بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اکابرینِ اُمت کی تعلیم وتربیت میں خواتین کا کردار

اکابرینِ اُمت کی تعلیم وتربیت میں خواتین کا کردار

 

دورِ حاضر میں یہ بات نظر آرہی ہے کہ مسلمان اپنے اکابرین، علمائے کرام، فقہائے عظام، حضرات محدثین اور دیگر صلحاء ومشاہیر کے تذکروں، ان کے کارہائے نمایاں اور علمی، دینی، ملّی وسماجی خدمات سے تو کچھ واقف ہیں، یعنی امتِ مسلمہ کے جلیل القدر مرد حضرات کی حیات اور ان کے اعلیٰ کارناموں سے تو تھوڑا بہت آشنا ہیں، لیکن ان اکابرینِ اُمت کی تعلیم وتربیت اور شخصیت سازی میں جنہوں نے اہم کردار ادا کیا، خود گم نام رہ کر، تکالیف ومصائب برداشت کرکے ان مشاہیر کو اُمت کے لیے رہنما و پیشوا بنایا، یعنی مسلمان عفت مآب خواتین، ان کے حالات اور اکابرینِ امت کی تعلیم وتربیت اور رجال سازی میں ان کے نمایاں کردار پر ابھی تک گمنامی کے پردے پڑے ہیں۔
حالانکہ وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ ان عفت مآب خواتین کا تذکرہ اور مشاہیر علماء کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں ان کا کردار لوگوں کے سامنے نمایاں کیا جائے، تاکہ موجود دور کی خواتین کو معلوم ہو کہ عورت صرف ایک فرد کی تربیت نہیں کرتی، بلکہ وہ امت کے رہنما، اور ایک معاشرے کی تربیت کرتی ہے۔ عورت تاریخ ساز افراد کی پرورش کرتی ہے۔ اس کی گود سے قوم کا سر فخر سے بلند کرنے والےبھی تیار ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا درجِ ذیل اکابرینِ امت کی تعلیم وتربیت میں خواتین کا کردار مختصر طور پر ذکر کیا جارہا ہے، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ مسلمان عفت مآب خواتین نے کیسی بڑی خدمات پیش کی ہیں، اور ان کی کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔

بچوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خواتینِ اسلام کا رجحان

اولاد کی تعلیم و تربیت سے متعلق قرآنی آیات اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات کی وجہ سے خواتین کو اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کی تعلیم وتربیت کی فکر تھی، چنانچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی حضرت صفیہ  رضی اللہ عنہا  اپنے بیٹے زبیر بن عوام پر بچپن میں بغرضِ تربیت سختی کرتیں اور تادیباً مارتی بھی تھیں، جیساکہ علامہ ابنِ حجرؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔(۱)
اس سلسلے میں حضرت حسن بصریؒ سے مروی ایک قصہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ایک مرتبہ میاں بیوی کے درمیان اپنے بچے کی پرورش سے متعلق اختلاف ہوا، وہ دونوں قاضی کے پاس گئے، چونکہ بچہ سمجھدار تھا، لہٰذا قاضی نے بچے کو اختیار دیا اور پوچھا کہ وہ کس کے پاس جاکر رہنا چاہے گا؟ بچے نے اپنے والد کو چُنا۔ اس پر ماں نے قاضی سے کہا کہ بچے سے یہ پوچھیے کہ اس نے والد کو کیوں چنا ہے؟ قاضی نے بچے سے سوال کیا تو اس نے کہا:
’’أمي تبعثني کل يوم للکتاب، والفقيہ يضربني، وأبي يترکني للعب مع الصبيان۔‘‘
ترجمہ: ’’میری ماں مجھے روزانہ تعلیم وکتابت سیکھنے کے لیے فقیہ کے پاس بھیجتی ہے، اور فقیہ غلطی پر مجھے مارتا ہے، جبکہ میرا والد مجھے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
بچے کا یہ جواب سن کر قاضی نے ماں کے حق میں فیصلہ کردیا اور کہا کہ تم ہی اس کی زیادہ حقدار ہو۔(۲)

امام اوزاعیؒ کی تعلیم وتربیت میں ان کی والدہ کا کردار

حضراتِ محدثین میں سے چوٹی کے محدث امام اوزاعی عبد الرحمٰن بن عمروؒ سے حدیث کا کوئی طالب علم ناآشنا نہیں ہوگا۔ سفیان ثوریؒ جیسے عظیم محدث بھی ان کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلے ہیں۔ (۳) ان کے بچپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا، چنانچہ ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی۔ وہ ان کو لے کر مختلف شہروں کی طرف ہجرت کا سفر کرتی تھیں، تاکہ ان کا بیٹا علم حاصل کرسکے۔ مشہور محدث ولید بن مزید امام اوزاعیؒ کی حالت پر تعجب کیا کرتے اور فرماتے تھے:
’’کان الأوزاعي يتيمًا فقيرًا في حجر امرأۃ تنقلہٗ من بلد إلٰی بلد۔‘‘
ترجمہ: ’’امام اوزاعیؒ یتیم، غریب اور ایسی عورت کے زیرِ کفالت تھے جو اُن کو ایک شہر سے دوسرے شہر لےکر جاتی تھی۔‘‘
اور اپنے بیٹے سے کہتے تھے:
’’يا بُني! عجزت الملوک أن تؤدب أنفسَہا وأولادَہا أدبَہ في نفسہ۔‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’اے میرے بیٹے! بادشاہ وسلاطین عاجز ہیں کہ اپنی ذات اور اولاد کو ایسا ادب سکھلائیں، جیسا امام اوزاعیؒ    کا ادب تھا۔‘‘
اس طرح اسفار کی مشقت اور دیگر تکالیف برداشت کرکے اس بیوہ خاتون نے اپنے یتیم بیٹے کی ایسی تربیت کی کہ وہ آگے چل کر فخرِ محدثین بن گیا۔

امام شافعی  ؒ کی تعلیم وتربیت میں ان کی والدہ کا کردار

امام شافعی محمد بن ادریسؒ سے کون ناواقف ہوگا، ان کے علمی مقام کا اعتراف موافقین اور مخالفین سب کو ہے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ان کی تعلیم وتربیت اور شخصیت سازی میں ان کی والدہ فاطمہ بنت عبداللہ کا کتنا بڑا کردار تھا، چنانچہ علامہ ابن منظورؒ نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’وہي التي حملت الشافعي إلی اليمن وأدبتہ۔‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’ان کی والدہ ہی انہیں یمن لائی تھیں اور ان کو ادب سکھلایا تھا۔‘‘
امام شافعی  ؒ بہت چھوٹے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا، چنانچہ ان کی والدہ نے اکیلے ہی ان کی کفالت وپرورش کی اور تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دی، اور پھر جب وہ کچھ بڑے ہوئے تو ان کی والدہ کو اندیشہ ہوا کہ اہلِ علم سے دور رہ کر کہیں ان کے بیٹے کو علمی نقصان نہ ہو، چنانچہ ان سے کہا: ’’الحق بأہلک فتکون مثلہم‘‘ یعنی ’’اپنے رشتہ داروں (قریش، جو اہل علم تھے) سے جاکر ملو، تاکہ تم بھی ان جیسے ہوجاؤ۔‘‘ (۶)
مالی حالات ان کے کافی کمزور تھے، یہاں تک کہ امام شافعی  ؒ کی والدہ کے پاس معلم کو دینے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا، جیساکہ امام شافعی  ؒ نے ذکر کیا ہے:
’’کنت يتيماً في حجر أمي، ولم يکن معہا ما تعطي المعلم۔‘‘
ترجمہ: ’’میں اپنی والدہ کی پرورش میں یتیم تھا، اور ان کے پاس معلم کو دینے کے لیے کوئی چیز بھی نہیں تھی۔‘‘
لیکن آفرین ہو اس ماں پر، اپنے بیٹے کے تعلیمی سفر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر اپنا گھر گروی رکھ دیا، چنانچہ امام شافعی  ؒ فرماتے ہیں:
’’ولم يکن عند أمي ما تعطيني أتحمل بہ، فرہنت دارہا علٰی ستۃ عشر ديناراً، ودفعتہا إلي۔‘‘ (۷)
ترجمہ: ’’میری والدہ کے پاس مجھے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، جسے میں سفر پر لے جاتا، چنانچہ انہوں نے سولہ ۱۶ دینار پر اپنا گھر گروی رکھا، اور وہ رقم مجھے دےدی۔‘‘
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس تعلیم وتربیت کا نتیجہ ایک بہت بڑے فقیہ اور امام کی صورت میں نکلا، جس کی تعلیمات سے امت آج تک مستفید ہو رہی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ کی تعلیم وتربیت میں ان کی والدہ کا کردار

مشہور ومعروف محدث وفقیہ امام احمد بن حنبلؒ کی تعلیم وتربیت میں بھی ان کی والدہ کا خصوصی کردار ہے۔ ان کے والد محمدؒ    کا جوانی میں تقریباً تیس سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا، چنانچہ ان کی والدہ صفیہ نے ہی ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی طرف دھیان دیا۔(۸)
امام احمد بن حنبلؒ نے تعلیم کی غرض سے محدثین کے پاس جانا شروع کیا تو وہ صبح سویرے اٹھتے تھے تو ان کی والدہ بھی ان کے لیے جاگ جاتی تھیں۔ اور بسااوقات وہ رات کے آخری پہر میں اٹھ کر درس کے لیے جانا چاہتے تو اس وقت بھی ان کی والدہ بیدار ہوجاتیں، اور اپنی مامتا سے مجبور ہوکر بیٹے کو صبح ہونے تک روکتی تھیں، چنانچہ امام احمدؒ فرماتے ہیں:
’’کنت ربما أردت البکور إلی الحديث، فتأخذ أمي ثيابي وتقول: حتی يؤذن الناس، وحتی يصبحوا۔‘‘ (۹)
ترجمہ: ’’بسااوقات میں طلبِ حدیث کے لیے جلدی جانا چاہتا تو میری والدہ میرے کپڑے پکڑ کر کہتیں: (تھوڑی دیر ٹھہرو) یہاں تک کہ لوگ اذان دے دیں، یا صبح کا اجالا ہوجائے۔‘‘
امام احمد بن حنبلؒ کی والدہ نے دو موتی سنبھال کر رکھے تھے، چنانچہ جب امام صاحبؒ بڑے ہوئے، اور تعلیم کے سلسلے میں اخراجات کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے وہ دونوں موتی اپنے بیٹے کے سپرد کردیئے، جنہیں امام احمدؒ نے تقریباً تیس دراہم کے عوض فروخت کیا۔(۱۰)
امام احمد بن حنبلؒ کی والدہ ذی شعور تھیں، انہیں معلوم تھا کہ طلبِ علم کے لیے پُرخطر اور بڑے بڑے اسفار کرنے پڑتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ طالبِ علم پہلے اپنے نزدیک اور قرب وجوار میں موجود مشائخ واساتذہ سے علم حاصل کرے، چنانچہ وہ بھی اپنے بیٹے کو پُرخطر سفر کرنے سے روکتی تھیں، اور امام احمدؒ بھی ان کی بات تسلیم فرماتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ مشہور محدث جریر بن عبد الحمیدؒ بغداد آئے تو امام احمدؒ سمیت دیگر طلبہ نے بھی ان سے استفادہ کیا، پھر جب وہ محدث دریائے دجلہ کی طغیانی سے بننے والی ایک بڑی نہر عبور کرکے شہر کے مشرقی جانب گئے تو بعض حضرات نے امام احمدؒ سے وہاں جانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ: ’’اُمي لا تدعني‘‘ (۱۱) یعنی ’’میری والدہ مجھے اجازت نہیں دےگی۔‘‘
امام احمد بن حنبلؒ کی والدہ کی اس بہترین تربیت اور شعور وفراست کی وجہ سے امام احمدؒ نے آگے چل کر جو بلند مقام حاصل کیا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہوگا۔

علامہ ابنِ ہمامؒ کی تعلیم وتربیت میں ان کی نانی کا کردار

علامہ ابن ہمام محمد بن عبد الواحدؒ ایک مضبوط استعداد والے فقیہ اور محدث تھے، بڑے بڑے حضرات نے ان کے تبحّرِ علمی کی گواہی دی ہے، اور ان کی کتاب ’’فتح القدیر‘‘ اس پر شاہدِ عدل ہے۔ علامہ ابنِ ہمامؒ کی تعلیم وتربیت میں ان کی نانی کا بہت بڑا کردار رہا ہے، اور وہ خود بھی ایک نیک خاتون تھیں۔ قرآن پاک کا بڑا حصہ انہیں یاد تھا۔
چنانچہ علامہ ابن ہمامؒ اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنی نانی کے زیرِ کفالت وتربیت رہے۔ ان کی نانی انہیں اپنے ساتھ اسکندریہ سے قاہرہ لے آئیں، تاکہ وہ اچھی طرح علم حاصل کرسکیں، چنانچہ یہاں آکر علامہ ابنِ ہمامؒ طلبِ علم میں مشغول ہوئے اور قرآن پاک حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پھر دوبارہ ان کی نانی انہیں اسکندریہ لے آئیں، جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی، اور بڑے مشائخ واساتذہ کے سامنے زانوئے تلمُّذ تہ کیے۔(۱۲)
اس عمر رسیدہ خاتون کو تو بعد میں آنے والوں نے بھلادیا۔ کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ وقت کے بڑے محدث وفقیہ ابنِ ہمام کی شخصیت سازی اور تربیت میں ان کی عمر رسیدہ نانی کا بڑا کردار ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کئی مشہور فقہاء ومحدثین اور دیگر اکابرینِ امت کی تعلیم وتربیت میں خواتین کا اہم اور نمایاں کردار رہا ہے، وہ خود گمنام رہیں، لیکن انہوں نے امت کے لیے کئی رہنما وپیشواتیار کیے، جنہوں نے مسلمانوں کے لیے دینی، علمی، سماجی اور ملّی خدمات انجام دیں، لہٰذا دورِ حاضر میں ایسی رجال ساز خواتین کا تذکرہ لوگوں کے سامنے پیش کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، تاکہ عہدِ حاضر کی مسلمان عفت مآب خواتین بھی ان کی پیروی کرکے ایک فرد کے بجائے رجالِ کار تیار کریں۔

حواشی وحوالہ جات

۱:-الإصابۃ في تمييز الصحابۃؓ لابن حجر، (۲/۴۵۸)، رقم الترجمۃ: ۲۷۹۶، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۵ھ
۲:-زاد المعاد في ہدي خير العباد لابن القيم، (۵/۴۲۴)، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط:۱۴۱۵ھ- ۱۹۹۴ء
۳:-شذرات الذہب في أخبار من ذہب لابن عماد الحنبلي، (۲/۲۵۷)، الناشر: دار ابن کثير- دمشق، ط:۱۴۰۶ھ- ۱۹۸۶ء
۴:-تاريخ دمشق لابن عساکر، (۳۵/۱۵۷)، الناشر: دار الفکر للطباعۃ والنشر، ط:۱۴۱۵ھ- ۱۹۹۵ء
۵:-مختصر تاريخ دمشق لابن منظور، (۲۱/۳۵۸)، الناشر: دار الفکر للطباعۃ والنشر- دمشق، ط:۱۳۰۲ھ- ۱۹۸۴ء
۶:-سير أعلام النبلاء للذہبي، (۱۰/۱۰)، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط:۱۴۰۵ھ- ۱۹۸۵ء
۷:-مختصر تاريخ دمشق لابن منظور، (۲۱/۳۶۰)
۸:-سير أعلام النبلاء للذہبي، (۱۱/۱۷۹)
۹:-الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب، (۱/۱۵۱)، الناشر: مکتبۃ المعارف، الرياض
۱۰:-سير أعلام النبلاء للذہبي، (۱۱/۱۷۹)
۱۱:-تاريخ بغداد للخطيب (۷/۲۶۶)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۷ھ
۱۲:-الضوء اللامع لأہل القرن التاسع للسخاوي، (۸/۱۲۷)، الناشر: دار الجيل، بيروت

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین