بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

المرکز الاسلامی بنگلہ دیش کے چیئرمین مفتی شہید الاسلام  رحمۃ اللہ علیہ  کی رحلت 

المرکز الاسلامی بنگلہ دیش کے چیئرمین

مفتی شہید الاسلام  رحمۃ اللہ علیہ  کی رحلت 


 جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ومتخصص، المرکز الاسلامی بنگلہ دیش کے چیئر مین، خلافت مجلسِ بنگلہ دیش کے نائب امیر، گونوشیبا اندولن سیاسی جماعت کے چیئر مین ۴؍ رجب المرجب ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد راہیِ آخرت ہوگئے ، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطی وکل شيء عندہٗ بأجلٍ مسمّٰی۔
مولانا موصوف کی پیدائش ۱۵؍مارچ ۱۹۶۰ء کو ہوئی۔ سرکاری اسکول سے پرائمری کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ دارالعلوم خادم الاسلام گوہر ڈانگا میں فوقانی درجات تک تعلیم حاصل کی۔ دورہ حدیث کے لیے جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا، درسِ نظامی سے فاتحہ فراغ پڑھنے کے بعد جامعہ ہی میں دوسال میں تخصصِ فقہِ اسلامی کیا۔ اسی دوران جامعہ علومِ اسلامیہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید قدس اللہ اسرارہم سے ان کی محبت وربط بڑھا۔ انہی بزرگوں نے ان کو خدمتِ خلق کی طرف متوجہ کیا، جس کی بنا پر انہوں نے ۱۹۸۸ء میں بنگلہ دیش میں المرکز الاسلامی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے تحت سیکڑوں مدارس، مکاتب اور مساجد وجود میں آئیں۔ اسی طرح غریبوں، مسکینوں، مریضوں اور یتیموں کےلیے رفاہی ادارے ملک بھر میں بنائے، جو حضرات بنگلہ دیش گئے ہیں اور انہوںنے ان کی خدمات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ گواہی دیتے تھے کہ مولانا موصوف بنگلہ دیش کے ’’ایدھی ‘‘کہلاتے تھے۔ بنگلہ دیش میں طوفان ہو، زلزلہ ہو یا سیلاب، مولانا مخلوقِ خدا کی خدمت میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ اسی طرح حرمین شریفین میں ’’ضیوف الرحمٰن‘‘ کی خدمت اور روزہ داروں کے لیے سحر وافطار کا انتظام، برما کے مہاجرین کی خدمات انجام دینا اور کرونا میں فوت شدہ حضرات کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا جیسی سنہری خدمات اور صدقات ان کے لیے ذخیرۂ آخرت ہوںگے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں دینی فتنوں کے خلاف بھی وہ زندگی بھر نبرد آزما رہے، خصوصاً قادیانی فتنہ کے استیصال کےلیے انہوں نے بھرپور کوششیں کیں، جن کی پاداش میں کئی بار انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا، حتیٰ کہ کچھ عرصہ جلاوطنی بھی گزارنا پڑی۔ ۲۰۰۱ء میں سیاست میںبھی حصہ لیا اور بنگلہ دیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق مہتمم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن قدس سرہٗ کے بڑے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمٰن رحمانی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’فضلا ء جامعہ کے ’’گلدستے‘‘ کا حسین کھلتے ہوئے، ’’پھول‘‘ تھے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ تمام اساتذۃ کی خدمت کا شرف ان ہو حاصل ہو ا، ہفتہ یا ایک مہینہ میں خود کھانا بنا کر، اساتذہ کی دعوت کیا کرتے تھے۔ نانا جان حضرت اقدس بنوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے خادمِ خاص حاجی عبد اللہ مرحوم کی آخری علالت میںان کے کراچی کے قیام، اور پھر سعودی عربیہ میں ان کی وفات تک، ان کے ساتھ رہے، حاجی صاحب مرحوم کو گلے کا کینسر ہوگیا تھا، آپریشن کے بعد ان کے گلے کا زخم بگڑ گیا تھا، ان کے زخم کی صفائی وغیرہ، ان کو کھانا کھلانا، پلانا، دوا، استعمال کرانا، سب مولانا شہید الاسلام ہی کیا کرتے، پھر جب ان کے سعودی عرب جانے کا انتظام ہوا تو بھی ان کی خدمت کے لیے ابا جان کے حکم پر مولانا ہی ساتھ آئے تھے، اورپھر تا دم آفریں ’’مدینہ منورہ‘‘میں ان کے ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حاجی صاحب مرحوم اور دیگر اساتذہ کی خدمات کا صلہ، چہار دانگ عالم میں شہرت کی شکل میں دیا۔ بنگلہ دیش میں ’’المرکز الاسلامی‘‘نام کا ایک ادارہ قائم کیا، جس کا ابتدائی چندہ پاکستان سے ہمارے بڑے خالوجان حضرت اقدس مولانا طاسین رحمہ اللہ نے ایک معقول رقم کی صورت میں دیا اور ابا جان رحمہ اللہ تعالیٰ نے کچھ رقم فراہم کی، جس سے وہاں جاکر ایک ایمبولینس سے کام شروع کیا، جو بڑھ کر ’’پانچ سو‘‘سے زائد ایمبولینسز تک پہنچ گیا، ایمبولینس سروس کا آغاز کرکے پھر ’’مکاتبِ قرآنیہ ‘‘بنین وبنات کے مدارس کا جال پورے بنگلہ دیش میں پھیلا یا۔ بچیوں کے مدرسوں میں دوہزار سے زائد بچیاں رہائشی زیر تعلیم تھیں جو ڈھاکہ کے قریب تھا، دیگر شہروں میں اس کے علاوہ تھے۔ پھر ڈھاکہ میں مہنگے علاقے میں ایک زمین خرید کر اس پر آٹھ منزلہ خوبصورت عمارت تعمیر کی، جس میں مدرسہ، مسجد، مہمان خانہ اور جدید ہسپتال کا نظام قائم کیا۔ مولانا آگے سے آگے بڑھنے کی چاہت میں اپنے کام کو بڑھاتے رہے، پھر سیاست میں عملی حصہ لے کر اپنے آبائی علاقے میں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں جا پہنچے۔ ’’المرکز الاسلامی ‘‘کا ایک مدرسہ نیویارک امریکا میں بنایا، جو ابھی تک قائم ہے۔ بنگلہ دیش میں قائم ان کے ادارے ان کے صدقاتِ جاریہ کی شکل میں رواں دواں ہیں۔ ۲۰۰۳ء یا ۲۰۰۴ء میں بنگلہ دیش کے دوردراز علاقے ’’ناڑائل ‘‘میں ایک عظیم الشان تین روزہ کانفرنس منعقد کی، جس میں وہاں کے دس لاکھ سے زائد افراد شامل ہوئے، اور دنیا کے مختلف علاقوں سے علماء کو اپنے ادارے کے خرچ پر بلایا، جنگل میں منگل بنایا ہوا تھا، اس پسماندہ علاقے میں ’’تین روز‘‘ تک جشن کا سماں رہا، شرکاء کے لیے ’’کئی بیل‘‘ روزانہ ذبح کیے جاتے تھے، مسلسل پلاؤ بن بن کے سب میں تقسیم ہو رہا تھا۔ اس سفر میں ہماری ملاقات وزیر اعظم خالدہ ضیاء سے بھی کروائی۔آخری زمانہ کافی عرصہ جلاوطنی میں گزرا، الحمد للہ بالکل آخری ایام ایام میں وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقات کو قبول فرمائے اور تاقیامت جاری ساری رکھے، آمین۔‘‘
مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیوہ، دوبیٹے، چار بیٹیاں اور ہزاروں متعلقین ومحبین ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کی خدمات کو قبول فرمائے، اور ان کے اہلِ خانہ، متعلقین ومحبین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ قارئینِ بینات سے حضرت مفتی صاحب کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین