بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اللہ کی رحمت کے سایہ میں

اللہ کی رحمت کے سایہ میں

 


اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایمان اور عملِ صالح کی قدر ومنزلت ہے۔ انسان میں اگر یہ دونوں باتیں نہیں تو کچھ بھی نہیں، آخرت میں جو دائمی فضل وانعام کے وعدے ہیں، وہ انہی دونوں چیزوں سے وابستہ ہیں، ارشاد ہے:
’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ‘‘ (الحجرات:۱۳)
’’بے شک عزت دار تو اللہ کے نزدیک تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ ز وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلاً ‘‘ (النساء:۵۷) 
’’اور جو لوگ یقین لائے اور انہوں نے نیک کام کیے، ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہاں ان کے لیے صاف ستھری عورتیں ہیں اور ان کو گھن کی چھاؤں (گھنے سایہ) میں داخل کریں گے۔‘‘
یہ ’’ظلّ ظلیل‘‘گھن کی چھاؤں یا گھنا سایہ، یعنی راحت تمام، ایمان اور ایمان کے ساتھ نیک اعمال ہی کی بدولت ہے۔ احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر آیا ہے جن سے رحمتِ الٰہی کا سایہ میسر آسکے، یہ اعمال بہت ہیں، جو مومن ان اعمال میں سے کسی ایک عمل پر بھی کار بند ہوگا، اس کے لیے اُمیدِ مغفرت ضرور ہے اور اگر خوش قسمتی سے کسی مسلمان میں یہ سب اعمال پائے جائیں تو اس کا تو کہنا ہی کیا :
یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے
یقیناً اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوں گے جن میں یہ ساری خوبیاں جمع ہوں گی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی میں ان میں سے اکثر یا بعض اوصاف بھی پائے جائیں تو وہ بڑا بختاور ہے۔ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو ایمان کی چاشنی نصیب فرماتا ہے، وہ ہمیشہ آخرت کی ترقی میں کوشاں رہتا ہے۔ اسی خیال سے ارادہ ہوا کہ ایسی تمام حدیثیں یک جا جمع کردی جائیں، جس میں ان خصال کا بیان ہے کہ جن کی بدولت قیامت کے دن رحمتِ الٰہی کا سایہ میسر ہوگا، کیا عجب ہے جو کوئی اللہ کا بندہ ان احادیث کو پڑھ کر ان پر عمل پیرا ہو اور اس کے طفیل اس ناکارہ کو بھی ان پر عمل کی توفیق اُس داتا کی بارگاہ سے عطا ہوجائے:
مگر صاحب دلے روزے برحمت
کند بر حال ایں مسکیں دعائے
مومن دین دار کو چاہیے کہ ان خصال کا اپنے اندر جائزہ لے اور اگر کوئی خصلت فی الحال اس میں موجود ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، ان شاء اللہ ’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ‘‘ (ابراہیم:۷) ’’اگر تم نے شکر کیا تو میں بھی زیادہ عطا کروں گا۔ ‘‘کے وعدہ کے مطابق دوسری خصلت کی بھی توفیق عطا ہوجائے گی، خدا نخواستہ اس قسم کی کوئی خصلت فی الحال اس میں اگر موجود نہیں تو ان کے حصول کی صدقِ دل سے کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیقِ استقامت مانگتا رہے۔ وہ جس طرح نکتہ گیر ہے، اسی طرح نکتہ نواز بھی، تھوڑے کیے پر بہت کچھ دے دیتا ہے اور پھر اس کی دَین کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
اس باب میں جتنی حدیثیں آئیں ہیں، ان سب میں اصح وہ حدیث ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے، اس حدیث میں سات خصلتوں کا ذکر ہے، پھر حفاظِ حدیث نے تتبُّع اور تلاش سے اور خصال بھی جمع کردئیے ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے کئی بار جستجو کی اور ہر بار اُن کو کچھ جدید خصائل میسر آئے۔ ان تمام روایات کو حافظ صاحب موصوفؒ نے اپنی ’’امالی‘‘ میں نقل کردیا ہے اور اس بارے میں ایک مستقل جزء بھی تالیف فرمایا ہے، جس کا نام ’’معرفۃ الخصال الموصلۃ للظلال‘‘ ({ FR 9593 }) ہے۔ حافظؒ نے ان خصال کی تعداد اٹھائیس تک پہنچائی ہے، پھر شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اس باب کا استقراء کیا تو ان خصال کی تعداد ستر تک جا پہنچی، چنانچہ انہوں نے ایک مستقل کتاب اس موضوع پر تحریر کی ہے، جس کا نام ’’تمہید الفرش في الخصال المؤدیۃ لظل العرش‘‘ ہے، اس کتاب میں تمام احادیث کو مع اسانید کے یکجا جمع کردیا گیا ہے جو ان خصائل کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، بعد میں ’’تمہید الفرش‘‘ کی ایک مختصر رسالہ میں تلخیص کی اور اس کا نام ’’بزوغ الہلال في الخصال الموجبۃ للظلال‘‘ ({ FR 9594 }) رکھا۔ افسوس کہ ان تینوں رسالوں میں سے کوئی ایک رسالہ بھی ہمیں فراہم نہ ہوسکا۔ تاہم ’’فتح الباري‘‘ اور ’’تنویر الحوالک‘‘ میں ان خصال کو نظم کیا ہے، جس سے بہت مدد ملی۔ 
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم يقول: سبعۃ يظلہم اللہ في ظلہ يوم لا ظل إلا ظلہ: الإمام العادل، والشابّ نشأ في عبادۃ اللہ عزوجل ، ورجل قلبہ معلق بالمساجد ، ورجلان تحابا في اللہ اجتمعا علی ذٰلک وتفرقا عليہ ، ورجل دعتہ امرأۃ ذاتُ منصب وجمال فقال: إني أخاف اللہ، ورجل تصدق بصدقۃ فأخفاہا حتی لا تعلم شمالہ ماتنفق يمينہ، ورجل ذکر اللہ خاليًا ففاضت عيناہ۔‘‘
 (رواہ البخاري ومسلم وغيرہما۔ [ترغيب منذري]) 
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: سات طرح کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا: ۱:- امام عادل، ۲:- وہ جوان جس کی نشو ونما ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہوئی، ۳:- وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں اَٹکا ہوا ہے، ۴:- وہ دو شخص جو آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں، اسی محبت پر ملتے اور اسی پر جدا ہوتے ہیں، ۵:-وہ شخص جس کو کسی جاہ وجمال والی عورت نے بلایا اور اس نے کہہ دیا کہ میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں، ۶:- وہ شخص جس نے اس طرح چھپا کر صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا، ۷:- وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہنے لگ گئیں۔ ‘‘
یہ حدیث صحیحین کے علاوہ مؤطا امام مالک، سنن نسائی اور جامع ترمذی میں بھی موجود ہے، امام بخاریؒ نے اس کو اپنی صحیح میں چار جگہ روایت کیا ہے۔ کتاب الصلوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ اور کتاب الحدود میں تو پوری روایت نقل کی ہے اور کتاب الرقاق میں مختصراً نقل کیا ہے۔ حافظ ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں: 
’’ہذا أحسن حديث يروي في فضائل الأعمال وأعمہا وأصحہا۔‘‘ 
 (تنوير الحوالک، ج: ۳، ص: ۱۲۷) 
’’فضائل اعمال میں جو روایتیں مروی ہیں ان میں یہ حدیث سب سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ عام اور سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ‘‘
علامہ کرمانیؒ نے اس کی جامعیت کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اطاعت کی بجا آوری دو طرح سے ہوتی ہے: بندے اور خالق کے درمیان اور بندے اور خلق کے درمیان۔ پہلی صورت کی عبادت لسانی ذکر اللہ ہے، عبادتِ قلبی مساجد سے دل کا اَٹکا رہنا ہے، اور عبادتِ بدنی اطاعتِ الٰہی میں نشو ونما پانا ہے اور دوسری صورت میں جس عبادت کا تعلق عام خلق سے ہے‘ وہ عدل وانصاف ہے۔ اور جس کی بجا آوری خاص لوگوں کے ساتھ متعلق ہے۔ اور جس کا تعلق قلب سے ہے، وہ باہمی محبت ہے۔ اور جومال سے متعلق ہے، وہ صدقہ دینا ہے۔ اور جس کا بدن سے تعلق ہے، وہ عفت ہے۔ ({ FR 9595 }) 
۱:-    حدیث میں امام سے مراد خلیفہ اور حاکم ہے، عادل وہ شخص ہے جو متبعِ امرِ خدا ہے، افراط وتفریط سے دور ہے اور ہر شے کو اپنے اپنے موقع اور محل پر استعمال کرتا ہے، امام عادل کا سب سے پہلے اس لیے ذکر ہوا کہ اس کا نفع عمومی ہے۔ 
۲:-    شباب کا اعتبار اس لیے کیا ہے کہ ’’جوانی دیوانی‘‘ مشہور ہے۔ حدیث میں آیا ہے: ’’الشباب شعبۃ من الجنون‘‘ سعدیؒ نے خوب کہا ہے :
در ایامِ جوانی چنانکہ افتد دانی
چونکہ جوانی میں عبادتِ الٰہی میں مشغول رہنا آسان کام نہیں، اس لیے جواں سال عابد مستحقِ سایۂ الٰہی ہے :
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است
وقتِ پیری گرگِ ظالم می شود پرہیزگار
دیگر
توبہ از بادہ در آغازِ جوانی کردم
اول مستی من بود کہ ہشیار شدم
۳:-    تعلقِ مسجد سے مراد یہ ہے کہ اس کا دل ہر دم مسجد میں جانے اور عبادت کرنے کو چاہتا ہے، اگرچہ وہ مسجد سے باہر ہو، چنانچہ مؤطا امام مالکؒ کے الفاظ ہیں:
’’ورجل قلبہ معلق بالمسجد إذا خرج منہ حتّٰی يعود إليہ ۔‘‘
’’اور وہ شخص کہ جب وہ مسجد سے باہر آتا ہے تو اس کا دل مسجد ہی میں اَٹکا رہتا ہے، جب تک کہ لوٹ کر نہ آئے۔ ‘‘
مطلب یہ ہے کہ اس کا دل مسجد کی محبت سے وابستہ ہے، جب ایک نماز پڑھ کر مسجد سے چلا آتا ہے تو دوسری نماز کا منتظر رہتا ہے کہ کب نماز کا وقت آئے اور مسجد میں جا کر دوبارہ نماز پڑھ سکے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ نماز کا بھی اہتمام رکھنا ہے اور جماعت کا بھی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ وہ مسجد ہی میں بیٹھا رہے اور کبھی باہر نہ نکلے، بلکہ جب کسی کام کو وہاں سے چلا آتا ہے تو اس کے دل میں لگن رہتی ہے کہ پھر مسجد میں جا کر وہاں نماز پڑھے اور اعتکاف کرے۔
۴:-    محبتِ باہمی سے مراد یہ ہے کہ فقط اظہارِ دوستی نہ ہو، بلکہ محبتِ حقیقی اور واقعی ہو، نیز اس دینی محبت میں دوام بھی ہو، جو کسی دنیوی سبب سے منقطع نہ ہو۔
۵:-    جاہ وجمال کے متعلق ظاہر ہے کہ انہی دو وجوہ سے صنفِ نازک کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے۔ پھر جمال اور مال ومنال دونوں کا عورت میں جمع ہوجانا اکثر کمیاب ہے، اس پر ستم یہ کہ مرد کو سیہ کاری کے لیے خود ہی بُلائے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تمام مواقع بہم پہنچنے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنے دامن کو گنہگاری کے دھبہ سے بچالینا کوئی معمولی کام نہیں، خوفِ الٰہی کی قید اور شرط اس جگہ اس لیے ضروری ہے کہ بہت سے مرد اور عورتیں زنا کاری کو شرافت ({ FR 9596 }) کے خلاف سمجھتے ہیں یا غیر کے مطلع ہونے سے ڈرتے ہیں اور اس لیے مرتکبِ حرام کاری نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ان کا زنا سے اس طرح باز رہنا خدا کے خوف اور ڈر سے نہیں ہوتا، بلکہ صرف اس لیے کہ شرافت پر دھبہ نہ آنے پائے یا غیر اس پر مطلع نہ ہونے پائے، لہٰذا حدیث میں ’’فقال: إني أخاف اللہ‘‘ فرمایا ہے۔ یہ سایۂ الٰہی اور یہ بہشت اسی خوف کا نتیجہ ہے۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے: 
’’وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ‘‘ (الرحمٰن:۴۶) 
’’اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا، اُس کے لیے دو باغ ہوں گے۔ ‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا: 
’’وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔‘‘ 
 (النازعات: ۴۰-۴۱) 
’’اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا، پھر بے شک اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ’’إني أخاف اللہ‘‘ اس نے زبان سے کہا، تا کہ عورت کو اس کا عذر معلوم ہوجائے اور وہ خود بھی خوفِ الٰہی سے اس برائی کا ارتکاب نہ کرے۔ اور اس کا بھی احتمال ہے کہ مرد اپنے دل ہی دل میں کہے کہ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں کہ تقویٰ کا تعلق دل ہی سے ہے۔ بہرحال یہ بات صرف اس طرح حاصل ہوسکتی ہے کہ انسان کا دل اللہ کے خوف سے بھرپور ہو اور وہ خود حیاء وتقویٰ سے معمور ہو۔
۶:-    لفظ ’’صدقہ‘‘ حدیث میں نکرہ آیا ہے، اس میں ہر صدقہ (کم ہو یا زیادہ) داخل ہے، اس لیے بظاہر یہ صدقہ فرض ونفل دونوں پر مشتمل ہے، لیکن شیخ محی الدین نوویؒ نے علماء سے نقل کیا ہے کہ صدقۂ فرض کا اظہار بہ مقابلہ اِخفاء کے اولیٰ اور بہتر ہے، تاکہ متہم بفسق نہ ہو اور لوگ یہ نہ سمجھیں کہ تارکِ فرض ہے۔ پھر فرمایا کہ: ’’بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟‘‘، یہ اخفاءِ صدقہ میں مبالغہ ہے کہ اس قرب کے باوجود جو ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے حاصل ہے، ایک ہاتھ کے فعل کا دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو، مقصد اصل میں یہ ہے کہ صدقہ جس قدر چھپاکر دیا جائے، اسی قدر بہتر اور افضل ہے۔ حدیث میں کوئی خاص شکل اِخفاء کی متعین نہیں فرمائی ہے، اس لیے جس صورت سے بھی اِخفاء ہوسکے وہی صورت اس حدیث کا مصداق ٹھہرے گی، غرض اِخفاء سے ہے، نام ونمود ونمائش سے بچنے کی ضرورت ہے، اس کا طریقہ جو بھی ہو مدعا حاصل ہوجاتا ہے۔ 
۷:-    مراد ذکرِ خدا سے عام ہے، دل سے ہو، یا زبان سے، یا دونوں سے۔ اور تنہائی سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور موجود نہ ہو، یا مجلس میں ہے تو غیر اللہ کی طرف التفات نہ ہو، ارشاد ہے: 
’’رِجَالٌ لا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللہِ‘‘ (النور:۳۷) 
’’وہ مرد کہ غافل نہیں ہوتے سودا کرنے میں نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے۔ ‘‘
’’دست بکار ودل بیار، سفر در وطن و خلوت در انجمن‘‘ اسی سے عبارت ہے:
داند دلے کہ درد باو دادہ اند چیست
از خلق دور رفتن و تنہا گریستن
آنسو بہتے ہیں، لیکن حدیث میں آنکھوں کا بہنا مذکور ہے، یہ مبالغہ ہے اور کثرتِ بُکاء کا کنایہ، گویا آنکھیں خود آنسو بن گئیں۔ امام قرطبیؒ کا قول ہے کہ ذاکر کا رونا اپنے حال کے مطابق اس وقت جو چیز اس پر طاری ہوتی ہے اس کے لحاظ سے ہوتا ہے، چنانچہ وہ اوصافِ جلال کی حالت میں خوفِ الٰہی سے روتا ہے اور اوصافِ جمال کی حالت میں شوقِ الٰہی میں روتا ہے، لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث میں ’’خشیۃ اللہ‘‘ (خوفِ الٰہی) کی قید مذکور ہے، چنانچہ جوزقی نے بروایت حماد بن زیدؒ مرفوعاً نقل کیا ہے: ’’ ففاضت عیناہ من خشیۃ اللہ‘‘ اور اسی طرح بیہقی کی روایت میں بھی آیا ہے:
بریز اشکِ ندامت کہ نامہائے سیاہ 
بآب دیدہ تواں شست و دست استغفار
طاعت کند سرشک ندامت گناہ را
بارش سفید می کند ابرِ سیاہ را
خوفِ خدا سے رونے کے بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں اور محدثین نے احادیث کی کتب میں اس کے لیے مستقل باب منعقد کیا ہے۔ سننِ ابن ماجہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: 
’’ما من عبد مومن يخرج من عينيہ دموع وإن کان مثل رأس الذباب من خشيۃ اللہ ، ثم يصيب شيئًا من حرّ وجہہٖ إلا حرمہ اللہ علی النار ۔‘‘
’’جس بندۂ مومن کی آنکھوں سے کچھ آنسو اللہ کے خوف سے نکلیں، اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہی ہوں اور پھر اس کے چہرے کے کسی حصے پر بہہ نکلیں تو اللہ تعالیٰ اس بندہ کو آگ پر حرام فرما دیتا ہے۔‘‘
خوفِ خدا کے رتبہ کو دیکھنا چاہیے کہ اگر اس کے ڈر سے سرِ مگس کے برابر آنسو بہہ کر چہرہ پر آتا ہے تو جہنم اس رونے والے پر حرام ہوجاتی ہے، پھر جو شخص کہ ہمیشہ خوفِ خدا سے گریاں وبریاں رہے گا‘ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا رتبہ کس درجہ بلند ہوگا۔
تو اند قطرۂ اشکے بہم پیچید دوزخ را 
چہ می اندیشی از آتش چو باخود چشم تر داری
می توانی دوزخ خود را بہشتے ساختن 
کوثرے نقدے ز چشم اشکبارت دادہ اند
نور آورد بسینہ وظلمت برد زِ دل 
آغازِ صبح وآخر شبہا گریستن
از ابر غیر آب تمنا نبودہ است
مطلوب نیست از مژہ الا گریستن
یہ واضح رہے کہ یہ خصلتیں کچھ مردوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، بلکہ اس میں عورتیں بھی ان کی شریک ہیں۔ ہاں ’’امام عادل‘‘ سے مراد اگر خلیفہ ہے تو بے شک حقِ خلافت ان کو حاصل نہیں، ورنہ اگر عورت عیال دار ہے تو وہ بھی اپنی اولاد کی نگراں اور حاکم ہے، جہاں اس کو انصاف سے کام لینا چاہیے۔ اسی طرح مسجد کی حاضری بھی عورتوں کے لیے ضروری نہیں، بلکہ ان کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا مسجد سے بہتر ہے۔
علامہ ابو شامہ عبدالرحمٰن بن اسماعیلؒ نے ان خصائلِ سبعہ کو خوب نظم کیا ہے:
و قال النبي المصطفٰیؐ إن سبعۃ 
يظلہم اللہ الکريم بظلہٖ
محبٌ، عفيفٌ، ناشئٌ، متصدقٌ 
وباکٍ، مُصلٍّ، والإمام بعدلہٖ

(ماہنامہ بینات ، جمادی الاخریٰ ۱۳۸۲ھ مطابق نومبر ۱۹۶۲ء)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین