الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
یوں تو اسرائیل ۱۹۴۸ ءہی سے فلسطین کی سرزمین پر اپنے غاصبانہ تسلط کے ساتھ ہی فلسطینیوں پر جبر اور ظلم کی تاریخ رقم کرتا چلا آرہا ہے، اس جبر و قہر اور ظلم و جور میں تیزی کے ساتھ اضافہ اس وقت ہوا، جب اہلِ فلسطین کے دفاع کاروں نے ۷ ؍ اکتوبر ۲۰۲۳ ء میں جوابی اقدام کے طور پر اسرائیل پر حملہ کیا۔ اس وقت سے تاحال مئی ۲۰۲۵ء اسرائیل اہلِ غزہ کی سول آبادی پر مسلسل بمباری اور حملے کر کے اس ظلم اور وحشت کی تمام حدیں عبور کر چکا ہے۔ غزہ کے مکانات، مساجد، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو ملبہ کا ڈھیر بنانے کے بعد آبادیوں سے نکل کر خیموں میں پناہ گزین بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔ غزہ کی گلیاں اور آبادیاں زندگی کی نہیں بلکہ تباہی اورموت کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ہر طرف لاشیں، خون میں نہائے زخمی بچے، روتی اور بلکتی مائیں اور کھنڈرات میں دبے اور چھپے بے بس و بے سہارا لوگ ہر باشعور انسان اور حکمران سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی تم انسان ہو؟ آج غزہ صرف ملبے کا ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخِ انسانی کی سب سے تاریک داستان اور نسل کشی کی تاریخی دستاویز بن چکا ہے۔ غزہ، مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کے دفاع کاروں اور اسرائیل کے درمیان قطر اور دوسرے ممالک کے ضمانتیوں کے توسط سے ایک عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا، جس کے نتیجے میں جانبین کے کچھ قیدیوں کو رہائی بھی ملی، لیکن اسرائیل نے حسبِ روایت وہ معاہدہ توڑ دیا اور حسبِ عادت اس نے غزہ کے باقی ماندہ لوگوں کی خون ریزی شروع کردی۔
اسی بنا پر حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی تحریک اور دعوت پر ’’ مجلس اتحادِ امت پاکستان ‘‘ کی جانب سے ۱۰؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو اسلام آباد میں ایک ’’ قومی فلسطین کانفرنس‘‘ بلائی گئی، جس میں اہلِ سنت کے تمام مسالک اور مکاتبِ فکر کے زعمائے ملت، علمائے کرام اور مفتیانِ عظام نے ایک متفقہ اعلامیہ اور فتویٰ جاری کیا، جس کو حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے پڑھا اور اس کی مزید وضاحت شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے بیان میں کی، جس میں کہا گیا کہ: ماضی قریب میں اس جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی۔ اب تک کم و بیش ۵۵ ہزار شہید جب کہ دو لاکھ کے قریب زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ یہ محض جنگ نہیں، بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ عالمی ادارے مفلوج و بے بس ہو چکے ہیں۔ شرعاً تمام مسلمانوں پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جہاد واجب ہو چکا ہے۔ مسلّمہ قانونی رو سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد عالمی، قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ کوئی معاہدہ اس جہاد میں شرکت سے مانع نہیں ہے۔ البتہ فلسطین کے نام پر اپنی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد یا کارروائیاں جائز نہیں ہوں گی۔ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے غیر مشروط جنگ بندی تک سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں۔ سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کیا جائے اور پاکستان اس میں پہل کرے۔ غزہ پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے درکار شرعی جواز کے مفہوم پر پورا اُترتا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان اور بہت سے ممالک کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور جنہوں نے اس کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا بھی ہے تو اس ظلمِ عظیم کے بعد اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ قتال کی ذمہ داری ریاستوں کی باقاعدہ افواج کی ہے اور اس ضمن میں حکمت عملی وضع کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے جو مسلمانوں کی مصلحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے جلد از جلد مؤثر اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کرے۔ اعلامیہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے قتال کا فریضہ پہلے ان مسلمانوں پر لازم ہوتا ہے جو جغرافیائی طور پر اُن کے قریب ہیں اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دور کے مسلمانوں پر یہ فریضہ لازم ہوگا۔
اسی طرح ۱۳؍ اپریل بروز اتوار جمعیت علمائے اسلام کے زیرِ اہتمام کراچی میں ’’ اسرائیل مردہ باد کانفرنس‘‘ شاہراہِ قائدین پر منعقد کی گئی، جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ اس میں قائد ِجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا: ’’ یہ اجتماع اسلامی حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ کچھ تو ذرا اپنی حمیت کا مظاہرہ کرو، تمہاری غیرت اسلامی کہاں گئی کہ آج کراچی میں ایک ملین عوام جمع ہو کر آپ کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہاں کے عوام آپ کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اپنا فرضِ منصبی پورا کریں، اپنا فرضِ شرعی پورا کریں ... آج اگر کوئی جماعت یا کوئی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہی ہے، ان سے بہتر تعلقات کا سوچ رہی ہے تو میں اُن کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پاکستان کی اساس کے ساتھ غداری ہے! قیامِ پاکستان کے اساسی مقاصد کے ساتھ غداری ہے ... میں ان قوتوں کو بتانا چاہتا ہوں، ان لابیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسر ائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانا یا اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات بنانا، یہ آپ کے لیے آسان نہیں ہوگا اور کبھی تمہارا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ان تمام حالات سے واضح ہوگیا کہ سلامتی کونسل ہو یا اقوامِ متحدہ کا ادارہ، یہ سب امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل کے سامنے ، ناکارہ مفلوج، ناکام اور بے فائدہ ہو چکے ہیں، اب انسانیت کی بقا اور سلامتی کے لیے انصاف پر مبنی نیا نظام وجود میں لانا ناگزیر اور ضروری ہو چکا ہے۔