بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

امتناعِ رِبا ... وفاقی شر عی عدالت کا فیصلہ ... توقعات و خدشات


امتناعِ رِبا ... وفاقی شر عی عدالت کا فیصلہ 

توقعات و خدشات


وفاقی شرعی عدالت نے مؤرخہ۲۶؍رمضان ۱۴۴۳ھ کو وطنِ عزیز میں سود کے خاتمے کا خوش کن، خوش آئند اور خوشنما فیصلہ صادر فرمایا، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامیت اوراس کے فروغ کو ہمیشہ پاکستان کا مقصدو مقدر سمجھ کرسراہا جاتاہے، اس فیصلہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا، سمجھا اور عام کیا جارہاہے، مختلف اہل ِعلم اور اربابِ دانش کے قیمتی نقطہائے نظر سامنے آچکے ہیں اور آرہے ہیں۔
اسلامیانِ پاکستان اس فیصلے سے جتنی خوشیاں اور توقعات قائم کیے ہوئے ہیں، اس سے بڑھ کر بعض دوراندیش حلقے اس نوعیت کے سابقہ فیصلوں کے تاریخی تناظر میں کچھ ایسے خدشات بھی سامنے رکھ رہے ہیں، جو اس نکتے پر مبنی ہیں کہ ماضی کی طرح یہ فیصلہ بھی بعض فنی یاانتظامی پیچیدگیوں کی نذر ہوکر بے اہمیت ہوسکتاہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔
اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کی شروعات سے قبل اس فیصلے کےبارے میں توقعات اور خدشات کا واقعاتی اور فقہی جائزہ لیا جائے، ممکن ہے بااثر سنجیدہ حلقے ایسے اُمور کا مخلصانہ اور خیرخواہانہ جائزہ لے کر ا س فیصلے اوراس طرح کے دیگر قابلِ تعریف فیصلوں کوان کی حقیقی افادیت سے ہم کنار کرنے میں کردار ادا کرسکیں۔
بلاشبہ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ مجموعی لحاظ سے قابلِ تعریف ہے اور اس کے مندرجہ ذیل تعریفی وتحسینی گوشے بالکل واضح ہیں:
1:    اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں اور معاملات میں چوں کہ سب سے زیادہ سنگینی‘ رِبا کے بارے میں وارد ہوئی ہے، امتناعِ رِبا کا یہ حکم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عظیم منشا کی تکمیل ہے جو ہر مسلمان کا اولین فریضہ او ر ایمان کا تقاضا ہے، اس فیصلےکو یہاں تک پہنچانے والے تمام محرکین بالخصوص اس فیصلے میں شریک جج صاحبان اور ان کے علمی، قلمی او ر قانونی معاونین سب ہی اجروثواب اور شکر وسپاس کے مستحق ہیں۔
2:     یہ فیصلہ صرف حرمتِ رِبا کے بیا ن تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسلام کے مکمل نظام کی ترویج وتنفیذ کی ترغیب و تلقین سے بھی معمور ہے، اس ترغیب وتلقین کاواضح مفادیہ سمجھنا چاہیے کہ رِبا اپنی ادارتی شکل (بینکاری) سے اگر ختم ہو بھی جائے تومعلوم ہو نا چاہیے کہ اسلام کا معاشی نظام صرف نقدی کے لین دین کےاحکام تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسانی معاش کے تمام ذرائع کے بارے میں حلت و حرمت کی تفصیلات کا حامل بھی ہے، ان تفصیلات سے آگاہی اور ان کی معاشی تطبیق بھی امرِ شرعی اور ملکی قانون کا درجہ رکھتی ہے، چنانچہ اس فیصلے کےاچھے اثرات کے طور پر شعبۂ معاش کی ہرشاخ سے وابستہ لوگوں کو اپنے اپنے ذرائعِ معاش میں حلال وحرام کی پاسداری کرناہوگی۔
3:    عدالتی فیصلے میں سود کے رائج الوقت نظام کی موجودگی پر اسلامی وقانونی نقطہ ہائے نظر سےتحفظات کا متعددبار اظہار فرمایا گیا ہے، جو اس لحاظ سے خوش آئند اور قابلِ تقلید ہے کہ ہمارے قانونی اور انتظامی امور میں شرعی عدالت کے معززجج صاحبان کی طرح دیگر اہلِ علم اور اصحابِ رائے بھی اس کارِ خیر میں اپنا اپنا حصہ ملا رہے ہیں، کیوں کہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اسلامی پاکستان کے مسلمان حکمرانوں کو شریعت اور قانون کی روشنی میں رِبا کے نظریاتی و انتظامی خطرات سےضرور آگاہ کرتے رہا کریں، بالخصوص سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر دینی راہ نمائی کی مجاز اتھارٹیز کو اس حوالے سے بیدار رہنا چاہیے۔
4:    مذکورہ فیصلے میں بینکاری سودسے احتراز کے حکم کے ساتھ ساتھ اسلامی متبادل کی طرف جانے کی تلقین بھی بارہا فرمائی گئی ہے، یقیناًکوئی بھی احترازی حکم، اس کے متبادل کی تلقین اور اس تک رسائی کے بغیر غیر مفید، غیرمؤثر بلکہ ناقص ہی شمار ہوگا، گو متبادل کی پیش کردہ نفس الامری مثالیں اور مجوزہ راستہ بجائے خود محلِ بحث ہے، جس پر آگے گفتگو کریں گے، ان شاءاللہ ۔
5:     یہ عدالتی فیصلہ جہاں تک ہم نے دیکھا اور سمجھا ہے ان اشکالات اوراعتراضات سے بھی تعرُّض کررہا ہے، جو اعتراضات لگاکر ۲۰۰۲ء میں سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ کے تاریخی فیصلے کو نظرِثانی کے لیے واپس کیا گیا تھا، جس کی نظرِثانی پر دو دہائیوں کا وقت لگا اور آج یہ فیصلہ دیکھنے کو میسر آیا۔
تاہم یہ اعتراضات زیادہ تر قانونی یا انتظامی نوعیت کے تھے، اب یہ فیصلہ قانونی ماہرین اور انتظامی ذمہ داروں نے دینا ہےکہ آیا وہ اعتراضات واقعاتی نوعیت کے تھے یا امتناعِ رِبا کے حکم اور اثر سے فرار کے بہانے تھے۔ موجودہ عدالتی فیصلہ بظاہر اس تشخیص وتعیین سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خاموش ہے، جو کہ باعث ِ تشویش بھی ہے، علاوہ ازیں اس فیصلے کی بابت چند مزید تشویشات بھی درپیش ہیں جو اس فیصلے کو ہر فورم پر مؤثر اور قابلِ قبول بنانے میں حائل ہیں، جن کا ازالہ درکارہے، مثلاً:
۱:     وطنِ عزیز میں نفاذِاسلام اور احکامِ اسلام کے فروغ کی کوششیں اور باتیں تقریباً ہردور میں ہوتی رہی ہیں، ہماری معزز عدالتوں نے اس سے قبل بھی اس نوعیت کےکئی گراں قدر فیصلے صادر فرمائے تھے، مگرحکامِ وقت نے ان فیصلو ں کو تنفیذو پذیرائی بخشنے کی بجائے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بلکہ مجرمانہ رویے اپنائے تھے، جن کی پاداش میں وہ فیصلے محض دستاویزات بن کے رہ گئے۔ اگر حالیہ فیصلے کے بارے میں حکامِ وقت نے یہی سابقہ روش باقی رکھی تو یہ فیصلہ بھی سابقہ دستاویزات میں اضافہ کے بجز کچھ نہیں ہوگا۔ عدالتِ عالیہ کے حالیہ فیصلے میں اگراس نوعیت کے سابقہ فیصلوں اور حکمرانوں کے رویوں کی تاریخ کااعادہ نہ کرنے کی بابت کوئی حکم ہوتاتو یہ فیصلہ شاید سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کی طرف گامزن ہوسکتا، مگر خدشہ یہی ہے کہ یہ فیصلہ بھی ماضی کی تاریخ کا حصہ بننے جارہا ہے، اس کی کوئی روک تھا م ہو سکے تو کرنی چاہیے۔
۲:     اس فیصلے پر ماضی کے تناظر میں تشویشات اس لیے بھی زیادہ محسوس ہورہی ہیں کہ گزشتہ ادوار میں ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے فیصلہ اور مشورے کے ہمراہ موجودہ سود ی سیٹ اَپ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مدت و مہلت مقرر کی جاتی تھی، کبھی۰ ۹دن، کبھی سال اور کبھی تین سال، مگر حالیہ فیصلے میں یہ مدت ۵سال تک وسیع کی گئی ہے(۱)، اس مہلت کے بارے میں جہاں ماضی کے تناظر میں کسی مثبت نتیجے اور مطلوبہ اقدامات کی بجائے تاخیری حربوں کی فعالیت کے لیے استعمال ہونے کاقوی خدشہ ہے، اس سے بڑھ کریہ کہ رِبا کے معاملے میں ایسی مہلت دینا شرعاً بھی ناجائز ہے، کیوں کہ جو رِبا شریعت میں بڑی وضاحت کے ساتھ حرام ہے، اسی طرح جس رِبا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر بلامہلت ہمیشہ کے لیے حرام قراردیا ہے، ہم اسی رِبا کو رِبا تسلیم کرتے ہوئےکسی مدت تک برقرار رکھنے کی اجازت کیسے گوارا کرسکتے ہیں؟ اسی وجہ سے ہماری عدالتیں بھی اسے بارہا حرام اور واجب الترک قرار دے چکی ہیں، ایسے شرعی وقانونی حرام کو ایک عرصہ تک برقرار رکھنے کے لیے قانونی اجازت دینا، قرآن وسنت کی بالا دستی کے نظریےپر مبنی آئینِ پاکستان کے منافی بھی ہے۔
۳:     فاضل عدالت نے رِبا سے متعلق سابقہ اور حالیہ تمام اشکالات کا عملی جواب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کو قرار دیا ہے اور بعض بینکوں کے نام لے کر اُن کی تحسین بھی فرمائی ہے، بلکہ مختلف اندازسے روایتی بینکاری سے سودی خاتمے کے بعد مروجہ غیر سودی بینکاری کی چھتری تلے جانے کی ترغیب کا تأثر اس فیصلے میں بہت عام ہے، جس سے یہ تأ ثر ملتاہے کہ گویا روایتی بینکاری سے سود کے خاتمے کا حکم مروجہ غیر سودی بینکاری کے فروغ و فعالیت جیسے مقاصد کے تحت دیا جارہا ہے، اور ان دونوں قسم کے بینکوں کے درمیان سرمایہ کارانہ کشاکشی میں غیر سودی بینکاری کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ جو طبقے دونوں قسم کے بینکوں کو سرمایہ کاری اور نفع اندوزی کے ایک جیسےطریقےسمجھتے ہیں، دریں حالت ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوگا، اور وہ یہ کہہ سکیں گے کہ حالیہ فیصلے میں سرمایہ کاری کی دوڑ کے اندر شریک دو اداروں میں سے ایک کے ساتھ ہمدردی پائی جا رہی ہے۔
۴:      یہ تشویش اس لحاظ سے بھی قوی معلوم ہوتی ہےکہ ہمارے علم کے مطابق اس کیس کی پیروی کرنے والوں میں ایسے افراد یا تنظیموں کے نمائندے بھی شریک تھےجو مروجہ غیر سودی بینکاری کی بابت شرعی وفنی لحاظ سے سخت قسم کے تحفظات کے حامل ہیں۔ یہ احباب حالیہ فیصلے کے خاتمۂ سودوالے حصے کو جہاں اپنی بڑی کامیابی سمجھیں گے، وہیں دوسرے لمحے وہ غیر سودی بینکاری سے متعلق عدالتی ریمارکس سے متأثر بھی ہوں گے۔ ہمارے علم کے مطابق ایسے احباب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مروجہ غیر سودی بینکاری درحقیقت روایتی بینکاری کی سیف سائیڈ ہے، سرمایہ دارانہ معیشت کو اسلامی لبادے میں دوام بخشنے اور تحفظ دینے کا عمل ہے، ظاہر ہے یہ ایسی تشویش ہے جسے اس نوعیت کے اہم فیصلوں میں نظرانداز کرنا عدل اوراعتدال سے محرومی کا احساس پیدا کرتاہے۔
چنانچہ ملک سے سود کے خاتمے کے حالیہ فیصلہ میں امتناعِ رِبا کے ساتھ ساتھ مروجہ غیر سودی بینکاری کی ترغیب وتلقین، امتناعِ رِبا کے میدان میں فعالیت سے کام کرنے والے ایک طبقے کو مخمصے سےدوچا ر کر رہی ہےاور اس فیصلے کے عمل درآمدمیں امتناعِ رِبا کے محرکین کی عدمِ دلچسپی بلکہ دوری کا باعث ہے، حالیہ فیصلہ اگر امتناعِ رِبا تک محدو د ہوتا تو مروجہ اسلامی بینکاری کے بارے میں تحفظات رکھنے والے احباب کو اس فیصلہ سے متعلق کسی کے نوازے جانے اور کسی کے متأثر ہونے کا بے محل تأثر نہ ملتا، یہ خدشہ درحقیقت دینی خدشہ ہے جس کا لحاظ رکھنا شرعاً و قانوناً ضروری ہے۔
۵:     حالیہ فیصلے میں غیر سودی بینکاری کو جس قدر اسلامی متبادل اوراسلام کا مثالی، قابلِ عمل اور معمول بہٖ معاشی نظام قرار دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بجاطور پر اس سے متعلق شدید تحفظات کا تذکرہ بھی سوالات کے ضمن میں کیا گیا ہے، مگر وہ تحفظات اہمیت آمیز انداز میں مذکور نہیں(۲)۔ عدالتی فیصلے میں توازن کے لیے ضروری تھا کہ ان تحفظات کو بھی اسی شدت کے ساتھ بیان کیا جاتا، جتنی شدت کے ساتھ ترغیب و حمایت مذکور ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اُمید کی جاسکتی تھی کہ یہ فیصلہ متوازن ہے، بادی النظر میں غیر متوازن کا تأثر نہ ہوتا۔
۷:     عدالتِ عالیہ اور دیگر متعلقہ احباب بخوبی آگاہ ہوں گے کہ مروجہ غیر سودی بینکاری پر جہاں فنی اور انتظامی لحاظ سے ناقابلِ انکار تحفظات ہیں، ان سے کہیں زیادہ شرعی و فقہی اعتبار سے تحفظات بھی موجود ہیں، جو ہمارے معاشرے او ر حالیہ فیصلے میں خاص توجہ سے محروم نظر آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان نام نہاد غیر سودی بینکوں کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے اس فقہی پہلو کی بجائے ان بینکوں کے سرمایہ کارانہ 'نموّاور پھیلاؤ کو تو دیکھا جارہا ہے، مگر یہ غور بالکل نہیں کیا جارہا کہ اس 'نموّ اور پھیلاؤ کا اصل محرک اسلامی ہونا ہرگز نہیں، بلکہ اس کا حقیقی محرک اچھی بینکاری ہونا ہے۔ یہ بینک 'اچھے بینک کہلانے کے حق دار تو ہوسکتے ہیں، مگر اسلامی ہونے کے حق دار قطعاً نہیں، مثلاً:
الف :    مروجہ اسلامی بینکاری کے آغاز میں اصولی و نظریاتی طور پر یہ واضح کہا گیا تھا کہ بینکاری سود کا حقیقی مثالی متبادل اسلامی عقود میں سے صرف شرکت و مضاربت ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ بیع مؤجل، مرابحہ مؤجلہ یا اجارہ کے نام سے جن عقود کو بینکاری سود کی تقریبی شکل میں مخصوص ساخت کے ذریعہ محض عارضی، عبور ی اور وقتی حیلے کے طور پر اپنا یاجارہا ہے، وہ اپنی مجوزہ شکلوں کی بنیاد پر دائمی نظام بن کر سود کو چور دروازے سے داخل کرنے کا ناروا حیلہ ثابت ہوں گے۔ یہ تفصیل اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں درج ہے۔(۳) آج مروجہ اسلامی بینکاری اسی چور دروازے (خود ساختہ مرابحہ و اجارہ) کے راستے سے سرمایہ کاری و نفع اندوزی میں مصروفِ کار ہے۔ جن تمویلی بنیادوں کا اپنی حقیقتِ کذائیہ کے ساتھ سود کا چور دروازہ ہونا اصولی و نظریاتی طور پر طے ہوچکا تھا، اب اسے اسلامی بینکاری قرار دینا یا قابلِ تحسین و لائقِ تقلید کہنا ہماری رائے میں قطعی درست نہیں ہے۔
ب:    مروجہ اسلامی بینکاری میں بنیادی تمویلی طریقوں کے طور پر مرابحہ، اجارہ، اور شرکتِ متناقصہ کے نام سے جو نفع اندوز شکلیں رائج ہیں، یہ اپنی خاصیات، ساخت اور نتائج کے اعتبار سے اسلامی عقود کی بجائے بالترتیب روایتی سودی قرضے، لیزنگ اور ہاؤس فائنانس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کے لیے بینکاری کے عملی نظام سے وابستہ احباب اور ان عقود کو اسلامیت کا درجہ دینے والے ’’شرعی معیارات‘‘ (AAOIFI)کے مجموعہ میں دیکھا جاسکتا ہے، جہاں غیر جانب دار قاری یہ واضح طور پر محسوس کرے گا کہ مرابحہ فقہیہ اور مرابحہ مصرفیہ، (۴)نیز اجارہ فقہیہ اور اجارہ مصرفیہ کے باہمی فروق وامتیازات واضح اعترافات کے ساتھ موجود ہیں، بلکہ خود ہمارے ہاں کے بعض معتبر و متدین اہلِ علم کی تحریرات میں بھی واضح طور پر یہ لکھا ہوا ہے کہ بینکوں میں برتا جانے والا مرابحہ نامی عقد در حقیقت مختلف عقود کا ایک پیکج ہے، مرابحہ اور اس جیسے دیگر فقہی عقود کو بینکاری میں قابلِ عمل بنانے کے لیے کچھ اضافی تصوُّرات شامل کیے گئے ہیں، (۵) ظاہر ہے کہ ان اضافی تصورات کی ضرورت اسی لیے پیش آئی کہ ان فقہی عقود کو اپنی ہیئتِ کذائیہ کی بجائے بینکاری نظام کی عملی شکل کو اپنانے کی غرض سے قابلِ عمل بناناتھا، بایں معنی مختلف عقود کا جو پیکج فقہی مرابحہ پر اضافی تصورات کے آمیزے کے ساتھ بینکنگ سیکٹرزمیں برتا جارہا ہے، اسے تو لفظی اعتبار سے مرابحہ کہنا بھی غلط ہے، چہ جائیکہ اسے شرعی یا فقہی مرابحہ کا نام دیا جائے، کیوں کہ فقہی مرابحہ تو متعدد/مختلف عقود کا پیکج نہیں ہے، بلکہ وہ تو ایک عام سادہ بیع ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقود کے ناموں کے ساتھ موجودہ بینکاری نظام کو جس طرح فعالیت اور ترویج دی جارہی ہے، اس میں بینکاری کا عنصر غالب اور اسلامیت کا عنصر برائے نام ہے۔ ایسے نظام کی ترغیب و تلقین فقہی لحاظ سے اسی ردِعمل کی حقدار قرار پائے گی جس کا سامنا اس بے بنیاد متبادل نظام کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ج:     مروجہ اسلامی بینکاری کو اپنے آغاز میں ’’حیلہ‘‘ کہہ کر یوں قبول کروایا گیا تھا کہ فقہی حیلے عبوری اور وقتی مشکلات میں قابل قبول ہوا کرتے ہیں، مگر انہیں دائمی نظام بنانے سے احتراز کا حکم بھی موجود تھا، جبکہ موجودہ غیر سودی بینکاری ہماری رائے کے مطابق فقہی حیلے کے زمرے سے بھی کوسوں دور جاچکی ہے، حیلہ بایں طور کہا گیا تھا کہ اگر سودی قرضے کے متبادل کے طور پر بینک اپنے کلائنٹ کو مطلوبہ چیز کی خریداری کروادے اور قرض کی اسی رقم پر جتنا سود بنتا ہے اس کے بقدر مطلوبہ چیز کا منافع رکھ لیا جائے تو یہ سود کا حیلہ بنتا ہے۔ 
 آگے جانے سے قبل یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ بینک کے قرض خواہ کو اس کی مطلوبہ چیز خریداری کروانے کو حیلہ کس بنیاد پر کہا جاتاہے؟ اس کا جواب واضح ہے اور ہمارے علماء سے لے کر نظریاتی کونسل کے معزز ممبران تک سب نے اس سوال کے ساتھ جواب بھی لکھا ہے کہ بینک بنیادی طور پر نقدی کی تجارت کا ادارہ ہے، اشیاء کی تجارت کا مجاز ادارہ نہیں ہے۔ (۶)
اشیاء کا طلبگار، بینک کے پاس اشیاء کی بجائے اشیاء کے لیے رقم مانگنے کے لیے ہی آتاہے اوران دونوں کو یہ معلوم بھی ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت اشیاء کی بجائے نقدی کا اُدھار کرتے ہیں، اس رقم سے چیز کی خریداری کے باوجود درحقیقت نقدی پر نفع کمانے کا عمل ہے جو سود ہے اور اس سود کے لیبل سے بچنے کے لیے بینک اور کلائنٹ کے درمیان خریداری کا عمل سود کو حلال کرنے کا ایک بہانہ ہے۔
مگر یہ بہانہ یا حیلہ اپنے فقہی تحقّق کے لیے تین افراد کا محتاج تھا، یعنی فریقین (بینک اور کلائنٹ) کے علاوہ تیسراشخص جو بینک کا وکیل بن کر کلائنٹ کو خریداری کروائے، یہ تھا اس باب کا وہ حیلہ جس کی پاداش میں مروجہ اسلامی بینکاری کو حیلہ پر مبنی غیر سودی بینکاری کہا گیا تھا، اور اس حیلہ کے شرعی وجود کے لیے واضح طور پر کہا جاتا تھا کہ معاملے کے فریقین کے درمیان تیسرا شخص (وکیل) کلائنٹ کے علاوہ ہونا ضروری ہے، ورنہ حیلہ پر مبنی بینکاری‘ روایتی سودی بینکاری سے ممتاز نہیں ہوسکے گی۔
چناں چہ مروجہ اسلامی بینکاری نے اپنے آغاز ہی سے اس ضد پر سرمایہ کاری کی دھن بٹھا رکھی ہے کہ بینک کا وکیل کوئی تیسرا شخص نہیں ہوگا، بلکہ خود کلائنٹ ہی وکیل کا کردار ادا کرے گا۔ کلائنٹ کو وکیل کا درجہ دے کر اس کی مطلوبہ چیز خرید نے کے عمل نے مروجہ اسلامی بینکاری کے نیچے سے حیلہ سازی کی بنیاد بھی ہٹا کر رکھ دی ہے۔ اب ان بینکوں کی فقہی حیثیت متعین کرنے کے لیے کسی قسم کی حیلہ جوئی کی بجائے قرض خواہ (کلائنٹ) کو رقم دے کر اس سے سودی مارکیٹ کے سودی نرخوں کے مطابق سود لینے والے معاملات کے تناظر میں دیکھنا پڑتا ہے۔ بایں معنی مروجہ غیر سودی بینکاری جو اولاً مستقل شریعت کی بجائے حیلہ جوئی پرمبنی عارضی شریعت کے سہارے قائم ہوئی تھی، بعد ازاں اس حیلہ سے بھی تہی دامن ہوکر خالص روایتی سودی بینکا ری کی دوڑ میں شامل ہوکر اسی کے معیارات و ترجیحات کے ساتھ رقم پر نفع کے لین دین تک محدود ہوگئی ہے۔ ’’مرابحۂ مؤجلہ للٓامر بالشراء‘‘ میں بینک اور کلائنٹ کے درمیان تیسر ےشخص کے فقدان سے یہ عقد‘ فقہی اعتبار سے سودی حیلہ بننے کی بجا ئےروایتی سود کی شکل میں برقرار رہا، جب کہ ’’ اجارہ منتہیہ بالتملیک‘‘ اجارہ کی سہولت اور ملکیتی حق کے درمیان معلق و مشروط ہے، جو کہنے کو اجارہ، کرنے کو ملکیتی تصرف ہے، جو لاتعداد فقہی فروع کے علاوہ کثیر تعداد صریح نصوص کے بھی خلاف ہے۔
اسی طرح شرکتِ متناقصہ (Diminishing Musharakah) ہر قسم کی فقہی بنیاد سے محرومی کے علاوہ ’’اجتماعِ صفقتین‘‘ جیسی صریح نصوص سے متصادم ہے۔ ان عقود میں فقہی احکام اور شرعی نصوص کی بجائے بینکاری کی ترجیحات کو فوقیت دی گئی ہے، اس پر عرب وعجم کے لاتعداد علماء کی تحقیقات علمی دنیا میں موجود ہیں، جن کے مطابق مروجہ اسلامی بینکاری کو اسلامی یا غیر سودی قطعاً نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ اس نقطۂ نظر کے مطابق مروجہ غیر سودی بینکاری اس لحاظ سے روایتی بینکاری کے مقابلے میں زیادہ بدتر اور خطرناک ہے کہ وہاں رقم پر نفع اندوزی بے غبار انداز میں بنامِ سود ہورہی ہے اور مروجہ اسلامی بینکوں میں وہی سود اپنے تمام لوازم کے ساتھ اسی مقدار میں اسلامی عنوان سے وصول ہورہاہے، جب کہ غیراسلامی معاملے کا غیر اسلامی عنوان سے استعمال‘ کم درجہ کی برائی ہے اور اسے اسلامی نام اور لبادے میں استعمال کرنا اس سے بڑھ کر برائی ہے۔
نیز اس برائی میں اس وقت شدت آجاتی ہےجب حیلہ جَویانہ تاویلات کے ذریعہ اس برائی کی تقویت وترویج کی کوشش کی جائے، ا س وقت مروجہ اسلامی بینکاری کی صورتِ حال یہی ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری سے ہم دام و ہم گام رکھنے کے لیے فقہی اصلاحی رہ نمائی اور صریح نصوص کو رکیک تاویلات کے ذریعہ رد کرنا معمول بن چکا ہے، جو اِن بینکوں کے اسلامی بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے ہم یہ واضح موقف رکھتے ہیں کہ مغربی بینکاری کے اصول پر سرمایہ کارانہ نموّ اور پھیلاؤ کو اسلامی معاشی نظام کی پذیرائی سمجھنا، سمجھانا اوراس کی ترغیب و تلقین کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
الغرض فاضل عدالت کے حالیہ فیصلے سے مروجہ اسلامی بینکاری کے اسلامی ہونے، اسلامی معیشت کے آئینہ دار ہونے اور روایتی بینکاری کی جگہ لینے کا تأثر فقہی اعتبار سے بے محل ہے۔ عدالتِ عالیہ نے جہاں سودکے فنی و انتظامی امور کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ دیا ہے، وہیں مروجہ اسلامی بینکاری کی ترغیب سے قبل اس کی فقہی تشخیص و تمحیث کو پیشِ نظر رکھا جاتا تو یہ فیصلہ توازن، ہمہ جہتی، ہمہ گیری اور مثبت انجام کا حامل ہوتا، مگر اس پہلو سے صرفِ نظر کے ساتھ، روایتی سود کے متبادل کے طور پر مروجہ غیرسودی بینکاری سے متعلق 'اسلامی معاشی نظام 'اور سود کا واقعی متبادل ہونے کاتأثر، حالیہ عدالتی فیصلے کی پذیرائی اور تنفیذ میں فقہی تحفظات کا باعث ہے۔ بہت ہی مناسب ہوگا کہ مروجہ غیر سودی بینکاری کواسلامی بینکاری اور سودی بینکاری کا ناقابلِ اشکال متبادل قراردینے سے قبل اس بینکاری پر فقہی تحفُّظات کا بغور اور بنظرِانصا ف جائزہ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

حواشی و حوالہ جات

۱:- پیرا 163، ص:296
2:Determination Point-VI:189-206
3: It would be relevant to mention here that the Council in its Report on the Elimination of Interest had suggested that use of the device of the "mark-up" (B‘ai Mu’aijal) be limited to unavoidable cases in the process of switch over to the interest-free system and had warned that" it would not be advisable to use it widely or indiscriminately in view of the danger attached to it of opening a back door for dealing on the basis of interest". It is unfortunate that this warning was disregarded and the Mark-Up system has been made the pivot of the new arrangements. It is even more unfortunate that the system of Mark-Up as adopted in January, 1981 did not conform to the standard stipulations of Bai- Muaijal and contains many features which are patently un-Islamic and involve the charging of compound interest.”
REVIEW OF COUNCIL OF ISLAMIC IDEOLOGY'S REPORT ON THE ELIMINATION OF INTEREST FROM THE ECONOMY June 1980 Page 196 
۴:- دیکھیے: شرعی معیار نمبر: ۸، ضمیمہ (ہ) فرہنگ، 'مرابحہ، ص:۲۴۵، شرعی معیارات :۲۱۷
۵:- اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ایک تعارف، ص:۹۸، ط: مکتبۃ العارفی
۶:- فقہی مقالات، جلد:۲، ص:۲۶۰، ط:میمن اسلامک پبلشرز

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین