بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (نویں قسط)

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                       (نویں قسط) پندرہواں فائدہ اضافت کا بیان اضافت کا لفظ ایک اصطلاح کے طور پر مختلف علوم وفنون میں استعمال ہوتا ہے،مگر یہاں اس کا فقہی مفہوم مراد ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر طلاق دیتے وقت اس کی نسبت بیوی کی طرف کرے۔بیوی کی طرف نسبت اس لیے ضروری ہے کہ وہ طلاق کا محل ہے اور محل نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، جیساکہ مبیع نہ ہوتو بیع نہیںہوتی،تمام کتب اس شرط کے ضروری ہونے پر متفق ہیں اور بہت سے مسائل میں طلاق کے عدم وقوع کی وجہ اسی عدم اضافت کو قرار دیا گیا ہے۔فقہا کہیں لکھتے ہیں کہ: ’’لترکہ الإضافۃ إلیھا ‘‘اور کہیں صراحت کرتے ہیں کہ:’’لأنہ ما أضاف الطلاق إلیھا‘‘ طلاق کے ذکر میں فقہا نے جو تمثیلات پیش کی ہیں، وہ بھی سب کی سب اضافت پر مشتمل ہیں، جیسے: ’’أنت طالق، طلقتک، طلقتھا،ھی طالق وغیرہ‘‘علامہ ابن عابدین vایک اصول کے طور پرلکھتے ہیں: ’’۔۔۔لا بد فی وقوعہ قضاء ودیانۃ من قصد إضافۃ لفظ الطلاق إلیھا۔۔۔‘‘ ۔(۱) اضافت یا نیت طلاق کے معاملے میں اضافت کے ضروری ہونے میں تو کلام نہیں، لیکن جب اضافت نہ ہو یا ہو مگر صریح نہ ہو تو پھر شوہر کی نیت دیکھی جائے گی کہ اس کا منشا بیوی کو طلاق دینے کا تھا یا نہیں؟اگر وہ بیان کردیتا ہے کہ اس کا مقصد اپنی زوجہ کو طلا ق دینے کا تھا تو طلاق واقع سمجھی جائے گی اور یوں قرار دیا جائے گا کہ اگر چہ لفظوں میں اضافت مفقود ہے، مگر نیت میں موجود ہے: ’’لا یقع فی جنس الإضافۃ إذا لم ینولعدم الإضافۃ إلیھا۔‘‘(۲) ’’اضافت والے امور میں جب نیت نہ ہوتو بیوی کی طرف اضافت نہ ہونے پر طلاق واقع نہ ہوگی۔‘‘ یہ حوالہ اس بارے میں صریح ہے کہ اضافت کی عدم موجودگی میں نیت ضروری ہے اور اگر نیت بھی نہ ہوتوطلاق نہ ہوگی،منطقی زبان میںیہ قضیہ مانعۃ الخلو ہے کہ اضافت یا نیت میں سے کسی ایک کا وجود کافی ہے اور اگر دونوں معدوم ہوئے تو حکم بھی معدوم ہوگا۔ اضافت یا نیت کی ضرورت کیوں؟ نیت اور اضافت میں سے کسی ایک کا ہونا اس لیے شرط ہے کہ اگر یہ دونوں نہ ہوں، یعنی نہ تو شوہرنے بیوی کی طرف اضافت کی ہواور نہ ہی اس کی نیت اپنی بیوی کوطلاق دینے کی ہو اورمحض اس بنا پرطلاق کے وقوع کا فتویٰ دیا جائے کہ اس نے طلاق کا لفظ ذکر کیا ہے تو پھرلازم آئے گا کہ ہر اس شخص کی بیوی کو طلاق پڑجائے جوطلاق کا لفظ زبان پر لائے، حالانکہ ایسا نہیں ہے،قرآن وحدیث میں بار بار طلاق کا لفظ آیا ہے،دینی کتابیں اس کے ذکر سے بھری پڑی ہیں،مسلمان ان کتب کو پڑھتے ہیں،اساتذہ ان کا درس دیتے ہیں،طلبہ ان کا تکرار کرتے ہیں، اس طرح بار بار یہ لفظ زبانوں پر آتا ہے، مگر چونکہ نہ اضافت ہوتی ہے اور نہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت ہوتی ہے، اس لیے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اضافت اور نیت ۔۔۔احتمالی صورتیں اضافت اور نیت جدا اور الگ الگ چیزیں ہیں اور طلاق کے وقوع کے لیے دونوں میں سے کسی ایک کا وجود شرط ہے،اس لحاظ سے دونوں کو ملایا جائے تو کل چار صورتیں بنتی ہیں، یعنی دونوں موجود ہوں،دونوں مفقود ہوں،دونوں میں سے کوئی ایک مذکور ہو۔ ۱:…دونوں موجود ہوں تو وقوع طلاق میں کوئی کلام نہیں،کیوں کہ کسی ایک کا وجود بھی کافی ہے، چہ جائیکہ دونوں موجود ہوں۔ ۲:…دونوں نہ ہوں تو عدم وقوع یقینی ہے،خانیہ اور خلاصہ وغیرہ میں ہے کہ: ’’رجل قال لأمرتہ فی الغضب:’’اگر تو زنِ من سہ طلاق‘‘ مع حذف الیاء لایقع، إذا قال:لم أنو الطلاق، لأنہ لما حذف لم یکن مضیفا إلیھا۔‘‘(۳) ’’یعنی ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو میری بیوی ہے تو تین طلاق‘‘اور یوں نہ کہا کہ تجھے تین طلاق‘‘ تو طلاق واقع نہ ہوگی،جب وہ یہ کہے کہ میری نیت طلاق کی نہ تھی، کیوں کہ جب اس نے ’’تجھے‘‘کا لفظ نہ کہا تو طلاق کی اضافت بیوی کی طرف نہ کی۔‘‘ مذکورہ بالا جزئیے میں جب شوہر نے’’ تجھے ‘‘نہ کہا تو اضافت نہ ہوئی اور جب اس نے اظہار کردیا کہ میرا ارادہ طلاق کا نہ تھا تو نیت کی بھی نفی ہوگئی اور اور جب دونوں نہ پائے گئے تو طلاق بھی نہ ہوئی۔ اس قسم کے کئی جزئیات کتب میں مذکور ہیں، مثلاً محیط میں ہے کہ ایک شرابی نے اپنی بیوی سے کہا کہ کیا تو چاہتی ہے کہ میں تجھے طلاق دوں ؟بیوی نے کہا ’’ہاں!‘‘چاہتی ہوں،تو خاوند نے کہا کہ اگر تو میری بیوی ہے تو ایک طلاق،دو طلاق،تین طلاق،اٹھ اور میرے پاس سے نکل جا۔خاوند کابیان ہے کہ میں نے اس کہنے سے طلاق مراد نہیں لی تواس کی بات قابل قبول ہوگی۔اس طرح ایک نشے والے کی بیوی بھاگ گئی، اس نے تعاقب کیا،مگر اُسے پکڑنہ سکاتو اس نے کہا تین طلاق کے ساتھ،اب اگر وہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کے ارادے سے کہا ہے تو طلاق ہوگی اور اگر کچھ نہ کہے تو طلاق نہ ہوگی۔ ۳:…تیسری صورت یہ ہے کہ اضافت نہ ہو مگر نیت ہو۔ اس صورت میں بھی طلاق ہوجائے گی۔ پچھلے حوالہ جات میں صرف عدم اضافت کو کافی نہیں سمجھا گیا، بلکہ اس کے ساتھ عدم نیت کو بھی ضروری ٹھہرایا گیا ہے،جس کاکھلا اور صاف مفہوم یہ ہے کہ اگر لفظوں میں اضافت نہ ہو، مگر نیت میں اضافت ہو تو طلاق واقع ہے۔ اس موضوع پر حوالہ جات آگے نیت کے بیان میں درج کیے جائیں گے۔ ۴:…چوتھی صورت یہ ہے کہ نیت نہ ہو مگر اضافت ہو۔اس صورت کا حکم بھی واضح ہے کہ طلاق ہوجائے گی،کیوں کہ نیت یا اضافت میں سے کوئی ایک موجود ہے،مگر جب اضافت لفظوں میں نہ ہو بلکہ معنوی ہو تو یہ صورت سب سے زیادہ الجھن پیدا کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ نظری حیثیت سے اضافت کا مسئلہ بڑا واضح، الجھن سے پاک اور اختلاف سے خالی نظر آتا ہے، مگر حقیقت میں اس مسئلے کی عملی تطبیق کافی مشکل ہے اور کہا جا سکتاہے کہ اضافت کا مسئلہ باوجود مختصر ہونے کے فقہ کے چند الجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل میں سے ہے،یہی وجہ ہے کہ بلندپایہ فقہا نے اُسے الگ سے موضوع بحث بنایا ہے۔ اس پیچیدگی کا سبب جزئیات کا اختلاف اور ان کا باہم تعارض نظر آتا ہے۔ ایک اصول کی حیثیت سے یہ مسلمہ اور متفقہ قاعدہ ہے کہ وقوع طلاق کے لیے اضافت ضروری ہے،مگر کہیں  بظاہر اضافت نہیںہوتی اور طلاق واقع ہوتی ہے اور کہیں شوہر کے الفاظ میں اضافت مفقود نظر آتی ہے، مگر وقوع کا حکم لگادیا جاتا ہے، بعض جزئیا ت میں مذاکرۂ طلاق کی صورت ہوتی ہے اور شوہر بیوی کے مطالبے پر اس سے مخاطب ہوکر طلاق کے الفاظ ادا کرتاہے، یعنی اضافت معنویہ موجود ہوتی ہے، مگرحکم عدم وقوع طلاق کا ہوتاہے اور بعض مرتبہ حکم اس کے برعکس ہوتاہے۔بعض مسائل میں طلاق واقع سمجھی جاتی ہے، مگر یہ کہ شوہر حلفیہ انکار کردے اور بعض میں شوہر کا اتنی وضاحت دے دینا کافی ہوتاہے کہ اس کا ارادہ طلاق کا نہ تھا۔ حضرت کشمیری v کی تحقیق امداد المفتین میں حضرت مفتی شفیع صاحب v نے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری v  کا رسالہ شامل کیا ہے، جس کا نام ’’حکم الإنصاف فی الطلاق الغیر المضاف ‘‘ خود حضرت مفتی صاحبؒ نے تجویز کیا ہے، اس رسالے پر بشمول حضرت مفتی صاحبؒ،حضرت گنگوہیؒ،شیخ الہندؒ اورمفتی عزیر الرحمن w سمیت بڑے بڑے اکابر اہل فتاویٰ کے تصدیقی دستخط ثبت ہیں۔رسالہ ایک سوال کے جواب میں ہے اور جواب میں فقہا کی جو عبارتیں صریح اضافت نہ ہونے کی صورت میں مختلف نظر آتی ہیں،ان کے درمیان تطبیق دی گئی ہے اور خود ہی حضرت کشمیری v نے تمام بحث کا نچوڑ اور خلاصہ بھی بیان فرمادیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’محصل ایں مقالہ آنکہ در تطلیق اضافت صریحہ ضرور نیست ونہ اضافت معنویہ لابدیہ است ۔‘‘ چند سطور کے بعد رقم فرماتے ہیںکہ جن عبارات میں عدم وقوع طلا ق کا ذکر ہے، وہ اس صورت میں ہے کہ نہ شوہر کی نیت ہو اور نہ اس لفظ سے طلاق دینے کا عرف ہو: ’’۔۔۔عدم وقوع آں وقت است کہ ارادۂ طلاق زن نہ باشد، نہ عرف جاری باشد۔‘‘(۴) حضرت تھانوی v کی تحقیق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v نے باہم متعارض ومتصادم عبارات کے درمیان جوڑ اس طرح بٹھایا ہے کہ وقوعِ طلاق کے لیے مطلق اضافت تو شرط ہے، لیکن صریح اضافت شرط نہیں ہے اور مطلق اضافت کا وجود کسی مضبوط اور قوی قرینے کے مرہون منت ہوتاہے، اگرقرینہ ضعیف اور کمزور ہو تو وہ اضافت کی شرط پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔یہ سوال کہ قرینہ کب قوی ہوتاہے؟ حضرت تھانوی vلکھتے ہیں کہ: استقراء سے معلوم ہوتاہے کہ یہ قرینہ چار قسم پر ہے۱:صریح اضافت۔ ۲:نیت۔ ۳:سوال میں اضافت۔۴:عرف۔آخر میں بطور نتیجہ اور حاصل کے لکھتے ہیں کہ جن جزئیات میں عدم وقوع طلاق کا حکم ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان میںصریح اضافت موجود نہیں، بلکہ سرے سے اضافت ہی نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ’’الجواب:از قواعد وجزئیات چناں می نماید کہ شرط وقوع طلاق مطلق اضافت ست، نہ کہ اضافت صریحہ،آرے تحقق مطلق اضافت محتاج ست بقرآئن قویہ،وقرائن ضعیفہ محتملہ درآں کافی نیست۔پس درجزئیاتیکہ حکم بعدم وقوع کردہ اند، سببش نہ آنست کہ درواضافت صریحہ نیست، بلکہ سبب آن ست کہ درو قرینہ قویہ بر اضافت قائم نیست۔ وآں قرینہ بہ تتبع چند قسم است۔ اول:صراحت اضافت وآں ظاہر است کما قولہ اینکت۔دوم:نیت کمافی قولہ عینت امرأتی،واز عبارت خلاصہ ’’وإن لم یقل شیئا لایقع‘‘شبہ نہ کردہ شود کہ نیت بلا اضافت صریحہ کافی نیست،زیر اکہ معنی لایقع أی لا یحکم بوقوعہ مالم یقل عنیت است چرا کہ کہ بدون اظہار نادی دیگراں را علم نیت چگونہ می تواں باشد،  فإذا قال :’’عنیت‘‘ یقع،لا لقولہ عنیت، لأنہ لیس موضوعا للطلاق بل بقولہ سہ طلاق مع النیۃ فافہم، فإنہ متعین متیقن۔ سوم:اضافت در کلام سائل کما فی قولہ ’’دادم‘‘ فی جواب قولھا’’مرا طلاق دہ‘‘ولہذا ثلث واقع شود لتکرارھا ثلاثا، ورنہ کلام ’’دادم‘‘ نہ برائے طلاق موضوع است ونہ برائے عدد ثلثہ۔چہارم: عرف کما فی روایۃ الشامی:الطلاق یلزمنی‘‘پس در جزئیاتیکہ ہمہ قرائن مفقود باشند طلاق واقع نہ خواہد شد، لا لعدم الإضافۃ الصریحۃ بل لعدم مطلق الإضافۃ،پس بریں تقریر در مسائل ہیچ گونہ تدافع نیست، ھذا ماعندی ولعل عند غیری أحسن من ھذا۔ (۵) حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی vکی رائے امداد الاحکام میں ’’إزالۃ الإغلاق عن إضافۃ الطلاق ‘‘کے نام سے اضافت کے مسئلے پر ایک مستقل رسالہ موجود ہے۔اس رسالے میں جزئیات کا تعارض بایں الفاظ دور کیا گیا ہے: ’’جن جزئیات میں اضافت صریحہ نہ ہونے کی وجہ سے عدم وقوع کا حکم مذکور ہے، ان کا مطلب یہی ہے کہ اگر زوج ارادۂ طلاق زوجہ کا انکار کرے اور قرائن بھی ارادۂ زوجہ پر قائم نہ ہوں تو طلاق واقع نہ ہوگی، لیکن اگر قرائن اضافت الی الزوجہ پر قائم ہوں تو قضاء ًبہر حال واقع ہے جب کہ اضافت معنویہ خطاب یا اشارہ موجود ہیــ۔۔۔‘‘۔(۶) اس اقتباس کا حاصل یہ ہے کہ اگر اضافت معنوی ہواور قرینہ بھی اضافت پر قائم ہوتو قضاء ًطلاق واقع ہے اور اگر قرینہ نہ ہو اور نیت بھی نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہے۔مولانا ظفر احمد عثمانی v کی جو سوچ مذکورہ رسالے کے پس پشت ہے اور جس سے کام لے کر انہوں نے جزئیات کا تعارض حل کیا ہے، وہ قضا اور دیانت کا فرق ہے،مگراس سوچ کے بارے میں اپنا تذبذب بھی ظاہر کردیا ہے، رسالے کے اختتام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت شیخ نے اس تحریر کو ملاحظہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ: میرے نزدیک فقہا کی عبارات مطلقہ درباب عدم وقوع بسبب عدم اضافت کو دیانت پر محمول کرنا تقیید ِاطلاق ہے، کیونکہ لایقع میں نکرہ تحت نفی ہے جو عام ہے، اس کو بلادلیل خاص نہیں کرسکتے،ہاں!  یقعنکرہ تحت الاثبات ہے جو عموم میں نص نہیں،اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس کو عدمِ وجودِ قرائن پر محمول کیا جائے اور عباراتِ مفیدہ کو قرائن پر، کما فی الجواب۔ قلت وإلیہ یمیل قلبی ولکن فی النفس بعد شیء ولعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک أمرًا۔‘‘ حوالہ جات ۱:…ردالمحتار علی الدر المختار،کتاب الطلاق،مطلب فی قول البحر:ان الصریح ۔۔۔ج:۳،ص:۲۵۰،ط :سعید ۲:…الفتاوی الھندیۃ،کتاب الطلاق،الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ، ج:۱،ص:۳۸۲،ط:رشیدیہ ۳:…ایضاً۔                    ۴:…امدادالمفتین،کتاب الطلاق،ص:۵۰۸ ۔ ۵:…امداد الفتاویٰ،کتاب الطلاق،۲؍۴۴۷،ط:دارالاشاعت    ۶:…امداد الاحکام، ج:۲،ص:۳۹۴                                                                                                 (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین