بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق ۔۔۔۔۔ احتیاط اور تفہیم

الفاظِ طلاق 

احتیاط اور تفہیم


نکاح فطرت ہے، فطرت ہے تو طبیعت ہے، طبیعت ہے تو ضرورت ہے، ضرورت ہے تو شریعت ہے اور شریعت ہے تو عبادت ہے۔ عبادت ہے تو اس کا طریقہ مقرر ہے، اس لیے اسے مرضی کے مطابق نہیں، بلکہ شریعت کی منشا کے مطابق انجام دیا جائے گا۔
نکاح عبادت ہے تو بڑے عبادت گزاروں نے اسے ضرورانجام دیا ہوگا، چنانچہ نکاح‘ انبیاء کرام (علیہم الصلوٰۃ والسلام) کا اُسوہ اورصلحاء کا طریقہ ہے۔
نکاح عبادت ہے تو اس سے تزکیۂ نفس کا مقصد ضرور حاصل ہوگا، چنانچہ نکاح‘ نگاہوں کو پاک، خیالات کو پاکیزہ، جذبات کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کرتا ہے۔
نکاح عبادت ہے تو اس کے پس پشت انسانیت کی فلاح کا مقصد ضرور پیش نظر ہوگا، چنانچہ نوعِ انسانی کی بقاء، نفس پر ضبط، شہوت پر کنٹرول، اخلاق کو سنوارنے، فواحش سے بچنے اور پاکدامنی کے حصول کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں، اسی شریفانہ طریقے سے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری ر ہتا ہے،اسی سے نام اور کام باقی رہتا ہے،اسی سے مردوعورت کے تعلقات جائز،اولاد کانسب درست اور باہم حقوق وفرائض پیدا ہوتے ہیں اور اسی سے خانگی نظام کی اصلاح ہوتی ہے، جس پر تمام ہیئتِ اجتماعی کی درستگی کا انحصار ہے۔
عبادت کےساتھ نکاح ایک سماجی معاہدہ بھی ہے۔ معاہدہ دو طرفہ عمل ہوتا ہے جو باہمی رضامندی سےتشکیل پاتا ہے، باہمی رضامندی کا اظہار الفاظ سے ہوتا ہے، اس لیے ہر معاہدے کی طرح نکاح کا معاہدہ بھی الفاظ سے وجود میں آتا ہے، چنانچہ رضامندی کے دو بول ہوتے ہیں جو سماعت سے ٹکراکرختم اور ہوا میں اُڑ کر تحلیل ہوجاتے ہیں، مگر کہنے والوں کو ایک بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔
ایسا مقدس بندھن جو معنوی پہلو سے فولادسے زیادہ سخت ،شہد سے زیادہ میٹھا، ہر قسم کے مادی تعلقات سے زیادہ مضبوط، دور رس اثرات کا حامل اوران گنت فوائد پر مشتمل ہوتا ہے۔
نکاح جس قدر فوائد پر مشتمل ہے، اس کا ٹوٹنا اتنا ہی مضر ہے۔ دو خاندانوں میں محبت‘ نفرت سے اور اُلفت‘ عداوت سے بدل جاتی ہے۔ خاندانی نظام کی بنیادی اکائی منہدم ہوجاتی ہے، خانگی نظام متزلزل ہوجاتا ہے، بچوں کا مستقبل، تاریک اور زوجین کا معاشرتی وقار سب دریا برد ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے طلاق کو ’’أبغض المباحات‘‘ کہا گیا ہے۔ جو لوگ عجلت میں اس کااستعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے جوشِ انتقام کو تسکین دیتے ہیں، وہ جہالت کا شکار، عنداللہ مجرم اور سخت غلطی پر ہیں۔
نکاح سے زیادہ حساس، باریک اور نازک معاملہ ایمان کا ہے، مگر لوگ اس کے بارے میں کس قدر محتاط واقع ہوئے ہیں!؟ زمانے کے نبض شناس بہت پہلے مرض کی تشخیص اور اس کے ساتھ نسخہ تجویز کرچکے ہیں۔
فتاویٰ کی معروف کتاب ’’شامی‘‘ میں ’’تبیین المحارم‘‘ کے حوالے سے ہے کہ احتیاط یہ ہے کہ عام آدمی ہر روز اپنے ایمان کی اور مہینے میں ایک دومرتبہ اپنے نکاح کی تجدید کرلیا کریں، کیونکہ غلطی مرد سے نہ سہی، مگر عورتوں سے بہت زیادہ ہوجایا کرتی ہے:
’’والاحتياط أن يجدد الجاہلُ إيمانَہٗ کلَّ يوم، ويجدد نکاحَ امرأتہٖ عند شاہدين في کل شہر مرۃً أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فہو من النساء کثير.‘‘  (فتاویٰ شامی، ج:۱، ص:۴۲، دار الفکر- بيروت، الطبعۃ الثانيۃ، ۱۴۱۲ھـ -۱۹۹۲ء)
یہ اس زمانے کی بات ہے جو دینی شعور، خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کے اعتبار سے بہرحال اچھا تھا، مسلمان دینی مسائل سے آج کے مقابلے میں زیادہ بہتر واقفیت رکھتے تھے، شریعت رواج میں تھی، اس لیے مکتب اور کتاب کے بغیر محض ماحول کی برکت سے لوگ بہت کچھ دینی مسائل جان جایا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ معاشرے پر اسلامی رنگ اور روحانیت کی چھاپ غالب تھی اور ا س کی عمومی فضا دینی اور مذہبی تھی، ان وجوہ کی بنا پر شریعت پر عمل آسان تھا اور معاشرے سے کٹ کر چلنا دشوار، اور جمہور کی مخالفت میں قدم اُٹھانا مشکل تھا۔
اب جب کہ ماحول نہ رہا تو بدیہی مسائل‘ نظری اور آسان اعمال‘ مشکل ہوگئے۔ معاشرتی روک ختم ہوا تو دبی برائیوں کو اُبھرنے اور شرکو سر اُٹھانے کا موقع مل گیا۔ روشنی کمزور پڑنے لگتی ہے تو اندھیروں کے حوصلے بڑھنے لگتے ہیں اور ظلمتیں راج کرنے لگتی ہیں۔ آفتابِ نبوت سے دوری بڑھتی جارہی ہے تو قلوب میں ایمان کی حرارت اور سینوں میں اس کی تمازت ماند پڑتی جارہی ہے۔ آج ایمان کی وہ قوت، اعمال کا وہ جوش وجذبہ اور اخلاق کی وہ کیفیت نہ رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ خدا کا خوف اور آخرت کا دھیان کم ہوا تو نتیجہ یہ نکلا کہ نفس کی لگامیں کمزور اور زبان پر گرفت ڈھیلی پڑگئی، چنانچہ آج کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتا ہے کہ نگاہیں آوارہ اور زبانیں بے قابو ہیں، لوگ اَناپ شناپ بولتے رہتے ہیں، جس سے ایمان سلب ہونے، اعمال غارت ہونے اورنکاح ٹوٹنے کاخطرہ لگا رہتا ہے۔
ایمان کی طرح نکاح کا معاملہ بھی اہمیت میں کچھ کم نہیں ،دونوں میں اس لحاظ سے بڑا جوڑ بھی ہے کہ آخرت میں بھی یہ دونوں باقی رہیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کو ایمان کی طرح نکاح کی بقاء بھی مطلوب ہے۔اسی وجہ سے ابلیس لعین کو سب سے زیادہ خوشی اسی کے ٹوٹنے سے ہوتی ہے ،مگر مسلمان ہیں جو اس لعین کو خوشیاں منانے اور بغلیں بجانے کاموقع فراہم کرتے رہتے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو کسی خاندان کے اندرونِ خانہ جھانک کر دیکھیے:
’’دومیاں بیوی ہیں اور دونوں نیک طینت،خوب صورت اور خوب سیرت ہیں،معاشی طورپر خوش حال اور اولاد کی نعمت سے مالامال ہیں۔غرض ہنستا بستا گھرانہ اور دنیا میں جنت کا نمونہ ہے، مگر دوبرتن ساتھ رکھے ہوئے تو کھنکنے کی آواز آہی جاتی ہے، میاں بیوی بھی ایک اور نیک سہی، مگر مختلف طبیعتوں اور متضاد خواہشات کے مالک ہوتے ہیں، اس لیےان کے مابین بھی نوک جھونک اور تُو تکرار ہو ہی جاتی ہے، شیطان اُسے مزید بڑھا ، بڑھکا بلکہ دہکا دیتا ہے، نتیجۃً ’’الشر مبدأہ أصغرہ‘‘ کا مقولہ صادق آجاتا ہے۔ معمولی بات سے شروع ہونےوالا جھگڑا جب شدت اختیار کرنے لگتا ہے تو شوہر‘ ضبطِ نفس کھونے لگتا ہے، بیوی بھی جب غصے سے مغلوب ہوجاتی ہے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے لگتی ہے، بات گالم گلوچ تک جاپہنچتی ہے اور کبھی مارپیٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ شوہر تنگ آکر طلاق کی دھمکی دیتا ہے تو بیوی اُسے دھمکی پر عمل کرنے کا کہتی ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں طلاق دے دوں گا تو اسے جواب ملتا ہے کہ طلاق تو ہوتی ہی دینے کے لیے ہے، اس لیے دے ڈالو۔ یہ سن کر شوہر کا پارہ مزید چڑھ جاتا ہے اور وہ طلاق دے ڈالتا ہے، مگر دے کر بھی نہ شوہر کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی کی تسلی ہوتی ہے، اس لیے وہ سنتے ہی جواب دیتی ہے کہ جب ایک دے دی ہے تو اب بقیہ بھی دے ڈالو، تاکہ معاملہ بالکل ہی ختم ہوجائے ،چنانچہ شوہر بقیہ دو بھی دے ڈالتا ہے۔ یوں گھرانہ اُجڑ اور آشیانہ تنکاتنکا بکھرجاتا ہے، جس کاخمیازہ نسلیں بھگتتی ہیں۔‘‘
مقصد طلاق کی مذمت بیان کرنا نہیں ہے، کیونکہ وہ تو فی نفسہٖ ایک نعمت ہے اور اگر آخری چارہ کار کے طور پر شوہر اس حق کو استعمال میں لائے، جبکہ صلح وصفائی کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں تو وہ کسی لعنت وملامت کا مستحق نہیں ہے، بلکہ سلیقے اور طریقے سے اس رشتے کو ختم کرنے کاپابند ہے، ’’فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ‘‘ کی قرآنی تعلیم اسی موقع کے لیے ہے۔ عیسائی تصور ِنکاح کی طرح اسلام میں نکاح کوئی ایساآسمانی اور اَٹوٹ رشتہ نہیں ہے جس کو بندے وجود میں تو لاسکتے ہوں، مگر اس کوختم کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔
مقصد ان لوگوں کی مذمت بیان کرنا ہے جو بے ضرورت یا عجلت میں طلاق دیتے ہیں، یا طلاق کے ذریعے اپنے جوشِ انتقام کی تسکین کرتے ہیں ،یا طلاق دے دیتے ہیں، مگراس کے باوجود رشتۂ زوجیت برقرار رکھتے ہیں، یا بے دھیانی میں طلاق کے الفاظ استعمال کرلیتے ہیں، حالانکہ جب نکاح نہ رہے تو تعلقات گناہ اور اولاد ناجائز رہتی ہے۔ طبرانی کی روایت کے مطابق لوگ آخری زمانے میں اپنی بیویوں سے زنا کریں گے، جس کی صورت یہی ہوگی کہ یا طلاق کے بعد بیویوں کے قریب جائیں گے یا طلاق دے چکے ہوں، مگر اس سے غافل ہوں گے۔
اوپر کی سطور میں بطور تمثیل میاں بیوی کے درمیان جس جھگڑے کا ذکر ہوا، اس میں شوہر نے طلاق کا صریح لفظ استعمال کیا، جس سے طلاق کا وقوع ہر خاص وعام جانتا ہے اور فقہ کے طالب علم کے لیے بھی اس کا حکم بتانا آسان ہے، کیونکہ صریح تو اپنی وضاحت آپ ہوتا ہے، جیسے: ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ مگر اسی  نوک جھونک کے ماحول میں جب بیوی طلاق بھی مانگ رہی ہو، اگر شوہر درج ذیل الفاظ استعمال کرے:
’’میری تم سے توبہ، میں تمہیں نہیں چاہتا، پسند نہیں کرتا، رغبت نہیں رکھتا، اُمید نہیں رکھتا، الگ کرنا چاہتا ہوں، وغیرہ، تو طلاق کی نیت کے باوجود طلاق نہیں ہوتی۔ اس طرح کے الفاظ کے استعمال کے بعد لوگ پریشان ہوتےہیں کہ خدانخواستہ طلاق ہوگئی ہے۔‘‘
اگر شوہر طلاق کی نیت سے درج ذیل جملوں میں سے کسی کا استعمال کرے تو طلاق ہوجاتی ہے:
’’بساتا نہیں، اپنا بندوبست کرلو، میری بہن کی طرح ہے، آج سے میری بیوی نہیں ہو، تعلق نہیں، میرے اور تمہارے درمیان نکاح نہیں ہے، جاؤ چلی جاؤ، جہنم میں جاؤ، میرا تیرا کوئی رشتہ نہیں، تجھ سے کوئی واسطہ نہیں، وغیرہ ۔‘‘
جب کہ بحالتِ غصہ اورطلاق کی گفتگو کے وقت ان الفاظ سے بلانیت طلاق ہوجاتی ہے:
’’اپنا دوسرا انتظام کرلو، میری طرف سے صاف جواب ہے، جس سے چاہو نکاح کرلو، نکاح فسخ کرتا ہوں، میری طرف سے فیصلہ ہے، وغیرہ۔‘‘
اس قسم کے الفاظ میں عموماً شوہر کا بیان یہ ہوتا ہے کہ اس کی نیت طلا ق کی نہیں تھی، حالانکہ قرینے کی موجودگی میں طلاق ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ آزاد ،حرام اور چھوڑدیا وغیرہ کے الفاظ ایسے ہیں جن سے نیت کے بغیر بھی طلاق ہوجاتی ہے۔
ان مثالوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کنائی الفاظ کے احکام مختلف بھی ہیں اور مشکل بھی ہیں۔ دراصل الفاظ ِکنایہ سے طلاق کا وقوع شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے۔ اگر شوہر کی نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے، یا اگر کنایہ کا استعمال عرف میں طلاق کے لیے ہو تو بھی طلاق واقع ہے، کیونکہ عرف نیت کے قائم مقام ہوتاہے، لیکن اگر نیت اورعرف میں سے کچھ نہ ہو تو پھر کنایات کی نو صورتوں میں سے صرف تین میں بغیر نیت کےطلاق واقع ہوتی ہے، وہ تین صورتیں درج ذیل ہیں :
۱:-حالتِ مذاکرہ ہواور سب وشتم کے الفاظ ہوں۔
۲:-حالتِ مذاکرہ ہواورجواب کے الفاظ ہوں ۔
۳:-حالتِ غضب ہواورجواب کے الفاظ ہوں ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام ہی کنایات سے نیت کی موجودگی میں طلاق کا ہونا ایک مسلم اصول ہے،اسی طرح عرف ہوتو کنایہ صریح ہے اور صریح میں بھی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، لیکن نیت یا عرف نہ ہو توپھر شوہر کی نیت کو جانچا جاتا ہے۔
شوہر کی نیت جانچنے کا ذریعہ ’’قرینہ‘‘ ہے اور قرینہ بول یا ماحول ہے۔ ’’بول ‘‘سے مراد وہ لفظ ہے جو شوہر نے استعمال کیا ہے اورماحول سے مقصود وہ صورت حال ہے جس میں لفظ استعمال کیا گیا ہے، بالفاظِ دیگر شوہر نے کیا کہا ہے؟ اور کس موقع پر کہا ہے؟ دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ ماحول تین قسم کا ہوتا ہے:
۱:- حالتِ رضا        ۲:- حالتِ غضب        ۳:- حالتِ مذاکرہ
بول یعنی الفاظ بھی تین قسم کے ہیں:
۱:- رد کے الفاظ        ۲:- سب وشتم کے الفاظ    ۳:- جواب کے الفاظ
اس طرح کل نو صورتیں بن جاتی ہیں، جو درج ذیل نقشے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:

نقشہ نمبر:1

 رد کے الفاظسب وشتم کے الفاظ

جواب کے الفاظ

حالتِ رضا

123
 نیت ضروری ہےنیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

حالتِ غضب

123
 نیت ضروری ہےنیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

حالتِ مذاکرہ

123
 نیت ضروری ہےنیت ضروری نہیں ہے

نیت ضروری نہیں ہے

 

اسی نقشہ کو اس طرح پلٹ دیاجائے کہ الفاظ اورحالات کی جگہیں ایک دوسرے سے بدل دی جائیں توپھر بھی صورتیں برقرار رہتی ہیں، مثلاً:

نقشہ نمبر:2

نقشہ نمبر:1

 

حالتِ رضا

حالتِ غضب

حالتِ مذاکرہ

رد کے الفاظ

123
 نیت ضروری ہےنیت ضروری ہے

نیت ضروری ہے

سب وشتم کے الفاظ

 23
 نیت ضروری ہےنیت ضروری ہے

نیت ضروری نہیں ہے

جواب کے الفاظ

123
 نیت ضروری ہےنیت ضروری نہیں ہے

نیت ضروری نہیں ہے

اس تفصیل کاحاصل یہ ہے کہ :
۱:- حالتِ رضا میں تینوں قسم کے الفاظ میں نیت کی ضرورت ہے اور رد کے الفاظ میں تینوں حالات میں نیت ضروری ہے۔
۲:- حالتِ غضب میں شروع کے دونوں قسم کے الفاظ میں نیت کی ضرورت ہے اور سب وشتم کے الفاظ میں شروع کے دو حالات میں نیت کی ضرورت ہے۔
۳:- حالتِ مذاکرہ میں صرف رد کےالفاظ میں نیت کی ضرورت اور جواب کے الفاظ میں صرف حالتِ رضا میں نیت کی ضرورت ہے۔
رد کے الفاظ میں ماحول کو اور خوشی کے ماحول میں الفاظ کو دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس طرح ایک سے لے کر پانچ تک یہ کل پانچ صورتیں بن گئیں، جن میں نیت کی ضرورت ہے۔چھٹی صورت یہ ہے کہ حالتِ مذاکرہ ہو اور رد کے الفاظ ہوں۔
ان چھ صورتوں میں بلانیت یا عرف طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، البتہ شوہر نیت کا انکار کرے تو اس سے حلف لیا جاتا ہے، کیونکہ ہر کنایہ میں طلاق کا احتمال ہوتا ہے۔ باقی تین صورتوں میں بلانیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جو درج ذیل ہیں:
۱:- سب وشتم کے الفاظ ہوں اورحالتِ مذاکرہ ہو
۲:- جواب کے الفاظ ہوں اورحالتِ مذاکرہ ہو۔
۳:- جواب کے الفاظ ہوں اورحالتِ غضب ہو۔
گویا نوحالتوں میں سے صرف تین صورتیں ایسی ہیں جن میں نیت اور عرف کے بغیر بھی کنایہ سے طلاق ہوجاتی ہے، لہٰذا ہم کنایات کے بارے میں، بلکہ تمام الفاظِ طلاق کے بارے میں ایک اصول کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کسی لفظ سے طلاق اس وقت ہوتی ہے کہ:
۱:- جب نیت طلاق کی ہو،یا
۲:- کوئی لفظ صریح ہوخواہ رجعی ہو یابائن ،یا
۳:- جب حالتِ مذاکرہ میں سب وشتم یا جواب کے الفاظ ہوں ،یا
۴:- حالتِ غضب میں جواب کے الفاظ ہوں۔
کنایہ کے متعلق ایک آخری حل طلب امریہ رہ جاتا ہے کہ بول اور ماحول سے فقہاء کی منشاء کیا ہے؟ دراصل فقہاء نے ایسےاصول دے دئیے ہیں کہ ان پر پرکھ کر طلاق کے وقوع اورعدمِ وقوع کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، اور وہ اصول دو ہیں:
۱:- ایک یہ کہ لفظ کا معنی طلا ق کا ہو۔
۲:- دوسرے یہ کہ وہ طلاق کے لیے استعمال ہواہو۔
کبھی لفظ کا معنی اچھا ہوتا ہے ،مگر اس کا استعمال مذموم مقصد کے لیے ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے۔ فقہاء چاہتے ہیں کہ طلاق کی گنجائش رکھنے والا لفظ لازماً طلاق کے لیے ہی استعمال ہوا ہو۔ 
دراصل ’’بول‘‘ سے لغت مراد ہے اور ’’دلالت حال‘‘ سے استعمال مراد ہے۔ فقہاء کا مقصد یہ ہے کہ صرف لغوی معنی پرمدارنہیں ،بلکہ لفظ کے استعمال کو بھی دیکھنا ضروری ہے اور صرف استعمال پر بھی انحصار درست نہیں ،بلکہ لفظ میں بھی طلاق کی صلاحیت ہونا چاہیے۔ اس طرح ان دواصولوں کے بیان سے فقہاء نے کنایہ کے متعلق ایک میزان اورکسوٹی فراہم کردی ہے، جس پر جانچ کر کسی بھی زبان کے کسی بھی لفظ کو پرکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے اصول منقح شکل میں سامنے ہوں تو فہم اور ضبط میں سہولت رہتی ہے ،جزئیات بھی منتشر نہیں معلوم ہوتیں اور سب سے بڑھ کر متعلقہ باب سے مربوط اوردرست واقفیت حاصل ہوجاتی ہے، ورنہ تو جزئیات بکھری اینٹوں کامجموعہ ہوتی ہیں جو عمارت کہلانے کی مستحق نہیں ہوتیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جزئیات قدروقیمت نہیں رکھتیں۔ فقہِ اسلامی اور خصوصاً فقہ حنفی میں جزئیات سے مفر نہیں ، کیونکہ انہی کے ذریعے سے کچھ سے بہت کچھ کی جانب اورجزء سے کل کی طرف سفر ہوتا ہے ، انہی سے اصول کی صحت معلوم ہوتی ہے،ان ہی کے قدرِمشترک کا نام کلیات ہے، فقہ کی وسعت بھی ان ہی کے بدولت ہے اورفقہ غیرفقیہ افراد کے ہاتھوں دست وبرد سے بھی ان ہی کےذریعے محفوظ ہے، ان وجوہ سے جزئیات کا بیان ضروری ہے۔
آخر میں ایک اہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ طلاق کے جو الفاظ مختصر، سیدھے سادے اور دوٹوک ہوں، اگر شوہر اسی قدر جملوں پر اِکتفا کرے تو مسئلہ کا جواب آسانی سے سمجھ آجاتا ہے، مگر عموماً شوہر کی گفتگو طویل ہوتی ہے، جس میں مقصودی جملے کی تلاش بسااوقات بھوسے میں سوئی کی تلاش کی مانند ہوتی ہے، پھر اگر مقصودی جملہ ذومعنی ہو تو مشکل دوہری ہوجاتی ہے، کیونکہ کنایہ خود ذومعنی ہوتا ہے اور ذومعنی جملے میں استعمال سے اس کا حل مزید مشکل ہوجاتا ہے، یہ مشکل اس وقت شدیدتر ہوجاتی ہے جب شوہر ایک ہی جملے میں ایک سے زائد طلاق کے الفاظ استعمال کرتاہے، مثلاً:’’طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں۔‘‘یہ دراصل دوجملے ہیں :’’طلاق دیتا ہوں اورآزاد کرتا ہوں۔‘‘شوہر نے دو جملوں کو لفظ’’اور‘‘ کے ساتھ ملانے کے بجائے جملہ حالیہ معطوفہ استعمال کرکے ملادیا ہے اور اس کایہ استعمال فصیح بھی ہے،اس جملے میں بظاہر دوطلاقیں واقع ہونی چاہئیں، مگر حقیقت میں ایک طلاق واقع ہے۔
اسی طرح اگر شوہر کہتا ہے کہ ’’جا تجھے طلاق ہے‘‘ تو اس میں ’’جا‘‘ کو الگ سے طلاق کا لفظ شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ ایسا ہی ہے جیسا کہتے ہیں کہ’’ چل دور ہو‘‘، ’’آئیے تشریف رکھئے‘‘، ’’جاؤ جاکر سو رہو۔‘‘ ان مثالوں میں ’’چل‘‘، ’’آئیے‘‘ اور ’’جاؤ‘‘ سے کوئی غرض متعلق نہیں ہے، بلکہ مطلوبہ جملے ’’دور ہو‘‘، ’’تشریف رکھیے‘‘ وغیرہ ہیں۔
ان مثالوں کے تذکرہ سے مقصد یہ ہے کہ کتاب کے باوجود شخصیات سے استفادہ کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین