذرائع سے پیسہ کمانے کے طریقے سکھانا بھی مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش ہے۔ راقم خود کئی مدارس کے مطبخ میں گیا ہے جہاں پر کھانا پکاتے وقت قرآن پاک کی تلاوت کا معمول دیکھا۔ اسی طریقے سے شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سوانح حیات آپ بیتی میں مدارس کے تقویٰ کے کئی واقعات تحریر فرمائے ہیں کہ اکابر کا کتنا سخت اہتمام تھا کہ مدارس کی اصل روح یعنی تقویٰ، للہیت اور اخلاص مدارس میں قائم رہے۔ یہ ہمارے آج کے مدارس کی تاریخ ہے، الحمدللہ۔ ہمارے اسلاف بھی بہت احتیاط فرماتے تھے، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، اور اولیاء کرام کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ تقویٰ اختیار کرتے تھے اور مشکوک سے بھی بچتے تھے۔ اگر کسی چیز کے بارے میں جید اور جمہور مفتیانِ کرام کی رائے ہوکہ وہ ناجائز ہے اور جوا ، سٹے بازی اور سودی کاروبار کی ایک شکل ہے تو اس سے کم از کم مشکوک سمجھ کر بچنا تو چاہیے، چہ جائیکہ اس کی ترویج و اشاعت کی جائے؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب کسی مدرسہ کے وسائل کو استعمال کیا گیا ہو، پھر وہاں جُوا اور سٹے بازی سے پیسہ کمانا سکھایا گیا ہو اور پھر وہ کورس کی فیس کی مد میں آنے والا مال مدرسہ میں لگا ہو؟ کیا یہ مال مشکوک نہیں؟ کیا ایسا مال مدرسہ میں لگنا چاہیے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ جی مدرسہ میں ایسے کسی کورس کی فیس کا مال نہیں لگا، بلکہ جو مُدرس صاحب تھے انہوں نے ہی وہ فیس رکھ لی؟ تو کیا وہ مُدرس اور صاحبِ علم کا مدرسہ سے تعلق نہیں؟ کیا وہ مستقل فتویٰ نویسی کا کام نہیں کرتے؟ دیکھیے! اجتہادی مسائل میں رائے رکھنے کو کسی نے منع نہیں کیا، مگر رائے رکھنے کی آڑ میں باقاعدہ ایسے مشتبہ کاروبار کے ذریعے نوجوان علمائے کرام کو اور مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام کو پیسہ کمانا سکھانے کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے؟ 
ہماری مؤدبانہ گزارش اربابِ مدارس سے یہ ہوگی کہ وہ دینی تحقیق اور ہُنر کے عنوان سے مشتبہ ٹیکنالوجیز کو مدارس میں پروان چڑھنے سے روکیں اور پابندی لگائیں۔ جس طریقے سے موبائل فون سے متعلق کہا گیا، اسی طریقے سے مدارس کی حدود میں اس بات کی بھی قطعی اجازت نہ دی جائے کہ وہ مشتبہ ٹیکنالوجیز کی خرید وفروخت کے کورسز کروائیں یا اس میں سرمایہ کاری کے طریقہ کار علمائے کرام کو سکھائیں۔ اسی طرح سے مدارس اینڈومنٹ فنڈ Endowment Fund کے عنوان سے صدقات و خیرات کی سرمایہ کاری مشتبہ چیزوں میں ہرگز نہ کریں۔ گو کہ مدارس اس فتنے سے کوسوں دور ہیں، مگر اس فتنے کی سرکوبی کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے اور اقدامی قدم اُٹھانا ناگزیر ہے، کیونکہ ہمارے مشاہدے کے مطابق اندر ہی اندر بہت سارے نوجوان مفتیانِ کرام کی ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ کاروبار، جُوا اور سٹے بازی میں فرق ہی نہیں کرپارہے، الا ماشاء اللہ۔
ایک نئی ذہنیت جس کو پروان چڑھایا جارہا ہے، وہ یہ کہ مدارسِ دینیہ کے طلباء کو مختلف کمپیوٹر کورسز کروائے جائیں۔ اب ان میں کچھ ایسے کورسز بھی ہیں جن میں مشتبہ مال کمانے کا امکان ہے، لہٰذا ایک بنیادی نقطہ سمجھ لینا چاہیے کہ مدارس کےطلباء کا کام کمپیوٹر سیکھ کر پیسہ کمانا ہرگز ہر گز نہیں ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جو حضرات مدارس میں ان کمپیوٹر کورسز کی ترویج و اشاعت کررہے ہیں، وہ یہ راگ اَلاپ رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے پاکستان کے مدارس سائنسی دنیا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اقوامِ عالم سے مقابلہ کرسکیں گے، ایسا قطعاً درست نہیں، بھلا کچھ کمپیوٹر کورسز کروا کر اقوامِ عالم سے سائنس و ٹیکنالوجی میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے تو اُن عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے جن کا یہ کام ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اقوامِ عالم کا مقابلہ کریں، چہ جائیکہ مدارس کے طلباء کو اُن کے اصل کام یعنی دینی تعلیم سے دور کردیاجائے۔

کوشش نمبر: ۱۱،  اختلافِ آراء کی آڑ میں مشتبہ ٹیکنالوجیز کی ترویج و اشاعت

اسی طریقے سے اختلافِ آراء کی آڑ لے کر مشتبہ ٹیکنالوجیز کی خوب ترویج و اشاعت کی جاتی رہی ہے اور ابھی بھی بعض لوگوں کی جانب سے کوششیں جاری ہیں، حالانکہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک فقہی ضابطہ لکھا ہے، وہ یہ کہ:’’جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت مقدم ہے، یعنی ایک کام کے ذریعے سے کچھ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور ساتھ ہی مضرت بھی پہنچتی ہے تو مضرت سے بچنے کے لیے اس منفعت کو چھوڑ دینا ہی ضروری ہوتا ہے، ایسی منفعت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو مضرت کے ساتھ حاصل ہو۔‘‘ ( معارف القرآن جلد: ۱، سورۃ بقرہ، صفحہ: ۵۳۷، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ)
لہٰذا مندرجہ بالا فقہی ضابطہ کے تحت مسلمانوں میں عموماً اور مدارس میں خصوصاً تقویٰ کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بھی کسی مشتبہ ٹیکنالوجی کی ترویج واشاعت سے اجتناب کا کہا جائے گا، کیونکہ دفعِ مضرت مقدم ہے، لہٰذا جو حضرات صاحبانِ علم مدارس میں اختلافِ آراء کی آڑمیں مشتبہ ٹیکنالوجیز کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، اُن کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہیے۔

کوشش نمبر: ۱۲ ، مدارس کے اندر عصری تعلیمی اداروں کے نظام کو اپنانا

کچھ مدارس میں مناقشات (تھیسس ڈیفنس) کے حوالے سے جو نئی ترتیب شروع ہوئی ہے، اس میں محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اگرمکمل طور پر عصری تعلیمی اداروں کی نہج پر کیا جائے گا تو ہم سب کو علم ہے کہ عالمی سائنسی دنیا میں ہمارے اسلامی ممالک کے عصری تعلیمی اداروں کی کیا حیثیت ہے، لہٰذا مدارسِ دینیہ مناقشات کے عنوان سے عصری تعلیمی اداروں کے کُلیتہ شرعیہ یا کُلیتہ اصولِ دین کے معیارات کو اپنانے کے بجائے اپنی نہج پر قائم رہیں۔ بقول شاعر:

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

تخصص کے طلباء کے لیےمناقشات ایک اچھی مشق ہوسکتی ہے، کیونکہ اس سے ان طلباء کی صلاحتیوں میں مزید نکھار پیدا ہوگا، مثلاً جب تخصص کے طلباء اپنا فقہی تحقیقی کام پورا کرلیں تو ملک کے نامور اور مستند مدارس کے جید مفتیانِ کرام ایک کمیٹی کی صورت میں اس طالب علم سے اس کے فقہی تحقیقی کام سے متعلق ایک ڈیفنس کی صورت میں سوال و جواب کرلیں، مگر اس میں مستند مدارس کے جید مفتیانِ کرام پر ہی انحصار کیا جائے جن کے متعلق علم ہو کہ وہ مُتَصَلِّب ہیں اور ہرگز عصری تعلیمی اداروں کے پروفیسروں اور جدید یت سے متاثر مفتیانِ کرام کو شامل نہ کیا جائے۔
 اب ہم مناقشات کے بارے میں مزید گہرائی میں جاتے ہیں۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں عصری تعلیمی اداروں و یونیورسٹیوں میں جو سب سے اعلیٰ ڈگری ہے، وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے جس میں سائنسی تحقیق کرنا سکھائی جاتی ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کا دورانیہ تین سے پانچ سال کا ہوتا ہے جس میں طالب علم سائنسی تحقیقی سوالات کے جوابات ڈھونڈتا ہے اور اپنے شعبے سے متعلق نئے علم کی تخلیق و تشریح کرتا ہے۔ جب پی ایچ ڈی سپروائژر یہ سمجھتا ہے کہ طالب علم کا سائنسی تحقیقی کام کسی قابل ہوگیا ہے تو باقاعدہ ایک تھیسس ڈیفنس کے انعقاد کے ذریعے اس طالب علم کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ پی ایچ ڈی پرکھنے والی کمیٹی کے سامنے اپنا سائنسی تحقیقی کام پیش کرے، اس کو ڈیفینڈ کرے اور پھر کامیابی کی صورت میں یہ کمیٹی اس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کردیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سائنسی تحقیقی کام کی بنیاد پر ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی جاتی ہے اور جتنی اچھے معیار کی یونیورسٹی ہوگی، اور جس اعلیٰ معیار کے سائنسدان کی نگرانی میں طالب علم پی ایچ ڈی ڈگری کررہا ہے، اُسی لحاظ سے مناقشات میں طالب علم کو مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ عمومی طور پر اقربا پروری یا غیر معیاری سائنسی تحقیقی کام پر یا تعلقات کی بنا پر پی ایچ ڈی کی ڈگری یونیورسٹیاں تفویض نہیں کرتیں، کیونکہ اس سے ان یونیورسٹیوں کی ساکھ پر منفی اثر پڑتا ہے، لہٰذا جو مغربی ترقی یافتہ ممالک سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلمان ممالک سے بہت آگے ہیں، اس کی بنیادی وجہ میرٹ کو مقدم اور معیار کا قائم رکھنا ہے۔ 
پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھی پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے، مگر ماضی کےناخُوش گوار تجربات کی وجہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پی ایچ ڈی ڈگری کے قواعد و ضوابط سخت کردیئے ہیں، تاکہ پاکستانی یونیورسٹیوں سے بھی اعلیٰ معیار کے پی ایچ ڈی فارغ ہوں، مگر افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ باوجود اتنی سختی کے کچھ پاکستانی یونیورسٹیوں میں ابھی بھی تعلقات اور غیر معیاری پی ایچ ڈی ڈگریوں کا رواج ہے، یعنی ایچ ای سی نے اگر شرط رکھی ہے کہ ایک یا دو تحقیقی مقالے لکھے جائیں، تاکہ معیار قائم رہے تو بعض لوگ غیر معیاری تحقیقی جرائد میں اپنے مقالے چھاپ کر اس شرط کو پورا کرلیتے ہیں۔ اگر یہ شرط رکھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سے کسی پروفیسر کو ممتحن کے طور پر متعین کیا جائے تو بعض حضرات اس میں بھی تعلقات استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ طالب علم کو پی ایچ ڈی کی ڈگری آسانی سے مل جائے۔ اب اگر مدارسِ دینیہ بھی انہی یونیورسٹیوں کے نقشِ قدم پر چلیں گے تو پھر تخصص کے مناقشات بھی انہی عصری تعلیمی اداروں کے معیار کے مطابق ہونے لگیں گے۔ شروع میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ معیار قائم رہے، مگرپاکستانی عصری تعلیمی اداروں کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی کوئی تدبیر مکمل طور پر کارگرنہ ہوگی اور پھر مدارسِ دینیہ کے تخصص کے طلباء بھی اُسی ڈگری حاصل کرنے کی ریس میں لگ جائیں گے جو کہ عصری تعلیمی اداروں کے کُلیتہ شرعیہ یا کُلیتہ اصول دین کے لوگ اپناتے ہیں،لہٰذا ہماری رائے میں مدارسِ دینیہ کو عصری تعلیمی اداروں کے کُلیتہ شرعیہ یا کُلیتہ اصول دین کی طرح ہرگز ہرگز نہ ہونا چاہیے، ورنہ مدارس کا نظام ختم ہوجائے گا۔ 
نیز اس بات کی ذرہ برابر بھی کوشش اور فکر نہ کریں کہ دارالافتاء سے فارغ ہونے والے متخصصین حضرات اپنے فقہی تحقیقی مقالے سائنسی جرائد میں شائع کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان عصری تعلیمی اداروں کے بیشتر پروفیسر حضرات کی اپنی کوئی عالمی سائنسی حیثیت نہیں ہے اور وہ وہی غیر معیاری سائنسی تحقیق کا معیار مدارس میں بھی رواج دیں گے، لہٰذا پیسوں کے عوض کھلی رسائی والے جرائد، اور غیر معیاری سائنسی جرائد میں تحقیقی مقالے چھاپنے سے حتیٰ الامکان گریز کیا جائے اور مدارسِ دینیہ حتی الوسع عصری تعلیمی اداروں کے فرسودہ اور غیر معیاری نظام کو اپنانے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ ان عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے متاثر ہوکر اسلاف کے طرزِ عمل سے صرفِ نظر نہ کریں، بلکہ اسلاف کے طریقۂ کار پر مضبوطی سے جمے رہیں۔
دیکھیے! اگر مدارسِ دینیہ کے مشیر سابق حکومتی بیوروکریٹ ہوں گے یا عصری جامعات کے پروفیسر ہوں گے تو پھر مدارس فکری و نظریاتی طور پر کہاں جائیں گے؟ یعنی یہ لوگ مدارسِ دینیہ میں وہ حکومتی وضعداری، انفرااسٹرکچر، اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجرز تو لے کر آئیں گے، مگر فکری و نظریاتی طور پر مدارسِ دینیہ پھر اپنی اصل میراث سے دور چلے جائیں گے، لہٰذا گزارش یہی ہوگی کہ عصری تعلیمی اداروں کے نظام کو مدارسِ دینیہ ہرگز نہ اپنائیں۔ عصری تعلیمی اداروں کی فیکیلٹیز، فنڈنگ، طریقۂ تدریس، تحقیقی کام، اورظاہری اسباب سے ہرگز متاثر نہ ہوں، بلکہ جو اسلاف کا طریقہ کار ہے اسی پر کاربند رہتے رہیں، اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے چلیں، اسی میں نجات ہے اور اسی میں مدارسِ دینیہ کی بقا ہے۔ راقم نے چونکہ انہی عصری تعلیمی اداروں میں زندگی کھپا دی ہے، انہی سے پڑھا ہے، انہی میں پڑھایا ہے، ملکی وعالمی سطح پر بھی ان عصری تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دیتا رہا ہے اور جامعات کا ویژن تک بنایا ہے، لہٰذا بڑے دردِ دل کے ساتھ یہ گزارشات کررہا ہے کہ ان عصری تعلیمی اداروں سے مدارسِ دینیہ ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہوں۔
عصری تعلیمی اداروں میں تحقیق کے عنوان سے اگر مدارسِ دینیہ متاثر ہورہے ہیں تو ایک مثال سے بات واضح کرتا ہوں۔ پاکستان کے عصری تعلیمی اداروں میں کچھ پروفیسر حضرات مافیا کے طریقے پر کام کرتے ہیں اور ان کی اپنی ایک دنیا ہے، ان کو عالمی سائنسی تحقیقی دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ پاکستان کی مشہور جامعہ میں ایک جاننے والے پروفیسر ہیں، چارپانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ، گاڑی، گھر، میڈیکل، یہ سب سہولیات ہیں، ہفتے میں ایک کورس جس کی تدریس صرف دو گھنٹے ہوتی ہے، وہ یہ کرتے ہیں، ان کی اپنی لیب ہے جس میں بیسیوں ماسٹرز کے اسٹوڈنٹس موجود ہیں اور کئی پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس ہیں، غرض یہ ان کی اپنی سلطنت ہے، اُن سے گاہے بگاہے بات چیت رہتی ہے اور اُن سے عرض کیا جاتا ہے کہ آپ معیاری سائنسی تحقیق کریں، ایسی سائنسی تحقیق ہو جس کا معاشرے پر اثر ہو، آپ کے سائنسی مقالے دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں چھپیں، آپ کے یہاں سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کی استعداد اور معیار عالمی سطح کی ہو تو اُن کا جواب ان کے طَرزِ عمل سے واضح ہے کہ دیکھیے! ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اپنی جان کھپائیں؟ کیا ضرورت ہے کہ عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کی جائے؟ جب کام چل رہا ہے، ماسٹرز کے طلباء غیر معیاری کام کرکے ہی یونیورسٹی سے فارغ ہورہے ہیں، ڈگریاں مل رہی ہیں اور پذیرائی بھی مل رہی ہے، تو کون اس معیاری سائنسی تحقیق کا سردرد لے؟ افسوس کہ یہ وہ سوچ ہے جو کہ ہمارے عصری تعلیمی اداروں و یونیورسٹیوں میں رائج ہے، اسی وجہ سے ہم پاکستانی سائنس و ٹیکنالوجی میں عالمی قوتوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے۔ ابھی جب یہی پروفیسر حضرات کے پاس ہمارے مدارس کے تخصص کے فارغ ہونے والے جارہے ہیں، تو یہ پروفیسر حضرات ان کو یہی سائنسی تحقیق بھی سکھا رہے ہیں اور مدارسِ دینیہ کے اندر بھی یہ غلط تحقیقی طریقہ کار رواج پڑ رہا ہے۔ نوجوان مفتیانِ کرام ’’مفتی‘‘ کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی ’’ڈاکٹر‘‘ تو بن رہے ہیں، مگر ان میں سائنسی تحقیقی صلاحیت کا فقدان ہے اور مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ اب یہ نوجوان مفتیانِ کرام بھی انہی عصری تعلیمی اداروں کی نہج پر چل کر غیر معیاری پاکستانی اور غیر معیاری عالمی سائنسی جرائد میں اپنے تحقیقی مقالے چھاپ رہے ہیں۔ یہ انتہائی فکرمندی کی بات ہے کہ مدارسِ دینیہ جو کہ اپنے معیاری فقہی مقالوں کے وجہ سے معروف ہیں، اُن میں اب یہ غیر معیاری سائنسی تحقیق کا زہر داخل ہورہا ہے۔

کوشش نمبر: ۱۳،  جدید محاذ پر کام کرنے والے علماء کا علماء راسخین کے طرز کو چھوڑنا

ایک ذہن سازی نوجوان مفتیانِ کرام کی یہ کی جارہی ہے کہ وہ سمجھیں کہ علمائے کرام کے دو طبقات ہیں: ایک علماء راسخین اور دوسرے جدید محاذ پر کام کرنے والے علمائے کرام اور یہ جو جدید محاذ پر کام کرنے والے علمائے کرام ہیں، بس یہی سب کچھ ہیں اور ساری قابلیت، استعداد، خیالات کی پختگی، دینی و دنیاوی علوم میں رُسُوخ صرف انہی کو حاصل ہے اور انہی جدید محاذ پر کام کرنے والے علماء کرام کے اندر صلاحیت ہے کہ وہ عالمی سطح پر دیگر اقوام سے مکالمہ بھی کرسکیں اور اُمت کی جدید مسائل میں راہ نمائی بھی کرسکیں۔ نیز یہ بات بھی ذہنوں میں بٹھائی گئی ہے کہ دیگر اسلامی ممالک میں انہی جدید محاذ پر کام کرنے والے علماء کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کی زور و شور کے ساتھ ترغیب چلائی جاتی ہےکہ نئے نوجوان علمائے کرام اپنے آپ کو علماء راسخین سے دور رکھیں، اور علماء راسخین کی نہج پر نہ چلیں، بلکہ مختلف شریعہ سرٹیفیکیشن کریں، شریعہ ایڈوائزری بورڈز کے ممبر بنیں، اپنی کمپنیاں قائم کریں، اپنے اسٹارٹ اپس قائم کریں، میڈیا پر آئیں، کانفرنسوں کا انعقاد کروائیں، اور عصری تعلیمی اداروں کے ساتھ گھل مل جائیں۔ لازمی بات ہے کہ جب اس طرح کا اتحاد اور تعامل کیا جائے گا تو تھوڑی بہت لچک کا مظاہرہ تو کرنا ہی ہوگا، یعنی پھر خواتین کے ساتھ تعامل اور اختلاط بھی ہوگا، تصویریں بھی بنیں گی، منکرات میں تھوڑا بہت شامل ہونا پڑے گا۔ دیکھیے! یہ ساری چیزیں دنیا دار طبقے میں ہوتی تھیں، مگر جس سُرعت کے ساتھ نوجوان مفتیانِ کرام ان منکرات کو اختیار کررہے ہیں یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہن سازی بھی کی جارہی ہے کہ جدید محاذ پر کام کرنا علماء راسخین کا کام نہیں ہے، یہ فرسودہ اور دقیانوسی مدارس کے لوگ ہیں اور یہ معاشرے کے لیے مفید بھی نہیں، نعوذ باللہ۔یہ تمام باتیں راقم کی ذہنی اختراع نہیں، بلکہ مشاہدات پر مبنی ہیں کہ کچھ مدارس کے نوجوان علمائے کرام کی ایک مُعْتَد بہ تعدداد اس ذہنیت کی حامل ہوگئی ہے۔ اللہ پاک مدارس کی حفاظت فرمائے، آمین۔

کوشش نمبر: ۱۴،  اکابر کی رائے کو منظم طریقے سے روکنا

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش یہ ہے کہ اکابر کی کسی مسئلہ میں دی گئی رائے کو منظم طریقے سے روکا جائے۔ راقم کو ایک بہت ہی عجیب مشاہدہ ہوا اوروہ یہ کہ ایک مسئلہ سے متعلق اکابر میں سے ایک انتہائی معتبر شخصیت نے اپنی ایک رائے دی ہوئی ہے اور کئی پلیٹ فارمز پر دی ہوئی ہے جس میں تحریراً اور تقریراً دونوں ہی مواد شامل ہیں۔ راقم کو براہِ راست بھی ان بزرگ شخصیت سے بات کرنے کی توفیق ملی تو ان بزرگ شخصیت نے اپنی اُسی رائے کو راقم کے سامنے بھی دہرایا۔ اب ان بزرگ شخصیت کی رائے کو بڑے ہی منظم طریقے سے دھندلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ تأثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اُنہوں نے یہ بات کی ہی نہیں اور نہ ہی اُن کی کسی جدید مسئلہ میں ایسی کوئی رائے ہے۔ عجیب بات اس میں یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں اُن بزرگ کے گرد جو کچھ حلقۂ احباب ہیں اور کچھ صاحبانِ علم ہیں، وہی یہ سب کچھ کررہے ہیں اور جان بوجھ کر منظم طریقے سے کر رہے ہیں۔ اس سے راقم کے اس تشویش کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اکابر کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے اور اس پر وہ جمے ہوتے ہیں، مگر کچھ خاص لوگ جن کا ایک خاص ایجنڈہ ہوتا ہے، وہ اکابر کے آس پاس رہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اکابر کی اس رائے کی نفی کرتے رہتے ہیں، بلکہ ایسے تمام مواد اور لوگوں کو ان اکابر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ان کا نظریہ نہیں ملتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے یہ لوگ اپنی پوری کوشش کرکے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی دوسری رائے اور حقائق اکابر تک نہ پہنچ پائیں اور نہ ہی اکابر کی بات عوام تک پہنچ پائے اور اگر پہنچ بھی جائے تو یہ لوگ منظم طریقے سے اس کی نفی کردیتے ہیں اور یہ تأثر دیتے ہیں کہ وہ حضرات چونکہ اکابر کے ’’قریب‘‘ ہیں، لہٰذا ان کی بات کو تسلیم کیا جائے کہ اکابر نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے ہمارے اکابر کو کہ ان کو ایسے لوگوں سے متعلق فراست ہے اوراکابر کو ان تمام باتوں کا ادرا ک بھی ہے۔
ہماری گزارش اس تناظر میں یہ ہوگی کہ مدارسِ دینیہ کے اکابر حضرات اپنے اردگرد کے لوگوں پر خاص نظر رکھیں، کیونکہ ایسے ہی حضرات اُمت میں افتراق کا ذریعہ بنتے ہیں اور انہی حضرات کی وجہ سےدیگر اکابرین میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے ہی حضرات کی وجہ سے یہ تأثر جاتا ہے کہ اکابر کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسی سے اس تأثر کو بھی مزید تقویت ملتی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کی محنت سے اکابر حضرات کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور بجائے اس کے کہ اکابر کی براہِ راست نفی کی جائے، اکابر کے اردگرد جتنے بھی معتمد خاص لوگ ہیں، ان پر محنت کی جائے، ان کے ذہنوں کو تبدیل کیا جائے اور ’’اپنے لوگ‘‘ مدارسِ دینیہ میں امپلانٹ یعنی مدارس کے سسٹم میں داخل کیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ اکابر کو بذاتِ خود اپنے ادارے کی جانب سے اپنا موقف عوام تک پہنچانے میں مشقت ہوتی ہے۔ اس بات کو شطرنج کے کھیل کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ شطرنج کے کھیل میں جب کسی مخالف بادشاہ کو مات کرنا ہدف ہوتا ہے تو اس مخالف بادشاہ کو براہِ راست مارا نہیں جاتا، بلکہ مخالف بادشاہ کے اردگرد جتنے بھی مُہرے ہوتے ہیں ان کو شکست دی جاتی ہے اور بالآخر بادشاہ کو بھی شکست ہوجاتی ہے۔ اب مدارسِ دینیہ کے تناظر میں جو کچھ بڑے اکابر ہیں، ان کے اردگرد کچھ صاحبانِ علم کے ذہنوں کو ہی کئی سالوں کی محنت سے تبدیل کرلیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کچھ دینی مدارس کو بحیثیتِ ادارہ کسی مسئلہ میں اپنی رائے دینے میں دشواری ہوتی رہی ہے، کیونکہ اندر ہی سے رکاوٹ ہے۔

کوشش نمبر: ۱۵، تقریبِ ختمِ بخاری ہوٹلوں میں منعقدکرنا

مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش یہ ہے کہ اسلاف کے طریقہ کار سے ہٹا جائے اور اسی سلسلے میں کچھ صاحبانِ علم جو کہ دیارِ مغرب سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں، مدارس سےدینی تعلیم بھی حاصل کی ہے اور پھر مدارس سے منسلک ہوگئے ہیں، اکابر کے نام لیوا بھی ہیں، مگردانستہ یا نادانستہ طور پر اکابر کے طرزِ عمل سے دوری اختیار کررہے ہیں اور تقریبِ ختمِ بخاری اب عالیشان ہوٹلوں میں منعقد ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس میں کافی سارے مفاسد اکٹھے ہورہے ہیں، مثلاً تصویر کشی، فلم سازی، دینی تعلیم کی روح سے ہٹ کر ظاہری شان وشوکت کو ظاہر کرنا، طعام میں دسترخوان کی ترتیب سے ہٹ کر ٹیبل کرسی کو اختیار کرنا اور مسجد کے نورانی ماحول سے نکل کر ہوٹلوں میں ایسی تقاریب کو منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ وہ حضرات یہ سارا عمل مدارسِ دینیہ میں جِدَّت لانے کے عنوان سے کررہے ہیں اور ان حضرات کا مطمح نظر بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ اُن کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ غیروں کی اچھی چیزوں کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے اکابر کی کبھی بھی یہ سوچ اور عمل نہیں تھا کہ ظاہری شان و شوکت پر توجہ دیتے، بلکہ وہ تو اخلاص کے پیکر تھے۔وہ روکھی سوکھی کھا لیتے تھے، اسباب کے حساب سے وسائل کی تنگی تھی، مگر غیروں کی اچھی چیزوں کو بھی بِا لکُلِّیَہ اختیار نہیں کرتے تھے، کیونکہ اس میں تشبہ بالکفار ہوتا، بلکہ ہمیشہ اسلاف کے طریقہ کار کو اختیار کرتے تھے۔ہم قارئین سے درخواست کریں گے کہ وہ ضرور حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ کی کتاب ’’التشبہ فی الاسلام‘‘ کا مطالعہ فرمالیں جس میں ان تمام مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے اورمختلف اشکالات کے جوابات شافی صورت میں دئیے گئے ہیں۔

کوشش نمبر: ۱۶،  ٹی وی پروگرامز اور مخلوط محفلوں میں جانا

ایک تأثر جو مدارسِ دینیہ کے نوجوان طلبائے کرام کے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے، وہ یہ کہ وہ یہ سوچیں مدارس کی تعلیم سے فراغت کے بعد ان کےکیرئیر کا کیا ہوگا؟! اور ہماری رائے میں یہ بھی مدارسِ دینیہ کو ختم اور کمزور کرنے کی ایک خفیہ کوشش ہے، یعنی کچھ صاحبانِ علم ان نوجوان طلبائے کرام کو باقاعدہ ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جب آپ مدرسہ کی تعلیم سے فارغ ہوجائیں تو آپ ہمارے جیسے بنیں اور وسعتِ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحرک ہوں، اور ٹی وی پروگرامز اور مخلوط محفلوں میں شرکت کریں۔ آپ نوجوان علمائے کرام جب معاشرے میں مکمل طور پر Integrate گھل مل جائیں گے تو اس سے مدارسِ دینیہ کو تقویت ملے گی اور مدارس کا موقف میڈیا کے توسط سے عوام الناس تک آسانی سے پہنچے گا۔ اب جب نوجوان علمائے کرام اپنے سے بڑوں کو اس طرح کے ٹی وی پروگرامز اور مخلوط محفلوں میں جاتا دیکھتے ہیں تو وہ خود بھی اس عمل کو قابلِ رشک نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اسی طرز پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ابتداء میں تو محض چند افراد ہی مدارسِ دینیہ کے موقف کو میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے ذمہ دار تھے، مگر آہستہ آہستہ ایک کثیر تعداد نوجوان مفتیانِ کرام کی اب میڈیا کے ساتھ منسلک ہوگئی ہے اور اُن کا اوڑھنا بچھونا میڈیا بن گیا ہے۔ مدارسِ دینیہ کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ مدارسِ دینیہ سے فارغ ہونے والے حضرات ظاہری و باطنی ہر طرح کے گناہوں سے اجتناب فرمائیں۔

کوشش نمبر: ۱۷، ’’مولانا ‘‘اور’’ مفتی ‘‘کے القابات سے احتراز کرنا

مدارسِ دینیہ کو ختم کرنے اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں میں سے ایک کوشش یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کے طلباء کے ذہنوں میں عصری تعلیمی اداروں کی ڈگریوں کی اہمیت بٹھا دی جائے اور نتیجتاً وہ معزز مذہبی القابات کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔ یہ کوشش تو سامراجی دور سے کی جاتی رہی ہے کہ لفظ ’’مولانا‘‘، ’’مُلا‘‘ اور ’’مولوی‘‘ کی تحقیر کی جائے اور عوام کو علمائے کرام سے متنفر کیا جاسکے۔
حضرت مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب دامت برکاتہم ایک سائل کے جواب میں یہ تحریر فرماتے ہیں:
’’’’مولانا‘‘، ’’ملّا‘‘ اور ’’مولوی‘‘ یہ الفاظ بالعموم اسلامی پیشواؤں کے لیے احترام و تعظیم کی غرض سے بولے جاتے تھے اور اب بھی شرفاء کے ہاں تعظیم کے لیے ہی مستعمل ہیں۔ کسی عالم دین کے لیے ہمارے ہاں احتراماً ’’مولانا‘‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے، افغانستان اور آزاد ریاستوں نیز ترکی تک ’’دینی عالم‘‘ کو ازراہِ احترام یا علمی فراوانی کی وجہ سے ’’ملا‘‘ یا ’’منلا‘‘کہا جاتا تھا، ہمارے ہاں لفظ ’’علامہ‘‘اسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح خداترس ماہر علم کے لیے فارسی بولنے والے خطوں میں ’’مولوی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور وہیں سے ہمارے ہاں بھی وارد ہوکر عام استعمال میں آچکا ہے، جیسے ’’مولوی معنوی‘‘، ’’مولوی عبدالحق‘‘ وغیرہ۔ حضرت مولانا اشر ف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علم دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو۔‘‘ ( التبلیغ، ص: ۱۳۳، جلد اول بحوالہ تحفۃ العلماء از مولانا محمد زید، جلد اول، ص:۵۲، البرکۃ کراچی)
 نیز لکھتے ہیں:’’مولوی میں نسبت ہے مولی کی طرف، یعنی مولیٰ والا۔‘‘(ایضاً)
 الغرض یہ الفاظ اصطلاحی اعتبارسے ازراہِ احترام دین کے ماہر و مستند علماء کے لیے ایجاد و استعمال ہوتے تھے۔ فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والا دین بیزار طبقہ، جو دین کو براہِ راست مطعون کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، وہ علمائے دین سے تقدس واحترام کی چادر کھینچ کر اپنی مذہب بیزاری کی تسکین چاہتا ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ایسے علماء جو اپنے کردار و عمل کی بنا پر باطل کی آنکھوں کا کانٹا بنتے چلے آرہے ہوں، ہمیشہ سے باطل پرستوں کے نشانہ پر رہے ہیں، اور ان کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے، الزامات اور بے توقیری کے القابات عام کیے جاتے ہیں، تاکہ عوام متنفر ہوکر ان سے دور ہوجائیں، اور علماء سے دوری، دین سے دوری کا باعث ثابت ہوتا ہے، اس طرح دین بیزار طبقہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی ڈھونڈتا چلا آرہا ہے۔‘‘ (مفتی رفیق احمد بالاکوٹی مدظلہ، مولانا، ملا اور مولوی کی اصطلاحات، جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ ھ، مارچ ۲۱۰۶ء)
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ القابات معزز ہیں اور اسلامی پیشواؤں کے لیے احترام و تعظیم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان القابات کا استعمال صحیح جگہوں پر کرتے ہوئے اِحتراز نہیں کرنا چاہیے، البتہ ان القابات کے استعمال میں افراط و تفریط سے بھی گریز کرنا چاہیے، جیسا کہ تحریر ہے:
’’آج کل ہمارے معاشرے میں مذہبی القاب کے استعمال کرنے میں جو بے اعتدالیاں پائی جارہی ہیں، وہ کسی پر اوجھل نہیں۔ نام کے آگے القابات پرالقابات جڑ دیے جا تے ہیں، خواہ وہ شخص ان صفات کا حامل ہو یا نہ ہو۔ آئے روز نئے سے نئے اوربڑے سے بڑے القابات سامنے آتے ہیں، بعض اوقات تو جلسوں میں اور بعض دیگر مجالس میں امیروں، وزیروں، عہدیداروں، پیروں اور خصوصاً علماء کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے جاتے ہیں، مثلاً کسی کے لیے حجۃ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الفقہ، کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے مفتی اعظم، کسی کے لیے خطیب بے بدل، خطیبِ زماں، نمونہ ٔاسلاف، محققِ دوراں، محقق العصر، علامۃ العصر، محدث العصر، فقیہِ زماں، جامعِ علومِ عقلیہ و نقلیہ، شیخ المشائخ، اعلیٰ حضرت، مفکرِ اسلام، غزالیِ وقت، غزالیِ دوران، شہنشاہِ خطابت، محقق علی الاطلاق، محدثِ اعظم، شیخ الجامعہ، ولیِ کامل، رہبرِ شریعت، ثانیِ جنیدؒ، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (مولانا سید محمد انور شاہ، مذہبی القابات اور ہماری بے اعتدالیاں، ماہنامہ بینات، ذوالحجہ۱۴۴۰ ھ، اگست ۲۰۱۹ء)
ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض نوجوان مفتیانِ کرام بڑے فخر سے ’’ڈاکٹر‘‘ کے القابات اور مختلف عالمی شریعہ سرٹیفیکیشن تو بہت فخریہ انداز میں اپنے نام سے پہلے استعمال کرتے ہیں، البتہ وہ ’’مولانا‘‘، اور ’’مفتی‘‘ کے القابات سے احتراز کرتے ہیں اور وہ یہ دنیاوی طبقہ کے اندر زیادہ کرتے ہیں اور غالباً وہاں ایسا کرنے سے ان میں سے کچھ حضرات کا مقصد یہ ہوتا ہوگا کہ وہ دنیا دار طبقے کو باور کرواسکیں کہ دین دار طبقہ بھی یہ دنیاوی ڈگریاں لے سکتا ہے اور دنیاوی علوم میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ہماری تشویش یہ ہے کہ ان نوجوان مفتیانِ کرام پر دنیاوی ڈگریوں اور ’’ڈاکٹر‘‘ جیسے القابات کا ایک سحر طاری کردیا گیا ہے اور یہ نوجوان مفتیانِ کرام نے اب اپنے آپ کو دنیا دار ڈگری والوں کی طرح ڈھالنا شروع کردیا ہے۔ ایسے نوجوان مفتیانِ کرام کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ نوجوان مفتیانِ کرام تو دین کی اصل نمائندگی کرنے والے ہیں، آپ دین کو مستحکم کرنے والے ہیں، دین کے سپاہی ہیں، آپ حضرات نے ہی اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے، لہٰذا مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ کو اپنی دینی نسبت ہونے پر فخر ہونا چاہیے، چہ جائیکہ ’’مولانا‘‘ اور ’’مفتی‘‘ کے القابات لگانے سے احتراز کیا کریں۔

خلاصۂ مضمون اور مدارس کوکمزور کرنے کی خفیہ کوششوں کے تدارک کے سلسلے میں چند گزارشات

خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ ہی وہ جگہیں ہیں جہاں پر دین اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور اگلی نسل میں منتقل ہونے کا ذریعہ ہے۔اگر ان مدارس کو اُن کی اصل شکل میں قائم رکھا گیا-جو کہ رہیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ- اور مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں کا بروقت تدارک کیا گیا، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ دین اپنی اصل شکل میں آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہے گا۔ اس سلسلے میں بندہ نے مدارس کو ختم اور کمزور کرنے کی خفیہ کوششوں کے تدارک کے سلسلے میں چند گزارشات پیش کی ہیں، ان کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:
*    تحقیق کے عنوان سے مدارس میں غیرمعیاری و غیرسائنسی تحقیق کو پنپنے نہ دیا جائے اور ایسے لوگوں اور اداروں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو کہ غیر معیاری و غیر سائنسی تحقیق ان مدارس میں رائج کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
*    اگر کوئی سائنسی تحقیقی موضوع ہے جس پر تحقیق جاری ہے تو ایسے تمام مباحث کو علمی حلقوں تک محدود رکھا جائے اور عوامی سطح پر حتمی رائے پیش کرنے سے گریز کیا جائے، تا آنکہ اس سائنسی مسئلے سے متعلق جمہور مفتیانِ کرام کی رائے نہ آجائے۔
*    اگر جمہور مفتیانِ کرام کی رائے کسی مسئلے سے متعلق عدمِ جواز کی ہو تو تحقیق کی آڑ میں اس کے جواز کے دلائل کوکو عوامی سطح پر موضوعِ بحث نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جائے، کیونکہ اس سے عوام کا مشتبہ چیزوں میں پڑنے کا اندیشہ ہوگا۔
*    مدارس میں تحقیق کے حوالے سے ہرگز جمود نہ طاری کیا جائے، بلکہ جس طریقے سے مستند مدارس میں تحقیقی کام چل رہا ہے اس کو مزید پروان چڑھایا جائے۔البتہ چونکہ مدارس ہی کے اندر کچھ ایسے ’’ڈاکٹر‘‘ حضرات بھی آچکے ہیں جن کے ذہن مغربیت سے متأثر ہیں اور جو جمہور علمائے کرام کی رائے سے ہٹ کر انفرادی رائے رکھتے ہیں جو کہ سائنسی طور پر بھی درست نہیں، لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صرف اُن کی معلومات پر اندھا اعتماد نہ کیا جائے، بلکہ سائنسی معلومات کئی عالمی سائنسی اور معاشی ماہرین سے لی جائیں، تاکہ مسئلہ کی سائنسی ماہیت سمجھنے میں کوئی پروپیگنڈہ شامل نہ ہو اور اصل سائنسی حوالہ جات کی جانچ پڑتال بھی کی جائے،پھر جاکر کسی مسئلہ میں کوئی رائے قائم کی جائے۔
*    کچھ مدارس میں مناقشات (تھیسس ڈیفینس) کے حوالے سے جو نئی ترتیب شروع ہوئی ہے، اس میں محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اگر عصری تعلیمی اداروں کی نہج پر کیا جائے گا تو ہم سب کو علم ہے کہ عالمی سائنسی دنیا میں ہمارے اسلامی ممالک کے عصری تعلیمی اداروں کی تحقیق کیا حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا مدارسِ دینیہ مناقشات کے عنوان سے عصری تعلیمی اداروں کے کُلیتہ شرعیہ یا کُلیتہ اصول دین کے معیارات کو اپنانے کے بجائے اپنی نہج پر قائم رہیں اور اس بات کی ذرہ برابر بھی کوشش اور فکر نہ کریں کہ دارالافتاء سے فارغ ہونے والے متخصصین حضرات اپنے فقہی تحقیقی مقالے پاکستانی غیر معیاری سائنسی جرائد یا عالمی غیر معیاری سائنسی جرائد میں شائع کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان عصری تعلیمی اداروں کے بیشتر پروفیسر حضرات کی اپنی کوئی عالمی سائنسی حیثیت نہیں ہے اور وہ وہی غیر معیاری سائنسی تحقیق کا معیار مدارس میں بھی رواج دیں گے، لہٰذا پیسوں کے عوض کھلی رسائی والے جرائد، اور غیر معیاری سائنسی جرائد میں تحقیقی مقالے چھاپنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔
*    مدارسِ دینیہ بذات خود کسی مسئلے میں فریق نہ بنیں، یعنی مدارسِ دینیہ سے وابستہ افراد کا کسی مسئلہ میں مفاد وابستہ نہ ہونا چاہیے، وگرنہ مدارسِ دینیہ کسی سائنسی مسئلہ میں غیر جانبدارانہ شرعی حکم نہ بتا سکیں گے۔
*    جدید سائنسی مسائل بتاتے وقت اگر مدارسِ دینیہ نوجوان مفتیانِ کرام میں بنیادی سائنسی صلاحیت پیدا کردیں کہ کس طریقے سے تعین کیا جائے گا کہ کون سی سائنسی تحقیق معیاری ہے اور کون سے سائنسدان عالمی طور پر مستند مانے جاتے ہیں تو اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ کسی بھی سائنسی مسئلے میں اس چیز کی اصل اور حقیقی ماہیت نکھر کر سامنے آئے گی جس سے مفتیانِ کرام کو صحیح مسئلہ اُمت کو بتانے میں سہولت ہوگی، ورنہ بتائے گئے مسئلہ کی سائنسی بنیاد کمزور اور درست نہ ہوگی۔
*    مدارسِ دینیہ ٹیکنالوجی سے متعلق ایسے کورسز کروانے اور اس کے ذریعے سے پیسے کمانے کے طریقے نوجوان مفتیانِ کرام کو سکھانے سے اجتناب کریں جس ٹیکنالوجی کے مشتبہ ہونے کا شبہ ہے۔
*    حکومتی شریعہ ایڈوائزی بورڈز میں صرف انہی لوگوں کو آگے جانے دیا جائے جو متصلّب ہوں اور جمہور اور اکابر حضرات کی رائے کو ہی فوقیت دی جائے۔ اگر تحقیق سے کسی شریعہ ایڈوائز کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ جمہور کی رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کررہے ہیں اور اپنے ایجنڈے کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے عہدے وحکومتی وسائل کو استعمال کررہے ہیں تو اُن کے خلاف بڑے اکابرین کے مشورے سے تادِیبی کارروائی کے بارے میں سوچا جائے اور آئندہ کے لیے اُن کو شریعہ ایڈوائزی بورڈ کا ممبر نہ بننے دیا جائے۔
*    مدارس کے اندر اکابرین کی مشاورت سےایسا نظم بنایا جائے کہ کوئی نوجوان صاحبِ علم اپنے ’’مفتی‘‘ کے ٹائٹل کو استعمال کرتے ہوئے عوامی سطح پر جمہور علمائے کرام کی رائے سے نہ ہٹے، تاکہ عوام گمراہی سے بچے رہیں۔
*    اسمارٹ فون سے متعلق اکابر علمائے کرام کی رائے کو پیشِ نظر رکھا جائے اور مدارس کے پاکیزہ ماحول کو اس سے دور رکھا جائے۔
*    مدارس کےنصاب کی تبدیلی سے حتیٰ الامکان گریز کیا جائے اور اُن مدارس کی حوصلہ شکنی کی جائے جو کہ روایتی دینی کُتب کو فرسودہ بیان کررہے ہیں۔ نیز نصاب میں تبدیلی ضرورت کے درجے میں ہونی چاہیے، مگر اس کے لیے وفاق المدارس کے متعلقہ فورم سے ہی رجوع کیا جائے اور اُنہی اکابرین کی سفارشات پر عمل کیا جائے جو کہ نصاب کمیٹی میں شامل ہیں۔
*    انگریزی سکھانے کی آڑ میں ایسے علمائے کرام کہ جن کو انگریزی نہیں آتی، اُن کی ہرگز تحقیر نہ کی جائے، بلکہ نوجوان مفتیانِ کرام کی ذہن سازی کی جائے کہ وہ یہ سوچ رکھیں کہ اصل علم ان روایتی علمائے کرام اور مدارس کے مُدَرِّسِین کے ہی پاس ہے، چہ جائے کہ اُن کی انگریزی نہ آنے کی وجہ سے تحقیر کی جائے۔
*    دینی علوم حاصل کرنے کے لیے روایتی دینی کُتب پر ہی انحصار کیا جائے، چہ جائے کہ مستشرقین اور عصری دینی تعلیمی اداروں کی کُتب بنیادی مآخذ کے طور پر مدارس میں رائج کی جائیں۔
*    معاشیات کے علوم کے لیے عالمی سائنسی و معاشی ماہرین کی تحقیق کو پڑھنے کو رواج دیا جائے اور اُن کی سائنسی تحقیق پر ہی مسئلہ کی بنیاد رکھی جائے اور غیر معیاری و غیر سائنسی تحقیق میں ہرگز ہرگز پاکستانی اور عالمی غیر معیاری سائنسی جرائد کو فوقیت نہ دی جائے، بلکہ ایسے تمام جرائد کی نشاندہی کرکے مدارس میں تخصص کے طلبائے کرام کو اُن جرائد میں چھاپنے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
*    مسائل کا متبادل حل دیتے وقت شریعت کے احکامات کے دائرہ میں رہتے ہوئے متبادل حل ڈھونڈا جائے۔
یہ چند گزارشات تھیں جو کہ راقم نے مدارس سے متعلقہ حضرات کی خدمت میں پیش کردیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے مدارسِ دینیہ کی ہرطرح سے حفاظت فرمائے، اور علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی قدرکرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین