بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت کی حفاظت کی ضرورت!

 

انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت کی حفاظت کی ضرورت!

’’نحمدہٗ ونستعینہٗ ونستغفرہٗ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور أنفسنا ومن سیّأٰت أعمالنا ، من یہدہ اللّٰہ فلامضل لہٗ ومن یضللہ فلاہادی لہ ، وأشہد أن لاإلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ ، وأشہد أن سیدنا ومولانا محمدا عبدہٗ ورسولہ ، أرسلہ بالحق بین یدی الساعۃ بشیرا ونذیرا، صلی اللّٰہ علیہ وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ وعلماء أمتہٖ وصالح عبادہٖ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا، أما بعد: فأعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ’’وَمَاأُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ۔‘‘ تمام اعمال کی بنیاد اخلاص ہے محترم بھائیواور معزز سامعین! میں پشتو بھول گیا ہوں، پشتو نہیں آتی، اگرچہ اپنی زبان ہے، مگر تھوڑی استعمال ہوتی ہے، ویسے بھی مقرر اور خطیب نہیں ہوں، لیکن جو کچھ آتی تھی وہ بھی بھول گیا ہوں، بہرحال تقریر کرنے کے لیے نہیں بیٹھا، میں اس پر مامور ہوگیا ہوں، اس لیے ایک نکتہ بیان کرتا ہوں، جتنے بھی دین کے کام ہیں یا دین کے نام پر ہورہے ہیں، اگر ان میں اخلاص اور خدا تعالیٰ کی رضاء نہ ہو تو وہ خدا تعالیٰ قبول نہیں کرتا، تم جتنی بھی ترقی کرلو، جتنے بھی بڑے عالم بن جاؤ، جتنے بھی بڑے فاضل بن جاؤ، علامۂ زمان اور علامۂ دہر بن جاؤ، نہایت فصیح وبلیغ خطیب بن جاؤ، اعلیٰ مقرر بن جاؤ، مصنف بن جاؤ، مفتی بن جاؤ، اگر اس میں اخلاص اور خدا تعالیٰ کی رضاء نہ ہو اور مقصود اس میں خدا تعالیٰ کی رضاء نہ ہو تو یہ سب کچھ بیکار ہے، حق تعالیٰ کے نزدیک وہ چیز کھوٹی ہے جس میں اخلاص نہ ہو۔ مسند احمد، ابن ماجہ، ابوداؤد کی حدیث ہے، حضرت ابوہریرہq سے روایت ہے کہ: ’’وہ علم جس سے حق تعالیٰ کی رضاء حاصل ہوسکتی ہے، اگر انسان اس سے دنیا کی کوئی متاع حاصل کرے تو جنت کی ہوا اس پر نہ لگے گی۔‘‘ اتنی سخت وعید آئی ہے۔ انبیائoکی وراثت یہ انبیاء o کے علوم ہیں، یہ مدارس جن میں آپ اور ہم بیٹھے ہیں ان کا دعویٰ ہے اور یہ ارادہ ہے کہ ہم نبوت کے علوم جاری کرتے ہیں، ان کی وراثت کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے وارث ہم بنتے ہیں اور ہم طلبہ اس ارادہ سے آتے ہیں۔ یاد رکھو! علومِ نبوت کا پہلا قدم، بسم اللہ یہ ہے کہ صرف اللہ کی رضاء ہو، اگر آپ کا ارادہ یہ ہے کہ میں اچھا عالم بن جاؤ، اچھا مصنف، شیخ الحدیث ہوجاؤں، مفتی اور استاد بن جاؤں، اونچی تنخواہ مل جائے تو یہ تمام چیزیں آپ کو پیچھے ڈالنے والی ہیں اور اس میں برکت پیدا نہ ہوگی، پھر تو یہ وراثت انبیاء ؑنہ ہوئی، بلکہ وراثت دنیا ہوئی۔ آپ سے اور ہم سے تو پھر وہ لوگ مبارک ہیں، جو مزدوری کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، دکانداری کرتے ہیں، زراعت کرتے ہیں، دنیا کے جو کام ہیں کرتے ہیں اور دنیا کماتے ہیں، خدا کے نزدیک وہ بہت اچھا ہے جو کسب حلال کرتا ہے، نفقہ کے لیے مال کماتا ہے، ان طریقوں سے جو اللہ نے کسب مال کے لیے پیدا کیے ہیں، جائز قرار دیئے ہیں، ان طریقوں کو یہ اختیار کرتا ہے، یہ شخص نہایت سعید مبارک ہے، بہ نسبت اس آدمی کے جو دین کی چیز کو دنیا کا ذریعہ بناتا ہے۔ شقی وبدبخت انسان     ایک بچے کے ہاتھ میں قیمتی یاقوت، جوہر، زمرد ہے اور اسے پتھر سمجھ کر دکاندار سے دو پیسوں کی چیز گُڑ،چنے لے آئے تو آپ کہیں گے کہ اس نے کتنا ظلم کیا ہے! کیا تکلیف دہ واقعہ ہے کہ گویا لاکھوں کی چیز چند پیسوں پر دے دی! قسم ہے اللہ کی ذات کی کہ وہ شخص جو بخاری کی حدیث پڑھاتا ہے اور قرآن پڑھاتا ہے اور دین کا عالم بنتا ہے اور وہ پھر دنیا کا ارادہ کرتا ہے، اس سے نچلے درجہ کا شقی اور بدبخت نہیں، یہ اس بچے سے ہزار درجہ زیادہ احمق ہے۔ تصحیح نیت ضروری ہے اس وجہ سے آپ اپنی نیت صحیح کردو، مقصد آپ کے علم کا اللہ کی رضاء ہے اور اخلاص ہے’’وَمَاأُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ حُنَفَائَ ‘‘ آپ بالکل ایک طرف حنیف بنیں۔ حنیف کا معنی حنیف کا معنی ہمارے حضرت الاستاذ مولانا انور شاہ صاحبv فرماتے تھے کہ شیخ فرید الدین عطار vجو مولانا رومv سے پہلے بہت بڑا بزرگ ولی اللہ گزرا ہے، مولانا جامیv اس کے حق میں کہتا ہے: ہفت شہر عشق را عطار گشت

ماہنوز اندر خم یک کوچہ ایم عطار روح و سرائی دو چشم

ماپس سرائی و عطار آمدہ ایم بہرحال شیخ فرید الدین عطارv کی ایک کتاب ہے’’منطق الطیر‘‘ عجیب کتاب ہے، اس میں ایک شعر ہے فارسی میں، ہمارے استاد مولانا انور شاہ صاحب v فرماتے تھے کہ حقیقت میں اس شعر میں ترجمہ حنیف کا ادا ہوا ہے، وہ کہتا ہے: از یکے گو و از دوئی یکسوئے باش

یک دل و یک قبلہ ویک روئے باش ظاہر وباطن اللہ کے لیے بنادو، حق تعالیٰ کے تمام انبیائo ، تمام صالحین عباد، تمام مامور ہیں اس پر کہ ’’مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ ‘‘ اور اگر اخلاص نہ ہو اور حنیف نہ ہو تو ’’خسر الدنیا والآخرۃ۔‘‘ رضاء الٰہی اللہ کی رضاء جنت سے بھی اعلیٰ چیز ہے، تمام نعم جنت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ہم اگر یہ کوشش کریں کہ سند جلدی مل جائے اور ہم مولانا بن جائیں، فاضل اکوڑہ خٹک بن جائیں، فاضل حقانیہ بن جائیں، بڑی جگہ میں لگ جائیں، سکول میں، کالج میں، مدرسہ میں، مدرس مفتی ہوجائیں، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ دین کا دفاع آپ کا مقصد یہ ہے کہ آپ مجاہد بن جائیں، سپاہی بن جائیں، دین کی خدمت کے لیے اور دین کے مورچہ کا دفاع کریں، وراثت انبیاء ؑ کے آپ محافظ ہیں، سپاہی ہیں، آپ کے پاس مال ودولت دین کی جو آئی ہے اس کی پہرہ داری کرو، اگر آپ بھوک سے مر بھی جائیں تب بھی آپ کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں۔ نصیحت خاص اس وجہ سے آپ کو اور ہم کو، تمام اساتذہ کو، بزرگوں بھائیوں کو یہ نصیحت خاص ہے کہ نیت صحیح کردو، مقصد صرف دین بنادو، اللہ کی رضاء بنادو، پھر آپ کہیں گے کہ ’’فزت ورب الکعبۃ‘‘ خدا کی قسم! میں کامیاب ہوگیا ہوں، اللہ کی رضامندی کا مقصد حاصل ہوگیا تو آپ کامیاب ہوگئے، اس کے بعد اگر اللہ چاہیں گے تو آپ مدرس، عالم، مولانا، محدث بن جاؤگے، ورنہ کامیاب تو آپ ہوگئے ہر حال میں ، اس لیے چاہیے کہ ہم نیت صحیح کردیں، مقصد مدارس کا یہ تھا کہ ہم وارث انبیاء ؑ بن جائیں:’’ان الأنبیاء لم یورثوا دینارا ولا درہما وإنما ورثوا العلم۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث:۲۲۳) انبیاء o کی جو وراثت ہے وہ علم ہے، اس کے محافظ بن جائیں، اگر یہ مقام حاصل ہوجائے تو بہت اونچا مقام ہے، فرشتے آپ کے قدموں کے نیچے پر بچھائیں گے، ادب واحترام کی وجہ سے، کتنا اونچا مقام ہے: نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

قیمت خود ہر دو عالم گفتہ دناء ت وخساست کتنی دناء ت، خساست، شقاوت اور کتنی محرومی ہے کہ اتنی اونچی جگہ ملنے کے باوجود ہم سو دو سو کی نوکری کو ترجیح دیں، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔اس وجہ سے ’’أوصیکم بتقویٰ اللّٰہ‘‘ مقصد یہ ادارہ، مدارس، عمارات، انتظام نہیں ہے، بلکہ مقصد اللہ کی رضاء ہے، ہم ضعفاء ہیں، ہم کمزور ہیں، ہمارے اکابر wنے جو مشقت اور جو تکالیف اٹھائی ہیں، ان کے برداشت کی ہم میں طاقت نہیں، اس لیے اللہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمادے، آمین۔ ہم آج عہد کرتے ہیں کہ دین کی خدمت کے لیے تیار رہیں گے، اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کرنے والوں کے درجات بلند فرماوے، آمین ۔ أللّٰہم اھدنا وسدّدنا أللّٰہم علمنا ما ینفعنا وزدنا علما وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین وصلی اللّٰہ علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و آلہ وأصحابہ أجمعین۔                                (بشکریہ: خطباتِ مشاہیر، ج:۳،ص:۳۱۰-۳۱۵)

 

 

 

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین