بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تدریسی منہج کے اصول

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تدریسی منہج کے اصول

امام بخاری vامت کے ان عظیم محسنوں میں سے ہیں جن کی محنت سے آج بھی امت مسلمہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ آپ کا پورا نام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ جعفی بخاری‘ کنیت ابوعبداللہ اور لقب بخاری ہے۔ ۱۳؍ شوال ۱۹۴ھ کو بخارا میں پیدا ہوئے اور ۲۵۶ھ میں فوت ہوئے۔ امام بخاری vکو اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ اور علم میں ملکۂ تامہ عطافرمایا تھا۔ مطالعہ آپ کے دل و دماغ کی غذا تھی،درس و تدریس آپ کی فطرتِ ثانیہ بن گئی تھی، علمی مشاغل آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، پوری عمر حدیث پڑھی اور پڑھائی، حدیث لکھی اور لکھوائی۔ احادیث میں انتہائی مہارت کی بناپر اس فن کے امام جانے جاتے ہیں۔ جوہستی احادیث کی تدریس میں امامت کے بلند درجہ پر فائز ہو، عظیم محدث،بلند پایہ مربی واتالیق اور منجھے ہوئے استاذ بلکہ استاذ الاساتذہ ہو، اس کے تدریسی تجربات تعلیمی میدان میں ایسی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ادب میں ضرب الامثال۔ امام بخاری v جیسے مثالی استاذ کے تدریسی اصول و قواعد تعلیمی میدان میں معلمین اور متعلمین کے لیے قابل تقلید نمونے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم امام بخاری v جیسے مثالی استاذ کے تدریسی منہج اوراصول کوذکر کریں، تاکہ دینی و عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ امام بخاری vکے تدریسی منہج اوراصول وقواعد سے باخبرہوں اور ان اصولوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے تدریسی اسلوب کو بہتر سے بہتر بنا کر طلبہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاسکیں۔ اس مضمون سے طلبہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ جان لیں گے کہ وہ استاذ کی تدریس سے کس طرح بہتر انداز میں مستفید ہوسکیں گے، اس لیے اس مقالے میں امام بخاری v کی شہرہ آفاق کتاب’’ صحیح بخاری‘‘میں ’’کتاب العلم‘‘ سے ان کے تدریسی منہج کے اصول وقواعد پیش کیے جاتے ہیں: درس سے پہلے طلبہ کے علمی شوق کو ابھارنا امام بخاری v کے تعلیمی نظریات کے مطابق معلم سب سے پہلے شاگردوں کو سبق کی طرف راغب کرے گا، ان کے علمی شوق کو مختلف فضائل اور سابقہ علمی واقفیت سے ابھارے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے باب باندھا ہے:’’باب فضل العلم‘‘ (۱) اس باب کے انعقاد سے امام بخاری v کی غرض یہ ہے کہ معلمین اور متعلمین میں علمی شوق اور علمی رغبت پیدا ہو۔ درس کے درمیان سوال نہ پوچھنا استاذ سے درس کے دوران اگر کوئی شاگرد سوال پوچھے تو معلم اپنے درس کوپورا کرنے کے بعد جواب دے۔ درس کے دوران سوال کرنا آدابِ گفتگو کے خلاف ہے۔ شاگرد کوسبق کے دوران سوال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی شاگرد نے دورانِ درس غلطی سے کچھ پوچھ لیا اور استاذ نے جواب نہ دیا تو یہ  قابل ملامت بات نہ ہوگی۔امام بخاری v نے اس کے اثبات کے لیے حدیثِ اعرابی کو بطورِ استدلال پیش کیا ہے۔ اعرابی نے بیان کے دوران آپ aسے سوال کیا، آپ a نے بیان ختم ہونے کے بعد سائل کے سوال کا جواب دیا۔یہاں یہ قید ملحوظ رہے کہ وہ سوال کچھ اہم اورضروری نوعیت کا نہ ہو، اگر ایسا ہو تو فوراً سوال کرنے کی گنجائش ہے اور معلم کو فوری طور پر جواب دینا چاہیے۔(۲)  جیسا کہ رسول a سے خطبے کے دوران ایک دیہاتی نے سوالات کیے۔آپ a منبر سے نیچے اترے، اس دیہاتی کو جوابات دئیے اور بعد میں خطبہ مکمل کیا۔(۳) سائل کو نہ جھڑکنا مذکورہ حدیثِ اعرابی اورترجمۃ الباب سے امام بخاری v یہ ادب سکھلا رہے ہیں کہ اگر استاذ کے اشتغال کے وقت ان سے سوال کیا جائے تو سائل کو ڈانٹنے اور جھڑکنے کی ضرورت نہیں۔(۴) طلبہ کے استفسار پر ناراض نہ ہونا حدیثِ اعرابی میں سائل امانت کے ضائع ہونے کا مطلب نہ سمجھ سکا، اس نے کہا ’’کیف اضاعتھا؟‘‘ (۵)  اس سے معلوم ہوا کہ اگر متعلم کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے تووہ استاذ سے استفسار کرسکتا ہے اوراس کے استفسار پر معلم کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اگر سوال کا مقصد استاذ کا امتحان لینا یا اس کو پریشان کرنا ہو تو پھر استاذ کی ناراضگی بجا ہے۔(۶) بلند آواز سے درس دینا معلم کو بلند آواز سے درس دینا چاہیے۔بعض اوقات اساتذہ دھیمی آواز سے درس دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ کو سننے میں دقت پیش آتی ہے یا سرے سے طلبہ سبق سن ہی نہیں سکتے۔ اس بات کی تائید کے لیے امام بخاریvنے حضرت عبداللہ بن عمرq کی روایت پیش کی،وہ فرماتے ہیں کہ: ’’ ہم ایک سفر میں رسول اللہ a کے ساتھ تھے، نماز کا وقت ہونے کی وجہ سے ہم جلدی جلدی وضو کررہے تھے، ہم گیلا ہاتھ پائوں پر پھیرنے لگے۔ آپ aنے پکار کر فرمایا:’’ ایڑیوں کے لیے آگ کی وعید ہے‘‘ دو مرتبہ یاتین مرتبہ یہ فرمایا۔(۷) گویا اس حدیث سے امام بخاری v اساتذہ کو ادب بتلا رہے ہیں کہ علمی بات بلند آواز سے بیان کی جائے، تاکہ سب لوگ سن سکیں۔(۸) تدریس کو دلچسپ بنانا تدریس کو دلچسپ بنانا چاہیے، اساتذہ اگر تشحیذ ِ اذہان کے طورپر طلبہ کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کرنا چاہیں توکرسکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۹) امام بخاری v نے استدلال کے لیے رسول اللہ a کا ایک عمل پیش کیا ہے جس کی روایت حضرت عبداللہ بن عمرqنے کی ہے :’’فرماتے ہیں کہ رسول aنے ارشاد فرمایا کہ: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے خزاں میں نہیں جھڑتے، وہ درخت مومن کی طرح ہے، مجھے یہ بتائیے کہ وہ کونسا درخت ہے؟ صحابہ کرامs کادھیان جنگلی درختوں کی طرف گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرqفرماتے ہیں کہ: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن مجھے شرم آئی کہ بڑوں کے سامنے کچھ کہوںتوصحابہ کرام sنے عرض کیا: یار سول اللہ! آپ ہی فرمائیں کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ a نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے‘‘۔(۱۰)اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ تدریس کو دلچسپ بنانے کے لیے بعض اوقات موقع کی مناسبت سے مثال دینا اور کبھی کبھار طلبہ سے پوچھنا چاہیے۔ طلبہ کی علمی آزمائش کرنا امام بخاری vنے اس عنوان سے باب قائم کیا ہے: ’’باب طرح الإمام المسئلۃ علی أصحابہ لیختبر ماعندھم من العلم‘‘۔(۱۱) یعنی ایک استاذ اپنے رفقا کی علمی آزمائش کے لیے کوئی سوال کرے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری v نے وہی مذکورہ ابن عمر q کی کھجور والی روایت بطور استدلال پیش کی ہے۔ گویا یہ حدیث مکرر ہے، مگر عنوان الگ الگ ہے اور سند بھی جدا ہے۔ پہلے باب میں تدریس کودلچسپ بنانے کے لیے بطور مثال اس حدیث کو پیش کیا گیا، جب کہ اس باب میں طلبہ کی ذہنی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ حدیث دوبارہ لائی گئی ہے۔ ترجمۃ الباب سے امام بخاریv کا مقصد یہ ہے کہ استاد کو چاہیے کہ کبھی کبھی طلبہ کا امتحان لے، تاکہ استاد کو کلاس میں طلبہ کے علمی معیار کااندازہ ہوسکے، اساتذہ کا اپنے شاگردوں سے سوالات کرنا بہتر ہے، تاکہ تلامذہ بیدار رہیں اور غفلت میں وقت ضائع نہ کریں۔ (۱۲) تدریس کے طریقے امام بخاری v تدریس کے دو طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ایک یہ کہ استاد درس دے اور شاگرد سنے اور دوسرا یہ کہ شاگرد عبارت پڑھے اور استاد سنے۔ امام بخاری v فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے عالم کے سامنے قراء ۃ پر ضمام بن ثعلبہq کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم a سے عرض کیا:’’ اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ ہم نماز پڑھیں؟آپ aنے فرمایا: جی ہاں!‘‘ تو یہ گویا رسول اللہ a کے سامنے پڑھنا ہے۔ اور ضمام qنے اس بات کی اپنی قوم کو اطلاع دی اوران کی قوم نے اس خبر کو کافی سمجھا۔(۱۳) کلاس روم کے آداب ’’باب من قعد حیث ینتہی بہ المجلس‘‘(۱۴) میں امام بخاری v کلاس روم کے دو آداب بتلا رہے ہیں: ایک یہ کہ اگر کلاس روم میں طلبہ زیادہ ہوں تو بعد میں آنے والے طلبہ کو جہاں جگہ ملے،وہیں بیٹھ جائیں اور اگر قریب بیٹھنے کی خواہش ہو توپہلے آیا کریں۔ دوسرا یہ کہ اگر پہلے بیٹھنے والے اس طرح بیٹھے ہوں کہ اگلی صف میں یا بیچ میں جگہ خالی چھوڑ دی ہو تو بعد میں آنے والا انہیں پھاند کر آگے جاسکتا ہے، اگرچہ تخطی رقاب سے منع کیا گیا ہے، تاہم یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے ہی خود بے تمیزی کی کہ آگے جگہ خالی چھوڑ دی۔ (۱۵) اپنے سے کم سے علم حاصل کرنا ’’باب قول النبیؐ رب مبلغ أوعٰی من سامع‘‘(۱۶)سے امام بخاری v یہ تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم بڑا فہیم و ذکی ہو اوراستاد اس جیسا ہوشیار نہ ہو تواس کو اس استاد سے حصولِ علم میں اعراض نہیں کرنا چاہیے کہ میں تو اتنا فہیم ہوں، بھلا میں اس سے علم حاصل کروں؟ ایسا ہرگزنہ کریں، کیونکہ نبی کریمa کا ارشاد ہے:’’ رب مبلغ أوعٰی من سامع‘‘ بسااوقات وہ جسے حدیث پہنچائی جائے‘ براہ راست سننے والے سے زیادہ حدیث کو یاد رکھتا ہے۔ (۱۷) اس باب میں یہ ترغیب دینا ہے کہ اپنے سے کم سے بھی علم حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بلا امتیاز ہرکسی کو پڑھانا چاہیے ’’ رب مبلغٍ أوعٰی من سامع‘‘ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہورہی ہے کہ معلم کسی کو پڑھانے سے انکار نہ کرے، ہر کسی کو پڑھائے، کیا معلوم کون زیادہ سمجھنے والا ہے۔بعض اوقات شاگرد سمجھ بوجھ کے لحاظ سے اپنے استاد سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ اس سبق سے ایسے فوائد اور معلومات کا ادراک کرلیتا ہے جواستاد نہیں کرسکتا۔ تو ’’رب مبلغٍ ‘‘میں اس طرف اشارہ ہے۔ درس و تدریس کے بغیر محض مطالعہ سے علم حاصل نہیں ہوتا ترجمۃ الباب کے تحت فرمان نبوی ؐ ’’إنما العلم بالتعلم‘‘ (۱۸)سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم تعلّم سے حاصل ہوگا،محض مطالعہ سے کوئی عالم نہیں بن سکتا۔ استاد سے باضابطہ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔یہ بالکل دھوکہ ہے کہ صرف کتب وشروح دیکھ کر استاد سے پڑھے بغیر علم حاصل ہوسکتا ہے۔(۱۹)اس حدیث کی بنا پر فقہا نے لکھا ہے کہ جو آدمی ماہر اربابِ فتویٰ سے تربیت مکمل کیے بغیر صرف کتابیں دیکھ کر فتوے دے، اس کی بات کا اعتبار نہیں کرنا۔ (۲۰) تدریس میں تدریجی طریقہ امام بخاری v نے اس باب کے تحت علماء و ربانیین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ویقال الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ‘‘۔ (۲۱) ’’ربانی اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی علمی تربیت کرے‘‘۔  گویا ان الفاظ سے امام بخاری v کے تدریسی منہج کے وہ اصول معلوم ہورہے ہیں کہ تدریس میں اجمال سے تفصیل،آسان سے مشکل اور کم سے زیادہ کی طرف آہستہ آہستہ سکھایاجائے۔ تدریس میں اہم بات یہ ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو علم کے پیچیدہ مسائل میں شروع سے نہ الجھائیں کہ وہ اُنہیں میں پھنس کر رہ جائیں، بلکہ آسان چیزیں پہلے ہی سکھا دیں، تاکہ شاگردوں کے اندر علم سے محبت بڑھے اوران کے حوصلے میں اضافہ ہو۔(۲۲) تدریس میں طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھنا ایک معلم کو طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سبق پڑھانا ضروری ہے، تدریس میں نہ اتنی طوالت ہو کہ طلبہ میں بوریت پیدا ہو اور نہ اتنا اختصار ہو کہ غبی طلبہ سمجھ نہ سکیں۔ امام بخاری vنے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے باب قائم کیا ہے :’’ما کان النبی a یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفر‘‘۔(۲۳)یعنی نبی کریم a لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی نصیحت فرماتے اور تعلیم دیتے، تاکہ ان کو ناگوار نہ گزرے۔حضرت انس qسے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ’’آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلائو ‘‘۔(۲۴) حضرت ابن مسعودqفرماتے ہیں: ’’ رسول اللہ a ہمیں کچھ دن نصیحت فرمانے کے لیے مقرر کردیتے تھے، ہمارے پریشان ہوجانے کے خیال سے، یعنی آپ aہرروز نصیحت نہ فرماتے‘‘۔(۲۵) تدریس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد سبق پڑھاتے وقت کچھ لطیفے یااشعار وغیرہ بھی سنا دیا کرے، اس طرح ذہن تروتازہ ہوجاتا ہے اور طلبہ بیزاری اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں۔ خود رسول اللہ a مزاح فرمایا کرتے تھے۔(۲۶) تدریس میں طلبہ کی گروہ بندی کرنا ’’فہم فی العلم‘‘(۲۷)سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ لوگ فہم فی العلم میں مختلف ہوتے ہیں، کوئی ذہین تو کوئی متوسط اور غبی، لہٰذا استاد کو سب کی رعایت کرنی چاہیے، ایک اچھے معلم کی یہ خوبی ہے کہ وہ ان تین قسموں میں گروہ بندی کرے اور ہر ایک گروہ کو علیحدہ علیحدہ پڑھائے، یا ایک لیکچر دے، لیکن ان میں سے ان تینوں قسم کے طلبہ کے معیار کا خیال رکھا جائے۔ تعلیم بالغاں ’’تفقہوا قبل أن تسودوا‘‘ سردار بنائے جانے سے پہلے تفقہ حاصل کرو یا یہ سواد لِحیہ سے ماخوذ ہے، یعنی بالوں کی سفیدی سے پہلے علم حاصل کرو۔(۲۸)امام بخاری vفرماتے ہیں کہ حضرت عمرq کے اس قول سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سیادت کے بعد علم نہ حاصل کیا جائے۔ ’’وقد تعلم أصحاب النبی a  فی کبر سنھم‘‘۔ (۲۹)حضور aکے اصحابؓ نے کبرسنی میں تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا ادھیڑعمر والوں کے لیے ان کی کبر سنی علم حاصل کرنے سے مانع نہیں، ان کو بھی پڑھانا چاہیے۔ طلبہ کے درمیان مناظرہ کااہتمام کرنا امام بخاری vنے قصۂ خضر و موسیٰ nمیں حضرت ابن عباس r اور حربن قیس کا مناظرہ ذکرکیا ہے۔ حضرت ابن عباس rحربن قیس کے مقابلہ میں جیت گئے۔(۳۰) اس سے امام بخاری v کے تدریسی منہج کے یہ اصول مستنبط ہورہے ہیں کہ استاد بعض اوقات طلبہ کے درمیان کلاس روم میں کسی موضوع پر مباحثہ کرائے، تاکہ طلبہ کی دلچسپی پیدا ہوجائے اور سبق سننے کے لیے بیدارہوجائیں۔ لیکچر دیتے وقت مثال دے کر طلبہ کو سمجھانا امام بخاری v نے ’’باب من عَلِمَ و عَلَّمَ ‘‘(۳۱)میں ابوموسیٰ اشعریq سے روایت نقل کی ہے کہ آپ a نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے، اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جوزمین پر خوب برسے، بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت سبزہ اور گھاس اُگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں اور کچھ زمین کے خطوں پر پانی پڑا، وہ بالکل چٹیل میدان ہی تھے، نہ پانی کو روکتے ہیں اور نہ سبزہ اُگاتے ہیں۔ تویہ مثال ہے اس شخص کی جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں، جس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا، جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔(۳۲) رسول اللہ a کواللہ تعالیٰ نے جو علم و حکمت عطا فرمائی، اس کو آپ a نے بڑی اچھی مثال سے واضح فرمایا کہ: تین طبقے ہیں، ایک طبقہ ایسا ہے جس نے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کوبھی نفع پہنچایا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے خود تو فائدہ نہیں اٹھایا، مگر دوسرے اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں بہرحال بہتر ہیں،پہلی کو دوسری پر فضیلت حاصل ہے۔ تیسری جماعت وہ ہے جس نے رسول اللہ a کی دعوت پر کان ہی نہ دھرا،یہ سب سے بدترجماعت ہے۔(۳۳) اس روایت سے امام بخاری vکے تدریسی طریقہ کار کا اندازہ ہوتا ہے کہ لیکچر دیتے وقت طلبہ کو سمجھانے کے لیے مثال دینا چاہیے، جس طرح پیغمبر a صحابہ کرام sکو سمجھانے کے لیے مثال دیتے تھے، کیونکہ بعض اوقات ایک مثال ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے۔ طلبہ کو ہوم ورک دینا امام بخاری vکا نظریہ‘ یہ ہے کہ معلم فقط پڑھانے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اسباق کو طلبہ سے یاد بھی کرائے اور دوسروں تک منتقل کرنے کی ترغیب بھی دے، تاکہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ اہل علم اور مدرسین کو چاہیے کہ متعلم کو اسباق یاد کرنے اوران اسباق کی تبلیغ کرنے کی تاکید میں قصور نہ کریں۔ (۳۴) تعلیم وتربیت کے لیے استاد بعض اوقات اظہار غضب کرسکتا ہے امام بخاری v نے باب قائم کیا ہے:’’ باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم‘‘ (۳۵) اس باب سے امام بخاری vکا مقصد یہ ہے کہ’’ یسروا ولا تعسروا ‘‘اوران جیسی روایات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تعلیم و تدریس میں غضب کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ بعض مواقع میں غضب اورشدت نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن ہے۔(۳۶) تدریس میں اعتدال پسندی تدریس میں اعتدال سے کام لینا چاہیے، تدریس جب طویل ہو تو طلبہ میں تھکان اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ امام بخاری vنے آنحضرت a کا ارشاد نقل کیا ہے کہ:’’ أیھاالناس إنکم منفرون فمن صلی بالناس فلیخفف‘‘(۳۷) ۔۔۔۔۔۔۔’’اے لوگو! تم لوگ نفرت پھیلاتے ہو، جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ تخفیف کرے۔‘‘اس جملے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ استاد اتنا طویل لیکچر نہ دے جس سے طلبہ میں نفرت پیدا ہو۔ کلاس میں بیمار اور حاجت مند طلبہ کا خیال رکھنا اس غرض کے لیے امام بخاری vنے مذکورہ ’’کتاب الصلٰوۃ‘‘والی روایت ’’کتاب العلم‘‘ میں لائی ہے جس میں رسول اللہ a امام کو طویل نماز سے بچنے کی تنبیہ ان الفاظ میں فرمارہے ہیں:’’فإن فیھم المریض والضعیف وذا الحاجۃ‘‘۔ (۳۸) ۔۔۔۔ ’’اس لیے کہ ان نمازیوں میں بیمار،کمزوراور حاجت مند لوگ ہیں‘‘۔ ’’کتاب العلم‘‘ میں اس روایت سے ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ کلاس روم میں استاد کو چاہیے کہ وہ بیمار، کمزور اور حاجت مند طلبہ کا خیال رکھے۔ رُک رُک کردرس دینا امام بخاری vکا تدریسی منہج یہ ہے کہ استاد لیکچر ہمیشہ رُک رُک کر سمجھاتے ہوئے واضح الفاظ میں دے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے باب قائم کیا ہے :’’من أعاد الحدیث ثلاثًا لِیُفْہَمَ عنہ‘‘۔ (۳۹) اس باب میں انہوں نے استدلال کے لیے حضرت انس qکی روایت نقل کی ہے:’’إنہ إذا تکلم بکلمۃ تکلم ثلاثًا لیفھم عنہ‘‘۔ (۴۰) جب آپ aگفتگو فرماتے تو تین مرتبہ دہراتے تھے، تاکہ آپ aکی بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔حضور aکی ہرجگہ تکرار کی عادت نہیں تھی، بلکہ یہ تکرار وہاں ہوتی جہاں افہام کی ضرورت پیش آتی،مثلاً: یہ کہ آپ aکو اندیشہ ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ سن کر بات ذہن نشین نہیں ہوئی یا آپ aاس موقع پر تکرار فرماتے جہاں ابلاغ وتعلیم مقصود ہو یا کہیں مجمع زیادہ ہوتا اور آواز نہیں پہنچ پاتی یا زجر مقصود ہوتا تو تکرار فرماتے۔ (۴۱) نتائج ۱:…تعلیم دینے کے لیے استاد کی تربیت کا اہتمام ضروری ہے، جو استاد تربیت یافتہ نہ ہو، وہ طلبہ کو اچھے انداز میںتعلیم نہیں دے سکتا۔ ۲:…محدثین، مفسرین اور علمائے دین نے تعلیم و تربیت کے لیے ایسے اصول و قواعد وضع فرمائے ہیں جن کی افادیت آج کے جدید دور میں بھی مسلم ہے۔ ۳:… امام بخاری v نے احادیث ِنبویہ l کی روشنی میں معلمین کی تربیت کے لیے قابل تقلید ایک مکمل خاکہ پیش کیا ہے۔ حواشی ۱:…صحیح بخاری، باب فضل العلم،ج: ۱، ص: ۱۴۔        ۲:…ایضاً، باب من سُئل علماً وھو مشتغل فی حدیثہ،ج: ۱، ص: ۱۴۔ ۳:…کشف الباری،ج:۳، ص:۵۲،طبع:مکتبہ فاروقیہ کراچی ۲۰۰۶ئ۔    ۴:…صحیح بخاری،ج: ۱، ص: ۱۴،طبع:اصح المطابع دہلی، ۱۹۳۸ئ۔ ۵:…ایضاً، ج: ۱، ص: ۱۴۔                ۶:… الادب المفرد۔دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۱۴۰۱ھ ۷:… صحیح بخاری، باب من رفع صوتہ بالعلم،ج: ۱، ص: ۱۴۔        ۸:…تقریر بخاری، مولانا محمد زکریا،ج: ۱، ص: ۱۶۶۔ ۹:…تقریر بخاری، مولانا محمد زکریا،ج: ۱، ص: ۱۶۸۔        ۱۰:…صحیح بخاری،باب طرح الامام المسئلۃ علی اصحابہ الخ،ج:۱۳، ص: ۱۳۴۔ ۱۱:…ایضاً۔                    ۱۲:…کشف الباری۔ ۱۳:…صحیح بخاری،باب القراء ۃ والعرض علی المحدث،ج: ۱، ص: ۱۴۔    ۱۴:…ایضاً، باب من قعد حیث بنتھی بہ المجلس،ج: ۱، ص: ۱۵۔ ۱۵:…تقریر بخاری، مولانا محمد زکریا،ج: ۱، ص: ۱۷۲۔        ۱۶:…صحیح بخاری، باب قول النبی ؐ رب مبلغ اوعی من سامعٍ،ج: ۱، ص: ۱۶۔ ۱۷:…تقریر بخاری، مولانا محمد زکریا،ج :۱، ص: ۱۷۴۔        ۱۸:…صحیح بخاری،باب رب مبلغ اوعیٰ من سامعٍ، ج: ۱، ص: ۱۶۔ ۱۹:…تقریر بخاری، مولانا محمد زکریا،ج: ۱، ص: ۱۷۵۔        ۲۰:… شرح عقود رسم المفتی، علامہ شامی،سہیل اکیڈمی لاہور، ص:۱۵-۱۶۔ ۲۱:…صحیح بخاری،باب رب مبلغ اوعی من سامع،ج:۱، ص:۱۶۔    ۲۲:…الرسول والعلم،القرضاوی،اسلامک بک ڈپو لاہور ۱۹۹۸، ص:۱۵۲ ۲۳:…صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۱۶۔            ۲۴:…ایضاً ۲۵:…ایضاً                    ۲۶:…الرسول والعلم،القرضاوی،اسلامک بک ڈپو لاہور ۱۹۹۸، ص:۱۶۰۔ ۲۷:…صحیح بخاری، باب الفہم فی العلم،ج: ۱، ص: ۱۶۔        ۲۸:…ایضاً، باب تفقہوا قبل ان تسودوا،ج: ۱، ص: ۱۶۔ ۲۹:… ایضاً                    ۳۰:…ایضاً، باب الخروج فی طلب العلم،ج: ۱، ص: ۱۷ ۳۱:…ایضاً، باب من علم وعلم،ج: ۱، ص: ۱۷۔            ۳۲:…ایضاً ۳۳:…تفہیم البخاری، اسلامی کتب خانہ لاہور،ج:۱، ص:۸۵۔        ۳۴:…الابواب والتراجم لصحیح البخاری، ایچ ایم سعید کمپنی، ص: ۵۱۔ ۳۵:…صحیح بخاری، باب الغضب والموعظۃ فی التعلیم،ج: ۱، ص:۱۸    ۳۶:…الابواب والتراجم لصحیح البخاری، ایچ ایم سعید کمپنی۔ص ۵۲۔ ۳۷:… صحیح بخاری، باب الغضب والموعظۃ فی التعلیم،ج: ۱، ص:۱۸۔    ۳۸:…ایضاً ۳۹:… ایضاً                     ۴۰:… ایضاً ۴۱:… کشف الباری، ج: ۳، ص: ۵۸۶۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین