بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اہلِ بیتِ اطہار  رضی اللہ عنہم  تذکرہ و مختصر تعارف

اہلِ بیتِ اطہار  رضی اللہ عنہم 

 

تذکرہ و مختصر تعارف


’’اہلِ بیت‘‘ کا معنی ہے: گھر والے، جیسے کہا جاتا ہے:’’اہلِ مکہ‘‘ مکہ والے، ’’اہلِ علم‘‘ علم والے، گھر والوں میں سب سے پہلے بیویاں آتی ہیں، اس لیے اہلِ بیت میں سب سے پہلے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پاک بیویاں (ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ) داخل ہیں، سورۂ احزاب کی آیتِ تطہیر ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمَ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ‘‘ بھی ازواجِ پیغمبر  رضی اللہ عنہن  کے حق میں اُتری، جیسا کہ آگے پیچھے کی تمام آیات سے واضح ہے۔ (روح المعانی)
صحابیِ رسول حضرت زید بن ارقم  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ:
’’نساء ہٗ من أہل بیتہٖ‘‘ کہ ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہیں۔ ‘‘(تفسیر ابن کثیر،ج: ۳، ص:۵۰۲۔ کنزالعمال،ج: ۱۱، ص:۵۸۶)
علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’وہٰذا نص في دخول أزواج النبي صلی اللہ علیہ وسلم في أہل البیتؓ ہاہنا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
’’یہ آیت ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کے اہل بیت میں داخل ہونے پر نص ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’چونکہ آگے پیچھے سارا ذکر ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کا چل رہا ہے، اس لیے وہ تو اہلِ بیتؓ میں براہِ راست داخل ہیں، لیکن الفاظ کے عموم میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہیں۔‘‘          (آسان ترجمہ قرآن، تفسیر آیۂ تطہیر)
البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے بچوں کو بھی چادر میں لے کر اہلِ بیتؓ کی اس تطہیر و تقدُّس میں شامل فرمایا، چنانچہ درج ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ عَائِشَۃَ رضي اللہ عنہا قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم غَدَاۃً وَ عَلَیْہِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضي اللہ عنہما فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَیْنُ رضي اللہ عنہ فَدَخَلَ مَعَہٗ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَۃُ رضي اللہ عنہا فَاَدْخَلَہَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِیٌّ رضي اللہ عنہ فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘ (الاحزاب:۳۳)     (صحیح مسلم)
’’حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہ  آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  آئیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘
’’عَنْ سَعْدٍ بْنِ اَبِي وَقَّاصٍ رضي اللہ عنہ قَالَ: لَـمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الآیَۃُ: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ)، (آل عمران، :۶۱)، دَعَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِیًّا وَ فَاطِمَۃَ وَ حَسَنًا وَ حُسَیْنًا فَقَالَ: اللَّہُمَّ، ہَؤُلَاءِ اَہْلِيْ۔‘‘  (صحیح مسلم، جامع ترمذی)
’’حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی، یعنی: ’’آپ فرما دیں: آؤ! ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین  رضی اللہ عنہم  کو بلایا، پھر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘
اس حدیث کو ’’حدیثِ کساء‘‘ کہا جاتا ہے۔
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چادر (کساء) میں حضرت علی المرتضیٰ کرّمَ اللہ وَجْہَہ کو بھی لیا اور اہلِ بیت میں داخل فرمایا، کیونکہ حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بچوں کے حکم میں ہیں، ان کی پرورش آغوشِ نبوت میں ہوئی، چنانچہ نصاریٰ نجران کے خلاف مباہلہ میں بھی اُن کو لے گئے۔ آیتِ مباہلہ میں ’’أَبْنَاءَ نَا‘‘کے الفاظ میں سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  داخل و شامل ہیں، جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
اہلِ بیت کی تیسری قسم وہ ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو اعزازی طور پر اپنے اہلِ بیت میں شامل فرمایا، جیسا کہ حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرمایا کہ:
’’سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ۔‘‘ (مستدرک حاکم) ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہیں۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ بیت اطہار میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پاک بیویاں، آپ کی اولاد (تین بیٹے اور چار بیٹیاں) اور اولاد کی اولاد (پانچ نواسے اور تین نواسیاں) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ اور دیگر وہ شخصیات شامل ہیں، جن کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہلِ بیت کے مفہوم میں داخل فرمایا۔ اہلِ بیت کا لفظ بولتے ہی ہمارا ذہن جو صرف خاندانِ سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی طرف جاتا ہے، یہ شیعی تأثر معلوم ہوتا ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ شیعہ شنیعہ کے نزدیک اہلِ بیت صرف حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے گھرانے کے لوگ ہیں، اسی لیے انہوں نے پنجتن پاک کا نعرہ لگایا، ھدانا اللہ إلی الصراط المستقیم۔

محبتِ اہلِ بیتِ اطہار  رضی اللہ عنہم 

’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: اَحِبُّوْا اللہَ لِـمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہٖ، وَاَحِبُّوْنِيْ بِحُبِّ اللہِ عزوجل وَاَحِبُّوْا اَہْلَ بَیْتِيْ لِحُبِّيْ۔‘‘ (جامع ترمذی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میری محبت کی وجہ سے اہلِ بیتؓ سے محبت کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح  علیہ السلام  کی کشتی کی سی ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)
’’عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رضي اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَّکْتَالَ بِالْمِکْیَالِ الْاَوْفَی إِذَا صَلّٰی عَلَیْنَا اَہْلَ الْبَیْتِ، فَلْیَقُلْ: اللّٰہُمَّ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَتِہٖ وَاَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.‘‘   (سنن ابی داؤد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامۂ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، جب وہ ہم اہلِ بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے:اے اللہ!تو درود بھیج حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذریت اور اہل بیت پر، جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) پر، بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘

سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’ارْقُبُوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَہْلِ بَیْتِہٖ۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۷۱۳)
’’اہل بیتؓ کا اکرام و تعظیم کرکے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خیال اور لحاظ رکھو۔‘‘
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’لکل شيء أساس و أساس الإسلام حب أصحاب رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و حبّ أہل بیتہٖ۔‘‘   (کنزالعمال)
’’ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی اَساس و بنیاد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہلِ بیت سے محبت کرنا ہے۔‘‘
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ایک آنکھ اور اہلِ بیت اطہار  رضی اللہ عنہم  دوسری آنکھ ہیں، ایک کو پھوڑ دیں تو بھی اپنا نقصان ہے اور اگر دوسری آنکھ کو پھوڑیں تو بھی اپنا نقصان ہے، نیز اگر کسی خوب صورت نقش نین والے شخص کی بھی ایک آنکھ خراب ہو جائے تو دوسری آنکھ کا حسن بھی ختم ہوجاتا ہے۔ 
حضرت نانوتویؒ کے الفاظ یہ ہیں:
’’راہ کی بات یہ ہے کہ ہم کو دونوں فریق (صحابہ کرام اور اہل بیت کرام  رضی اللہ عنہم ) بمنزلہ دو آنکھوں کے ہیں، کس کو پھوڑیں؟ جس کو پھوڑیں اپنا ہی نقصان ہے، بلکہ جیسے کوئی حسین متناسب الاعضاء ہو کہ اس کی آنکھ ناک سب کی سب مناسب اور متناسب ہوں اور پھر اس کی ایک آنکھ بیٹھ جائے تو دوسری آنکھ کی زیب بھی جاتی رہے گی۔‘‘ (ہدیۃ الشیعہ)
 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن 

1-  حضرت خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا 

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ۲۵؍ برس کی عمر میں مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  سے شادی کی۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  پہلی خاتون تھیں جو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آئیں۔ ان کا نام خدیجہ اور لقب طاہرہ تھا۔ والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آنے سے قبل ان کا نکاح پہلے ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوا تھا۔ ان کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں آئیں۔ ان کے انتقال کے بعد۴۰برس کی عمر میں حرمِ نبوت میں داخل ہوئیں اور ام المؤمنین کا شرف حاصل ہوا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت ملی تو نبوت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت انہوں نے ہی حاصل کی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آنے کے بعد ۲۵؍برس تک زندہ رہیں۔ نبوت کے دسویں سال انتقال کیا۔

2- حضرت سودہ بنت زمعہ  رضی اللہ عنہا 

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  کے انتقال کے بعد حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا  سے شادی کی، جو قریش کے ایک قبیلے عامر بن لوی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پہلی شادی سکران بن عمرو سے ہوئی تھی، جن کا انتقال ہو گیا تو ۷؍ رمضان (بعض روایات میں شوال) سن۱۰ نبوی میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آئیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا۔ سخاوت و فیاضی ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
3-  حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا 
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا، جن کی کنیت امِ رومان ہے۔ ان کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سن ۱۱؍نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیا اور۱؍ہجری میں ان کی رخصتی ہو ئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ انہوں نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نو برس گزارے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے ۴۸سال بعد۶۷برس کی عمر رمضان المبارک ۵۸ھ میںسیدنا امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے دور میں انتقال ہوا۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب ِعلم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرامؓ پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتویٰ دیتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ 

4-  حضرت حفصہ بنت عمر  رضی اللہ عنہا 

خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا  تھا۔ غزوۂ بدر میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا  کے شوہر حضرت خنیس  رضی اللہ عنہ  شہید ہوئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا۔ ۴۵ھ میں مدینہ میں انتقال کیا۔

5-  حضرت زینب بنت خزیمہ  رضی اللہ عنہا 

اُم المساکین سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کے والد کا نام خزیمہ تھا۔ اُم المساکین کنیت تھی، فقراء اور مساکین کے ساتھ فیاضی کرتی تھیں، اس لیے اس کنیت سے مشہور ہوگئیں۔ پہلے شوہر حضرت عبد اللہ بن جحش  رضی اللہ عنہ  تھے جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا، لیکن صرف دو تین ماہ کے بعد ہی تیس (۳۰) سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

6-  حضرت اُمِ سلمہ  رضی اللہ عنہا 

ان کا نام ہند اور کنیت ام سلمہ تھی۔ پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد  رضی اللہ عنہ  سے نکاح ہوا تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دونوں اسلام لائے تھے۔ حبشہ اور مدینہ ہجرت بھی کی تھی۔ حضرت ابو سلمہ  رضی اللہ عنہ  غزوۂ احد میں زخمی ہوئے اورشہید ہوگئے تو ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا۔علمی اعتبار سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے بعد آپ کا نمبر آتا تھا۔ بہت سی احادیث ان سے مروی ہیں۔سن۶۳ھ (واقعۂ حرہ کے سال) ۸۴ ؍برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

7-  حضرت زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہا 

نام زینب اور کنیت ام الحکم تھی۔ والد کا نام جحش بن رباب اور والدہ کا نام اُمیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا  حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپ کی دو بیوہ بھابھیاں بھی ازواج مطہراتؓ میں تھیں۔ (ام حبیبہ جو عبید اللہ بن جحش کی بیوہ تھیں اور زینب بنت خزیمہ جو عبد اللہ بن جحشؓ کی بیوہ تھیں)۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا  کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  سے ہوا جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام تھے، دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  نے طلاق دے دی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  کا ذکر مبارک قرآن مجید میں نام کے ساتھ آیا ہے اور آپ واحد صحابی رسول ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا  سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح کیا۔ ان کا انتقال۲۰ھ ۵۳ ؍سال کی عمر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔

8-  حضرت جویریہ بنت حارث  رضی اللہ عنہا 

بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسافع بن صفوان(ذی شفر) سے ہوا تھا، جو ان کے قبیلے سے تھا، لیکن غزوۂ مریسع میں قتل ہو گیا تو مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے لونڈی و غلاموں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا  بھی تھیں اور مالِ غنیمت کی تقسیم میں ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رقم دے کر آزاد کرایا اور ان سے نکاح کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح کے بعد بنی مصطلق قبیلہ کے دیگر لونڈی غلام بھی آزاد کر دیئے گئے۔ 

حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا  کا انتقال ۶۵ ؍سال کی عمر میں ربیع الاول ۵۰ھ میں ہوا۔

9-  حضرت امِ حبیبہ  رضی اللہ عنہا 

ان کا اصل نام رملہ تھا۔ حضرت ابو سفیان بن حرب  رضی اللہ عنہ  کی بیٹی اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما  کی ہمشیرہ تھیں۔ والدہ صفیہ بنت العاص تھیں، جو حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کی پھوپھی تھیں۔ پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا اور مسلمان ہوئیں، حبشہ ہجرت بھی کی۔ عبید اللہ نے اسلام چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرلی تو آپؓ نے اُس سے علیحدگی اختیار کرلی، پھر عبیداللہ کا انتقال بھی وہیں حبشہ میں ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کو نکاح کے پیغام کے لیے بھیجا، نجاشی نے خود نکاح پڑھایا اور امِ حبیبہ  رضی اللہ عنہا  مدینہ آگئیں۔ سن۴۴ھ میں تہتر برس کی عمر میں اپنے بھائی سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے دورِ خلافت میں انتقال ہوا۔

10-  حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب  رضی اللہ عنہا 

ان کا اصل نام زینب تھا، جو غزوۂ خیبر کے قیدیوں میں سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حصے میں آئی تھیں جو قبیلہ بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، ان کی ماں بھی رئیسِ قریظہ کی بیٹی تھیں۔ ان کی پہلی شادی مشکم القرظی سے ہوئی، اس سے طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں جو جنگ خیبر میں قتل ہوا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا  جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آزاد کر کے نکاح کیا۔ رمضان المبارک ۵۰ھ میں ۶۰ ؍سال کی عمر میں انتقال کیا۔

11-  حضرت میمونہ بنت حارث  رضی اللہ عنہا 

ان کے والد کا نام حارث بن حزن تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح سے قبل مسعود بن عمیر ثقفی سے نکاح ہوا، ان سے علیحدگی کے بعد ابورہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں، جن کی۷ھ میں وفات ہوئی اور۷ھ میں ہی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سفرِ عمرہ کے دوران مقامِ سرِف پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا اور سفرِ عمرہ سے واپسی پر یہیں مقام سرِف پر رخصتی اور عروسی ہوئی، اور عجیب اتفاق کہ یہیں مقامِ سرف میں سن۵۱ھ میں انتقال فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں 

1-  سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں، بعثتِ نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئیں، ان کا نکاح اپنے خالہ زاد حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔
۸؍ہجری میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پائی، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، خود قبر مبارک میں اُترے اور اپنی لختِ جگر کو حزن و ملال کے ساتھ قبر میں اُتارا۔ (طبقات ابن سعد)
سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کا ایک بیٹا حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور ایک بیٹی سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  تھیں۔

2-  سیدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دوسری صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ سن ۲ھ میں جب غزوہ ٔ بدر ہوا، انہی دنوں میں وفات پائی۔ حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  انہی کی دیکھ بھال کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اعزازاً اُن کو بدریین میں شامل فرمایا اور غنائم سے حصہ بھی دیا۔

سیدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا  کا ایک بیٹا ہوا، جس کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ  تھا۔

3-  سیدہ امِ کلثوم  رضی اللہ عنہا 
 

حضرت رقیہ  رضی اللہ عنہا  کی وفات کے بعدسن ۳ھ میں ان کا نکاح بھی حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ چھ برس حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رہیں، سن۹ھ میں رحلت فرمائی، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سخت صدمہ پہنچا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، تدفین کے بعد قبر پر بیٹھے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

4- سیدہ فاطمۃ الزھراء  رضی اللہ عنہا 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے چھوٹی، لاڈلی اور چہیتی صاحبزادی ہیں، نام فاطمہ اور لقب زہراء ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ: ’’فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ان کا نکاح پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں ذی الحجہ سن۲ھ میں حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے چھ ماہ بعد ۳؍ رمضان المبارک سن۱۱ھ میں وفات پائی۔ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا  نے غسل دیا، حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور بعض روایات کے مطابق سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے جنازہ پڑھایا۔
حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے پانچ بچے ہوئے، تین بیٹے: حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم  ۔ دوبیٹیاں: سیدہ زینب اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صاحبزادے

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تین صاحبزادے تھے :

1-  حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ 

ان کو طیب اور طاہر بھی کہتے ہیں۔ بچپن میں انتقال کرگئے۔

2-  حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 

انہی کی وجہ سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کنیت ابو القاسم تھی۔بچپن میں وفات پاگئے۔

3-  حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تمام اولاد حضرت خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے تھی، صرف حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ  آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  سے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت۸ھ میں ہوئی، مدینہ منورہ کے قریب مقامِ عالیہ کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے، اس لیے مقامِ عالیہ کادوسرا نام مشربۂ ابراہیم بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ  نے مقامِ عالیہ سے مدینہ آکر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انعام کے طور پر حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ  کو ایک غلام عطا فرمایا، ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ابراہیم نام رکھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ: ’’میں نے اپنے اہل و عیال پر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بڑھ کر کسی کو شفیق نہیں پایا، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ  عوالیِ مدینہ میں دودھ پیتے بچے تھے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انہیں ملنے جایا کرتے تھے، ہم بھی نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ہوتے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب اس گھر میں داخل ہوتے تو وہ دھوئیں سے بھرا ہوتا تھا، (کیونکہ خاتونِ خانہ کا شوہر لوہار تھا) نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں پکڑ کر پیار کرتے اور کچھ دیر بعد واپس آجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیٹوں میں سب سے زیادہ عمر انہوں نے پائی، تقریباً ڈیڑھ پونے دوسال کی عمر میں وفات پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اورجنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ  کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔ (اسدالغابہ، ج:۱، ص:۴۹)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پانچ نواسے

1-  حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہما 

جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں، سن ۳ھ میں پیدا ہوئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا نام حسن رکھا، ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا، ان کے بال مونڈوائے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ صحابیِ رسول، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لاڈلے نواسے، جنتی جوانوں کے سردار، گلشنِ نبوت کے گلِ سرسبد اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشابہ تھے۔ (اسدالغابہ)
سیدہ خاتونِ جنت  رضی اللہ عنہا  کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام’’حسن‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (الاستیعاب، اسدالغابہ)
 آپ کا اسم سامی حسن، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
’’سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے ایک بار سیدنا حضر ت حسن  رضی اللہ عنہ  کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو پیار سے اُن کو کندھوں پر اُٹھالیا اور فرمایا کہ: حسن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشابہ ہیں، علی ( رضی اللہ عنہ ) کے مشابہ نہیں ہیں، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  یہ دیکھ کر اور سن کر ہنس رہے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۵۴۲، ۳۷۵۰)
رمضان المبارک سن۴۰ھ میں خلیفۂ راشد حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی شہادت ہوئی، تو حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنے، تقریباً چھ ماہ بعد کاتب ِ وحی سیدنا معاویہ بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ صلح کرلی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے ساتھیوں کو بھی حکم ارشاد فرمایا کہ سیدنا حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، یوں آپ کی بدولت اُمت کے دومنتشر گروہ جمع ہوگئے، اسلامی اتحاد کی ایک مضبوط شکل قائم ہوئی، اُمت کا بکھرا شیرازہ مجتمع ہوگیا، تمام امت ایک امیر اور امام عادل سیدنا حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے امر کے تحت جمع ہوگئی اور اس سال کو ’’عام الجماعۃـ‘‘ (اتحاد و اتفاق کا سال) قرار دیا گیا۔ صلح کے بعد سیدنا حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  اور حضرت سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ  دونوں حضرات سواری پر بیٹھ کر کوفہ میں داخل ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ، سیر اعلام النبلاء)
یہ دراصل نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشین گوئی پوری ہوئی جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمائی تھی:
’’إِنَّ ابْنِيْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللہَ اَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ المُسْلِمِینَ۔‘‘      (صحیح البخاری، رقم:۲۷۰۴، ۳۷۴۶)
’’ میرا یہ سردار بیٹا مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
مشہور قول کے مطابق حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کا انتقال ربیع الاول ۴۹ھ میں ۴۶ سال کی عمر میں ہوا۔
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: حسن (حسن مثنیٰ)، زید، عمر، قاسم، عبداللہ، ابوبکر، عبدالرحمٰن، حسین، طلحہ ۔ پانچ بیٹیوں کے نام : فاطمہ، رقیہ، اُمِ سلمہ، امِ عبداللہ، ام الخیر ہیں۔رحمہم اللہ اجمعین
عمرؒ، قاسمؒ اور عبداللہؒ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔

2-  حضرت حسین بن علی  رضی اللہ عنہما 

سیدنا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے دوسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول، باغِ نبوت کے مہکتے پھول، جنتی جوانوں کے سردار اور شہید ِ کربلا ہیں، شکل و صورت میں اپنے والد سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے مشابہ تھے اور بدن مبارک حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹، البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)
 آپ کا اسم سامی حسین، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔ آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں، مشہور قول ۴ ہجری ہے۔جنت کی عورتوں کی سردارحضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دستِ مبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (مستدرک ِ حاکم، رقم:۴۸۲۷۔ المعجم الکبیر: ۹۲۶۔ ابن کثیر، ج:۸، ص:۱۶۰)
حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، جن کو آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
مؤرخ ابن کثیرؒ    تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہم  آپ کی تکریم و تعظیم کیا کرتے تھے، (باوجودیکہ اس وقت تک حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  صغیر السن تھے، مگر یہ جانثارانِ رسول قرابت ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیوں کر لحاظ نہ کرتے؟) پھر آپؓ اپنے والدگرامی قدر حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، مشاجرہ ٔ جمل اور صفین میں بھی شرکت کی، والد ماجد کی بہت توقیر کرتے تھے، ان کی شہادت تک اطاعت گزاری کی، پھر مصالحتِ سیدنا حسن با سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہما  کو بھی تسلیم کیا۔ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  ان دونوں صاحبزادوں  رضی اللہ عنہما  کا خصوصی اکرام کرتے، انہیں خوش آمدید اور مرحبا کہتے، عطایا دیتے، دو لاکھ درہم تک ان کی خدمت میں پیش کرتے، حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  وفات پاگئے تو حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ہر سال وفد کے ساـتھ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس آـتے تو حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  اُن کی خوب خدمت اور عزت کرـتے۔ خلافت ِ معاویہ  رضی اللہ عنہ  میں ہونے والے غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں بھی آپ شریک تھے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص:۱۶۲)
آپ کی ازواجِ طاہرات علیہن الرحمۃ والرضوان میں لیلیٰ، حباب، حرار اور غزالہ شامل ہیں۔
اولا د درج ذیل ہے: صاحبزادیوں میں سُکَینہ، فاطمہ اور زینب۔ (سیرالصحابہؓ) بیٹوں میں: علی اکبر، علی اصغر، زید، ابراہیم، محمد، حمزہ، ابوبکر، جعفر، عمر، یزید۔ رحمہم اللہ اجمعین (تاریخ الائمہ، ص:۸۳)
آپ  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ ۱۰ ؍محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا۔

3-  حضرت محسن بن علی  رضی اللہ عنہما 

سیدنا حضرت محسن  رضی اللہ عنہ  خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کے تیسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول ہیں۔
 حضرت علی  رضی اللہ عنہ  یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کا نام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن نام رکھا اور فرمایا کہ: میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام  کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:۴۷۷۳، اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)یہ بچپن میں وفات پاگئے تھے۔

4-  حضرت علی بن ابی العاص  رضی اللہ عنہما 

آپ کا اسم گرامی علی تھا۔ آپ حضرت ابو العاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ زینب بنت محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صاحبزادے اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا  کے بھائی تھے، قبیلہ بنی غاضرہ کی ایک عورت کا دودھ پیا تھا۔
رضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نواسے حضرت علی بن ابی العاص  رضی اللہ عنہما  کو اپنے زیرِ کفالت لے لیا تھا، ان کے باپ ابو العاص بن ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابو العاص بن ربیع جب غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیں گے، چنانچہ انہوں نے رہائی کے بعد زینبؓ بنت رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے دونوں بچوں (علیؓ بن ابو العاص اور امامہؓ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔ (الاستیعاب)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فتحِ مکہ کے روز شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے تواپنے پیچھے اپنی سواری پر علی بن ابو العاص  رضی اللہ عنہما کو سوار کیا تھا، یوں آپؓ کو ردیفِ پیغمبر اور ہم رکابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب)
علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی ہی میں بلوغت کے قریب پہنچ کر وفات پائی۔ البتہ ابن عساکرؒ نے بعض اہلِ علم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگِ یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔

5-  حضرت عبداللہ بن عثمان  رضی اللہ عنہما 

نواسۂ رسول سیدنا حضرت عبداللہ  رضی اللہ عنہ ، حضرت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دوسری صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا  کے بطن مبارک سے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے ہیں۔ انہی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی کنیت ابوعبداللہ ہے، بچپن میں چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نواسیاں

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تین نواسیاں ہیں:

1-  سیدہ زینب بنت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما 

یہ حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کی صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح اپنے چچا زاد حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہما  سے ہوا، یہ اپنے بھائی حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ میدانِ کربلا میں تھیں، تمام مصائب نہایت صبر و استقلال سے برداشت کیے، ان کے بیٹے حضرت عدی v بھی میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔

2-  سیدہ امِ کلثوم بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما 

حضرت فاطمہ اور حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما  کی لختِ جگر ہیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات میں پیدا ہوئیں۔
ان کا نکاح حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  سے ہوا، چالیس ہزار درہم حق مہر مقرر ہوا، اسی وجہ سے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کو دامادِ علیؓ کہا جاتا ہے، ان کے بطن سے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے دو بچے ہوئے، زید اکبر اور رقیہ۔
سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا  اور ان کے بیٹے زید کا انتقال ایک وقت میں ہوا، حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو آگے کیا۔

3-  سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بڑی بیٹی سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  کی بیٹی ہیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ طیبہ میں پیدا ہوئیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے بہت محبت کرتے تھے، ان کو کندھوں پر سوار کرکے نماز ادا فرماتے تھے، جب سجدہ کرتے تو اُتار دیتے، قیام میں پھر اُٹھالیتے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک ہار بطور ہدیہ آیا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میرے گھر والوں میں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا، میں اسے یہ ہار دوں گا، ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کا خیال تھا کہ یہ ہار حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے حصہ میں آئے گا، مگر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی لاڈلی نواسی سیدہ اُمامہ  رضی اللہ عنہا  کو بلاکراپنے دست ِمبارک سے وہ ہار اُن کے گلے میں ڈال دیا۔ سیدہ امامہؓ کی آنکھ میں کچھ لگا ہوا تھا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ہاتھ سے اسے صاف کیا۔ نجاشی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  خدمت میں چاندی کی انگوٹھی بھیجی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ انگوٹھی سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  کو عطا فرمائی۔
حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی وفات کے بعد سیدہ فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کی وصیت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے ان سے نکاح کیا۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفل رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ (الاصابہ، الاستیعاب)
یہ سب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہلِ بیت ہیں، اہلِ ایمان کی آنکھوں کے تارے، دل کا سرور، ایمان کا مرکز و مِحوَر، سفینۂ نجات، محبت کا مرجع ہیں، مودت و عقیدت ان سے واجب اور اتباع ان کی ضروری ہے، تعظیم و توقیر ناگزیر اور اکرام و احترام لازم ہے، یہ سب تسلیم و رضا اور صبر و استقلال کے کوہِ گراں تھے، ان کی زندگی کا مقصدِ وحید رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ جینا اور مرنا فقط منشائے الٰہی کے مطابق و موافق تھا، حق کے لیے ڈٹ جانا اور باطل سے لڑ جانا ان کا وصفِ ممتاز تھا، وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہرے، نجات و ہدایت کی تمام راہیں انہی سے کھلتی ہیں اور انہی پر بند ہوجاتی ہیں۔

اسلامِ ما اطاعتِ خلفائے راشدینؓ
ایمانِ ما حُبِ آلِ محمدؐ است
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین