بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

امارتِ اسلامیہ اور تین بڑی آزمائشیں --- جاندار کی ڈیجیٹل تصویر، انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل فون


امارتِ اسلامیہ اور تین بڑی آزمائشیں

جاندار کی ڈیجیٹل تصویر، انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل فون


بیس سال پہلے جب افغانستان پر اتحادی افواج کا قبضہ ہوا تو اس وقت کیمرے والے سمارٹ موبائل فون اتنے عام نہیں تھے ۔
اس وقت اماراتِ اسلامیہ میں نہ کیمرے کے عام استعمال کی اجازت تھی اور نہ ہی انٹرنیٹ کا استعمال اتنا عام تھا اور انٹرنیٹ صرف ٹیلیفون کی تار کے ذریعے ڈائل اپ کنکشن پر استعمال کیا جاتا تھا، جس کی رفتار اتنی سست تھی کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لیے ویڈیو دیکھنا یا اَپلوڈ کرنا ممکن نہیں تھا۔
فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کا تو اس وقت وجود ہی نہیں تھا۔ اب جبکہ چند سالوں میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ عام ہونے والا ہے اور کیمرے والے موبائل سمارٹ فون تقریباً ہر کسی کے پاس موجود ہیں، اور یہاں ایک پوری نسل ایسی جوان ہو چکی ہے جس نے ہوش سنبھالتے ہی کیمرے والا موبائل فون اور انٹرنیٹ دیکھا ہے۔
اور تحریک طالبان افغانستان میں ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سمارٹ موبائل اور کیمرے کا استعمال معمول سمجھ کر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ کیمرے والے اسمارٹ فون اور تیز رفتار انٹرنیٹ کوئی بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں، بلکہ اس وقت یہ نفسیاتی جنگی میدان کا سب سے مہلک اور خطرناک ہتھیار ہے۔ اس معاملے کو ہلکا سمجھنا یا سنجیدگی سے نہ لینا بہت نقصان کا باعث ہوگا۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہونے والے پروپیگنڈے نے صرف پچھلی ایک دہائی میں کئی مضبوط معیشت والے ممالک کی حکومتوں کو گرا کر دکھا دیا، جس میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل ہیں۔
کسی ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہو، یا کہیں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنا ہو، کسی ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کرنا ہو، یا ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنا ہو، یعنی حق کو باطل اور باطل کو حق کردکھانا اس ٹیکنالوجی کا خاص کمال ہے۔ اس مہلک ہتھیار نے کئی مسلمان ممالک کے دین دار لوگوں کی اولادوں کو بھی غامدیت، قادیانیت اور دہریت جیسی ضلالت والحاد تک پہنچادیا ہے۔ اس مہلک ہتھیار (یعنی جاندارکی ڈیجیٹل تصویر، انٹرنیٹ اور موبائل فون) نے پوری دنیا میں بے دینی اور فحاشی کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس تحریر کا مقصد امارتِ اسلامیہ کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ترک کرنے کا مشورہ دینا مقصود نہیں، بلکہ اس حوالے سے حکمت عملی بنانے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے چند گزارشات درج ذیل ہیں:
۱:- کیمرے سے بنی جاندار کی تصویر اور ویڈیو پر فوری پابندی نہ لگائی گئی تو وہ برائیاں جو دوسرے مسلمان ممالک میں پھیل چکی ہیں، ان کو روکنا ممکن نہیں ہوگا، اس لیے ٹیلی ویژن کی نشریات کو بھی اگر کسی عنوان سے جاری رکھنا مقصود ہو تو بغیر جاندار کی تصویر کے جاری رکھا جا سکتا ہے۔
۲:- انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل کے جائز استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات ناگزیر ہوں گے، اگرچہ اس کے لیے کچھ پابندیاں ہی کیوں نہ لگانی پڑیں۔
۳:- اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال بنیادی ضروریات میں نہیں آتا، اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ کئی حساس مقامات اور مواقع پر تصویر سازی اور منظری ممنوع ہوتی ہے، اس لیے عام لوگوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون فراہم کرتے ہوئے بھی اسلامی اقدار کی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔
۴:- سوشل میڈیا کے عام استعمال کے نقصانات کے پیشِ نظر چین اور روس جیسے ممالک نے بھی اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم الگ بنائے ہوئے ہیں، جس پر اُن کا پورا کنٹرول ہے، جس کی وجہ سے کوئی غیر ضروری بات عوام میں عام نہیں ہو سکتی۔
۵:- انٹرنیٹ اور سمارٹ فون جو کہ دراصل نہایت طاقتور کمپیوٹر ہے (اور ۲۴ گھنٹے کیمرے، مائیک اور نیویگیشن ٹریکنگ کے ذریعہ آپ کی نگرانی بھی کرتا ہے) اس کے استعمال کو تعلیم، تجارت اور مواصلات تک محدود کیا جائے۔
۶:- جیسا کہ نمبر ایک پر عرض کیا گیا کہ جاندار کی ڈیجیٹل تصویر اور ویڈیو پر شرعی، اخلاقی اور انتظامی وجوہات کی تشخیص پر مبنی پابندی ہو، ویسے ہی انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کو تفریح کے لیے استعمال پر بھی پابندی ہونی چاہیے، کیونکہ اس ٹیکنالوجی کا تفریح کے لیے استعمال ٹیلی ویژن، کیبل اور ڈش انٹینا سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہے، اور تمام تر خرافات کی بنیاد بھی ہے۔
۷:- ٹیکنالوجی اور اس پر تحقیق کے لیے ایسے افراد کو مقرر کیا جائے، جو کہ نہ صرف اس کی مہارت رکھتے ہوں، بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری میں بھی مشہور ہوں۔
ان گزارشات کے بعد آخر میں عرض ہے کہ جاندار کی ڈیجیٹل تصویرکے مسئلے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام مسلمان ممالک میں بے دینی اور فحاشی کے پھیلنے کی بنیادی وجہ یہی فتنہ بنا ہے، اور اس فتنے کو عام کرنے میں انٹرنیٹ اور نئی طرز کے کیمرے والے موبائل فون کا اہم کردار رہا ہے، اور آج بھی جمہور علماء کے فتاویٰ اس کے عدمِ جواز کے ہی ہیں۔
علمی یا تحقیقی بنیادوں پر جواز کے لیے مشہور اہلِ علم کے ذاتی عمل اور ان کے اداروں کے دینی اجتماعات میں اس عمل سے اجتناب کیا جارہا ہے اور ایسے اہلِ علم کی طرف جوازی فتوی کی نسبت کی وضاحت کردی گئی ہے اور ان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے کسی فتوے میں جاندار کی نظربندی کے لیے ڈیجیٹل آلات کے عام استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اگر شروع میں ہی ان معاملات پر قابو نہ پایا گیا تو پھر بعد میں اس پر کنٹرول نہایت مشکل ہو جائے گا۔وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاَغُ الْـمُبِيْنُ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین