بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

اکابر دیوبند اورالیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی حقیقت

اکابر دیوبند اورالیکٹرانک میڈیا 
 کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی حقیقت

 

جدید تحقیق کا فتنہ 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو شریعت خاتم النبیین حضرت محمدا کو عنایت فرمائی ہے ، اس میں تاقیامت تمام انسانی طبقات کے لیے ہر دنیاوی شعبے میں زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق مکمل رہبری ورہنمائی موجود ہے۔ اور امت کا متاعِ بے عیب شریعتِ محمدیہ کے اُن ترجمانوں کا مرہونِ منت ہے ، جنہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے طور طریقوں کو زبانی بھی پہنچایا اور عملاً بھی اور شریعت محمدیہ میں کسی بھی نئی بات کو جو صاحبِ شریعت اور خیر القرون کے مزاج کے خلاف ہو، یکسر مسترد کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کی ، مگر آج جہاں ہر طرف فتنوں کا دور دورہ ہے ، ان فتنوں میں ایک بہت ہی خطرناک فتنہ ‘اُنہی سلفِ صالحین پر بے اعتمادی اور جدید تحقیق کا فتنہ ہے ۔ نام نہاد مذہبی اسکالرز، پروفیسرز اور ڈاکٹرز حضرات بزعمِ خویش محققین علی الاطلاق بن کر نت نئی تحقیقات منظر عام پر لا رہے ہیں۔ ان ناعاقبت اندیشوں اور جدیدیت کے علمبرداروں کی ان نئی تحقیقات سے قرآن وحدیث،بلکہ امت کے چودہ سو سالہ اجماعی مسائل بھی چیلنج کر دیئے گئے۔
جدید تحقیقات کے اہداف و مقاصد
 ’’عالمی یہودی تنظیمیں‘‘ کے مصنف کے بقول: یہ ’’ جدید تحقیقات‘‘ یہود کے ان مقاصد واہداف کی تکمیل کے لیے ہیں ، جن کے ذریعے انہوں نے اسلام اور مسلمان معاشرے میں انتہائی خطرناک اور زہریلے فتنوں کو برپا کرنا ہے ۔ وہ اسی کتاب میں انہیں لوگوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’چوتھا اور سب سے خطرناک طبقہ ان نام نہاد بزعمِ خود محققین، پروفیسرز، اسکالرز اور ڈاکٹرز حضرات کا ہے۔‘‘مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ ان کی دعوت میں اکابر پر بے اعتمادی اور خود نمائی، خود بینی، اپنی رائے پر اصرار اور اپنی جدید تحقیق کی تمام سابق تحقیقات پر ترجیح، بنیادی اور لازمی عنصر کے طور پر شامل ہوتی ہے ، جوان کی سیاہ بختی اور شقاوتِ قلبی کی علامت اور آزاد خیالی وگمراہی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ جب کہ نبوی طرز پر کام کرنے والے داعیانِ دین اپنی ذات کی نفی کرکے مخلوق کو خود سے جوڑنے کے بجائے اللہ، اس کے رسول ا اور سلفِ صالحین سے جوڑتے ہیں ، ہمیشہ سابقہ علمائے راسخین کے علم وتقویٰ پر غیر متزلزل اعتماد رکھتے اور اپنی رائے کو متہم سمجھتے ہیں، اکابر کی غلطیاں نکال کراپنے قصیدے پڑھنے کی بجائے ان کے دامن سے وابستہ رہنے میں اپنی اور اپنے متعلقین ومریدین کی عافیت سمجھتے ہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں اکابر اور سلفِ صالحین کے ذریعے ہی قیامت تک آنے والے مسلمان حضور ا کے دامن سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ یہ مزاج اور یہ رویہ ان کی سعادت مندی کا ذریعہ اور گمراہی سے حفاظت کی ضمانت بن جاتا ہے، جب کہ متجددین کی آزاد خیالی اور اکابرینِ امت سے ذہنی دوری ان کو عُجب وتکبر میں مبتلا کرتی اور اباحیت ولادینیت کی وادیوں میں بھٹکاتی پھرتی ہے۔‘‘
معرکۂ حق وباطل اور علمائے حق
فتنے ہر زمانے میں رونما ہوئے ہیں، علمائے حق اور مصلحین امت نے فتنوں کا نہ صرف مقابلہ کیا، بلکہ ان کی حقیقت کو طشت ازبام کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں اور عوام کے دین ، ایمان، عقائد، نظریات اور اعمال کی حفاظت کے لیے دن رات صرف کیے، لیکن اس سارے عمل میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے فتنوں کے مقابلے میں اسلامی احکامات واصول کو پس پشت ڈال دیا ہو یا برائی کو مٹانے کے لیے برائی کا راستہ اختیار کیا ہو ، کیوں کہ وہ اس بات کو یقینی طور پر جانتے تھے کہ قوموں کی ہدایت اور ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہی طریقے کار آمد ہیں ، جو اللہ کے برگزیدہ بندے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اختیار فرماتے رہے ہیں ۔علمائے امت نے مسلمانوں کے عقائد و نظریات کی حفاظت اور ان کی اصلاح کا یہ بے نظیر اصول ’’لن یُصلح آخر ھذہ الأمۃ إلاما أصلح أولھا‘‘ کبھی فراموش نہیں کیا اوراپنی محنتوں اور کوششوں کو جاری رکھا،نتیجۃً وہ اس طائفہ منصورہ کا مصداق قرار پائے، جس کی خبر حضور اکرم ا نے آج سے چودہ صدی قبل دی تھی۔
اکابر علمائے دیوبند اور فتنوں کی سرکوبی
اکابر علمائے دیوبند کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت کا جو درد عطا فرمایا، اس میں وہ اپنی نظیر آپ ہیں، فتنوں کی سرکوبی میں اللہ نے ان کو ایک خاص ملکہ عطا فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کفار ، یہود، ہنود، گمراہ فرقے، مبتدعین، جدت پسند اور مغربی افکار سے متاثر مفکرین، غرض تمام فتنوں کا تعاقب فرمایا اور رہتی دنیا کے لیے اس حوالے سے ایک مثالی کردار ادا کیا ، موجودہ دور کے تمام فتنوں کے حوالے سے ان حضرات کی تحریریں ایک بہترین رہنما کا کام دیتی ہیں ، اور احساس ہوتا ہے کہ اگر فتنوں کی بارش ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل اللہ اور رجالِ دین کی بھی کمی نہیں۔
مجلس دعوت واصلاح اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خطاب
حضرت بنوری اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہما اللہ نے انہی علمی وعملی فتنوں کے تعاقب کے لیے ’’مجلس دعوت واصلاح‘‘ کے نام سے ایک مجلس قائم کی تھی۔ اس موقع پر علماء کے اجتماع میں حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی افتتاحی تقریر سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
’’ دوسری طرف مسلمانوں کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر پیدا کیے گئے ہیں ، جو اصلی اسلام کو مسخ کرکے اپنی اغراض واہواء کے مطابق اسلام کا ’’ جدید ایڈیشن‘‘ تیار کرنے میںہمہ تن مصروف ہیں۔ اسلامی ریسرچ اور اسلامی ثقافت کے نام پر وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو مستشرقین کے اسلام دشمن حلقے اب تک نہ کرسکے تھے۔ شعائر اسلام کو مجروح اوراسلام کے اجماع اور متفق علیہ اصول واحکام کو مشکوک بنانے کی سعی پیہم قوم کے لاکھوں روپے کے صرفہ سے جاری ہے۔
اس صورت حال کے نتیجہ میں بے حیائی ، عریانی، رقص وسرود، بے حجابی، اغوا، بدکاری، شراب نوشی، قمار بازی، معاشرتی افراتفری اور خاندانی نظم کی ابتری کا ایک سیلاب ہے ، جو مسلمانوں میں امڈتا چلا آرہا ہے۔ سود، دھوکا، فریب، جعلسازی اور دوسرے اخلاقی معائب معاشرے کی ایمانی اور اخلاقی حس کو مضمحل سے مضمحل ترکیے جارہے ہیں۔ اور عام نظم ونسق کا تعطل اس حدتک شدید ہو چکا ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے حصولِ انصاف تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
یہ سیلاب مغربی تہذیب کے گہوارے سے شروع ہوا اور اب دین دار مسلمانوں تک کے گھروں میں گھس چکا ہے اور علماء واتقیاء کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اور یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ اگر اس سیلاب کو روکنے کی جدوجہد میں اہلِ حق نے اپنے تمام وسائل داؤ پر نہ لگا دیئے، تو چند سالوں کے بعد ہلاکت آفریں طوفان کے مقابلے کی سکت ہی باقی نہ رہے گی‘‘۔           (بصائر وعبر، ص:۱۰۳، مکتبہ بنوریہ کراچی)
فتنے اورامت محمدیہ
’’فتنے اورامت محمدیہ‘‘ کے عنوان سے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا :
 ’’سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مغربیت کے ان زہریلے اثرات سے حرمین شریفین بھی محفوظ نہیں رہے۔ لڑکیوں کی تعلیم جبری ہو چکی ہے ۔ تھیٹر کی بنیاد پڑ چکی ہے ۔ ٹیلی ویژن جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک آگیا ہے ۔اوراس دردناک صورت میں کہ مدینہ منورہ میں ٹیلی ویژن کا افتتاح کسی امریکی فلم سے کیا گیا ہے ، إناللّٰہ۔ مسجد نبوی کے بالکل سامنے ٹیلی ویژن لگا ہوا ہے۔ نماز عشاء کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہو کر آتے اور صلاۃ وسلام کا تحفہ بارگاہ اقدس میں پیش کرکے نکلتے ہیں ، تو دلوں میں جو رقت ونور پیدا ہوتا ہے، ٹیلی ویژن کی ظلمتیں اس کو یکسر ختم کر دیتی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر درد ناک واقعہ یہ ہے کہ ’’ غزوۂ بدر کبریٰ کا ڈراما‘‘ خاص مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم مدرسہ میں طلبہ کے ذریعہ کھیلا گیا ہے ۔۱۷؍ رمضان المبارک دوشنبہ کی رات اس کا اہتمام کیا گیا ہے ، مکہ مکرمہ کے بہت سے شرفا ومعززین نے یہ ڈراما دیکھا ہے ۔ طلبہ نے حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت مقدادبن الاسودؓ، حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہم ،ابو جہل اور ولید بن المغیرہ کے کردار ادا کیے ہیں۔ اس ڈرامے میں بار بار حضرت مقدادؓ اور حضرت بلالؓ کو پردے کے پیچھے بھیجا جاتا ہے کہ حضرت نبی اکرم ا سے دریافت کرکے آئیں کہ ان کی کیا رائے ہے؟
اسلام اور تاریخ اسلام کے خلاف امریکا اور یورپ کے شیاطین جو کام خود نہ کرسکے تھے، وہ مسلمانوں سے کروادیا ،  فیا غربۃ الاسلام! ویا غربۃ المسلمین!۔ حرمین شریفین کے وہ علماء اور نجدوریاض کے وہ مشائخ جن پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مدار ہے اور انہی کے فتاویٰ کی پورے ملک میں وقعت ہے ، بلکہ دینی ذمہ داری اور شرعی احتساب کا دار ومدار انہی پر ہے ، وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ’’ حکومت کے سیاسی مصالح اس تمدن وتہذیب کے اپنانے کے مقتضی ہیں، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے یا کچھ نہیں کرسکتے۔
لمثل ھذا یذوب القلب عن کبد
إن کان فی القلب إسلام وإیمان‘‘ 
                                                                                    (بصائر وعبر، ص:۹۴، مکتبہ بنوریہ، کراچی)
تصویر سازی کا فتنہ اور علمائے مصر کے تلخ تجربات 
تصویر سازی بھی ایک ایسا فتنہ ہے جس نے شرک ، بدعات ، فحاشی، بے حیائی ، بے غیرتی، بے دینی اور نجانے کتنے فتنوں کو جنم دیا ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے جو متعدی ہے ، اس کی جتنی شناعت وقباحت بیان کی جائے، کم ہے۔ اسی حوالے سے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ:
’’ حدیث نبوی میں تصویر سازی پر جو وعید آئی ہے، وہ ہر جان دار کی تصویر میں جاری ہے اور تمام امت جان دار اشیاء کی تصویر کی حرمت پر متفق ہے ، لیکن خدا غارت کرے اس مغربی تجدد کو کہ اس نے ایک متفقہ حرام کو حلال ثابت کرنا شروع کر دیا ۔ اس فتنۂ اباحیت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مرکز مصر اور قاہرہ تھا، چنانچہ آج سے نصف صدی پہلے قاہرہ کے مشہور شیخ محمدبخیت مطیعی نے جو شیخ الازہر تھے  ’’إباحۃ الصور الفوتوغرافیۃ‘‘کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا تھا، جس میں انہوں نے کیمرے کے فوٹو کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔اس وقت عام علماء مصر نے ان کے فتوی کی مخالفت کی ، حتیٰ کہ ان کے ایک شاگردِ رشید علامہ شیخ مصطفی حمامی نے اپنی کتاب ’’ النھضۃ الإصلاحیۃ للأسرۃ الإسلامیۃ‘‘ میں اس پر شدید تنقیدکی اور اس کتاب میں( صفحہ:۲۶۰ سے صفحہ:۲۶۸ اور صفحہ:۳۱۰ سے صفحہ:۳۲۸ تک) اس پر بڑا بلیغ رد لکھا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ’’تمام امت کے گناہوں کا بارشیخ کی گردن پر ہو گا کہ انہوں نے تمام امت کے لیے شر اور گناہ کا دروازہ کھول دیا۔‘‘ اسی مضمون میں چند سطور کے بعد مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ اورکچھ لوگ تو اس کے جواز کے لیے حیلے بہانے تراشنے لگے ہیں، لیکن کون نہیں جانتا کہ کسی معصیت کے عام ہونے یا عوام میں رائج ہونے سے وہ معصیت ختم نہیں ہو جاتی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا نے کسی چیز کو جب حرام قرار دے دیا تو اس کے بعد سو بہانے کیے جائیں، مگر اس کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘‘                   (بصائر وعبر:۱/۳۲، مکتبہ بنوریہ کراچی)
مجوزین حضرات کا حاصل استدلال 
 تصویر کی جدید شکلوں کو جائز قرار دیتے ہوئے بعض علماء کرام نے جدیدالیکٹرانک میڈیا کے استعمال کو ’’ ملی اور دینی ضرورت‘‘ کے سبب ناگزیر قرار دیا ہے۔ کبھی توٹی وی اور اسکرین کو جائز ثابت کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ: ’’ عین حالت جنگ میں ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ کے تحت جواز وعدم جواز سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے ‘‘۔ اور کبھی تصویر کی حرمت کے اجماعی مؤقف اور ایک متفقہ حرام کے بار ے میں چند جزئی مستثنیات اور چند ایک اقوال کو لے کر مسئلے میں یوں اختلاف بیان کیا گیا کہ یوںمحسوس ہوکہ فقہائے متقدمین کے درمیان اس حوالے سے شدید اور واضح اختلاف تھا، جس کی موجودگی میں شدت کا اختیار کرنا اور عدم جواز کے قول پر حرمت قطعیہ کا فیصلہ کرنا گویا ایک غلط اقدام کا مصداق قرار پاتا ہے۔
اکابر کے سایہ تلے
اس نازک ترین موڑ پہ مناسب یہی ہو گا کہ اکابر ہی کے دامن کو تھام کر، انہی کے اقوال وارشادات سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ بے شک اس میں عافیت ہی عافیت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ اکابر علماء وسلف صالحین پر بے اعتمادی کتنا خطرناک فتنہ ہے؟ اوراس میں کن لوگوں کے مقاصد کی تکمیل ہو رہی ہے؟۔چنانچہ تصویر کی حرمت کے حوالے سے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ ایک طویل بحث میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’ یوں تو دنیا میں حق وباطل کو گڈمڈ کرنے کی رسم بہت قدیم زمانے سے چلی آتی ہے اورحقائق اکثر ملتبس رہتے ہیں، لیکن اب تو عقلوں پر ایسا پردہ پڑا ہے کہ کسی صحیح بات کا انکشاف ہی نہیں ہوتا، بلکہ باطل محض کوحق کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ، شعائر کفر کو اسلامی شان وشوکت کا ذریعہ بتایا جاتا ہے ، فسق وفواحش کو تقویٰ خیال کیا جاتا ہے۔آج کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے رسول اللہ ا کی توہین اور دین اسلام کی تذلیل ہوتی ہے، مگر بدفہمی کا یہ عالم ہے کہ انہی کو دین اسلام کے احترام کا ذریعہ بتایا جاتا ہے۔ جن چیزوں کو کل تک اعدائے اسلام رسول اللہ ا سے بغض ونفرت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے تھے، آج  انہی چیزوں کو اسلام کے نادان دوست اسلام سے عقیدت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپناتے ہیں ۔ ذہن وقلب کے مسخ ہو جانے کا قبیح منظر اس سے بڑھ کر اورکیا ہو سکتا ہے؟دراصل جب کسی قوم کے اندر سے دین کی حقیقی روح نکل جاتی ہے اور صرف نمائشی ڈراموں پر اس کا مدار رہ جاتا ہے ، تو گھٹیا قسم کے پست اور سطحی مظاہر اس کی فکر وعمل کا محور بن جاتے ہیں، لایعنی حرکات کو حقیقی دین سمجھا جاتا ہے ، فواحش ومنکرات کو دینی قدروں کا نام دیا جاتا ہے، سنت کی جگہ من گھڑت بدعات سے تسکین حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
کیامزید کسی تجربہ کی ضرورت ہے؟
آج ہم جن معاملات میں اختلاف کا شکار ہیں، کیا ان مسائل میں تمام اکابر سلف کی رائے سے ہٹ کرکوئی نئی رائے اختیار کرکے کوئی تجدیدی کارنامہ سرانجام دینے کی ضرورت ہے؟ کیا کسی نے پہلے اپنے اجتہادات کے ذریعے ان مسائل میں ’’ ملی ودینی ضرورت‘‘ کے عنوان سے کچھ تجربات کیے ہیں؟ جن لوگوں نے ماضی میں ایسا کیا ، ان کے عبرت ناک انجام سے واقفیت کے باوجود ہم نصیحت نہیں لے رہے، کیا ہم ان لوگوں کے انجام سے واقف نہیں؟آج سے کچھ عرصہ قبل اہل مصر جو مغربی جدت پسندی کا گڑھ ہے، جنہوں نے مختلف معاملات میں توسع سے کام لیتے ہوئے ’’ دینی وملی ضرورت‘‘ کے تحت بہت سارے تجربات کیے ، کیا وہ اپنے تجربات میں کامیاب ہوگئے؟ کیاان کے میڈیا پر آنے سے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت ہوئی ، یا اس کے برعکس نتائج برآمد ہوئے؟ جواب یقینا یہی ہے کہ نتائج اس کے برعکس رہے۔
جدید تجربات کے ممکنہ نتائج
 امت مرحومہ پر کیے گئے ان تجربوں کے پیش نظر یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج دینی اور ملی ضرورت کے تحت تبلیغ اسلام اور حفاظت دین کے عنوان سے الیکٹرانک میڈیا اور چینلز کی اجازت دی گئی ، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان و عالم اسلام کے دینی مدارس وجامعات کے طلبہ کے ذریعہ سے قسم ہا قسم کے ڈرامے، اور فلمیں منظر عام پر لائی جائیں گی۔ بجائے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت کے اور ان کی اصلاح وتعمیرِ کردار کے ، آئے روز ان تجربات کی بدولت مسلمان نہ صرف یہ کہ علمائے دین سے بدظن ہورہے ہیں، بلکہ رفتہ رفتہ دین اور اسلامی اقدار وتہذیب سے بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور جو دین دار طبقہ تھا، وہ بھی اس سے متأثر ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کا درس دینے والا کلین شیو ہونے کے ساتھ پینٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس نظر آتا ہے، خدا نخواستہ اگر یہی مسئلہ پاکستان میں بھی شروع ہوا تو چند ہی برسوں میںسروں سے پگڑیاں اور ٹوپیاں اترنا شروع ہو جائیں گی، داڑھی کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو مصریوں نے کیا، علماء اور دین دار طبقے کا دینی تشخص مٹ جائے گا۔
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی دور رس نگاہیں
عربوں کے انہی تجربات کے حوالے سے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کو سامنے رکھ کر ہم راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرتؒ فرماتے ہیں :
’’ کسی قوم کی دینی حس ماؤف ہو جانے کا جو نقشہ اوپر پیش کیا گیا ، اس کا سب سے پہلا مظاہرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں ہمیںملتا ہے ، جب وہ اپنی بدبختی سے اپنے نبی کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر بیٹھے ، تو انہیں دین کے مردہ ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کے لیے نمائشی تصویروں کا سہارا لینا پڑا، چنانچہ عیسائیوں میں حضرت عیسیؑ ، حضرت مریمؑ اور دیگر اکابر کی فرضی تصویریں بنائی گئیں اوران کی پرستش کو جزودین وایمان بنا لیا گیا۔ بعد ازاں اس محرف مسیحیت کی ترویج واشاعت کے لیے مصنوعی ڈرامے تیار کیے گئے اوران کی فلموں کی نمائش کی گئی۔ مصر کے چند اشخاص نے سوچا کہ ہم عیسائیوں کی نقالی میں کیوں پیچھے رہیں ؟انہوں نے اس کے مقابلے میں جامع ازہر کی مجلس اعلیٰ کے بعض ارکان کی سرپرستی میں ’’ فجر اسلام‘‘ کے نام سے ایک فلم تیار کی اور عرب اسلامی ممالک میں اس کا خوب چرچا ہوا، بیس بائیس ممالک میں اس کی نمائش ہو چکی ہے اور اب وہ سر زمین پاک کو ناپاک کرنے کے لیے کراچی پہنچ گئی ہے ۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اوراخبارات کے ذریعہ اس کی ایسی تشہیر کی گئی، گویا مسلمانوں کو تجدید ایمان کے اہم ذریعہ کا انکشاف ہوا ہے ۔ اخبارات کے مطابق یہاں کے بعض نام نہاد علمائے دین نے بھی اس کی شرعی منظوری دے دی ہے، اور اب فرزندان اسلام پردے (اسکرین) پر اسلام کا تماشا دیکھنے کے لیے جوق درجوق تشریف لا رہے ہیں،   إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
بسے نادیدنی را دیدہ ام من
مرا اے کاش! کے مادر نزادے‘‘
چند استفسارات
آج پھر جس شرمناک تاریخ کو ’’ عقائد ونظریات کے تحفظ‘‘ اور ’’ملی ودینی ضرورت‘‘ کا نام دے کر دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، آیا اس کا اختیار کرنا شریعت کی نگاہ میں جائز بھی ہے یا نہیں؟ اگر دشمنانِ اسلام مختلف محاذوں پر آئے روز نئے نئے بھیس بدلیں تو کیا ہم بھی ان کے مقابلے کے لیے اسلامی احکامات کو پس پشت ڈال کر، بلا تفریقِ جائز وناجائز میدان میں کود پڑیں؟ کیا واقعی تصویر کے ذریعے دشمنانِ اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے؟ جب کہ تصویر کو جائز قرار دینا خود اسلام سے دشمنی کے مترادف ہے۔
مسلمان قوم جن اخلاقی پستیوں سے دو چار ہوئی ، اس کی اصلاح وتطہیر اور تصفیۂ عقائد کے لیے، وہ محنتیں اور کوششیں جو منہاج نبوت سے ہٹ کر کی گئیں،ان محنتوں اور کوششوں نے کوئی خاص تأثر نہیں چھوڑا، جب کہ نہج نبوت کے مطابق کی گئی کوششیں کارگر ثابت ہوئیں اور ہور ہی ہیں اوران کے ذریعے سے بڑی بڑی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔اہل مصر کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو دینی وملی ضرورت کے نام پر استعمال کرنے سے عوام الناس کے عقائد واعمال کی حفاظت ہو جائے گی؟ اپنی ترجیحات تبدیل کرکے وہ اسلام پسند بن جائیں گے؟ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی تیاری کی فکر لاحق ہو جائے گی ؟ کیا علماء کا ٹی وی پر آجانا ان فتنوں کے لیے سد سکندری کا کام دے گا؟ کہیں اس کے نتیجے میں وہ بے وقعت ہو کر ان فتنوں کے سیلاب میں بہہ تو نہیں جائیں گے؟
ایک بے بنیاددعویٰ
یہاں یہ دعویٰ بھی بڑے زور وشور سے کیا جارہا ہے کہ اب میڈیا پر آنا ضرورت وحاجت ہی نہیں، بلکہ اضطراری کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شریعت اسلامی نے ضرورت وحاجت اور اضطرار کی کچھ حدود متعین کی ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کی حدود متعین ہیں اور فقہائے کرام نے اس کے اصول وضوابط اور مواقع ضرورت واضطرار کو ان کی تمام شروط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، تو پھرکیوںہر ایک‘ ضرورت واضطرار کے قانون کا سہارا لے کر مجتہد بَن بیٹھا ہے کہ جس چیز کو چاہا ضرورت کے دائرہ میں داخل کرکے جائز قرار دے دیا۔ 
نئے مجتہدین سے ضروری باتیں
حضرت مولانامفتی عاشق الہٰی بلند شہری ؒ ایسے ہی مجتہدین سے مخاطب ہو کر’’ نئے مجتہدین سے ضروری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ اب جونئے مفتی آتے ہیں، انہوں نے فرما دیا کہ ٹیلی ویژن آج کل ضروریات انسان میں داخل ہو چکا ہے ، گویا کہ اگر اس میں کوئی پہلو عدم جواز کا تھا بھی ! تو ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ کے پیش نظر وہ بھی کالمعدوم ہو گیا، کیا یہ بھی کوئی شرعی دلیل ہے کہ انسان معصیت کا اس حد تک خوگربن جائے کہ اُسے چھوڑے تو اضطراری کیفیت ہوجائے؟ اور پھر اس معصیت کو حلال کر لے ؟ ٹی وی کو کسی نے آئینہ بنا دیا اور کسی نے ضرورت میں داخل کر دیا۔ ‘‘ 
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الضررلایزال‘‘ اور ’’لاضرر و لا ضرار‘‘ اور ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ سے استدلال کے حوالے سے بھی بحث فرمائی ہے کہ کون سا قاعدہ مقید ہے ؟ اور اس سے استدلال کی کیا حیثیت ہے ؟ مزید تفصیل کے لیے حضرت کی کتاب ’’ تبلیغی و اصلاحی مضامین‘‘ (جلد:۴ ،صفحہ:۱۴۸ سے ۱۵۸ تک) کا مطالعہ فرما لیا جائے، ان شاء اللہ! مزید وضاحت کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پیدا کیے گئے شکوک وشبہات ختم ہوجائیں گے۔
بعض قواعد فقہ کا بے دریغ استعمال، ضرورت وحاجت کا اعتبار کب ہو گا؟
ہمارے مجوزین حضرات بعض قواعد فقہ کابے دریغ استعمال فرمارہے ہیں،اس کے ساتھ یہ بات بھی ان کے پیش نظر رہے کہ ضرورت وحاجت کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو ضرورت کا نام دے کر اختیار کیا جارہا ہو، اس کا کوئی اور جائز متبادل موجود نہ ہو اور اس کے اختیار کرنے سے اساسیات ومبادیاتِ دین کی مخالفت نہ ہوتی ہو ، اسی طرح یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جس چیز کو ضرورت کے نام پر جائز کہا جارہا ہے، اس سے کہیں بڑے مفاسد تو جنم نہیں لے رہے ؟ یا کسی یقینی اور واقعی ضرر کا اندیشہ تو نہیں ؟ 
’’الضرر لا یزال بالضرر‘‘کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جس چیز کومجوزین حضرات کے اجتہاد نے جائز قرار دیا ہے ، اس میں ضرر کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں ،جن کا اعتراف دبے چھپے لفظو ں میں انہوں نے خود بھی کیا ہے ، تو پھر ضرر کے ذریعے ضرر کو دفعہ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے ؟جب ایک کام میں اچھائی یا برائی دونوں جمع ہوں تو اچھائی اور فائدہ کونہیں دیکھا جائے گا،بلکہ اُسے چھوڑ کر نقصان اور ضرر سے بچنے کی کوشش کی جائے گی،یعنی جہاں مفاسد اور مصالح کا ٹکراؤ ہو تو مفاسد کا دور کرنا ضروری قرار پاتا ہے اور اسی کو مقدم رکھا جاتا ہے:
 ’’ إذا تعارضت مفسدۃ ومصلحۃ قدمت دفع المفسدۃ غالباً‘‘۔
ترجمہ:…’’جب مصلحت (فائدہ )اور مفاسد (نقصان وضرر)کا ٹکراؤ ہو تو مفاسد کے دور کرنے کو ترجیح دی جائے گی‘‘۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین