بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اولڈ ایج ہاؤس  (Old Age House)

اولڈ ایج ہاؤس  (Old Age House)

 

انسان عام طورپر اپنی زندگی میں تین مرحلوں سے گزرتاہے۔ وہ اس حال میں پیداہوتاہے کہ اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ زبان قوتِ گویائی سے محروم ہوتی ہے۔ پاؤں میں چلنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ عقل وشعور کے اعتبارسے بھی وہ ایک ناقص وجود ہوتا ہے۔ پھرقدرت کے ہاتھوں آہستہ آہستہ اس کی نشوونما ہوتی ہے، اور جب وہ بڑھتے بڑھتے جوانی کی منزل میں داخل ہوجاتاہے تواس کی ساری صلاحیتیں اور قوتیں عروج پرہوتی ہیں، اس کی طبیعت میں مہم جوئی کا جذبہ ہوتاہے ،یہاں تک کہ بعض اوقات پُرمشقت راستوں پر چلنے اور خطرات کے طوفانوں سے کھیلنے میں اسے لطف آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں میں انحطاط شروع ہوتا ہے، جس شخص کو کل دوڑنے،بھاگنے اور کودپھاند کرنے میں مزہ آتا تھا، اب وہ دوقدم چلنے میں کسی انسان یالاٹھی کا محتاج ہوتا ہے۔ 
گویاایک طرح سے پھراس کابچپن لوٹ آتاہے اور اس کی انتہا اپنی کیفیت کے اعتبار سے اس کی ابتدا کے ہم پایہ نظرآتی ہے ، لیکن عمر کے ان دونوں مرحلوں میں فرق یہ ہے کہ بچہ پورے خاندان کی توجہ کامرکز ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ نے والدین، دادا، دادی، نانا اور نانی میں محبت وشفقت کے جو غیرمعمولی جذبات رکھے ہیں، اس کے تحت اسے سب کی چاہت حاصل ہوتی ہے۔لیکن بوڑھوں اور معذوروں کویہ توجہ حاصل نہیں ہوتی۔
اور بدقسمتی سے موجودہ دور میں یہ بے توجہی بڑھتی ہی جارہی ہے، کیونکہ اس وقت دنیاپرمغربی تہذیب کابول بالا ہے اور اس تہذیب کی بنیاد خودغرضی اور مفادپرستی ہے۔ جس شخص سے مستقبل میں کوئی غرض وابستہ نہ ہو اسے بوجھ تصور کیا جاتا ہے، اسی لیے بوڑھے ماں باپ اور خاندان کے معذور افراد تکلیف دہ بے توجہی کا شکارہیں۔ خاص کر اگر اولاد میں اللہ کا خوف نہ ہو تو والدین ایک بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں، اسی لیے قرآن مجید میں اللہ نے یہ حکم دیا کہ ’’جب والدین میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انھیں اُف بھی نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو، بلکہ ان سے نرم گفتگو کیا کرو۔‘‘ (سورۃ الاسراء: ۲۴) مقصد یہ کہ کوئی بھی ایسا کلمہ ان کی شان میں زبان سے مت نکالو جس سے ان کی تعظیم میں فرق آتا ہو یا جس کلمہ سے ان کے دل کو رنج پہنچتا ہو۔ حضرت مجاہدؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر وہ بوڑھے ہو جائیں اور تمہیں ان کا پیشاب پاخانہ دھونا پڑجائے تو کبھی اُف بھی نہ کرو، جیسا کہ وہ بچپن میں تمہارا پیشاب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔ ( الدر المنثور: ۵/۲۲۴) 
علامہ جصاص رازی ؒاس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہشام بن عروہؒ نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ والدین کی ہر جائز خواہش اور چاہت پوری کر لیا کرو:
’’ و قال ھشام بن عروہ عن أبیہ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ : قال لا تمتنعھا شیأ  یریدانہ۔‘‘                                ( احکام القرآن للجصاص:۲۰)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو۔(تین مرتبہ یہ بددعافرمائی) عرض کیا گیا: کون یارسول اللہ !؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کوبڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ، ج:۲، ص:۳۱۴)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام نوویؒ فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کے بڑھاپے اورکمزوری کے زمانے میں ان کی خوب خدمت کی جائے اور ان کے مکمل اخراجات اٹھائے جائیں اور یہی چیزجنت میں دخول کاذریعہ ہے۔ان کی خدمت اوراخراجات میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیناجنت سے محرومی کاذریعہ ہے: 
’’وقال النوويؒ: معناہ أن برہما عند کبرہما وضعفہما بالخدمۃ والنفقۃ وغير ذٰلک سبب لدخول الجنۃ، فمن قصر في ذلک فاتہ دخول الجنۃ۔‘‘ (مرقات،ج:۷، ص:۳۰۸۰)
شریعت نے جتنا زیادہ بوڑھوں کے حقوق پر زوردیاہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے، افسوس کہ اتنا ہی زیادہ ان کے حقوق سے بے توجہی برتی جاتی ہے۔ اور ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ گویا وہ زائدازضرورت کوئی شئے ہے۔ آج شاید یہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے، جن کے حقوق کے لیے کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں۔ انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں خاموش تماشائی دکھائی دیتی ہیں۔ 
اس پس منظر میں بوڑھے اور سن رسیدہ لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ اولڈایج ہاؤس کے قیام کا ہے، چنانچہ مغربی ملکوں میں عمردراز لوگوں کےلیے ہاسٹل بنادیئے گئے ہیں۔ اوراب پاکستان میں بھی جگہ جگہ ایسے ہاسٹل بن رہے ہیں ، جن میں نوجوان اپنے بزرگوں کو داخل کردیتے ہیں۔ اس میں ایک پہلو یہ ہے کہ ان عمردراز حضرات کو ایک جگہ اپنی ضروریات کی چیزیں مہیا ہوجاتی ہیں اور اپنے ہم عمر لوگ مل جاتے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ اپنے بال بچوں کے درمیان رہے، اولاد اور اولاد کی اولاد کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
ایسے ہاسٹلوں میں ان کی یہ خواہش ایک حسرت بن جاتی ہے۔ ایسے ہاسٹلوں کے متعلق شریعت کانقطہ نظر کیا ہے؟ نیز کوئی اپنے بزرگوں کو ایسے ہاسٹلوں میں قیام پر مجبور کرسکتا ہے یا نہیں؟
والدین کے حقوق اورخدمت کے متعلق اوپرذکرکردہ قرآن وحدیث کے اس تاکیدی حکم سے واضح ہوتاہے کہ ان کی ہر ممکن خدمت کی جائے، ان کی منشا کابھرپور لحاظ رکھا جائے، جس طرح وہ زندگی بسر کرنا چاہیں، ان کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔
اس سلسلے میں پیش آمدہ دشواریوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے، بلکہ خدمت کے اس موقع کو غنیمت جانا جائے اوراسے اپنے لیے سعادت اور برکت کا ذریعہ سمجھا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی خدمت کا کامل حق تو اسی وقت ادا ہوگا جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان زندگی بسر کریں۔ اگر انہیں بوڑھوں کے کسی ہاسٹل میں ڈال دیا جائے گا، تو ان کی خدمت کا موقع فراہم نہ ہوگا۔ خاص کر بڑھاپے کی اس عمر میں طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے اور صحت روبہ زوال ہوتی ہے، خدمت ومدد کی بار بار ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی جیسی نگہداشت ہونی چاہیے، ہاسٹل میں ویسی نہیں ہوپاتی۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور مغربی حیات کا بول بالا ہے جس کی موجوں نے آج معاشرتی نشیمن کو تہہ وبالا اور خاندانی نظام کوتباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
مغربی تمدن اور تہذیب کا علمی اور نفسیاتی جائزہ لینے والے اس پر متفق ہیں کہ اس کی بنیاد خودغرضی، مفادپرستی اور مشترکہ مادی منفعت پر ہے۔ ساری مغربی دنیا کا پورا معاشرہ ایک تجارتی کمپنی کے اصولوں پر عامل اور گامزن ہے۔ وہاں انسان صرف ایک مشین یامحض تاجر بن کر رہ گیا ہے۔ عائلی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیاہے، نہ اخلاص نہ محبت، نہ ایک دوسرے سے کوئی ربط اورتعلق۔ یہ مغربی تہذیب کے جراثیم ہیں، جس نے انسان کو حواس باختہ کردیا ہے، اس کے دل ودماغ پر مادیت کے پردے ڈال دیئے ہیں اور اس کے احساسات کو مردہ کردیا ہے۔ 
آگے کے اقتباس سے وہاں کی تہذیب وتمدن اور وہاں رہنے والے لوگوں کی انسانیت نوازی اوراپنے والدین کےلیے جذبۂ ہمدردی کا اندازہ لگائیں۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب اپنے سفرنامہ ’’دومہینے امریکہ میں‘‘ وہاں کے خاندانی حالات اور والدین واولاد کے باہمی تعلقات کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: 
’’یہاں والدین اولادکے صرف جوان ہونے تک اپنے کو ایک حد تک ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور درمیان درمیان میں ان بچوں کے ذہن میں یہ خیال پیداکرتے ہیں کہ آدمی کو خود اپنی کمائی سے اپنے مصارف پورے کرنے چاہئیں۔ ان کی تعطیلات میں ان کو وقتی طور پر ملازمت کرلینے یا کوئی آمدنی والا کام کرنے کا شوق دلاتے ہیں اور جیسے ہی ان کی عمر کمانے کی ہوجاتی ہے، ان کوخوداپنے پیروں پر کھڑاہونے کےلیے چھوڑدیتے ہیں۔ اولادبھی بڑی ہوکر اس رویہ کا جواب اپنے خودغرضانہ رویّے سے دیتی ہے کہ ہرشخص اپنی کمائی سے فائدہ اُٹھائے۔ نہ کماسکتا ہو تو حکومت اس کی ذمہ داری لےیاپھراس کی قسمت ہے،بھگتے۔ کوئی ایک دوسرے کاذمہ دارکیسے ہوسکتاہے،جبکہ ہرشخص کی کمائی اس کی ضرورت اور مصارف کے مطابق ہے۔ اسی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد لوگوں کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ اعزہ سے ملاقات، اہلِ تعلق کی مزاج پرسی اور ہمدردی سے وہ بالکل محروم رہتا ہے، اپنا وقت خود ہی گزارنا پڑتا ہے۔ بوڑھوں کی دلبستگی کےلیے اگر بیوی کے لیے شوہر اور شوہر کے لیے بیوی نہیں ہے، تو کوئی دلبستگی کرنے والا نہیں، بہت کسی نے کیا تو اتوار کے روز چند منٹ آکر مل گیا اور اپنے ہاتھ کچھ پھول یا گلدستے اظہارِ تعلق کےلیے ہدیتہ لے آیا۔‘‘          (دومہینے امریکہ میں: ۲۵۶،۲۵۷) 
مذکورہ بالااقتباس سے معلوم ہوا کہ ’’بوڑھوں کے ہاسٹل‘‘ مغربی نظام کا عطیہ اور غیراسلامی ومادی فکر کا نتیجہ ہیں، جواسلام کے عطاکردہ لازوال اورفلاحی معاشرتی نظام کے بالکل مخالف ہے، لہٰذا عام حالات میں بوڑھوں یامعذوروں کو بوجھ سمجھ کر ان کوہاسٹل کے حوالہ کرنا اور وہاں قیام پر مجبور کرنا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ عقلاً اس کی گنجائش ہے۔ 
البتہ ایسے بے سہارا معذور اور بوڑھے حضرات جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا اور دربدر ٹھوکریں کھانے اور اِدھراُدھر مارے مارے پھرنے پر مجبور ہوکر لاوارث بن گئے ہوں تو ایسی صورت میں ان کےلیے اس غرض سے ہاسٹل قائم کرنا اور اس میں ان کی ضروریات وسہولیات مہیا کرنا، تاکہ وہ اپنی زندگی کے بقیہ ایام باعزت طور پر گزار سکیںاور دربدرکی ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رہیں، ایک مناسب اقدام معلوم ہوتا ہے، خواہ یہ ہاسٹل حکومت کی طرف سے قائم کیے جائیں یارفاہی اورسماجی تنظیموں کی طرف سے۔
واضح رہے کہ یہ مسئلہ کا کوئی مستقل حل نہیں ہے، اصل طریقہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ ان کو گھروں میں رکھ کر ان کی خدمت کی جائے، لہٰذا بوڑھوں کے متعلق معاشرے کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا کیا جائےکہ بوڑھے حضرات انسانی سماج کا عضو معطل یا اس کےلیے بارِگراں یا زمین کا بوجھ نہیں ہیں، بلکہ وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں اور ہر اعتبار سے انسانی تکریم کے مستحق ہیں، ان کی خدمت اپنی سعادت سمجھ کر کی جائے۔
مجبوری کی صورت میں معذور اور بوڑھے حضرات کاہاسٹل کی طرف منتقل ہونے کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام کاخلاصہ ملاحظہ کیجئے:
۱:- اولاد گھر میں موجود ہو اوربوڑھے ماں باب کی خدمت کرنے میں کوئی دقت نہ ہو، نیز ان کو گھر میں رہنے کی خواہش ہوتوایسی صورت میں اولاد پر بوڑھے والدین کی خدمت واجب ہے۔ ہاسٹل کے حوالہ کرنا جائز نہیں۔
۲:-اولاد گھر میں موجودنہ ہو اور باپ کی خواہش گھر میں رہنے کی ہو تو اگر اولاد مستطیع ہو تو بوڑھے ماں باپ کےلیے خادم کا انتظام کرنا واجب ہے۔ ہاسٹل کے حوالہ کرنا جائز نہیں۔
۳:-اگر گھر میں بوڑھے باپ کے ساتھ نامناسب برتاؤ ہوتا ہو اوراس کی وجہ سے وہ ہاسٹل میں منتقل ہونا چاہتا ہو تو اولاد پر لازم ہے کہ ماحول تبدیل کریں، خوشگوار فضا بنائیں اور بوڑھے باپ کو راحت پہنچائیں اور انہیں ہاسٹل منتقل نہ ہونے دیں۔
۴:-اگر اولاد معاشی مجبوری یا کسی اور حقیقی مجبوری کی وجہ سے یا تنگ دستی کی بنیاد پر خادم نہیں رکھ سکتی ہو، یا اولاد ہی نہ ہو اور دوسرے رشتہ دار صحیح خدمت نہیں کر پارہے ہوں تو پھر ان کے لیے ہاسٹل منتقل ہونے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
آخر میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ نوجوان نسل میں یہ شعور اور احساس پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے کہ عمر ڈھلنے اورشباب رخصت ہونے کے بعدان کوبھی اس تلخ حقیقت اور دشوار مرحلہ سے گزرنا ہے، اس لیے وہ اپنے بوڑھوں اور بزرگوں کی خدمت اور اطاعت کریں۔ نیز ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت وتعلق کا ایسا نمونہ پیش کریں، جس سے خوشگوار فضا قائم ہو اور آنے والی نسل ذہنی وفکری طور پر اپنے بوڑھوں کی خدمت کےلیے خوش دلی سے آمادہ رہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین