بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اللہ کی رحمت بہانہ ڈھونڈتی ہے!


اللہ کی رحمت بہانہ ڈھونڈتی ہے!


اللہ رب العزت کی صفاتِ عالیہ میں ایک بہت نمایاں صفت اللہ کی شانِ رحمت ہے، اسمائے حسنیٰ میں ’’الرحمٰن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ دونوں اسی صفت کے ترجمان ہیں، اور ان میں اللہ کی رحمت کی کثرت، عموم، تسلسل اور دوام سب کی طرف اشارہ موجود ہے۔ قرآن مجید میں سیکڑوں مقامات پر اللہ نے اپنی صفتِ رحمت کا ذکر کیا ہے اور حوالہ دیا ہے، تمام قرآنی سورتوں کے آغاز میں جو آیت تلاوت کی جاتی ہے اور تمام اہم کاموں کا آغاز جس بول سے کیے جانے کا حکم ہے وہ ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ ہے، جس میں اللہ کے ’’ رحمٰن‘‘ (سب پر مہربان) اور ’’رحیم‘‘ (بہت مہربان) ہونے کی صراحت ہے، قرآن میں مستقل ایک سورت ’’سورۃ الرحمٰن‘‘ کے نام سے موسوم ہے، جسے قرآن کی زینت قرار دیا گیا ہے، اس کا آغاز بھی صفتِ ’’رحمٰن‘‘ کے ذکر سے ہوا ہے، اور پوری سورت میں ابتدا سے انتہا تک اسی صفت کے ثمرات اور نمونوں کا بیان ہے، اس کے علاوہ بہت سے مقامات پر گنہ گاروں، گناہوں اور جہنم کی سزاؤں کے ذکر کے بعد اللہ نے اپنے ’’ غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘ ہونے کی صراحت فرمائی ہے، اور کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رحمت کی نسبت کی ہے اور کئی جگہ اپنی رحمت کی وسعت کو بیان فرمایا ہے:
’’کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔‘‘ (الانعام:۵۴)
’’تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کا معاملہ لازم کرلیا ہے۔‘‘
’’رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَۃٍ وَاسِعَۃٍ۔‘‘ (الانعام:۱۴۷)
’’تمہارا رب بڑی وسیع رحمت کا مالک ہے۔‘‘
’’وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ۔‘‘(الاعراف:۱۵۶)
’’میری رحمت ہر چیز کو محیط ہے۔‘‘
’’وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَۃِ۔‘‘(الکہف:۵۸)
’’تمہارا رب بہت بخشنے والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘
فرشتوں کا یہ قول بھی قرآن میں نقل ہوا ہے:
’’رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا۔ ‘‘ (الغافر:۷)
’’اے ہمارے رب! آپ کی رحمت اور علم ہرچیز پر بھاری ہے۔‘‘
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اللہ کی شانِ رحمت کا تذکرہ مختلف پیرایوں میں بڑی کثرت سے ملتا ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ نے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے:
’’إِنَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ غَضَبِیْ۔ ‘‘ (مسلم: التوبۃ:باب فی سعۃ رحمۃ اللہ:۶۹۶۹)
’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہتی ہے۔‘‘
’’سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ۔ ‘‘ (ایضاً:۶۹۷۰)
’’میری رحمت میرے غضب پر مقدم رہتی ہے۔‘‘
مختلف احادیث میں یہ صراحت ملتی ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت کے سو حصے فرمائے، اس میں ۹۹؍ حصے اپنے پاس عالمِ آخرت کے لیے روک لیے، اورایک حصہ دنیا میں بھیج دیا، انسانوں، جنوں، حیوانات میں باہم جو محبت، تعلق اور اُنس پایا جاتا ہے وہ اسی ایک حصۂ رحمت کا اثر ہے۔ (ایضاً:۶۹۷۲ و۶۹۷۴)
اللہ کی اسی شانِ رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے اپنے احکام سے بغاوت کرنے والوں اور گناہوں میں مبتلا افراد کو توبہ و استغفار اور اپنی طرف رجوع کا حکم دیتے ہوئے ان کو ناامیدی سے نکالا ہے اور اپنی رحمت کی امیدوں کی ڈور انہیں تھمادی ہے، چنانچہ فرمایا:
’’یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا إِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، وَأَنِیْبُوْا إِلٰی رَبِّکُمْ۔ ‘‘ (الزمر: ۵۳-۵۴)
’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے، بس تم اپنے رب سے لو لگالو۔‘‘
’’لاَ تَیْأَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۔‘‘ (یوسف:۸۷)
’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت بہانہ ڈھونڈتی ہے، اور بسا اوقات بندوں کی بہت چھوٹی نیکیاں بلکہ دل سے احساسِ ندامت، آنکھوں کے چند قطرے، اور معافی کے بول اللہ کی رحمت کو جوش دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور انہیں پر بے سان و گمان اللہ کی طرف سے تما م گناہوں کی مغفرت اور جنت و رحمت کا فیصلہ ہوجاتا ہے، احادیث میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے کہ ایک بدکار عورت کو صرف پیاسے کتے کو پانی پلانے کے عمل پر اللہ کی طرف سے مغفرت عطا فرمادی گئی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے:
’’وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْـمَعْرُوفِ۔‘‘ (ابوداؤد، اللباس، باب ما جاء فی اسبال الازار: ۴۰۸۴)
’’تم کبھی کسی نیک کام کو ہرگز حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔‘‘
کسی نیکی کو معمولی سمجھنا اور اُسے چھوڑدینا بے حد خطرناک بات ہے، بہت ممکن ہے کہ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے اور بیڑا پار ہوجائے، نیکیوں کو معمولی قرار دے کر اسے چھوڑنے کا خیال ڈالنا شیطان کی مکارانہ تدبیر ہے، اس دام میں پھنسنا بڑی نادانی ہے۔
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:
’’میں نے اپنے شیخ حضرت ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب قدس اللہ سرہٗ سے یہ واقعہ سنا کہ:
ایک بزرگ جوبڑے محدث بھی تھے، جنہوں نے ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایاکہ بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم کی خدمت میں اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس اور تصنیف اور وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ وعظ کرنا، فتویٰ دینا، تہجد پڑھنا، تصنیف کرنا وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں ۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرمادی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔
لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کونسا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہورہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔‘‘ (اصلاحی خطبات،ج:۶،ص: ۲۱۴-۲۱۵)
احادیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک تاجر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا، اس کے اعمال نامے میں نیکیاں بالکل نہیں ہوں گی، مگر اس کے پاس ایک خاص عمل ہوگا کہ وہ کاروبار میں دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرتا رہا، دوسروں کو قرض دیتا رہا، پھر تنگ دستوں کاقرض معاف کرتا رہا اور خوش حال لوگوں کے لیے بھی نرمی کا معاملہ کرتا رہا، جب اللہ کے سامنے اس کے اس عمل کا ذکر ہوگا تو اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی اور اللہ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ (بخاری، الاستقراض، حسن التقاضی:۲۳۹۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ ایک شخص کی پور ی زندگی گناہوں میں گزرتی رہی، موت کا وقت آیا تو اس نے اپنی اولاد کووصیت کی کہ میرا انتقال ہوجائے تو مجھے جلا دینا، اور میری راکھ ہوا میں سمندر کے پاس بکھیر دینا، مجھے ڈر ہے کہ اللہ نے مجھے پکڑا تو ایسا عذاب دے گا جیسا کسی کو نہ دے گا، بالآخر اس کی موت کے بعد اہلِ خانہ نے وصیت کے مطابق کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے منتشر اجزاء جمع فرمادیئے اور اپنے دربار میں حاضر کیا اور فرمایا: تم نے جو وصیت کی تھی اس کی وجہ کیا تھی؟ وہ بولا: اے اللہ: صرف آپ کے خوف کی وجہ سے، یہ سن کر اللہ کی رحمت کو جوش آیا اور اللہ نے اس مجرم کی مغفرت فرمادی۔ (مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ:۶۹۸۱)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ عابد ساٹھ سال تک اپنے حجرے میں عبادت میں مشغول رہا، ایک دن کسی ضروت سے باہر نکلا تو ایک عورت پر اس کی نگاہ پڑگئی، وہ عابد اس عورت کے حسن پر فریفتہ ہوگیا، اور اس سے زنا میں مبتلا ہوگیا، اب اسے بے حد ندامت ہوئی، توبہ کرتا رہا، اس کے پاس دو روٹیاں تھیں، بھوک لگی تو کھانے چلا، اچانک ایک سائل آگیا، اس نے ایثار کیا اور وہ روٹیاں اس سائل کو دے دیں، کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اس کی ساٹھ سالہ عبادتیں زنا کے اس عمل کے مقابلے میں کم زور ثابت ہوئیں، وہ بےحد بے قرار ہوا، مگر آخر میں یہ ہوا کہ اس نے سائل کو دو روٹیاں جو دی تھیں، اللہ کو اس نیکی پر پیار آگیا اور اسی عمل نے اس کی مغفرت کرادی۔ (الترغیب والترہیب،ج:۲، ص:۶۵)
روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت دو بندوں کو بلائیں گے اور ان سے فرمائیں گے کہ تم نے دنیا میں بے شمار گناہ کیے ہیں، اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، جاؤ! جہنم میں جاؤ، اس حکم کو سن کر ان میں سے ایک بہت تیزی سے جہنم کی طرف چل پڑے گا، دوسرا دھیرے دھیرے چلے گا اور بار بار مڑ کر اللہ کو دیکھے گا، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو واپس بلائیں گے اور پہلے شخص سے سوال کریں گے کہ میں نے تم کو جہنم میں جانے کے لیے کہا، تم تیزی سے چل پڑے، اس کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں آپ کا ہر حکم توڑا، اب آپ نے یہ آخری حکم دیا تو میں نے سوچا کہ اب یہ حکم نہیں توڑوں گا، اس لیے میں تیزی سے چل پڑا، اللہ دوسرے سے فرمائیں گے: تم بار بار پیچھے مڑ کر کیوںدیکھ رہے تھے؟ وہ عرض کرے گا: آپ کی رحمت کی اُمید میں، بس یہ سن کر اللہ تعالیٰ دونوں سے راضی ہوجائیں گے اور جنت کا فیصلہ فرمادیں گے۔ (التذکرہ، قرطبی، ج: ۱، ص:۴۱۲)
روایات میں وارد ہوا ہے کہ: راستے سے خاردار ٹہنی اور درخت ہٹانے کے عمل پر اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی اور ایسا کرنے والے کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا گیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
منقول ہے کہ:
امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کا ایک قبر پر سے گزرا ہوا، آپ نے (بطور کشف) دیکھا کہ عذاب کے فرشتے میت کو عذاب دے رہے ہیں، آپ آگے چلے گئے، اپنے کام سے فارغ ہوکر جب آپ دوبارہ یہاں سے گزرے تو اس قبر پر رحمت کے فرشتے دیکھے جن کے ساتھ نور کے طبق ہیں، آپ کو اس پر تعجب ہوا، آپ نے نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی، اے عیسیٰ! یہ بندہ گناہ گار تھا اور جب سے مرا تھا، عذاب میں گرفتار تھا، یہ مرتے وقت اپنی بیوی چھوڑ گیا تھا، اس عورت نے ایک فرزند جنا اور اس کی پرورش کی، یہاں تک کہ بڑا ہوا، اس کے بعد اس عورت نے اس فرزند کو مکتب میں بھیجا، استاذ نے اسے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھائی، پس مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں اسے آگ کا عذاب دوں زمین کے اندر اور اس کا فرزند میرا نام لیتا ہے زمین کے اوپر۔‘‘ (التفسیر الکبیر،ج:۱،ص:۱۵۵)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۲۹۷ھ) کووفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو سوال کیا: حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ آپ نے کہا:
’’فَنِیَتِ الْـحَقَائِقُ وَالْاِشَارَاتُ وَ نَفِدَتِ الرُّمُوْزُ وَالْعِبَارَاتُ وَ مَا نَفَعَنَا اِلاَّ رُکَیْعَاتٌ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ۔‘‘
’’یعنی سارے علوم و حقائق وغیرہ فنا ہوگئے، یہاں کچھ کام نہ آئے، اگر کچھ کام آئیں تو صرف وہ چھوٹی چھوٹی رکعتیں کام آئیں جو میں آدھی رات کو پڑھاکرتا تھا، یعنی تہجد۔‘‘ (الافاضات،ج:۲، ص: ۲۸۶)
ایک مجلس میں اللہ کی وسعتِ رحمت کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سب سے آخر میں جو گناہ گار جہنم سے نکالا جائے گا، اس کی کیفیت یہ ہوگی کہ باہر نکل کر بھی اس کا رخ جہنم کی طرف رکھا جائے گا اور وہ جھلس رہا ہوگا،وہ عرض کرے گا:’’یَا رَبِّ اِصْرِفْ وَجْہِيْ عَنِ النَّارِ فَقَدْ قَشَبَنِيْ رِیْحُہَا وَ اَحْرَقَنِيْ ذَکَاؤہَا۔ ‘‘یعنی ’’اے میرے رب! میرا رخ جہنم کی طرف سے ہٹا دیجئے، اس لیے کہ اس کی ہوامجھے جھلسا رہی ہے اور اس کے شعلے مجھے جلا رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’اگر تمہارا رخ جہنم کی طرف سے ہٹا دیا جائے تو کیا پھر کوئی اور مطالبہ تو نہیں کرو گے؟ وہ قسم کھاکر عہد و پیمان کرے گاکہ اگر یہ سہولت مجھے دے دی جائے تو میں کچھ اور مطالبہ نہیں کروں گا۔ اب اس کا رخ جہنم سے ہٹاکرجنت کی طرف کردیا جائے گا،اس کی نگاہ جنت کی نعمتوں اور رونقوں پر پڑے گی تو تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بالآخر وہ کہے گا: ’’یَا رَبِّ! قَدِّمْنِيْ عِنْدَ بَابِ الْجَنِّۃِ۔‘‘یعنی ’’اے میرے رب ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کردیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’اَلَیْسَ قَدْ اَعْطَیْتَ الْعُہُوْدَ وَ الْـمِیْثَاقَ اَنْ لَّا تَسْئَلَ غَیْرَ الَّذِيْ کُنْتَ سَاَلْتَ؟‘‘ یعنی ’’کیا تھوڑی دیر پہلے تم یہ عہد و پیمان نہیں کرچکے ہو کہ اب کچھ اور مطالبہ نہیں کرو گے؟‘‘ وہ بندہ بولے گا: ’’ یَا رَبِّ! لَا اَکُوْنُ أَشْقٰی خَلْقِکَ۔‘‘ یعنی ’’ اے میرے رب: مجھے اپنی مخلوقات میں سب سے محروم و بدنصیب مت بنایئے۔‘‘اللہ فرمائے گا: ’’اگر تمہاری یہ بات مان لی جائے تو پھر کچھ اور تو مطالبہ نہیں کرو گے؟‘‘ وہ کہے گا: مجھے آپ کی عزت کی قسم! عہد کرتا ہوں کچھ اور مطالبہ نہیں کروں گا۔ پھر اسے جنت کے دورازے کے قریب پہنچا دیا جائے گا، اب وہ قریب سے جنت کے مناظر اور نعمتوں کو دیکھے گا تو بے اختیار کہنے لگے گا: ’’یَارَبِّ! اَدْخِلْنِيْ الْجَنَّۃَ۔‘‘ یعنی ’’اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کردیجئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’وَیْحَکَ یَاابْنَ آدَمَ! وَمَا اَغْدَرَکَ، اَلَیْسَ قَدْ اَعْطَیْتَ الْعَہْدَ وَ الْـمِیْثَاقَ اَنْ لَا تَسْاَلَ غَیْرَ الَّذِیْ اُعْطِیْتَ؟‘‘ یعنی ’’اے فرزند آدم! تعجب ہے، تو کتنا عہد شکن ہے، کیا تم نے یہ عہد و پیمان نہیں کیا تھا کہ تمہیں جو کچھ دیا جاچکا ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں مانگوگے؟‘‘ اس پر وہ بندہ بولے گا: ’’یَا رَبِّ! لاَ تَجْعَلْنِی اَشْقَی خَلْقِکَ۔ ‘‘ یعنی ’’اے میرے رب! مجھے سب سے زیادہ محروم نہ بنایئے۔‘‘ یہ سن کر اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی،اللہ ہنسے گا، راضی ہوجائے گا، اور اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت عطا فرما دے گا، اور اس پر بس نہیں، اللہ فرمائے گا: ’’تَمَنَّ‘‘مزید تمنا کرو اور مانگو۔وہ بندہ ساری تمنائیں رکھے گا،اللہ اپنی شانِ رحمت سے اسے بہت سی چیزیں یاد دلائے گا، اور آخر میں فرمائے گا: ’’لَکَ ذٰلِکَ وَ عَشَرَۃُ اَمْثَالِہٖ‘‘ یعنی ’’تمہیں یہ سب کچھ ملے گا اور اس کا دس گنا مزید بھی ملے گا۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب فضل السجود) 
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد و بے پناہ ہے، وہ نیکیوں کے ارادے ہی پر اجر عطا کردیتا ہے، وہ ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا بخشتا ہے، اور اخلاص کے تناسب سے یہ ثواب بڑھاتا جاتا ہے، حتیٰ کہ سات سو گنا تک پہنچا دیتا ہے، پھر اس کی رحمت موجزن ہو تو جسے چاہتا ہے اس سے بھی کہیں زیادہ عطا فرماتا ہے، حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، میں اپنے بند ے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے، تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے زیادہ بہتر مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں، جومجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، جو میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں،جو شخص پوری روئے زمین کے برابر گناہ لے کر میرے پاس آئے گا، اگر وہ شرک سے بچتا رہا تو میں اپنی رحمت ومغفرت کی مکمل بارش اس پر برسادوں گا۔‘‘ (مشکوٰۃ، الدعوات، باب ذکر اللہ)
 ضرورت اس کی ہے کہ ہم اپنا دامنِ مراد اللہ کی رحمتوں سے مالا مال کرنے کی فکر کریں، اپنی غفلتوں سے باز آئیں، اپنے رب کو منانے کی کوشش کریں اور ایمان کی پختگی کے ساتھ اپنے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں کہ اسی تدبیر سے ہم یقینی طور پر اللہ کی رحمت اپنی طرف متوجہ کراسکتے ہیں اور اپنی بگڑی سنوار سکتے ہیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین