بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

بینات

 
 

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کیوں؟! واقعاتی تناظر میں چند اسباب


امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کیوں؟!

واقعاتی تناظر میں چند اسباب


جب حرص و ہو اور فا نی لذتوں کے انہماک نے دنیا کی اخلاقی حالت بالکل تباہ کر رکھی تھی، آسمانی کتابوں کے چہرے مسخ کیے جا چکے تھے، جتنے چراغ تھے سب گل ہو چکے تھے اور آفتاب عالمتاب کا انتظار تھا، سرزمینِ عرب میں فاران کی چوٹیوں سے ایک عالمگیر تحریک اُٹھی اور خدا کی آخری ہدایت کا نزول ارضِ حجاز میں ہوا، یہیں سے ابدی صداقت اور لافانی رحمت کے چشمے پھوٹے، بیرونی اقوام اور دشمنانِ اسلام ابتدا میں اس کی ترقی کا اندازہ نہ کرسکے اور وہ ہمسایہ سلطنتیں جو اپنے اپنے خیال میں ایک ناقابلِ زوال مرکزی طاقت تھیں، اس انتظار میں تھیں کہ شاید خود عرب ہی اس انقلابی تحریک کا جواب ہوجائیں، انہیں اس وقت یہ گمان بھی نہ تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب انہی بے سروسامان عربوں کا جھنڈا ان عجمی ممالک پر بھی آلہرائے گا۔
مکہ والے ابھی اپنے اقتدار کے نشہ میں ہی مخمور تھے کہ دیکھتے دیکھتے مکہ فتح ہوگیا اور پھر سارے جزیرۂ عرب پر اسلام کا قبضہ ہوگیا، اسلام کی یہ ترقی قیصرِ روم اور کسرائے ایران کی نگاہوں میں بہت تشویشناک تھی، مگر ایک موہوم اُمید انہیں سہارا دے رہی تھی کہ چونکہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی نرینہ اولاد نہیں، اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر دنیا ایک نیا رخ بدلے گی اور آندھی کی طرح اُٹھنے والی قوم ایک بگولے کی طرح اُڑ جائے گی،یہ بات ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھی کہ جانشینانِ رسالت حضور رحمۃٌ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیغامِ رحمت کو نہ صرف دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں گے، بلکہ عربوں کی اس سیادت اور قیادت کے آگے دنیا کی سب طاقتوں کو سرنگوں ہونا پڑے گا،ان عجمی حریفوں اور ہمسایہ سلطنتوں کی تمام اُمیدیں خاک میں مل گئیں، جب انہوں نے دیکھا کہ اس مرکزِ رحمت اور پیغمبر خاتم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے جانشینوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقصدِ بعثت کے ساتھ پوری وفا کی اور جذباتِ غم جدائی میں کھونے کے بجائے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دفن کرنے سے پہلے پہلے یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ یہ تحریک کس نظامِ ملی کے ساتھ جاری رہے گی، وہ دشمن جو گھات لگا کر وقت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگے، انہیں سب سے زیادہ رنج اس بات کا تھا کہ اصحابِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے دفن سے پہلے پہلے نظامِ خلافت کے سربراہ کا انتخاب کیوں کرلیا ہے؟ کیوں نہ مسلمانوں کو کچھ وقت کے لیے لاوارث چھوڑ دیا گیا، تاکہ دشمنانِ اسلام اپنے خوابوں کی کوئی تعبیر دیکھ سکتے۔ رب العزت کی کروڑوں رحمتیں ان نفوسِ قدسیہ پر جنہوں نے غم و ماتم کا شکار ہونے کے بجائے زندہ قوموں کی طرح اپنی زندگی باقی رکھی ۔ 
سلطنتِ اسلام کے اس تحفظ سے اہلِ اسلام کے قدم کچھ آگے بڑھے اور جب سلطنتِ ایران اور دولتِ یونان ضربِ فاروقی کے ایک ہی صدمہ سے پاش پاش ہوگئیں تو پھر ان ناکام تمناؤں نے انداز بدل کر کلمۂ اسلام کا اقرار کیا اور پھر مارِ آستیں بن کر تحریکِ اسلام کی بیخ کنی پر اُترے، اسلام کی ترقی اور ملت کی مرکزیت چونکہ نظامِ خلافت سے وابستہ تھی اور گلہ بان کی موجودگی میں کوئی بھیڑیا تحریکِ اسلام کے اس ریوڑ پر حملہ آور نہ ہوسکتا تھا، اس لیے ان دشمنانِ اسلام کا پروگرام یہی بنا کہ خلافت کو بدنام کیا جائے، اب ان کی تحریک‘ رسالت کے اقرار اور خلافت کی مخالفت کے عنوان سے چلنے لگی۔ 
حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کا پہلا سبب یہ تھا کہ عربوں کو ایران و عجم پر تفوق کیوں مل رہا ہے؟ اور عالمی قیادت اور سیادت عربوں کے حصے میں کیوں آرہی ہے؟ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی ذات گرامی میں اگر واقعی کوئی کمزوری ہوتی تو ان کے خلاف عرب سے ہی کوئی آواز کیوں نہ اُٹھتی؟ پس جبکہ یہ مخالفانہ ہوائیں ان حریف ملکوں سے چلیں تو یہ بات ایک امر یقینی ہے کہ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی یہ مخالفت عربوں کے خلاف محض ایک سیاسی رقابت کا نتیجہ تھی۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہایت واضح الفاظ میں اسلام کے قیصر و کسریٰ پر غالب آنے کی پیشگوئی فرماچکے تھے، جنگِ خندق کے دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خندق کھودتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اس ضرب میں کسریٰ اور قیصر کے خزانے مجھ پر فتح ہوتے دکھائے گئے۔‘‘ پھر فتحِ ایران نے جانشینانِ رسالت مآ ب  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قدم چومے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ پیش گو ئیا ں ایک شانِ اعجاز کے ساتھ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں پوری ہوئیں، حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی خلافت اور سیادت اگر کسی درجہ میں بھی مشتبہ ہوتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس عہد میں ہونے والے ان کارناموں کو اپنی طرف نسبت نہ فرماتے ۔ 
ایران فتح ہوگیا، لیکن فتوحاتِ فاروقی کی تیز رفتاری کے باعث ان نئے مفتوحہ علاقوں کی ذہنی تربیت کی طرف پوری توجہ نہ دی جاسکی،عوام اسلام کی اس عالمی تحریک کو عربی عجمی کشمکش کی مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے لگے،یہ احساسِ شدید ان کے دلوں کو بری طرح زخمی کر رہا تھا کہ عربوں کو ایرانیوں پر یہ سیاسی تفوُّق کیوں حاصل ہورہا ہے؟! دشمنانِ اسلام نے ایرانیوں کے اس نفسیاتی تقاضے کا پوری طرح فائدہ اُٹھایا اور کلمہ گویانِ اسلام کے ایک پورے طبقے کے سامنے حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کو ایک غاصب، جابر اور غیرملکی حکمران قرار دیا، یہ لوگ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  پر غصبِ خلافت کا الزام لگاتے تھے، لیکن اس اندیشے سے کہ کہیں ان کا اقرارِ کلمہ ہی بے اعتبار نہ ہوجائے، جبر و غصب کے مظلوم شاہانِ عجم کو قرار دینے کی بجائے بنوہاشم کی مظلومیت اور ان کے استحقاقِ خلافت کے دعوی کا غلط پروپیگنڈا کیا، لیکن جب بھی ان لوگوں کو موقع ملتا اندر کی بات اُگل دیتے، قومی افتخار کے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے تاریخ میں جھوٹ ملانا ایرانیوں کے نزدیک ایک قومی خدمت ہے ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کے اسباب میں ہمارے نزدیک پہلا اور بنیادی سبب وہی ہے جو ایک غیر جانبدار تنقیدی نگاہ کا فیصلہ ہے، یہ فاضل روزگار ایڈورڈ براؤن کی رائے ہے،وہ لکھتے ہیں کہ خلفاء راشدینؓ میں سے دوسرے خلیفہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے جو اہلِ عجم متنفر ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  غارت گرِ عجم تھے، اگرچہ اس نفرت کو مذہبی رنگ دے دیا گیا، لیکن اصل حقیقت اندر سے صاف نظر آتی ہے۔
پھر اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایرانیوں کو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے جو عداوت ہے، اس کا سبب یہ نہیں کہ انہوں نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اور حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے حقوق کو غصب کیا، بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے ایران کو فتح کر کے ساسانی خاندان کا خاتمہ کیا۔ ایرانیوں کی یہ غیر معمولی عصبیت جس نے ایک  مذہبی فرقے کی شکل اختیار کرلی اور آخرکار اس سیاسی اور نظریاتی شکست کا سامانِ تسکین فاتح ایران کی تنقیص و توہین قرار دیا گیا،سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ تھی، چنانچہ جب حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  نے بنفسِ نفیس جنگ فارس میں قیادت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے اسے شانِ مرکزیت کے خلاف سمجھتے ہوئے آپ کو جانے سے روکا، اس وقت آپ نے یہ بھی عرض کی تھی کہ بیشک جب ایرانی آپ کو دیکھیں گے تو کہیں گے: یہی عربوں کی جڑ ہے، پس اگر اس جڑ کو کاٹ ڈالو تو ہمیشہ کا آرام پاؤگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی نظرِ بصیرت سے جنگِ فارس کے نتائج میں عربی عجمی کشمکش کا انداز بھانپ رہے تھے۔ 
حاصلِ کلام یہ کہ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کا پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ فاتحِ ممالکِ عجم تھے اور ایرانی اقوام اس بات کو برداشت نہ کر سکتی تھیں کہ عربوں کو ان پر کوئی سیاسی تفوُّق حاصل ہو، یہ وہ جذبہ تھا جو مرکزِ ملت حضرت عمرفاروق  رضی اللہ عنہ  کی دبی مخالفت کی صورت میں جلوہ گر ہوا، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی۔ 
حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی فتح ایران سے پہلے ایران میں ساسانی خاندان کی حکومت تھی، ساسانیوں کا طرزِ حکومت عربوں کے طرزِ حکومت سے بنیادی طور پر مختلف تھا، ساسانی بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا یا ربانی وجود کہتے تھے اور صرف آلِ ساسان کو ہی عجمی تاج پہننے کا حق حاصل تھا اور کسی خاندان کے کسی فرد کا اس منصب پر فائز ہونا نہ صرف بالائے فہم، بلکہ بالائے وہم سمجھا جاتا تھا۔  اس کے بالمقابل عرب جنہوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے کبھی کسی کی قیادت قبول نہ کی تھی،کسی ایسے نظامِ حکومت کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے جو نسلی امتیازات پر مبنی ہو، بلکہ وہ فطرتاً جمہوریت پسند تھے، ہر قبیلے کا اپنا اپنا سردار ہوتا تھا اور اسے کسی قسم کی نسلی مرکزیت کے ماتحت نہ سمجھا جاتا تھا، جب وہ لوگ دولتِ اسلام سے بہرہ مند ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کے قیام کے باوجود عربوں کی اس فطری جمہوریت پسندی کو قائم رکھا، اللہ جل جلالہٗ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو (باوجود یہ کہ آپ نبی تھے، مگر آئندہ کے لیے ایک اصول قائم کردینے کے پیش نظر) خالص دنیوی معاملات میں شوریٰ قائم کرنے کا حکم دیا، قرآن پاک میں ہے : ’’وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ‘‘ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد چونکہ دین مکمل اور شریعت محفوظ تھی، اس لیے کسی قسم کے آسمانی منصب کی ضرورت باقی نہ رہی تھی، پس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد امیر کا انتخاب بھی شوریٰ پر مبنی قرار پایا، سلسلۂ نبوت کے ختم ہوجانے کے با عث یہ منصب ایک خالص ارضی منصب رہ گیا تھا، امیر کی ضرورت صرف اس لیے تھی کہ وہ سلطنتِ اسلامیہ کا انتظام کرے اور اللہ تعالیٰ کی حدیں قائم ہوں۔
خلفائے راشدینؓ کی خلافت بھی بشمولیت حضرت علی  رضی اللہ عنہ  جمہوریت اور شوریٰ پر ہی مبنی تھی، یہ عرب لوگ جب سرزمینِ ایران میں داخل ہوئے تو عربو ں اور ایرانیوں کا امتزاج دو زبردست سیاسی اصولوں کا ٹکراؤ تھا جسے وقتی طور پر تو دب کر تسلیم کر لیا گیا، لیکن آہستہ آہستہ اسی اصولی تنازعہ نے شیعہ اور سنی اختلافات کی صورت اختیار کرلی۔  غیر جانبدار نقاد ایڈورڈ براؤن لکھتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلیفہ یا روحانی جانشین کا انتخاب جمہوریت پسند عربوں کے لیے تو بالکل قدرتی چیز تھا، لیکن ایرانیوں کے نزدیک یہ انتخاب غیر طبعی اور نفرت انگیز تھا، پھر ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کا جھگڑا صرف ناموں یا شخصیتوں کا جھگڑا نہیں، بلکہ دو متضاد اصولوں یعنی جمہوریت اور بادشاہوں کے حقِ الٰہی کا جھگڑا ہے، عرب زیادہ تر جمہوریت پسند ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں، لیکن ایرانی ہمیشہ اپنے بادشاہوں کو الٰہی یا نیم الٰہی ہستیاں سمجھتے رہے ہیں ۔ 
حضرت فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت میں تیسرا سبب یہ ہے کہ ان نسلی اور فکری فاصلوں کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی سبب بھی اس مخالفت میں دخیل رہا، وہ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی منع فرمودہ متعہ کی کارروائی تھی جس نے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کو ایرانی نوجوانوں کی نظر میں ایک بزرگانہ کڑی نظر بنا دیا تھا، ایران میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے ساسانی سوسائٹی متعہ کی خوگر تھی اور اسے مذہبی تقدس حاصل تھا۔ عربی تمدن اور ایرانی تمدن میں اخلاق بھی ایک بڑا فاصلہ رکھتے ہیں، عرب کسی صورت میں متعہ کو باقی نہ رکھنا چاہتے تھے کہ یہ عمل شرفِ انسانی کے یکسر خلاف تھا اور ساسانی تہذیب کے رسیا اسے کسی قیمت پر چھوڑنا نہ چاہتے تھے ۔ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے نہایت سختی سے متعہ سے منع فرمادیا، اس دور میں تو یہ لوگ آپ کے خلاف کچھ نہ کرسکے، لیکن اس میں شک نہیں کہ نا عاقبت اندیش ایرانی نوجوان نفسیاتی طور پر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے مخالف ہوچکے تھے، یہ نفسیاتی وجہ بھی ان اسباب میں سے ہے جس نے ایران میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت کو اور تیز کردیا۔ 
حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی مخالفت میں چوتھا سبب ان کا یہود کو خیبر سے نکالنا ہے، یہ یہودیوں کو پورے عرب سے بے دخل کرنے کا سیاسی خاکہ تھا جو حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  نے خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے لیا تھا۔ اب یہودیوں کے لیے کوئی اور صورتِ عمل باقی نہ رہی تھی، سوائے اس کے کہ منافقانہ طور پر اسلام میں گھس آئیں اور پھر مسلمانوں میں حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کے خلاف سازش اور ذہن سازی کریں اور جب انہیں کوئی راہ نہ ملے تو اسلام کے نظامِ خلافت کو تہ و بالا کردیں،اس تحریک میں جو شخص آگے بڑھا اس کا نام عبداللہ بن سبا ہے،صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے خلاف کام کرنے والوں اور خلافتِ راشدہ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو اسی نسبت سے سبائی کہتے ہیں ۔ 

فاروق! فخر و ناز رسالت تم ہی تو ہو

سرمایۂ خلوص و محبت تم ہی تو ہو 
حقا دعائے قلبِ نبوت تم ہی تو ہو 

واللہ! کبریا کی مشیت تم ہی تو ہو 
ہے فخر مصطفیٰ ؐ کو تیرے صدق و عشق پر

نازاں ہے جس پر تختِ خلافت تم ہی تو ہو 
ملت کو تیری ذات سے حاصل ہوا عروج

دینِ ہدی کی عزت و عظمت تم ہی تو ہو 
سینوں سے کر کے دور کدورت کو رنج کو

جس نے دیا پیامِ محبت تم ہی تو ہو 
کفار کے دلوں میں ہے اب تک تیرا ہی خوف

مشہورِ خلق جس کی ہے ہیبت تم ہی تو ہو 
تسخیرِ مصر و شام اور ایران و روم سے

جس کی عیاں ہے شوکت و سطوت تم ہی تو ہو 
تدبیر و عقل و حکمت و دانش سے بے شبہ

جس نے مٹائے کفر و ضلالت تم ہی تو ہو 
دے کر شاہِ ایران کی دختر حسینؓ کو

جس نے دیا ثبوتِ محبت تم ہی تو ہو 
صدیقؓ جانثار کی مانند بعد مرگ

جس کو کل ہے شرفِ معیت تم ہی تو ہو 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین