بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اہل اللہ کی صحبت اور اس کے آداب

اہل اللہ کی صحبت اور اس کے آداب


ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔‘‘   (التوبہ:۱۱۹)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔‘‘
اور سچوں سے مراد تقویٰ اختیار کیے ہوئے اہل اللہ و بزرگانِ دین ہیں۔ اس کا علم ایک اور آیت سے ہوتا ہے:
’’أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ أُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔‘‘ (البقرۃ: ۱۷۷)
 ترجمہ: ’’وہی لوگ سچے ہیں اور وہی تقویٰ والے ہیں۔‘‘
تقویٰ نام ہے: ’’کف النفس عن الھویٰ‘‘ یعنی اپنے نفس کو خواہش کا غلام بننے سے روکنا اور یہ تقویٰ صحبتِ اہل اللہ سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ’’کُوْنُوْا‘‘ امر سے ایمان لانے والوں پر صحبتِ اہل اللہ کو ضروری کر دیا۔ حدیث پاک میں آتا ہے:
’’وَخَالِطُوْا الْحُکَمَائَ۔‘‘ (الجامع الصغیر،حدیث: ۳۵۷۷) 
 ترجمہ:’’اور حکما ء سے اختلاط یعنی ملنا جلنا رکھو۔‘‘
 حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  ’’التشرف في معرفۃ أحادیث تصوف‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ اس سے مراد اہل اللہ ہیں۔‘‘
ایک عالم نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ  سے بحث کی کہ میں تزکیۂ نفس کی فرضیت کو تسلیم کرتا ہوں، مگر مُزَکِّی(تزکیہ کرنے والے) کی کیا ضرورت ہے؟ میں خود کتاب پڑھ کے اپنا تزکیہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا: مولوی صاحب! تزکیہ فعل لازم ہے یا متعدی؟ کہا: متعدی ۔ توآپ نے فرمایا: کیا فعل متعدی‘ فعل لازم کی طرح اپنے فاعل پر تمام ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ یُزَکِّیْہِمْ‘‘ ۔۔۔’’ہمارا نبی ان کاتزکیہ کرتا ہے ۔‘‘ یعنی شخصیتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم تزکیہ کرتی ہے قلوب ِ صحابہؓ   کا۔
 حدیث میں آتا ہے:
’’إن رجل خرج من بیتہ زائرًا الخ۔‘‘      (مشکاۃ المصایح ،کتاب الادب ، باب الحب فی اللہ)
ترجمہ :’’جب کوئی اللہ کے لیے کسی سے ملنے جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ 
اور اس حدیث میں آگے آتا ہے کہ وہ دعاء کرتے ہیں: 
 ’’رَبَّنَا إِنَّہٗ وَصَلَ فِیْکَ فَصِلْہُ۔‘‘ 
’’اے ہمارے رب! یہ آپ کے لیے اس (اللہ والے، بزرگ) سے مل رہا ہے، آپ اس کو اپنے سے ملائیں (یعنی اپنا قرب دے کر اپنا بنالیں)۔‘‘
ایک جگہ حضرت علامہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: 
’’کسی صاحبِ نسبت (اللہ والے، بزرگ وغیرہ) سے استفادے سے پہلے اس سے مناسبت (یعنی مزاج کا ملنا) بھی ضروری ہے۔ اگر مناسبت نہ ہوگی تو نفع نہ ہوگا۔ نفع کا مدار مناسبت پر ہے۔ اور اصلاح کے لیے شیخ بنانا (یعنی بیعت ہونا) بھی ضروری نہیں، صرف اصلاحی تعلق بھی کافی ہے، کیونکہ بیعت فرض نہیں، جبکہ اصلاحِ نفس فرض ہے۔

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے
یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے

اور خواجہ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

جو آگ کی خاصیت وہ عشق کی خاصیت

اِک سینہ بہ سینہ ہے اِک خانہ بہ خانہ ہے

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسان کی زندگی کے تمام شعبہ جات سے متعلق آداب تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح اللہ والوں، بزرگانِ دین اور علماء کے پاس جانے کے بھی بہت سے آداب احادیث میں آئے ہیں۔سننِ نسائی جلد دوم میں حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  سے مروی ایک طویل حدیث ہے،وہ فرماتے ہیں: 
’’ہم لوگ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اس دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے، اس کے بال بہت سیاہ رنگ کے تھے، معلو م نہیں ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اور ہمارے میں سے کوئی شخص اس کو نہیں پہچانتا تھا۔ وہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھااپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے لگا کر (یعنی آمنے سامنے) اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے (یعنی ادب سے جس طریقے سے کسی استاذ کے سامنے کوئی شاگرد بیٹھتا ہے) پھر اس نے اسلام ، ایمان ، احسان اور قیامت کے بارے میں سوالات کیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں: تین روز بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! تم واقف ہو وہ دریافت کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے جو تم کو دین سکھانے آئے تھے ۔‘‘ (سنن نسائی، جلد دوم ،باب نعت الاسلام،حدیث ۴۹۹۶)
 اس سے معلوم ہوا کہ اہل اللہ ، بزرگان دین اور اساتذہ وغیرہ کے سامنے با ادب ہو کر بیٹھنا چاہیے۔ اسی طرح علما ء نے ان حضرات کی صحبت میں جانے کے اور بھی بہت سے آداب ذکر کیے ہیں۔ جیسے: اللہ والوں کی مجلس میں خلوصِ دل سے جانا کہ کوئی دنیاوی غرض نہ ہو۔ ان کے ادب و احترام کی حتیٰ الوسع کوشش کرنا، چستی کے ساتھ تازہ دم ہو کر بیٹھنا، کوشش کر کے سامنے اور قریب بیٹھنا، جیسا کہ درج بالا حدیث سے بھی ثابت ہے، ان کے پاس جانے سے قبل توبہ و استغفار کے ذریعے قلب کو صاف کرلینا کہ عینک لگانے والا انسان جب اپنی قیمتی و عزیز چیز کو دیکھنا چاہتا ہے تو پہلے عینک صاف کرتا ہے، تاکہ عینک کا گرد و غبار دیکھنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ اسی طرح اگر اللہ والوں یا بزرگانِ دین کی مجلس میں جاکر ان کو دیکھنے اور اپنی اصلاح کرانے سے قبل توبہ و استغفارکے ذریعے اپنے دل کی عینک کو صاف کر لیا جائے تو دل پر بغیر کسی رکاوٹ کے ہدایت کے انوار و برکات نازل ہوں گی اور بیمار روح شفا پائے گی۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی  رحمۃ اللہ علیہ  کا شعر ہے:

ان سے ملنے کی ہے یہی اِک راہ
ملنے  والوں  سے  راہ  پیدا  کر

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء ہے:
’’اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ۔‘‘                    (رواہ الترمذی )
 ترجمہ: ’’ اے اللہ! میں آپ سے آپ کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اُس کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو آپ سے محبت کرتا ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان سطور پر مجھے اور ہر پڑھنے والے کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

واللّٰہ الموفق والمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین