بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

امام ابو داود رحمہ اللہ کے قول ’’صالح‘‘ کا مطلب  اور ’’ما سکت علیہ أبوداود‘‘ کا حکم

امام ابو داود رحمہ اللہ کے قول ’’صالح‘‘ کا مطلب  اور ’’ما سکت علیہ أبوداود‘‘ کا حکم


امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب ’’السنن‘‘ کے تعارف سے متعلق اہلِ مکہ کے نام اپنے خط میں فرمایا ہے: ’’میری اس کتاب میں اگر کوئی کمزور حدیث آئی ہے، تو میں نے اسے واضح کردیا ہے اور جس حدیث پر میں نے کوئی کلام نہیں کیا، وہ صالح ہے۔‘‘ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں لفظِ ’’صالح‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اور کیا واقعی ایسا ہے کہ سننِ ابی داود کی جس حدیث پر کوئی کلام مذکور نہ ہو، وہ صالح کہلائے گی؟!۔
زیرِ نظر مضمون میں مذکورہ سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ (متوفی: ۲۷۵ھ) نے اپنےمذکورہ خط میں یہ بات ان الفاظ میں فرمائی ہے: ’’وما کان في کتابي من حديث فيہ وہنٌ شديدٌ فقد بينتُہٗ، وما لم أذکر فيہ شيئًا فہو صالح۔‘‘(۱) جس کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ سننِ ابی داود کی جو روایت بھی اُن کی رائے میں ضعیف تھی، اُس کے ضَعف کو انہوں نے بیان کردیا ہے اور جس کسی روایت پر کلام مذکور نہیں ہے، وہ کم ازکم ان کی رائے میں ’’صالح‘‘ ضرورہے۔ [آپ کا یہ خط شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۱۷ھ) کی تحقیق او رگراں قدر حواشی کے ساتھ ’’رسالۃ أبي داوٗد إلٰی أہل مکۃ في وصف سننہ‘‘ کےنام سے ’’ثلاث رسائل في علم مصطلح الحدیث‘‘ کے ضمن میں ’’مکتب المطبوعات الإسلامیۃ‘‘ بیروت سےچھپا ہوا ہے، جو سب سے پہلی بار شیخ الاسلام علامہ زاہد بن حسن کوثری رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۷۱ھ) کی تحقیق سے ۱۳۶۹ھ میں ’’مطبعۃ الأنوار، قاہرہ‘‘ سے طبع ہوا تھا۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے اس کے مقدمہ میں با حوالہ درج فرمایا ہے کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نےیہ خط اہلِ مکہ میں سے ابو الحسن التمار رحمہ اللہ کے نام لکھا تھا] سوال میں پوچھی گئی دونوں باتوں کاجواب بالترتیب درجِ ذیل ہے:

۱: لفظِ ’’صالح‘‘ کا مطلب اور اس کی مراد

حضرات محدثین کے ہاں ’’صالح‘‘ کا لفظ حدیث کی صفت کے طورپر دو الگ الگ معانی میں استعمال ہوتا ہے:
1 : ’’ صالح للحجۃ‘‘ : یعنی وہ روایت جو بذاتِ خود قابلِ حجت ہو اور اس سےاستدلال کےلیے شواہد ومتابعات وغیرہ کی ضرورت نہ ہو، اس کو ’’صالح للاحتجاج‘‘ اور ’’صالح للاستدلال‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
2 : ’’صالح للاعتبار‘‘ : یعنی وہ روایت جو قابلِ حجت بننے کےلیے شواہد ومتابعات کی محتاج ہو۔ اب یہاں پر امام ابو داود رحمہ اللہ کے کلام میں ’’صالح‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس بارےمیں علماء کی آراء مختلف ہیں۔ راجح قول کے مطابق یہاں پر ’’صالح‘‘ کا لفظ عام ہے اور یہ ’’صالح للاحتجاج‘‘ اور ’’صالح للاستدلال‘‘ دونوں کو شامل ہے، کیونکہ سننِ ابی داود کی مسکوت عنہا روایات (یعنی وہ روایات جن پر کوئی کلام درج نہیں ہے، اُن) میں صحیح وحسن کےساتھ ساتھ ایسی ضعیف روایات بھی ہیں کہ جو قابلِ احتجاج نہیں، صرف قابلِ اعتبارہیں، چنانچہ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ (متوفی ۹۰۲ھ) اپنے استاذ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفی ۸۵۲ھ) کی اس بارے میں رائے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’وقد قرأت بخط شيخنا ما نصہ: ’’لفظ ’’صالح‘‘ في کلام أبی داوٗد، أعم من أن يکون للاحتجاج، أو للاعتبار...‘‘ (۲)
یعنی: میں نے اپنے شیخ (حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ) کے قلم سے لکھا ہوا دیکھا ہے کہ امام ابوداود رحمہ اللہ کے کلام میں لفظِ ’’صالح‘‘ عام ہے، ’’صالح للاحتجاج‘‘ اور ’’صالح للاستدلال‘‘ دونوں کو شامل ہے۔ اس بارے میں یہی رائے حافظ شمس الدین ذہبیؒ، برہان الدین بِقاعیؒ اورجلال الدین سُیوطی رحمہم اللہ وغیرہ نے ظاہر فرمائی ہے۔ (۳) باقی رہی یہ بات کہ ان میں سےکون سی روایت ’’صالح للاحتجاج‘‘ شمار ہو گی اور کون سی روایت ’’صالح للاعتبار‘‘ کہلائےگی، اس کی اصل تعیین تو ائمہ محدثین کےعمومی اقوال اورموقع ومحل کےمناسب قرائن کی بنیاد پرہوگی، البتہ! سننِ ابی داود کا حافظ عبدالعظیم منذری رحمہ اللہ (متوفی ۶۵۶ھ) نے اختصار کیا ہے، جس میں انہوں نے امام ابو داود رحمہ اللہ کی مسکوت عنہا روایات میں سے جس کو ضعیف پایا ہے، اُس پراحسن انداز سے کلام کیا ہے، بعد میں پھر اسی اختصار کو بنیاد بناکر حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۵۱ھ) نے سننِ ابی داود کی تہذیب کی ہے اور امام ابو داود اور حافظ منذری رحمہما اللہ کی جانب سے جن احادیث پر کلام نہیں کیا گیا، اُن کی بطورِ خاص جانچ پڑتال کی ہے اور جس کسی حدیث کو ضعیف پایا ہے، اس پر کلام کیا ہے، لہٰذا اگر کسی حدیث پر یہ دونوں حضرات بھی سکوت اختیار فرمائیں، تو امام ابو داود رحمہ اللہ کےساتھ ان کے سکوت کےشامل ہوجانےسےاُس حدیث کے ’’ ’’صالح للاحتجاج‘‘ ہونے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں، چنانچہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ ’’رسالۃ أبي داوٗد‘‘ پر اپنی تعلیقات میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 
’’فعلٰی ہذا ينبغي للمعتني بسنن أبي داوٗد الاعتناءُ بتہذيب ابن القيم أيضًا، وإذا سکت علی حديثٍ الإمامُ أبوداوٗد ثم المنذريُّ وابنُ القيم، فلايکاد ينزل من درجۃ الاحتجاج بہٖ، واللہ تعالٰی أعلم بالصواب۔‘‘ (۴)
یعنی: سننِ ابی داود کو دیکھنے والےکے لیے مناسب ہے کہ وہ (اختصارِ منذری کے ساتھ) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی تہذیب پر بھی نظر کرے، جب کسی حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ کے ساتھ حافظ منذری اور ابن القیم رحمہما اللہ بھی سکوت اختیار فرمائیں، تو وہ حدیث ’’صالح للاحتجاج‘‘ کے مرتبہ سے کم نہیں ہوگی۔ حافظ منذری رحمہ اللہ کےسکوت کے متعلق یہ بات علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’لمعات التنقیح‘‘ میں درج فرمائی ہے۔ (۵)
اس سلسلے میں آخری دور کے عظیم محدث شیخ شعیب ارنؤوط (متوفی۱۴۳۸ھ) رحمہ اللہ کے گراں قدر مفصل حواشی سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہےکہ وہ ان میں ائمہ سابقین کے کلام کا تقریباً استیعاب فرماتے ہیں۔ یہ ساری تفصیل اغلب اور اکثر کےاعتبارسے ہے، ورنہ حافظ ذہبی اور حافظ ابنِ حجررحمہما اللہ کے بقول سننِ ابی داود میں بعض شدید روایات پر بھی سکوت ہے، جس کی تفصیل سکوت کی وجوہات کےضمن میں آگے آئے گی، ان شاء اللہ۔

۲: سننِ ابی داود میں سکوت کی وجوہات اور اس کا حکم

سننِ ابی داود کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی روایات میں سےجس روایت پربھی مؤلف کی طرف سے کلام نہ ہو، وہ کم ازکم اُن کی رائے کے مطابق ’’صالح‘‘ ضرور کہلائے گی، مگر یہ خیال درست نہیں ہے، بلکہ تحقیق یہ ہےکہ سننِ ابی داود کی کسی حدیث پر کلام درج نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے صرف دو صورتوں میں یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ ’’یہاں پر چونکہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے سکوت فرمایا ہے، اس لیے یہ حدیث ان کے نزدیک ’’صالح للاحتجاج‘‘ یا ’’صالح للاعتبار‘‘ ہے‘‘، باقی صورتوں میں یہ حکم لگانا ممکن نہیں ہے، چنانچہ سننِ ابی داود میں سکوت کی وہ آٹھ وجوہات یہ ہیں: 
۱: بسا اوقات امام ابو داود رحمہ اللہ کسی حدیث پراس وجہ سےکلام نہیں کرتے کہ وہ اُن کے نزدیک سخت ضعیف نہیں ہوتی، بلکہ وہ اُن کےہاں ’’صالح للاعتبار‘‘ کےقبیل سےہوتی ہے، چنانچہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’۔۔۔ يفہم أن الذي يکون فيہ وہنٌ غير شديد أنہ لا يبيّنہ‘‘(۶) یعنی: امام ابو داود رحمہ اللہ کے کلام ’’وما کان فيہ وہنٌ شديدٌ بيّنتُہ‘‘سے یہ سمجھا گیا ہے کہ جس حدیث میں وہن شدید نہیں ہوگا، وہ اُسے بیان نہیں کریں گے۔ 
۲: بسا اوقات کسی حدیث پراس وجہ سےسکوت نظر آتا ہے کہ اُس کے راوی پر سابق میں کلام گزر چکا ہوتا ہے اور اُسی کلامِ سابق پر اکتفا کرتے ہوئے یہاں پر سکوت اختیار کیا جاتا ہے، چنانچہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’۔۔۔لأن سکوتہٗ تارۃً يکون اکتفاءً بما تقدم لہٗ من الکلام في ذٰلک الراوي في نفس کتابہ۔‘‘(۷) یعنی: امام ابو داود رحمہ اللہ کا سکوت کبھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اُس راوی پرسابق میں اسی کتاب کے اندرکلام گزر چکا ہوتا ہے۔
۳: بسا اوقات امام ابو داود رحمہ اللہ کو ذہول لاحق ہوجاتا ہےکہ اُس حدیث کا ضَعف اگرچہ محتاجِ بیان تھا، لیکن اس موقع پر اُسےبیان کرنا امام ابو داود رحمہ اللہ کےذہن میں نہیں رہا، چنانچہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں: ’’وتارۃً يکون [أي السکوت] لذہول منہ۔‘‘(۸).یعنی: کبھی سکوت امام ابو داود رحمہ اللہ کےذہول کی وجہ سے ہوتا ہے۔
۴: بسا اوقات کسی حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ اس وجہ سے سکوت اختیار فرماتے ہیں کہ اس کے راوی کا ضَعف بہت زیادہ واضح ہوتا ہے اور ائمہ حدیث کے ہاں اُس کی روایات بالاتفاق غیر معتبر ہوتی ہیں اور آپ یہ اس خیال سےکرتے ہیں کہ راوی کےضَعف کےبہت زیادہ واضح ہونے کی وجہ سےہرشخص اسےپہچان ہی جائےگا، جس کو بیان کرنےکی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’وتارۃً يکون [أی السکوت] لشدۃ وضوح ضَعف ذلک الراوي واتفاق الأئمۃ علی طرح روايتہ۔‘‘(۹)یعنی: کبھی امام ابو داود رحمہ اللہ اس وجہ سے سکوت اختیار فرماتے ہیں کہ اُس راوی کا ضَعف بہت زیادہ واضح ہوتا ہے اور اس کی روایات کےغیرمعتبر ہونے پرائمہ کا اتفاق ہوتا ہے۔ اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ ’’سیر أعلام النبلاء‘‘میں اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: ’’وقد يسکت عنہ بحسب شہرتہٖ ونکارتہٖ۔‘‘ (۱۰)یعنی: کبھی امام ابو داود رحمہ اللہ راوی کی نکارت کےمشہور ہونے کی وجہ سےاس کےمتعلق سکوت اختیار فرماتے ہیں۔
۵: بسا اوقات کسی روایت پر اس وجہ سے سکوت ہوتا ہے کہ امام ابو داودر حمہ اللہ کو اس کی علت کا علم نہیں ہوپاتا، چنانچہ وہ خود اپنے رسالہ میں اس کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ربما کتبتہ وبينتہ، وربما لم أقف عليہ۔‘‘(۱۱) یعنی: کبھی تو میں روایت کو لکھ کر اس کی علت بیان کردیتا ہوں اور کبھی میں اس پر واقف نہیں ہوپاتا۔
۶: کسی روایت پرامام ابو داود رحمہ اللہ یہ محسوس کرتے ہوئےسکوت اختیار فرماتےہیں کہ: اس طرح کےفنی مباحث عامۃ الناس کی سمجھ سےبالا تر ہیں، چنانچہ وہ خود اس کی تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وربما أتوقف عن مثل ہٰذا، لأنہٗ ضرر علی العامَّۃ أن يُکشف لہم کلُّ ما کان من ہٰذا الباب فيما مضی من عيوب الحديث، لأن علم العامَّۃ يقصر عن مثل ہٰذا۔‘‘(۱۲) یعنی: بسااوقات میں علت کے بیان سےاس وجہ سےخاموش ہو جاتا ہوں کہ عامۃ الناس کے حق میں یہ بات نقصان دہ ہےکہ ان کےسامنے حدیث کی ہر طرح کی (اسنادی) کمزوریاں ظاہرکر دی جائیں، کیونکہ عامۃ الناس کا علم اس کو سمجھنےسے قاصر ہے۔
۷: بسا اوقات ہم کسی روایت پراس وجہ سےسکوت پاتے ہیں کہ امام ابو داود رحمہ اللہ سےچونکہ ان کی کتاب ’’السنن‘‘ کو مختلف روات نے نقل کیا ہے اور ان میں سے بعض روات نےایک حدیث پرکلام نقل کیا ہوتا ہے، جبکہ دوسرے بعض نےنقل نہیں کیا ہوتا، جس کی وجہ سے ہم دوسری قسم کے روات کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ نے سکوت اختیار فرمایا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ انہوں نے اس روایت پر کلام کیا ہوتا ہے، چنانچہ حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’وتارۃً يکون [أي السکوت] من اختلاف الرواۃ عنہ وہو الأکثر۔‘‘ (۱۳) یعنی: بسااوقات سننِ ابی داود کے رُوات کےاختلاف کی وجہ سے ہمیں سکوت دکھائی دیتا ہے۔ باقی یہ بات کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے واقعتاً اس روایت پر سکوت کیا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ سننِ ابی داود کی مختلف روایات میں مراجعت کےبعد کیاجاسکتا ہے، چنانچہ اس سلسلے میں شیخ الاسلام علامہ زاہد بن حسن کوثری رحمہ اللہ ’’رسالۃ أبي داود‘‘ کے حاشیے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’وسکوتہ إنما يتبين بعد استقصاء الروايات المختلفۃ من ’’کتاب السنن‘‘ لأن في بعضہا ما ليس في الآخر‘‘(۱۴)یعنی: اس بات کا اندازہ کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے واقعی اس روایت پر سکوت اختیار فرمایا ہے، سننِ ابی داود کی مختلف روایات کو جمع کرنے کے بعد لگایا جا سکتا ہے، اس لیے کہ بعض روایات میں ایسے اضافے ہوتے ہیں کہ جو دوسری بعض میں نہیں ہوتے۔
۸: کبھی سکوت اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ روایت واقعی امام ابو داود رحمہ اللہ کی رائے میں قابلِ احتجاج یا قابلِ اعتبار ہوتی ہے ۔
امام ابو داود رحمہ اللہ کےقول ’’وما لم أذکر فيہ شيئًا فہو صالح‘‘ میں ان آٹھ صورتوں میں سے صرف پہلی اور دوسری صورت مراد لی جا سکتی ہے، باقی نہیں، لہٰذایہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ سننِ ابی داود میں ہر جگہ سکوت اس وجہ سےنہیں ہوتاکہ وہ حدیث امام ابو داود رحمہ اللہ کےہاں قابلِ استدلال یا قابلِ اعتبار ہے، بلکہ ان دیگروجوہات کی بنا پر بھی کسی جگہ سکوت ہوسکتا ہے۔ اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ:
1 : امام ابو داود رحمہ اللہ کا قول ’’صالح‘‘ عام ہے، یہ ’’صالح للاحتجاج‘‘ اور ’’صالح للاعتبار‘‘ دونوں کو شامل ہے۔
2 : کس جگہ ’’صالح للاحتجاج‘‘ مراد ہوگا اور کس جگہ ’’صالح للاعتبار‘‘؟ اس کا فیصلہ محدثین کے صریح اقوال اور موقع ومحل کے مناسب قرائن کی بنیاد پر ہوگا۔
3 : سننِ ابی داود کی جن احادیث پر کلام درج نہیں ہے، ان کے بارے میں حتمی طور پر یہ رائے قائم کرنا درست نہیں ہے کہ ان پر چونکہ امام ابود اود رحمہ اللہ نے سکوت اختیار فرمایاہے، اس لیے یہ ان کی رائے میں ’’صالح للاحتجاج‘‘ یا ’’صالح للاعتبار‘‘ کے قبیل سے ہیں۔
4 : جيسا کہ ایسی روایات کے بارے میں ’’کلُّ ما سکت عليہ أبو داود فہو حسنٌ‘‘ کا قول سراسر تساہل اور تسامح پر مبنی ہے۔
5 : سننِ ابی داود کی کسی روایت پر کلام درج نہ ہونے کی معروف آٹھ وجوہات ہیں، جن میں سے صرف دوصورتوں میں یقینی طور پر یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث چونکہ امام ابو داود رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق ’’صالح للاعتبار‘‘ یا ’’صالح للاحتجاج‘‘ تھی، اس وجہ سے انہوں نے اس پر سکوت اختیار فرمایا ہے، باقی صورتوں میں یہ حکم لگانا درست نہیں ہے۔
6 : سننِ ابی داود میں بعض ایسی سخت ضعیف روایات بھی ہیں کہ جن پر بظاہرکسی قرینے کی وجہ سے سکوت اختیار کیا جاتا ہے، مگر اس سکوت کی وجہ امام ابو داود رحمہ اللہ کی رضامندی نہیں ہے۔ 
7 : سابقہ تفصیلات سے پتہ چلا کہ سکوتِ ابی داود کو بنیاد بنا کر کسی حدیث کے معتبر اور صالح ہونے کا قول کرنا عام عالم کے لیےکافی مشکل اور ایک کٹھن کام ہے۔ 
8 : البتہ!صاحبِ فن کے لیے حافظ منذری اورعلامہ ابن القیم رحمہما اللہ کے کلام کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا کہ یہاں پر سکوت کی وجہ کیا ہے؟!
9 : سننِ ابی داود کے سکوت کوجب اس قدر توسع کے ساتھ پرکھ لیا جائےاور ان دونوں حضرات (حافظ منذری اور علامہ ابن القیم رحمہما اللہ) کی تائید بھی شامل ہوجائے، تو اس بات کا امکان بہت کم رہ جائے گا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ کسی حدیث پر سکوت اختیار فرمائیں اور وہ اہلِ فن کے نزدیک صالح نہ کہلائے!!!!!

حوالہ جات

۱: ’’رسالۃ أبي داوٗد إلی أہل مکۃ في وصف سننہ‘‘، ضمن ’’ثلاث رسائل في علوم الحديث‘‘، ص: ٣٧-٣٨، ط: مکتب المطبوعات الإسلاميۃ، بيروت، لبنان.
۲: ’’الغايۃ في شرح الہدايۃ في علم الروايۃ‘‘ للسخاوي، أقسام الحديث، الصالح، ص: ١٥٢، ط: مکتبۃ أولاد الشيخ للتراث.
۳: ’’سير أعلام النبلاء‘‘ للذہبي، ترجمۃ الإمام أبي داوٗد: ١٣/٢١٤، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت، و’’النکت الوفيۃ بما في شرح الألفيۃ‘‘ للبِقاعي، النوع الثاني: الحسن: ١/٢٥٧، ط: مکتبۃ الرشد، و’’تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي‘‘ للسيوطي، النوع الثاني: الحسن: ١/ ١٩٥، ط: مکتبۃ الکوثر، الرياض. 
۴: ’’رسالۃ أبي داوٗد‘‘، ص: ٤٥، ط: مکتب المطبوعات.
۵: ’’فتح القدير‘‘ لابن الہُمام، باب صلاۃ العيدين: ٢/ ٧٥، ط: دار الفکر، و ’’لمعات التنقیح في شرح مشکاۃ المصابيح‘‘ للشیخ عبد الحق المحدث الدھلوي، باب صلاۃ العيدين، الفصل الثاني: ٣/ ٥٥٨، ط: دار النوادر، دِمَشق.
۶: ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ لابن حجر العسقلانيؒ، النوع الثاني: الحسن: ١/ ٤٣٥، ط: الجامعۃ الإسلاميۃ، السعوديۃ.
٧: ’’النکت‘‘ لابن حجر: ١/ ٤٤٠، ط: الجامعۃ الإسلاميۃ.
٨: ’’النکت‘‘ لابن حجر: ١/ ٤٤٠، ط: الجامعۃ الإسلاميۃ.
٩: ’’النکت‘‘ لابن حجر: ١/ ٤٤٠، ط: الجامعۃ الإسلاميۃ. 
١٠: ’’سير أعلام النبلاء‘‘ للحافظ الذہبيؒ، ترجمۃ الإمام أبي داوٗد: ١٣/٢١٥، ط: مؤسسۃ الرسالۃ.
١١: ’’رسالۃ أبي داوٗد‘‘، ص: ٥٠، ط: مکتب المطبوعات.
١٢: ’’رسالۃ أبي داوٗد‘‘، ص: ٥٠، ط: مکتب المطبوعات.
۱۳: ’’النکت‘‘ لابن حجر: ١/ ٤٤٠، ط: الجامعۃ الإسلاميۃ.
۱۴: ’’رسالۃ أبي داوٗد‘‘، ص: ٣٨، ط: مکتب المطبوعات.
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین