بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا باہمی تعلق


اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا باہمی تعلق

 

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں، تعلق، محبت، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیتؓ اور صحابہ کرام ؓ کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرامؓ اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا۔ اس تحریر میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہلِ بیت عظامؓ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا
یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار، پسندیدہ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے، وہ عقیدت، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرامؓ کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا۔
ابو الائمہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا طرزِ عمل
 اہلِ بیتؓ میں سب سے پہلے ابو الائمہ سیدنا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  نے اسی محبت ومودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنینؓ کی اولاد، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے:
’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ۔‘‘(۱)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے۔‘‘
مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے :
’’وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔‘‘ (۲)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں۔‘‘
شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے:
’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود۔‘‘ (۳)
یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (۴) میں اسی طرح لکھا ہے۔
دلیلِ عقیدت ومحبت
کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا؟!
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے؟!کیا وہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں؟!
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت علی  رضی اللہ عنہ  تک محدود نہیں تھا، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اور حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے، نواسۂ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے:
’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ۔‘‘(۵)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے۔‘‘
اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘(۶) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا۔
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی
حضرت حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: 
’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (۷)
یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے۔‘‘
امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت
’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ :’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی۔‘‘ (۸)
حضرت حسن بن حسن بن علیؓ کے صاحبزادے کا نام
حضرت حسنؒ بن الحسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا، چنانچہ ’’مقاتل الطالبیین‘‘ (۹) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ: ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے۔‘‘
ساتویں امام کے بیٹے کا نام
شیعہ کے ساتویں امام موسیٰ  ؒبن جعفر جن کا لقب کاظم ہے، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا۔ (۱۰)
آٹھویں امام کی کنیت
 اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ( شیعہ کے آٹھویں امام علی رضا  ؒ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ علیؒ بن موسی الرضاؒ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی۔ (۱۱)
امام موسیٰ کاظمؒ کی بیٹی کا نام
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امام موسیٰ کاظمؒ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ ؓ کے نام پر عائشہ رکھا تھا، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفرؒ کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ: ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں۔‘‘ (۱۲)
حضرت علیؒ بن حسینؓ کی صاحبزادی کا نام
حضرت علیؒ بن حسین ؓ نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا۔(۱۳)
دسویں امام کا طرزِ عمل
شیعہ حضرات کے دسویں امام علی بن محمد الہادی نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے :
’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ۔ ‘‘ (۱۴)
یعنی ’’ابو الحسنؒ رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی۔‘‘
اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا۔‘‘ (۱۵)
دعوتِ غور وفکر
آلِ بیت کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام ومودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 میں اہلِ تشیع حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے؟!۔
حوالہ جات
۱:-الارشاد، ص:۱۸۶                ۲:-تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳
۳:-مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت        ۴:-کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲ 
۵:-تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸۔ منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴۰    ۶:- مقاتل الطالبیین، ص:۸۷
۷:- التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳            ۸:-کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴
۹:- مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت        ۱۰:-دیکھیے :کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷
۱۱:-مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲            ۱۲:-الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲۔ 
۱۳:-دیکھیے: کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰            ۱۴:-کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳ 
۱۵:-تفصیل کے لیے دیکھیے :مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین