بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا ۔۔۔ بہت بڑا گناہ

اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا

بہت بڑا گناہ


تعارف و پسِ منظر

نصوص کے پیش نظر جو چیز ایک بڑےجرم اور عظیم گناہ کی حیثیت رکھتی ہے، وہ ’’صدّ عن سبیل اللہ‘‘ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، اللہ تعالیٰ کے راستے سے یہاں دینِ اسلام اوراس کی تمام تر تعلیمات مراد ہیں۔ اسلامی کتابوں کے اصل مخاطب چونکہ مسلمان ہوتے ہیں اور مسلمان سے یہ تصور نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں کو دینِ اسلام سے روکنے کی جسارت کریں گے، نیز خلافت یا واقعی اسلامی حکومت کے سایہ میں رہتے ہوئے ایک طرف دینی اور مذہبی حس بیدار اور توانا رہتی ہے، ساتھ دینی نقطۂ نظر سےپروپیگنڈہ کا بھی ماحول نہیں ہوتا، اس لیے ایسے ماحول میں رہتے ہوئے ایک مسلمان سےبہت بعید ہے کہ وہ کسی کو دینی تعلیمات سے روکے یا اس کا ذریعہ بنے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گناہوں کی تفصیلات پر مشتمل کتابوں میں اس گناہ کا عام طور پر ذکر نہیں ملتا۔
یہاں پہلے چند نصوص ذکر کیے جاتے ہیں جن سےاس جرم کی مذمت واضح ہورہی ہے، ساتھ ہر نص سے حاصل ہونے والے کچھ فوائد ونتائج بھی اختصار کے ساتھ ذکر کیے جائیں گے، اس کےبعد اس کی مختلف صورتیں اور ان کے شرعی احکام اور پھر عملی تجاویز ذکر کی جائیں گی۔

مذمت پر مشتمل چند نصوص

ارشادِ خداوندی ہے: 
’’يَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِط قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ کَبِيْرٌط وَّصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِق وَإِخْرَاجُ أَہْلِہٖ مِنْہُ أَکْبَرُ عِنْدَ اللہِج وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ‘‘ (البقرۃ: ۲۱۷)
ترجمہ: ’’ لوگ آپ سے شہرِ حرام میں قتال کرنے کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ اس میں ( خاص طور پر) قتال کرنا (یعنی عمداً) جرمِ عظیم ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں روک ٹوک کرنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجدِ حرام (یعنی کعبہ) کے ساتھ اور جو لوگ (مسجد حرام) کے اہل تھے ان کو اس سے خارج کردینا جرم عظیم ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور فتنہ پروازی کرنا (اس) قتل (خاص) سے بدرجہا بڑھ کر ہے۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن)
اس آیتِ مبارکہ سے ’’صد عن سبیل اللہ‘‘ کا عظیم گناہ ہونا واضح ہورہاہے، ایک تو اس لیے کہ اس کو حرمت کے مہینوں میں قتل وقتال کرنےسے زیادہ بڑا (گناہ) قرار دیا، ساتھ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس کو کفر اور مسجد حرام کے اہل کو وہاں سے نکالنے جیسے گناہوں کےساتھ ملا کر ذکر فرمایا گیا۔ فرمانِ خداوندی ہے:
’’وَلَا تَتَّخِذُوْآ أَيْمَانَکُمْ دَخَلًام بَيْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌم بَعْدَ ثُبُوْتِہَا وَتَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ ط وَلَکُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔‘‘   (النحل: ۹۴)
’’ اور تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ مت بناؤ ، کبھی (اس کو دیکھ کر) کسی اور کا قدم جمنے کے بعد نہ پھسل جائے، پھر تم کو اس کے سبب سے کہ تم (نقص عہد کرکے دوسروں کے لیے) راہِ خدا سے مانع ہوئے تکلیف بھگتنا پڑے اور تم کو بڑا عذاب ہوگا۔‘‘         (ترجمہ بیان القرآن)
یہاں ’’بِمَا صَدَدْتُّمْ‘‘ میں ’’ب‘‘ سبب کے لیے ہے اور ’’ما‘‘مصدریہ ہے، حاصل یہ ہواکہ اگر مسلمان لوگ اپنی قسموں کو باہم فساد کا ذریعہ بنائیں گے توکچھ لوگ دیکھ دیکھ دین سےہی برداشتہ ہوجائیں گے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کو عذاب وتکلیف اُٹھانی پڑے گی۔ اس سے معلوم ہواکہ جو گناہ لوگوں کو دین سے دور کرنے کا باعث ہو، اس کا ارتکاب کرنا اس ناجائز ’’خدا تعالیٰ کے راستے سے روکنے‘‘ میں داخل ہے، اگر چہ کرتے وقت یہ پہلو مقصود نہ بھی ہو۔نیزضابطہ یہ ہے کہ جس گناہ پر عذاب کی وعید آئی ہووہ کبیرہ گناہ قرار پاتا ہے۔ متعدد آیات میں عذاب کی وعید وارد ہونےسے واضح ہوجاتا ہےکہ خدا کے راستے سے روکناکبیرہ گناہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَنَادٰٓی أَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ أَصْحٰبَ النَّارِ أَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتُمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّاط قَالُوْا نَعَمْج فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ م بَيْنَہُمْ أَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِيْنَ الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًاج وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ کٰفِرُوْنَ۔‘‘    (الاعراف: ۴۴، ۴۵)
ترجمہ: ’’اور اہلِ جنت اہلِ دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا ہم نے تو اس کو واقع کے مطابق پایا ، سو (تم سے) جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا تم نے بھی اس کو مطابق واقع کے پایا؟ وہ کہیں گے کہ ہاں! پھر ایک پکارنے والا دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو (ان) ظالموں پر، جو اللہ کی راہ سے اِعراض کیا کرتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے رہتے تھے اور وہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے۔ ‘‘                  (ترجمہ بیان القرآن)
اس آیت سے واضح ہوا کہ:
الف:جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکتےہیں، وہ کھلےظالم ہیں۔
ب:ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور اور لعنت کا نشانہ بنیں گے۔
ج:ایسا کرنا اہلِ جہنم کی صفت اور ان کی عادت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’وَوَيْلٌ لِّلْکَافِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدٍط الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًاط أُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلٰلٍم بَعِيْدٍ۔‘‘   (ابراہیم: ۲، ۳)
ترجمہ: ’’ اور بڑی خرابی یعنی بڑا سخت عذاب ہے ان کافروں کو جو دنیوی زندگانی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور (بلکہ) اللہ کی راہ (مذکور) سے روکتے ہیں اور اس میں کجی (یعنی شبہات) کے متلاشی رہتے ہیں ، ایسے لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں۔‘‘    (ترجمہ بیان القرآن)
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہوتاہے کہ ’’ خدا تعالیٰ کے راستے سےروکنا‘‘ بڑی گمراہی ہے، کافروں کی بری اور بہت ہی مذموم صفت ہے، ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے کافر لوگ بھی سخت عذاب سےدوچار ہوں گے۔فرمانِ ربانی ہے:
’’إِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَ شَآقُّوْا الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْہُدَی لَنْ يَّضُرُّوْا اللہَ شَيْئًا وَّسَيُحْبِطُ أَعْمَالَہُمْ۔‘‘    (محمد: ۳۲)
ترجمہ: ’’ بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور انھوں نے اللہ کے رستہ سے روکا اور رسول ( علیہ السلام ) کی مخالفت کی بعد اس کے کہ ان کو رستہ نظر آچکا تھا، یہ لوگ اللہ کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو مٹادے گا۔ ‘‘    (ترجمہ بیان القرآن)
اس آیتِ مبارکہ میں تین گناہوں اورجرائم کی بنیاد پر ’’حبطِ اعمال‘‘ یعنی نیک اعمال ضائع ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، ان تین میں سے ایک جرم یہی ’’صدّ عن سبیل اللہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے راستہ سے روکنا) ہے اور نیک اعمال کی بربادی میں اس عمل کا خاص دخل ہے۔ اسی سورت کی بالکل پہلی آیت میں پہلے دوجرائم یعنی کفر اور ’’صد عن سبیل اللہ‘‘ پر بھی (نیک) اعمال کا گنوادینا مذکور ہے۔
اس کے علاوہ مختلف آیات سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ کام احبار ورہبان، اہلِ کتاب، قومِ لوط اور مشرکین کے اعمالِ بد کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل تھا۔

اللہ کےراستے کے دو مصداق/صورتیں 
 

زیرِ بحث گناہ ’’اللہ کے راستے سے روکنے‘‘ کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں سے چند نمایاں صورتیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔
اس مسئلہ میں ’’اللہ کے راستے‘‘ کا مصداق پورا دین اسلام بھی ہے اور اس کی مختلف شاخیں بھی، چنانچہ بعض دفعہ پورے دینِ اسلام ہی سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی شخص اس دین میں داخل نہ ہو یا جو لوگ اس کے تحت سرسری طور پر داخل ہیں، وہ اس کے ساتھ پوری وابستگی اختیار نہ کرلیں، جبکہ بعض مرتبہ پورے دین کےساتھ تو ایسا معاندانہ رویّہ اختیار نہیں کیا جاتا، تاہم اس کے بعض شعبوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، چنانچہ مختلف طبقات ایسے ہیں جو سود، پردہ، مسنون لباس و حلیہ وغیرہ مسائل سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

روکنے کی متعدد صورتیں

پھر خدا تعالیٰ کی اس راہ سے ’’روکنے‘‘ کی بھی دسیوں شکلیں ہوسکتی ہیں، بنیادی طور پر اس کی دو صورتیں ہیں:
الف: صراحت کےساتھ روکنا، مثال کےطور پر کوئی شخص/تنظیم/ملک یہ اعلان کرے کہ کوئی اسلام قبول نہیں کرے گا، یا کوئی شخص /گھرانہ فلاں شرعی حکم پر عمل نہ کرے۔
ب: صراحت کیے بغیر روکنا، مثال کےطور پر کوئی شخص/تنظیم/ملک کسی مجبوری یامصلحت کے پیش نظر باقاعدہ طور پر یہ اعلان تو نہ کرے کہ کوئی اسلام قبول نہیں کرے گا، یا کوئی شخص /گھرانہ فلاں شرعی حکم پر عمل نہ کرے، لیکن یہی مقصود دوسرےطریقے سے پورا کرے۔
ان دونوں طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ سے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کےلیے مختلف وسائل اختیار کیےجاتےہیں، مثال کے طور پر:
الف:بعض اوقات اس پر سزا مقرر کی جاتی ہےکہ جو شخص اس اعلان کی خلاف ورزی کرے گا، اس کو جسمانی سزا دی جائے گی، بعض جگہ جسمانی سزا کی جگہ مالی یا قید وبند کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔
ب: بعض اوقات اس اعلان کی پاسداری پر انعام مقرر کردیا جاتا ہے، مثال کےطور پر جو شخص اسلام قبول نہ کرے یا اسلام کے مخصوص حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے، اس کےلیےکوئی انعام دیاجاتاہے، پھر یہ انعام بعض اوقات تو نقد رقم یا قیمتی اشیاء کی صورت میں اس کو دیاجا تاہے، بعض اوقات منصب ولقب کی شکل میں، جبکہ بعض اوقات کسی بدنی یامالی بوجھ سے چھوٹ دینے کی صورت میں اس کا مظاہرہ ہوتاہے۔
ج: اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ موافق یا مخالف ماحول پیدا کرنا بھی جزا وسزا کی ایک صورت اور خدا تعالیٰ کی راہ سے روکنے کی ایک شکل ہے، اوربہت سی جگہ ’’دین کی راہ سےروکنے‘‘ کےلیے یہی صورت اختیار کرلی جاتی ہے، چنانچہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر یا اسلام کے کسی خاص حکم پر عمل کرنے کی بنیاد پر اس کے ساتھ سختی کا معاملہ روا رکھا جاتا ہےاور مسلمان نہ ہونے یا اس کے کسی خاص حکم کی مخالفت کرنے کی بنیاد پر اس کے ساتھ ہمدردی، احسان واِکرام کا معاملہ کیا جاتا ہے۔
د: صراحت کے بغیر روکنے کی ایک صورت وہ بھی ہے جس میں اس وقت مسلمان معاشرے کے متعدد طبقات بھی مبتلا ہیں، وہ یہ ہے کہ خود دین اسلام پر کوئی نقد و اعتراض نہ کریں، لیکن مسلمانوں یا دین اسلام کی بعض خاص تعلیمات کے متعلق نقد واعتراض کا ماحول پیدا کریں، اس کے بارےمیں لوگوں کی ’’رائےعامہ‘‘ کو بدلنے یا ’’ہموار‘‘ کرنے کی کوشش کریں، خواہ وہ فلسفیانہ انداز میں اشکال کرنے کی صورت میں ہو یا ماحول وحالات کے سازگار نہ ہونے اور دینی حکم پر عمل کرنے کی صورت میں عائد ہونےوالےخطرات وخدشات کو اُبھارنے کی صورت میں ہو، اُبھارنا چاہے خود براہِ راست ہو یا کسی اور فتنہ پردازشخص کی تشہیرو تعاون کی صورت میں ہو۔

عملی مظاہر

’’خدا تعالیٰ کے راستے سے روکنے‘‘کا جومفہوم درج بالا سطور میں بیان کیاگیاہے، اس کا مختلف سطح پر ارتکاب بلکہ اہتمام کیاجاتاہے، بہت سی تنظیمیں اورا فراد اس کےلیے میدان میں اُترچکے ہیں، جو مختلف جگہوں پر مختلف طریقوں سے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے پوری اُمتِ مرحومہ بلکہ پوری انسانیت کو محفوظ ومامون فرمائے، لیکن درج ذیل میدانوں میں اس کا خاص طور پر ایسا اہتمام کیاجاتاہےجو مؤثر کن بھی ہے اور تباہ کن بھی:
1:صحافت:اخبار، رسائل وجرائد، کتابیں اور مقالات۔
2:میڈیا: صحافت اور میڈیا آپس میں مربوط ہیں، تاہم یہاں اس سے آڈیو، ویڈیو، تصویر، ڈاکومنٹری، نغمیں، صوتی بیانات وتقاریر وغیرہ جیسی چیزیں مراد ہیں۔
3:دینی جامہ پہن کراور مذہبی لبادہ اوڑھ کر قصداً کوئی ایساغلط کام انجام دینا جو لوگوں کے دلوں میں دین اور اہلِ دین کی بدنامی، ہتکِ عزت وغیرہ کا سبب ہو۔

مختلف درجات و صورتیں اور فقہی حکم

الف:اگر کوئی شخص:
1: دینِ اسلام کے قطعی ثابت شدہ احکام کو درست ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔
2:درست تو مانتا ہے، مگراس کے ماننےکو ضروری نہیں سمجھتا۔
3:درست ماننے کے باوجوداس کے ساتھ نفرت وعناد رکھتا ہو۔
4:اس پر ٹھیک طریقےسےعمل کرنےکو مسلمانوں کی بربادی اور زوال کا باعث سمجھتا ہو۔
5:اس کو آج کے دور میں ناقابلِ عمل جانتا ہو اور اس لیے کوئی متضاد راستہ مناسب خیال کرتا ہو۔
تو ان تمام صورتوں میں ایساشخص کفر کا ارتکاب کرتاہے اور ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
ب:اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کفریہ خیال واعتقاد کاقائل نہ ہو، لیکن یوں ہی کسی دنیوی مفاد کے لیے ایسا کرتا ہو تو یہ سخت گناہِ کبیرہ ہے اور خطرہ ہے کہ اس کا یہ عمل اس کو کفر کی دہلیز تک پہنچادے۔
ج:کسی شخص سے لاشعوری طور پر ایسا کوئی کام سرزد ہوجائے تو بھی اس کام کی نوعیت کو دیکھ کر حکم متعین کیا جائے گا کہ وہ کس درجے کا گناہ ہے۔

خلاصۂ کلام

حاصل یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کے دین یا اس کے جزوی مسائل وتعلیمات سے لوگوں کو دور رکھنا، متنفر کرنا بڑے گناہوں اور عظیم جرائم میں سے ایک ہے، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ہی مذمت فرمائی گئی ہے، اس لیے اس سے بچنےکا پور پورا اہتمام کرنا ضروری ہے، دیگر گناہوں کی بنسبت اس سے بچاؤ کا زیادہ سامان کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہےکہ یہ صرف ایک گناہ نہیں ہے جس کا اثر کرنے والے تک محدود ہو، بلکہ دیگر افراد تک بھی اس کا فساد متعدی ہوجاتا ہے، البتہ اس کی مختلف صورتیں ہیں جن کے احکام بھی مختلف ہیں، اس کی کچھ تفصیل گزشتہ سطور میں ذکر کی گئی ہے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین