بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’الدنيا مزرعۃ الآخرۃ‘‘ کا اِسنادی حکم

’’الدنيا مزرعۃ الآخرۃ‘‘ کا اِسنادی حکم


بسا اوقات کچھ باتیں بہت مشہور ہوتی ہیں، بلکہ بعض دفعہ بیسیوں کتابوں میں نقل در نقل چلی آرہی ہوتی ہیں، لیکن علم وتحقیق کی دنیا میں ان کا ثبوت نہیں ہوتا، ایسے ہی ایک قول : ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ کو بھی خوب شہرت حاصل ہے، بلکہ عصری اداروں کے نصاب کی بعض کتابوں میں اسے بطور حدیث ذکر کیا گیا ہے، اگرچہ اس کا معنی صحیح ہے، لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف اس کی نسبت ثابت نہیں، جیسا کہ کبار ائمہ حدیث کی تصریحات کے ذیل میں آپ اسے ملاحظہ فرمائیں گے۔ 

علامہ سخاویؒ کا قول

علامہ سخاویؒ نے ’’المقاصد الحسنۃ‘‘ میں فرمایا: 
’’حديث: الدنيا مزرعۃ الآخرۃ، لم أقف عليہ مع إيراد الغزالي لہ في الإحياء، وفي الفردوس بلا سند عن ابن عمرؓ مرفوعا: ’’الدنيا قنطرۃ الآخرۃ فاعبروہا، ولا تعمروہا‘‘، وفي الضعفاء للعقيلي ومکارم الأخلاق لابن لال من حديث طارق بن أشيم رفعہ: ’’نعمت الدار الدنيا لمن تزود منہا لآخرتہ‘‘، الحديث. وہو عند الحاکم في مستدرکہ وصححہ، لکن تعقبہ الذہبي بأنہ منکر قال: وعبد الجبار يعني راويہ لا يعرف....۔‘‘ (۱)
یعنی میں ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ سے بطور حدیث باخبر نہیں، اگرچہ امام غزالیؒ نے ’’إحیاء العلوم‘‘ میں اسے ذکر کیا ہے، دیلمیؒ نے فردوس میں بغیر سند کے حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ دنیا وآخرت کے لیے پل ہے، اس سے پار ہوجاؤ، اسے آباد کرنے نہ لگ جاؤ۔ اسی طرح امام عقیلیؒ کی ’’الضعفاء‘‘ میں اور محدث ابن لال کی ’’مکارم الأخلاق‘‘ میں ہے کہ طارق بن اشیم نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ دنیا کیا ہی بہترین گھر ہے اس شخص کے لیے جو اس سے آخرت کے لیے زادِ راہ اختیار کرے۔ اس کو امام حاکم  ؒنے اپنی ’’مستدرک‘‘ میں بھی نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، جب کہ امام ذہبیؒ نے ’’تلخیص مستدرک‘‘ میں اس پر تعقُّب کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ منکر روایت ہے، اس کا ایک راوی عبد الجبار مجہول ہے۔‘‘

علامہ عراقی  ؒ کا قول

علامہ عراقی  ؒنے ’’المغني عن حمل الأسفار‘‘ میں فرمایا : 
’’لم أجدہ بہٰذا اللفظ مرفوعاً، وروی العقيلي في ’’الضعفاء‘‘ وأبو بکر ابن لال في ’’مکارم الأخلاق‘‘ من حديث طارق بن أشيم ’’نعمت الدار الدنيا لمن تزود منہا لآخرتہ ‘‘ الحديث، وإسنادہٗ ضعيف .....‘‘(۲) 
علامہ عراقیؒ نے فرمایا کہ: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مرفوعاً مجھے نہیں ملی، جب کہ طارق بن اشیم کی روایت کے بارے میں فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے۔

ملا علی قاریؒ کا قول

ملا علی قاریؒ نے ’’المصنوع في معرفۃ الحديث الموضوع‘‘ (۳)  میں علامہ سخاویؒ کا قول نقل فرمایا: ’’قال السخاوي: لم أقف عليہ .....‘‘
 جب کہ ’’الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ‘‘ (۴) : میں پہلے علامہ سخاویؒ کا قول نقل فرمایا، پھر اس کے معنی کے صحیح ہونے کو قرآن کریم سے ثابت فرمایا ہے، ملاحظہ فرمائیں: 
’’قال السخاويؒ: لم أقف عليہ مع إيراد الغزالي لہ في الإحياء، قلت: معناہ صحيح يقتبس من قولہٖ تعالی : ’’مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ  ....‘‘
یعنی اس روایت کا معنی صحیح ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مقتبس ہوتا ہے: ’’جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو، ہم اس کے لیے اس کھیتی میں برکت دیں گے۔‘‘

علامہ مقدسیؒ اور علامہ صغانی  ؒ کی تحقیق

علامہ ابو الفضل مقدسیؒ نے ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں اور علامہ صغانی ؒ نے ’’الموضوعات‘‘ میں ’’الدنيا مزرعۃ الآخرۃ‘‘ کو موضوعات میں سے شمار کیا ہے۔
علامہ عجلونی  ؒ نے ’’کشف الخفاء(۵) میں علامہ سخاویؒ اور ملا علی قاریؒ کا قول نقل کیا ہے۔ البتہ عجلونیؒ نے یہ بات بھی نقل کی ہے کہ ابن عساکر نے یحییٰ بن سعید سے نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایا کہ: ’’ دنیا کو گزر گاہ بناؤ، اسے آباد نہ کرو، دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے، بد نظری دل میں شہوت پیدا کرتی ہے۔‘‘ علامہ طاہر پٹنی ؒ ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ مذکورہ روایت کو موضوع قرار دینے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وفي المختصر لم يوجد بہٰذا اللفظ وإنما روي ’’ نعمت الدار الدنيا لمن تزود منہا لآخرتہ. ‘‘ مع أنہٗ ضعيف ...۔‘‘
علامہ طبرانیؒ نے اس معنی کی ایک روایت ’’المعجم الکبير‘‘ (۶)  میں حضرت جرير بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’من يتزود في الدنيا يَنْفَعہ في الآخرۃ۔‘‘
یعنی ’’جس نے دنیا میں (آخرت کے لیے ) زادِ راہ اختیار کرلیا تو وہ اسے آخرت میں نفع دے گا۔‘‘
 علامہ ہیثمیؒ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (۷) میں امام طبرانی ؒ کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے: ’’رجالہ رجال الصحيح۔‘‘البتہ ابن ابی حاتم  ؒ نے ’’علل الحديث‘‘ (۸)  میں اپنے والد سے نقل کیا ہے: 
’’قال أبي ہٰذا حديث باطل، إنما يروی عن قيس قولہ . قلت : ممن ہو ؟ قال:من ہشام ابن عمار، کان ہشام بأخرۃ يلقنونہ أشياء فيلقن، فأری ہٰذا منہ۔‘‘
’’ابن ابی حاتم  ؒ کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا کہ یہ حدیث باطل ہے، اسے قیس سے نقل کیاجاتا ہے، میں نے پوچھا وہ کس سے نقل کرتا ہے؟ میرے والد نے فرمایا کہ: قیس ہشام بن عمار سے نقل کرتا ہے، ہشام کو آخری عمر میں کچھ باتوں کی تلقین کی جاتی تھی تو وہ ان کو نقل کرتے تھے، میرے خیال میں یہ بھی ان تلقین شدہ باتوں میں سے ایک ہے۔‘‘
خلاصہ یہ نکلا کہ ’’الدنيا مزرعۃ الآخرۃ‘‘ کی یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بے سند اور من گھڑت ہے، جب کہ اس کا معنی صحیح اور قرآن سے مستفاد ہے، جیسا کہ ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے) چناں چہ اس کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

۱:-المقاصد الحسنۃ،  ص:۳۵۱            ۲:المغني، ج: ۲، ص:۹۹۲
۳:-المصنوع في معرفۃ الحديث الموضوع،  ص:۱۰۱
۴:-الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ،  ص: ۱۹۹
۵: -کشف الخفاء، ج:۱، ص: ۴۱۲        ۶: -المعجم الکبير، ج:۲، ص:۳۰۵
۷:- مجمع الزوائد، ج:۱۰، ص: ۳۱۱        ۸:-علل الحديث، ج:۲، ص:۱۳۵

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین