بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ فلسطین پر ظلم کب تک!؟

اہلِ فلسطین پر ظلم کب تک!؟


الحمد للہ و سلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

سرزمینِ قدس، قبلۂ اول کی بنا پر تمام اُمتِ مسلمہ کا مشترکہ اَثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کثرتِ بعثت کی بنا پر یہ ’’سرزمینِ انبیاء‘‘ بھی کہلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے صاحبزادہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے حضرت یعقوب و یوسف، پھر حضرت موسیٰ، زکریا، یحییٰ ، دائود، سلیمان اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہم الصلوۃ والسلام تک یہ خطہ انوارِ نبوت سے جگمگاتا رہا ہے۔ پیغمبرِ آخرالزماں خاتم النبیین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکمِ الٰہی ’’بیت المقدس‘‘ کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہلاتا ہے۔ 
معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجدِ اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ’’امام الانبیاء‘‘ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفرِ معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرِعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ اس بنا پر اُمتِ محمدیہ کا سر زمینِ فلسطین، مسجدِ اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ یہ رشتہ اتنا اَٹوٹ ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں سوائے ایک صدی (جب صلیبیوں کا یہاں تسلُّط قائم ہوا) کے یہ خطہ ہمیشہ پرچمِ محمدی کے سرنگوں رہا ہے اور یہاں اسلام کی شان و شوکت کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔
یہود جو ’’مغضوب علیہم‘‘ قوم ہے، پچھلے ستر سالوں سے اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اپنی ہی قوم کے علماء و صلحاء کا خون بہانا ان کا صدیوں سے آبائی پیشہ رہا ہے اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ یہودیوں کے مختلف جرائم قرآن کریم میں مذکور ہیں، جن میں ’’قتلِ انبیاء‘‘ کا تذکرہ بار بار دہرایا گیا ہے۔ انہی جرائم کی بنا پر یہ قوم ذلت و پستی کی پاتال میں اُتاری گئی۔ 
جنگِ عظیم سے قبل یہود بڑی تعداد میں جرمنی میں آباد تھے، ہٹلر نے ان کا قتلِ عام کرکے باقی ماندہ کو وہاں سے نکالا تو دنیا کا کوئی ملک انھیں پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کی وجہ ان کی چالاکی و مکاری، دھوکا دہی و غداری، بے وفائی و ناشکری وغیرہ تھی، حتیٰ کہ جب برطانیہ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ یہ برطانیہ آکر نہ بس جائیں تو اس نے ان سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے کے لیے ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ کے مصداق ارضِ فلسطین میں انھیں بسانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اپنی فطرت کے بموجب انہوں نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ جمانا شروع کردیا، نوبت بایں جارسید کہ ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ نے عرب کے سینے میں اسرائیلی خنجر گھونپ کر فلسطین کے دو ٹکڑے کردیئے اور ’’اسرائیل‘‘ نامی ناگ قبلۂ اول کے خزانے پر اپنا پھن پھیلا کر قابض ہوگیا۔
ارضِ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد ’’اسرائیل‘‘ نے آگ و خون کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ تاحال جاری ہے۔ اسرائیل ۱۹۵۶ء میں مصر کی نہر سوئز کا مدعی بنا، ۱۹۶۷ء میں اس نے عربوں سے خوفناک جنگ لڑی اور القدس کو محاورتاً نہیں، بلکہ حقیقتاً اپنے ظلم و جبر کی آگ میں جھونک دیا۔ اہلِ فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو ایٹمی طاقت، تیل کی دولت اور بے شمار وسائل و اسلحہ سے مالا مال اور لیس ہیں، اسرائیل سے قبلۂ اول نہیں چھڑاسکے ہیں۔ 
پہلے تو گاہے گاہے کوئی آواز اُٹھتی سنائی دیتی تھی، لیکن حال ہی میں جب رمضان کے مقدس ماہ کی آخری راتوں میں صہیونی اژدہا مسجدِ اقصیٰ میں مصروفِ عبادت مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا اور تب سے تقریباً دو ہفتے القدس پر آگ و آہن کی بارش ہوتی رہی، میڈیا کی عمارت سے کتابوں کی لائبریری تک، مسجد سے ہسپتال تک سب کچھ تباہ و برباد کردیئے گئے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت یکساں ان مظالم سے دوچار ہوئے، فلسطینی شہداء کی تعداد دو سو سے متجاوز ہوگئی، لیکن عالمی اسلامی تنظیموں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی بے حسی و بے بسی تماشائے عالم بنی ہوئی ہے، إنما أشکوا بثي و حزني إلی اللہ۔
ان حالات میں پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ کا اجلاس بلایا گیا، لیکن اس نے بھی ایک مذمتی قرارداد سے آگے کچھ نہ کیا۔ ہماری حکومت کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے ترکی کے وزیرِ خارجہ سمیت کئی اور اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کو ساتھ ملاکر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کی یلغار کو روکنے کے علاوہ اس پر جنگی تاوان لازم کرے۔ سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ گیا تو امریکا نے اس کو ویٹو کردیا۔ گویا آج بھی امریکا مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں پر ظلم و جور کے پیچھے تھپکی دینے کے لیے کھڑا ہے اور وہ اسرائیل کو تھپکی دے رہا ہے۔ ان حالات میں عالمی حالات اور نظامِ عالم پر گہری نگاہ و نظر رکھنے والے دانشور حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اب وقت ہے کہ مسلم حکمران مل کر تین کام کریں: 
۱:- تمام مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کریں، جیسا کہ امریکا نے نیٹو طرز پر معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر کوئی حملہ کرے گا تو معاہدہ میں شامل تمام ممالک پر یہ حملہ تصور ہوگا اور وہ سب مل کر اس جارح ملک پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے اور اقوامِ متحدہ کے منشور میں اس کی اجازت و گنجائش بھی ہے۔
۲:-تمام مسلم ممالک بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مضبوط لابنگ کرکے اہلِ فلسطین کو ان کا ملک اور زمینیں واپس کرائیں۔
۳:- تمام اسلامی ممالک مل کر سلامتی کونسل میں ایک مسلم نشست حاصل کرنے کا مطالبہ کریں، جس میں صرف پانچ ممالک کی اجارہ داری ہے کہ اگر چار ممالک کسی ملک کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، تو ایک ملک آکر اسے ویٹو پاور کے ذریعہ رد کردیتا ہے، جیسا کہ حالیہ فلسطین کے معاملے میں امریکا نے کیا۔جب مسلم ممالک بھی یہ نشست حاصل کرلیں گے تو انھیں بھی حق حاصل ہوگا کہ کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف کوئی جارحیت کا سوچے گا تو اسلامی بلاک اس کی مخالفت کرے گا۔
جہاد کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنا اور مظلوم کو ظلم سے نجات دلانا ہے۔ آج ۵۷ ؍اسلامی ممالک ۲۲ عرب اور ۷ خلیجی ممالک ہیں۔ اگر ان میں اتحاد ہو اور سب کے پیشِ نظر اسلام اور مسلمان اُمت ہو اور ان کا آپس میں اتحاد اور اَیکا ہو تو ایک اسرائیل کیا پوری دنیائے کفر بھی مل جائے تو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، لیکن ان کا آپس کا انتشار، ایک دوسرے پر عدمِ اعتماد اور ان کی صفوں میں چھپے ہوئے اغیار کے آلۂ کار اُن کو کبھی کسی مسئلہ پر متحد ہونے نہیں دیتے۔ 
بہرحال مسلم حکمرانوں کو اپنی مسلمان رعایا اور عوام کے جذبات کو سمجھنا چاہیے اور اُنہی کے مطابق اپنی ملکی پالیسیوں کو وضع کرکے ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے، ورنہ دنیا بھر کی مسلم قوم اپنے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان حالات میں کمزوری دکھانا اور بے بسی کی باتیں کرنا کسی مسلم حکمران کے شایانِ شان نہیں۔ 
پاکستان اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی اسلامی مملکت ہے۔ واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کی بنا پر تمام عالم اسلام کے مظلوم عوام کی نگاہیں پاکستان کی جانب اُٹھتی ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہے کہ ان حالات میں بھی بجائے اُمتِ مسلمہ کو حوصلہ دینے اور ان کے جذبات کی عکاسی کرنے کے ہمارے صدر مملکت محترم جناب عارف علوی صاحب یہ بیان دیتے ہیں کہ: 
’’ہم نے بھی تمام ممالک کی طرح اسرائیلی جارحیت کی بس مذمت کی۔ عالمی سطح پر مسلمان خود کمزور ہیں، اسی لیے ہمیں طاقت ور کی آواز سننا پڑے گی۔ مسلم اُمہ اسرائیل کے خلاف سخت قدم اُٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیونکہ ہم کمزور ہیں۔‘‘ 
ایک ایٹمی قوت سے مالامال ملک کے سربراہ کو ایسا بیان زیب نہیں دیتا۔ 
البتہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم نے پوری اُمتِ مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے بہت ہی حوصلہ افزا بیان دیتے ہوئے فرمایا: ’’اگر ہمیں راستہ دیا جائے تو اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مورچے میں بیٹھ کر جہاد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ یقیناً یہی جذبۂ جہاد جو آج ماند پڑتا جارہا ہے، اسے بھرپور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ارضِ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں، بلکہ کُل اہلِ اسلام کا مسئلہ ہے۔ ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ‘‘ (تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں) کے تحت اسلام کے رشتہ نے عرب تا عجم، افریقا تا امریکا اور ایشیا سے انٹارکٹیکا تک بسنے والے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے درد و الم میں شریک بنایا ہے۔ اور اسلامی شریعت میں یہ حکم ہے کہ مشرق میں رہنے والے مسلمان پر کوئی ظلم کرے گا تو درجہ بدرجہ مغرب تک تمام مسلمانوں پر اس کی مدد و نصرت کرنا لازم ہوگا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: 
’’وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا‘‘ (النساء:۷۵)
ترجمہ: ’’ اور تمہارے پاس کیا عذر ہے کہ تم جہاد نہ کر و الله کی راہ میں اور کمزوروں کی خاطر سے جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے (غیب سے) کسی دوست کو کھڑا کیجیے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے (غیب سے) کسی حامی کو بھیجیے۔‘‘
مسلم حکمران اگر اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں تو اُمتِ مسلمہ کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت اور دائرہ کار میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ضرور آواز اُٹھائے۔ ارضِ فلسطین جو دہائیوں سے لہو لہو ہے، جہاں بنیادی انسانی ضروریات بھی ظالم و جابر اسرائیلی فوج کی مرہونِ منت ہیں، جہاں سیّدنا آدم و سیّدنا اسحاق علیہما السلام کا تعمیر کردہ قبلۂ اول قائم ہے، جسے سیّدنا سلیمان علیہ السلام نے تزئین و آرائش سے آراستہ کیا تھا، جو امام الانبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت گاہ ہے، اس کی آزادی اور صہیونی چنگل سے رہائی اُمت کے فراموش کردہ فرائض میں سے ایک ہے۔ 
اگر ہم سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح عملاً جہاد کرنے سے مجبور و محروم کردیئے گئے ہیں تو اہلِ فلسطین کی مالی مدد کرنا، اُن کے حق میں دعائیں کرنا، اپنے ملک میں احتجاجی جلسے جلوس نکالنا، اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوعِ سخن بنانا اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا، یہ سب ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر نہیں ہے، اور باتوفیق مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ 
۲۱؍ مئی ۲۰۲۱ء بروز جمعہ جمعیت علماء اسلام کی اپیل پر ملک بھر میں ’’یومِ فلسطین‘‘منایا گیا، جس میں اہلِ اسلام کی بھرپور تعداد نے شرکت کرکے اہلِ فلسطین کے ساتھ تعلق کا ثبوت دیا۔ 

خدا کرے کہ یہ کاوشیں کام آئیں اور فلسطین کی سرزمین آزادی کی فضائوں میں سانس لے سکے۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین