بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

انصاف اور قانون کا تقاضا

انصاف اور قانون کا تقاضا!

 

الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

جب سے ہمارا وطن عزیز پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے، اس وقت سے ایک گروہ اور جتھا مسلسل اس کوشش اور کاوش میں مصروفِ عمل ہے کہ کسی طرح اس ملک سے دین ومذہب اور اسلام کو دیس نکالا دیا جائے، وہی دین جس کو ایک عرصہ سے ایسے طبقہ کی تزویراتی کاوشوں نے زندگی کے ہر شعبہ سے عملاً معطل کر رکھا ہے۔ اب مزید کوشش اس میں ہے کہ فرد کی زندگی سے بھی اس کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا جائے اور اس کا طریقہ یہ نکالا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے مسجد ، مدرسہ، خانقاہیں ہوں یا دینی مراکز ان سے پاکستانی عوام کو دور رکھا جائے اور اِن مساجد ومدارس کے آباد کرنے والوں پر متفرق عنوانات چسپاں کرکے اور مختلف الزامات لگاکر مسلمانوں کو ان سے متنفر کردیا جائے۔ اس طبقہ نے کبھی تو یہ کہا کہ ہم ملکی سطح پر ترقی کرنا چاہتے ہیں، لیکن دین ومذہب پر عمل کرنے والے علماء اور دین دار لوگ ہمارے لیے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کا یہ حل سوچا کہ چاندی کی کشتی بناکر اس میں دین ومذہب کا نام لینے والوں کو سوار کراکر سمندر برد کردیا جائے۔ کبھی یہ کہا کہ ہماری مادر پدر آزادی میں رخنہ ڈالنے والے مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے یہ طلبہ اور علماء ہیں، لہٰذا ان مدارس کو حکومتی تحویل میں لے کر ان پر قدغن لگائی جائے اور ان کے گرد شکنجہ کس دیا جائے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کبھی یہ کہا کہ ان کا نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم تبدیل کردیا جائے تو یہ ہمارے قابو میں آسکتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان مدارس کے مقابل ’’ماڈل دینی مدارس ‘‘قائم کردیے جائیں اور ان میں اساتذہ وطلبہ کے لیے پرکشش مراعات رکھی جائیںتو یہ آزاد مدارس خود بخود بند ہوجائیں گے۔ لیکن الحمدللہ! ان تمام بے جا پروپیگنڈوں اور تمام تر غلط الزامات کے باوجود مدارس اپنے تعلیمی مقاصد میں کامیاب رہے اور شاہراہِ ترقی پرگامزن رہتے ہوئے مسلمانوں کو ان مدارس نے ائمہ، خطبائ، فقہائ، محدثین، مفسرین اور قراء کرام دیے ہیں، جنہوں نے شبانہ روز محنت کرکے امت ِمسلمہ کو اللہ تعالیٰ کی توحید سے، حضور اکرم a کی رسالت اور ختم نبوت سے ، قرآن کریم سے ، اسی طرح اسلام کے ارکانِ خمسہ: کلمہ، نماز، روزہ،زکوٰۃ، حج کے ساتھ ساتھ تمام دینی شعائر اور مکارم اخلاق سے وابستہ اور متصف کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے مسلم بچوں کی کفالت کرتے ہوئے پاکستان کی شرح خواندگی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس طبقہ کے نزدیک علماء وطلبہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے مدارس ومساجد میں اللہ تعالیٰ کے دین کو ابھی تک پناہ کیوں دے رکھی ہے؟! اور ان مدارس کے علماء وطلبہ نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے کی غلطی کیوں کی ہے؟! اور یہ لوگ دنیاوی مشاغل کی طرف کیوں نہیں لپکتے؟!۔دیکھا جائے تو معلوم یوں ہوتاہے کہ مدارس کے ان ناقدین کو مدارس اور اہل مدارس سے بیر نہیں، بلکہ اُنہیں اصل پرخاش اس دین سے ہے جسے مدارس اور اہل مدارس نے اپنے ہاں پناہ دی ہوئی ہے۔ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کے دن آرمی پبلک اسکول پشاور کے طلبہ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی جہاں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور طبقہ نے مذمت کی ہے، وہاںاہل مدارس نے بھی اپنے اپنے بیانات میںاس المناک واقعہ کو سنگین سانحہ قراردیا ہے۔ اسی لیے ان معصوم طلبہ کی جانوں کے نذرانے کی برکت سے پورے ملک میں یک جہتی کی فضا بن گئی اور تمام دینی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ ان معصوم طلبہ کے قتل میں ملوث اور ذمہ دار افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ اس پر ایکشن پلان بنا اور اُسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کردیا گیا، لیکن یہاں بھی اس طبقہ نے یہ چال چلی کہ اس ایکشن پلان کی زَد میں صرف انہی لوگوں کو نشان زد کیا جن کے سابقے یا لاحقے میں اسلام، مذہب، دین، یا فرقہ کا لفظ کسی بھی اعتبار سے جڑا ہوا ہے، باقی اگر کوئی کسی سیاسی ، لسانی ، علاقائی یا پاکستان دشمن تنظیم یا گروہ سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اس کی زَد میں نہیں آئے گا۔اس انوکھے انصاف پر جنگ اخبار کے مقبول کالم نگار جناب سلیم صافی صاحب نے خوب صورت انداز میں پاکستانی عوام اور اہل مدارس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ موصوف نے ان ساٹھ تنظیموں کی فہرست بھی دی ہے جن کو حکومت نے کالعدم قرار دیا ہے اور پھر ایک اچھوتے انداز میں ان پر تبصرہ کیا ہے کہ اس ایکشن پلان یا اکیسویں ترمیم کی زَد میں کونسی جماعتیں اور ادارے آسکیں گے۔ افادۂ عام اور ریکارڈ محفوظ کرنے کی غرض سے اُسے من وعن بینات کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، موصوف لکھتے ہیں: ’’۱:۔۔۔ لشکرجھنگوی ، سربراہ ملک اسحاق ،۲:۔۔۔ سپاہ محمد پاکستان، سربراہ علامہ سید محمد رضا نقوی، ۳:۔۔۔ جیش محمد، سربراہ مولانا مسعود اظہر ،۴:۔۔۔ لشکرطیبہ، سربراہ حافظ محمد سعید ،۵:۔۔۔ سپاہ صحابہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی ، ۶:۔۔۔ تحریک جعفریہ پاکستان، سربراہ علامہ ساجد نقوی ،۷:۔۔۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی، سربراہ مولانا صوفی محمد ،۸:۔۔۔ تحریک اسلامی، سربراہ علامہ حامد علی موسوی ،۹:۔۔۔ القاعدہ، سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری ،۱۰:۔۔۔ ملت اسلامیہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی ،۱۱:۔۔۔ خدام الاسلام، سربراہ مولانا مسعود اظہر ،۱۲:۔۔۔ اسلامی تحریک پاکستان، سربراہ علامہ ساجد علی نقوی ،۱۳:۔۔۔ جمعیت الانصار، سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل ،۱۴:۔۔۔ جمعیت الفرقان، سربراہ کمانڈر جبار ،۱۵:۔۔۔ حزب التحریر ، سربراہ نوید اظہر حسین بٹ ،۱۶:۔۔۔ خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، سربراہ بوشعیب ،۱۷:۔۔۔ بلوچستان لبریشن آرمی، سربراہ حیربیارمری، ۱۸:۔۔۔اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان،۱۹:۔۔۔لشکر اسلامی، سربراہ منگل باغ ،۲۰:۔۔۔ انصار الاسلام، سربراہ قاضی محبوب ،۲۱:۔۔۔ حاجی نامدار گروپ، سربراہ حاجی نامدار ،۲۲:۔۔۔ تحریک طالبان پاکستان، سربراہ مولانا فضل اللہ ،۲۳:۔۔۔ بلوچستان ری پبلکن آرمی، سربراہ براہمداغ بگٹی ،۲۴:۔۔۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ، سربراہ ببرک بلوچ ،۲۵:۔۔۔ لشکربلوچستان ،۲۶:۔۔۔ بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، سربراہ خیر بخش مری، ۲۷:۔۔۔ بلوچستان مسلح دفاع تنظیم ،۲۸:۔۔۔ شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی گلگت، سربراہ آغا ضیاء الدین ،۲۹:۔۔۔ مرکز سبیل آرگنائزیشن، سربراہ آغا ضیاء الدین،۳۰:۔۔۔ تنظیم نوجوانانِ سنت گلگت، سربراہ قاضی نثار،۳۱:۔۔۔ پیپلز امن کمیٹی لیاری ،۳۲:۔۔۔ اہل سنت والجماعت ، ۳۳:۔۔۔ الحرمین فاؤنڈیشن ،۳۴:۔۔۔ رابطہ ٹرسٹ ،۳۵:۔۔۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان، سربراہ آغا راحت حسین، ۳۶:۔۔۔ مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گلگت بلتستان، سربراہ شفاعت اللہ طارق، ۳۷:۔۔۔ تنظیم اہل سنت والجماعت گلگت، سربراہ احمد رضا خان بریلوی ،۳۸:۔۔۔ بلوچستان بنیاد پرست آرمی، ۳۹:۔۔۔ تحریک نفاذ امن، ۴۰:۔۔۔ تحفظ حدود اللہ، ۴۱:۔۔۔ بلوچستان واجا لبریشن آرمی، ۴۲:۔۔۔ بلوچستان ری پبلکن پارٹی آزاد، ۴۳:۔۔۔ بلوچستان یونائیٹڈ آرمی، ۴۴:۔۔۔ اسلام مجاہدین، ۴۵:۔۔۔ جیش اسلامی، ۴۶:۔۔۔ بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی ،۴۷:۔۔۔ خانہ حکمت، ۴۸:۔۔۔ تحریک طالبان سوات، ۴۹:۔۔۔ تحریک طالبان مہمند، ۵۰:۔۔۔ طارق گیدڑ گروپ، ۵۱:۔۔۔ عبداللہ عزام بریگیڈ، ۵۲:۔۔۔ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، ۵۳:۔۔۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان ،۵۴:۔۔۔ اسلامک جہاد یونین، ۵۵:۔۔۔ ۳۱۳ بریگیڈ، ۵۶:۔۔۔ تحریک طالبان باجوڑ، ۵۷:۔۔۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر حاجی نامدار گروپ، ۵۸:۔۔۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد، ۵۹:۔۔۔ یونائیٹیڈ بلوچ آرمی ،۶۰:۔۔۔ جئے سندھ متحدہ محاذ۔     یہ وہ ساٹھ تنظیمیں ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا ہے۔ یہی فہرست میاں نواز شریف کی حکومت نے اس داخلی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں دی ہے جسے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے۔ انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان سب کالعدم تنظیموں اور ان کے سربراہوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے، لیکن ہماری سیاسی قیادت نے جو ایکشن پلان بنایا ہے، اس کی رو سے مذکورہ فہرست میں درج صرف ان تنظیموں کے وابستگان کے کیس فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں گے، جن کی تنظیم کے ساتھ اسلام یا کسی مسلک کا لفظ درج ہے، لیکن پیپلز امن کمیٹی، بلوچستان لبریشن آرمی یا بلوچستان یونائیٹڈ آرمی کے وابستگان کے کیسز کو فوجی عدالتوں میںنہیں بھیجا جائے گا، کیونکہ اکیسویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتوں میں صرف ان دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت ہوگی جو مذہب اور مسلک کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں۔ عزیر بلوچ جیسے لوگ خواہ سو انسانوں کے قتل کے ملزم کیوں نہ ہوں، لیکن انہیں ملٹری کورٹس میں پیش نہیں کیا جائے گا، کیونکہ انہوں نے مذہب یا مسلک کے نام پر بندوق نہیں اٹھائی، لیکن لشکر طیبہ یا اہلسنت والجماعت کے ایک قتل یا اقدام قتل کے ملزم کوفوجی عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے، کیونکہ انہوں نے مذہب کے نام پر جرم کیا ہے۔ جماعت اسلامی، جے یوآئی یا جے یوپی کے کسی کارکن کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کسی خلافِ قانون حرکت میں ملوث پایا گیا تو حکومت اس کے کیس کو فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی، کیونکہ وہ مذہب کے نام پر جرم کرتا ہے، لیکن اے این پی، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے کارکن کو اسی طرح کے جرم کے بعد بھی ان عدالتوں میں نہیں بھیجا سکے گا، کیونکہ وہ مذہب کا نام استعمال نہیں کرتا۔کراچی میں کوئی ہزار بندوں سے بھتہ لے لے، کوئی درجن بھر لاشوں کو بوری میں بند کردے یا پھر بلوچستان میں کوئی فوج سے لڑے یا آبادکاروں کو گولیوں سے چھلنی کردے، لیکن وہ ملزم فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کیے جائیں گے۔ گویا اس ملک میں اب مذہبی اور فقہی عصبیت سنگین جرم لیکن لسانی اور علاقائی عصبیت اب کم ترجرم ہے، حالانکہ جرم‘جرم ہے۔ وہ مذہب کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے، لسانی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے اور ذاتیات کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے۔ قتل‘ قتل ہے اور ڈاکہ‘ ڈاکہ ہے، چاہے جس نام سے بھی ہو۔ اسی طرح خلافِ قانون اور کالعدم قرار پانے والی تنظیموں میں تفریق کا دنیا کے کسی اور ملک میں تصور نہیں، لیکن یہاں ایک طرح کی کالعدم تنظیموں کے سربراہ کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے، لیکن دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے سربراہ کا نام آتے ہی لوگ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ ہم نے تو مذہبی کالعدم تنظیموں میں بھی تفریق کررکھی ہے۔ ایک قسم کی کالعدم تنظیم کے وابستگان قابل گردن زدنی قرار پائے ہیں تو دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے لوگ ریاست کے چہیتے ہیں۔ سید منور حسن حکیم اللہ محسود کو شہید کہیں تو قیامت برپا ہوتی ہے، لیکن ریٹائرڈ جنرلز بالاجماع مولانا فضل اللہ، بیت اللہ محسود، مولوی فقیر محمد اور منگل باغ کو مجاہد قرار دیتے رہیں تو پھر بھی محترم قرار پاتے ہیں۔ سزا ملنی چاہیے، لیکن ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر مجرم کو یکساں ملنی چاہیے۔ فوجی عدالتیں اگر ضروری ہیں تو پھر خوف اور دہشت پھیلانے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر طرح کے ملزم کو اس کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ میڈیا پر اگر کالعدم تنظیموں اور ان کے وابستگان کو کوریج دینے پر پابندی ضروری ہے تو پھر سب پر یکساں لگادی جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست تو ان کو آزاد چھوڑ دے اور میڈیا سے کہہ دیا جائے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کرے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پوری ملکی سیاسی قیادت نے ایک ایسے ایکشن پلان پر صاد کردیا کہ جو تضادات اور ابہامات کا مجموعہ ہے۔ اس پلان میں جنگ کا اعلان تو کردیا گیا ہے،لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ جنگ کس کے خلاف ہوگی۔ دہشت گرد کی واضح تعریف سامنے لائی گئی ہے اور نہ انتہا پسند کی۔ مدارس کے نظام میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے، لیکن یہ وضاحت موجود نہیں کہ کس طرح کی اصلاحات کی جائیں گی۔ میڈیا کو انتہا پسندوں اور اس کے ہمدردوں کے موقف کی تشہیر سے منع کیا گیا ہے، لیکن یہ رہنمائی کوئی نہیں کررہا کہ انتہاپسند کون ہیں اور ان کے ہمدرد کون ہیں؟ میں ان لوگوں میں شامل ہوں کہ جو مذہب کو تزویراتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کے قبیح عمل کے نتائج کو بری طرح بھگت چکے ہیں۔ میری تعلیم متأثر ہوئی، میرے رشتہ دار متأثر ہوئے، مجھے بھائیوں جیسے عزیز دوستوں کے جنازوں کو کاندھا دینا پڑا اور اپنی ثقافت اور روایات کے جنازے نکلتے دیکھے۔ افغان پالیسی پر تنقید کی وجہ سے مجھے باہر کے ایجنٹ کے طعنے بھی سننے پڑے۔ میدانِ صحافت میں اترتے ہی ان کا ناقد ہونے کی وجہ سے مجھے ۱۹۹۹ء میں افغان طالبان کی قید بھی کاٹنی پڑی اور میں ہی تھا کہ جو بتاتا اور سمجھاتا رہا کہ القاعدہ، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا نظریاتی منبع ایک ہی ہے۔ مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی میں ۲۰۰۲ء سے اپنی تحریروں میں کررہا ہوں، لیکن اگر امتیازی قوانین کے ذریعے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی گئی تو خیر کی بجائے شر برآمد ہوگا۔ اس ملک میں رہنے والا ہر فرد برابر کا شہری ہے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں فساد کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں سب شہریوں پر قانون یکساں اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک طبقے کے لوگوں کے لیے جو چیز جرم قرار پاتی ہے، دوسرے طبقے کے لوگوں کے لیے وہ فیشن ہے۔ خوف اور دہشت جو بھی جس نام پر بھی پھیلائے، سنگین سزا کا مستحق ہے۔ انسان کا قتل جو بھی ، جس نام پر بھی کرے، قاتل ہے۔ ریاست کے خلاف بندوق جو بھی، جس نام پر بھی اٹھائے‘ باغی ہے۔ کالعدم جو بھی ہو‘ خلافِ قانون ہے۔ اگر قانون اندھا بن کر ان سب کو ایک نظر سے دیکھے تو رحمت کا ذریعہ بنے گا، لیکن اگر وہ مجرموں میں تفریق کرے تو انتشار کا موجب ہوگا۔ موجودہ حکمران اور پالیسی ساز کسی کی سنتے ہیں اور نہ سنیں گے، لیکن متنبہ کرنا اپنا فرض تھا، باقی ان کی مرضی۔‘‘                               (روزنامہ جنگ، کراچی،بروزمنگل ،۱۴؍ ربیع الاول۱۴۳۶ھ، مطابق ۶؍ جنوری ۲۰۱۵ء ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایک بار پھر حکومت پاکستان کو احساس دلاتے ہوئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان بھر کے دینی مدارس کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ مدارس کے دروازے ہر وقت ہر ایک کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور حکومتی ایجنسیاں اور ادارے بارہا ان کا سروے کرچکے ہیں۔ سابق صدر، سابق وزیر اعظم، سابق وزیر داخلہ اور موجودہ وزیر داخلہ سب حضرات اپنے اپنے وقت میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، مدارس پر تنقید بند کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود ایسے قوانین لانا کہ مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں مدارس اور دین ومذہب سے تعلق اور محبت رکھنے والے افراد ہی آئیں تو آپ ہی بتلائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہوگا اور کونسی انسانی عدالت اس کو انصاف تسلیم کرے گی۔ اس سے تو خدانخواستہ یہی ہوگا کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘۔ پہلے ہی پاکستان مسائلستان بنا ہوا ہے اور اب مزید ان لوگوں کو بھی دشمن کی صف میں دھکیلنے کی کوشش کی جائے کہ جن کی حب الوطنی اظہر من الشمس ہے اور پاکستان کی سالمیت کے لیے ان کا جذبہ کسی شک وشبہ سے بالا ترہے۔ یہ کونسی دانشمندی اور پاکستان کی خدمت ہوگی کہ جس کی عقل سلیم اجازت دے گی؟ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا حل یہ ہے کہ پاکستان اپنی داخلی وخارجی پالیسی پر از سر نو نظرثانی کرے اور اپنے فیصلے خود کرے۔ قانون شکنی کی زَد میں جو بھی آتا ہو، بلالحاظِ مسلک ومذہب اور بلااستثناء سیاسی یا غیر سیاسی جماعت سب کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور جو بھی اس کی سزا مقرر ہو فی الفور وہ سزا اس پر لاگو کی جائے۔ ان شاء اللہ! اس سے جلد امن وامان بھی قائم ہوگا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔ ہم مسلمان ہیں، ہماری صلاح وفلاح صرف اور صرف دین اسلام کے نفاذ اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے، ہمیں حضور اکرم a کی تعلیمات اپنے سامنے رکھنی چاہئیں۔ ایک حدیث میں ہے: ’’عن عائشۃؓ أن قریشا أھمَّہم شأنُ المرأۃ المخزومیۃ التی سرقت، فقالوا: من یکلم فیھا رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ فقالوا: ومن یجترئ علیہ إلا أسامۃ بن زیدؓ حِبُّ رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فکلمہ أسامۃ ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ؟ ثم قام فاختطب ، ثم قال: إنما أھلک الذین قبلکم أنہم کانوا إذا سرق فیہم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیہم الضعیف أقاموا علیہ الحد وأیم اللّٰہ لو أن فاطمۃؓ بنت محمد سرقت لقطعتُ یدَھا۔‘‘                                       (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ،ص:۳۱۴) ’’ حضرت عائشہ t سے روایت ہے کہ قریش کو ایک مخزومی عورت کے معاملہ میں فکر لاحق ہوئی ، جس نے چوری کرلی تھی۔وہ آپس میں کہنے لگے : اس عورت کے معاملہ میں رسول اللہ a سے کون بات چیت کرے گا؟ پھر کہنے لگے کہ یہ جرأت تو اسامہ بن زیدؓ ہی کرسکتے ہیں جو رسول اللہ a کے لاڈلے ہیں۔ اسامہ بن زیدqنے رسول اللہ a سے بات کی تو رسول اللہ a نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ a خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم سے پہلے لوگوں کو اس عمل نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی طاقتور آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑدیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘                                                     فاعتبروا یا أولی الأبصار۔

 وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین