بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الحاج حافظ فیروز الدین  رحمہ اللہ 

الحاج حافظ فیروز الدین  رحمہ اللہ 


شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید  رحمہ اللہ  کے خلیفہ مجاز ، معروف تبلیغی بزرگ ، کراچی اور رائیونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں اپنی خوبصورت اور منفرد آواز میں اذان واقامت کا اعزاز رکھنے والے اور جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ حضرت مولانا عامر فیروز صاحب کے والد محترم، پیرِطریقت حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی  ؒ کے بھائی، جناب الحاج حافظ فیروز الدین صاحبؒ ۲۳ اگست ۲۰۲۰ء بروز اتوار کو نمازِ عصر کے وقت اللہ کو پیارے ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حافظ فیروز الدین صاحب رحمہ اللہ  دینی اور علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ خود بھی حفظِ قرآن کریم کی دولت سے مالامال تھے۔ بھائی، بیٹے اور بھتیجے کافی تعداد میں حفاظ اور عالم فاضل ہیں، جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کے بانی اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہٗ کے خلیفہ حضرت مولانا یحییٰ مدنی صاحب رحمہ اللہ  آپ کے بھائی تھے۔ 
حافظ صاحبؒ کا آبائی وطن دہلی تھا، پھر وہاں سے لدھیانہ منتقل ہوگئے تھے، تقسیمِ ہند کے بعد کم عمری ہی میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان آگئے تھے، کراچی کے ایک محلہ اسلم روڈ (رنچھوڑ لائن) میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم ہوئے۔ پھر وہاں سے تقریباً ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء میں دہلی مرکنٹائل سوسائٹی میں ریاض مسجد کے سامنے منتقل ہوگئے تھے۔ حافظ صاحبؒ نے تقریباً آدھا قرآن کریم پاکستان آنے سے پہلے دہلی اور لدھیانہ میں حفظ کرلیا تھا۔ پاکستان ہجرت کے بعد کراچی آکر مسجد باب الاسلام (برنس روڈ) میں حفظ کی تکمیل کی۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ  نے جامعہ دارالعلوم کراچی‘ شروع میں نانک واڑہ کے علاقے میں قائم کیا تھا (جو اسلم روڈ سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا) جہاں شعبہ حفظ میں حضرت قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ  پانی پتی پڑھایا کرتے تھے۔ حافظ فیروز الدین صاحبؒ کو وہاں قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ  کے شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ حافظ صاحبؒ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب کے حفظ کے ہم سبق تھے اور مفتی تقی عثمانی صاحب آپ کو بھائی صاحب کہا کرتے تھے۔ حافظ صاحبؒ کو قرآن کریم بہت اچھی طرح یاد تھا اور آواز بھی بہت اچھی تھی۔ دہلی مرکنٹائل سوسائٹی کی ریاض مسجد جس میں پہلے مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ  امام ہوتے تھے، اس کے مصلے پر تقریباً ۴۰ سال تک تراویح پڑھائی۔ تقریباً ۲۰ سال تک کراچی ائیرپورٹ، اویس قرنی مسجد بلوچ کالونی سمیت مختلف مساجد میں جمعہ کی تقریر اور خطبہ نماز وغیرہ کی ترتیب تھی۔

تبلیغی اور دینی خدمات

حافظ صاحبؒ کے سابقہ محلہ اسلم روڈ کی مسجد میں ابتداء ہی سے دعوت وتبلیغ کا کام بزرگوں کی نگرانی میں شروع ہوگیا تھا۔ حضرت شاہ عبد العزیز دعا جوؒ ،بھائی مشتاق صاحبؒ اور بابو حافظ محمد یوسف صاحبؒ جو پرانے تبلیغی بزرگ تھے، آپ ہی کے محلے میں رہائش پذیر تھے، نیز حاجی عبد الوہاب صاحبؒاور بھائی امین صاحب بھی کبھی کبھی تشریف لے آتے تھے۔ حافظ صاحب انہی بزرگوں کی زیرِتربیت نوجوانی میں ہی دعوت وتبلیغ کے کام سے جڑگئے، اور تادمِ آخر اسی مبارک کام سے جڑے رہے۔ کراچی کے تبلیغی اجتماعات اور مدنی مسجد کے شبِ جمعہ میں آپ کا منفرد طرزِ اقامت مشہور ہے۔ حافظ صاحبؒ کو دعوت وتبلیغ اور علماء کی صحبت اور دینی کتابوں کی اشاعت کا والہانہ جذبہ تھا۔ انہوں نے دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں مشرقی پاکستان میں کافی وقت گزارا اور نظام الدین دہلی میں حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ  کی خدمت میں بھی رہے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی  رحمہ اللہ  کے بیانات ان کی مجالس میں لکھتے رہے، جو آپ نے کتابی صورت میں بھی شائع کیے۔ کتاب کا نام ’’حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی  رحمہ اللہ  کی ایمان افروز مجالس وصحبت کی چند یادیں، چند باتیں‘‘ ہے۔ یہ کتاب حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ  کے اُن بیانات پر مشتمل ہے جو حافظ صاحبؒ نے خود تحریر فرمائے تھے۔ اس کتاب میں تھانہ بھون بھیجی گئی جماعت کی کار گزاری بھی شامل ہے، جسے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ  نے خود بھیجا تھا اور اس کی کار گزاری سن کر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  نے فرمایا تھا کہ: ’’ مولانا الیاس صاحب نے یاس کو آس سے بدل دیا۔‘‘ اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ  کے اشکالات جو اس دعوت کے کام کے بارے میں تھے، وہ بھی دور ہوگئے تھے۔ حافظ صاحبؒ کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ تبلیغ کا کام حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی  رحمہ اللہ  اور حضرت جی مولانا یوسف کاندھلوی  رحمہ اللہ  کے مرتب کردہ اُصولوں پر قائم رہے اور وہ اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور احباب کو اس طرف متوجہ بھی کیا کرتے تھے، اور ان اصولوں کے شائع کرنے کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ ۱۹۶۰ء سے صحت کے آخری ایام تک دن کا اکثر حصہ فجر سے رات تک تبلیغ یا دین کے کسی کام میں حصہ لیتے۔ 

حافظ صاحبؒ کی شائع کردہ کتب

آپ کے تعاون سے جو کتابیں چھپی ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: ’’مکاتیب مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ ‘‘: اس کتاب میں دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے اصول ، نصائح اور ہدایات ہیں۔’’کامیابی کی بنیاد ایمان وعمل‘‘: یہ کتاب مولانا عبید اللہ بلیاوی صاحبؒ کے پرانے احباب سے خطابات اور ان کی شاعری اور مختصر سوانح مولانا ابو الحسن علی ندویؒ پر مشتمل ہے۔ ’’نصائح اور ہدایات ‘‘ ، ’’دعوت اور اس کے انعامات‘‘: یہ کتاب امیرِ حجاز مولانا سعید احمد خان صاحب رحمہ اللہ  کے بیانات اور خطوط اور چند ہدایات پر مشتمل ہے۔ ’’اُمت بننے کی دعوت‘‘۔

مدارس اور مساجد کی تعمیرات اور رفاہی خدمات

اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کئی سارے مدارس، مساجد، ہسپتال اور دوسرے خیر کے کاموں میں اہلِ خیر کے تعاون سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ حافظ صاحبؒ نے بہت سارے مدارس اپنی نگرانی میں قائم کیے، کئی لاکھ روپے ان میں ماہانہ خرچ ہوتے تھے۔ کراچی اور لاہور ائیرپورٹ کی مساجد بنوانے میں بھی حافظ صاحبؒ کا تعاون شامل ہے، ان کے علاوہ اور بھی کئی مساجد بنوائیں ۔ رائے ونڈ اجتماع گاہ کے قریب ایک مکان دو منزلہ بنوایا جن میں ایک مدرسہ بھی ہے جو پورا سال چلتا ہے اور اجتماع کے میدان میں حافظ صاحبؒ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قیام بھی کرتے تھے۔ 
حافظ صاحبؒ کے ذریعہ بہت سے غریب خاندانوں کی مدد ہوتی تھی اور عزت ووقار کے ساتھ ان کی زندگی گزرتی تھی، خاص کر اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کئی حضرات کی شادی  کے لیے کثیر رقم دیا کرتے تھے۔ مستحقین کو مکان بنواکر بھی دیئے۔آپ انڈس ہسپتال کے چیئرمین بھی رہے، جس میں مستحقین کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ 
ایک خاص عمل یہ تھا کہ کسی کے بارے میں علم ہوجاتا کہ اس نے سود پر پیسہ لیا ہے، تو بے چین ہوجاتے ، جب تک وہ قرض ادا نہ کرتا، اس کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرتے۔

بیعت وخلافت اور عبادات کا ذوق وشوق 

پہلے پہل حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ  سے بیعت ہوئے، پھر ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا انعام الحسن رحمہ اللہ  سے بیعت ہوئے۔حافظ صاحب کو مندرجہ ذیل بزرگوں سے خلافت حاصل تھی: ۱:-حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید  رحمہ اللہ ، ۲:- حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی رحمہ اللہ ، ۳:-حضرت مولانا محمد یونس پالن پوری رحمہ اللہ ۔ 
پیر کے دن ذکر کی مجلس ہوتی تھی، احباب جڑتے تھے، پہلے کتاب پڑھی جاتی، جس سے ایمان افروز واقعات سامنے آتے اور عمل کا شوق بڑھتا، پھر ذکر ہوتااور پھر دعا، اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ ہوتا اور آخر میں ذکر کی پابندی کی نصیحت کرتے، پھر بیعت بھی فرماتے۔ کچھ حضرات کو خلافت بھی دی تھی۔جماعت سے امام کے پیچھے پہلی صف میں نماز کے اہتمام کا شوق رکھتے تھے۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ۳ مرتبہ حج پر نہ جاسکے، ہر سال اہلیہ کے ساتھ حج پر جاتے۔
حافظ صاحبؒ کا ذریعہ معاش بنیادی طور پر دوائیوں کی فیکٹری تھی۔ آپ کی شادی ۱۹۶۷ء میں ہوئی ۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ کے علاوہ ۵ بیٹے اور ۳ بیٹیاں شامل ہیں ۔

وفات ،جنازہ  اور تدفین

حافظ صاحبؒ کچھ عرصہ علیل رہے۔ ۲۱ اگست بروزجمعہ عصر کی نماز کی تیاری کرہے تھے، وضو کے درمیان بے ہوش ہوگئے، پھر دو دن تک ہوش نہ آیا اور ۲۳ اگست بروز اتوار تقریباً رات سوا گیارہ بجے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلوالیا۔ تقریباً ۸۴ سال عمر پائی ۔ آپ کی نمازِ جنازہ اگلے روز ۲۴ اگست بروز پیر صبح دس بجے عالمگیر مسجد میں ادا کی گئی اور تدفین دارالعلوم کراچی میں ہوئی۔ 
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، نائب رئیس حضرت مولانا سیدسلیمان یوسف بنوری، ناظم تعلیمات حضرت مولانا مفتی امداد اللہ یوسف زئی، تمام اساتذہ وانتظامیہ حضرت مولانا محمد عامر فیروز صاحب اور حافظ صاحبؒ کے جملہ اہل وعیال اور پسماندگان سے تعزیت کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت حافظ صاحبؒ کے تمام اعمالِ حسنہ کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے پسماندگان، متوسلین اور متعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین