بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اقوالِ زریں امام غزالی ؒقدس سرہ ، چوتھی قسط

اقوالِ زریں امام غزالی ؒقدس سرہ

                         چوتھی قسط

 

حضرت امام غزالیؒ قدس سرہ کا اپنے شاگرد کو خط کا جواب اور امام الزاہدین، سراج السالکین حضرت مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے کئے گئے اُس کے ترجمہ سے انتخاب۔

۱۷…ضرورتِ مرشد:
۱…اس قسم کے ہادی، شیخ اور مرشد کا ہونا ضروری ہے، جوردی اخلاق وعادات نکال کر عمدہ اخلاق وعادات پیدا کرے۔
۲…مرشد کی مثال اس طرح ہے، جیساکہ کاشتکار ناقص اور ردی زمین سے پہلے کانٹے اور گھاس وغیرہ نکالتا ہے، تاکہ اس میں جو تخم بویاجائے وہ اچھی طرح بار آور ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تربیت کے لئے جناب سرکار دو عالم ا کو مبعوث فرمایا۔ جب حضور انورا ا س دنیا سے تشریف لے گئے، تو خلفاء راشدینؓ تربیت کے سلسلے میں آپ ا کے قائم مقام قرار پائے۔
۱۸…شیخ اور مرشد کیسا ہو؟
ہروہ عالم دین اس نیابت وخلافت کا مستحق ہوسکتا ہے، جس میں درج ذیل شرائط پائے جائیں:
۱…اس کے دل میں دنیاوی اغراض اور جاہ وجلال کی طلب نہ ہو۔
۲…وہ کسی عالم باعمل سالک کا تربیت یافتہ اور مجاز ہو اور اس کا سلسلۂ طریقت اس مرشد سے لے کر جناب سرکارِ دوعالم ا تک پہنچتا ہو۔
۳…وہ قلت طعام، قلت کلام، قلت منام پر عمل پیرا ہو۔
۴…فرائض نماز کے علاوہ نوافل پڑھنے والا، مالی صدقات کرنے والا، فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی بکثرت رکھنے والا ہو۔
۵…عمدہ اخلاق سے مزین ہو،یعنی صبر وشکر ، توکل ویقین، قناعت اور بردباری، تواضع وحلم، سچ بولنا، حیاء، ایفائے عہد، خودداری، ضبط وتدبیر جیسی صفات حسنہ کا حامل ہو۔ ایسا شیخ اور مرشد سنگ پارس ہے۔
۱۹…شیخ ومرشد کا احترام:
۱…جب ایسا شیخ ومرشد اور پیر کامل دستیاب ہوجائے تو بغرض اصلاح اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے گریز نہ کرے اورعزت واحترام میں کوتاہی نہ کرے۔
۲…اپنے شیخ کے ساتھ مسائل میں بحث ومناظرہ نہ کرے، اگرچہ بظاہر اس کی بات سمجھ میں نہ آئے۔
۳…نماز میں اپنے شیخ سے آگے جائے نماز نہ بچھائے، اگر بحکم شیخ امامت کرانا ہو تو فراغت کے فوراً بعد جائے نماز چھوڑ کر آگے سے ہٹ جائے۔
۴…شیخ کے سامنے نوافل نہ پڑھے، کیونکہ اس سے خود نمائی کا پہلو نکلتا ہے۔
۵…جس بات کا شیخ حکم دے، اُس کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کرے۔
۶…جو بات اور حکم اپنے شیخ سے سنے تو اس پر عمل بھی کرے اور دل سے بھی صحیح سمجھے، اگر دل سے اس کو بوجھ اور غیر مناسب سمجھا تو اس سے نفاق پیدا ہوجائے گا۔
۷…اگر کسی وجہ سے اپنے شیخ کی اطاعت نہ کرسکے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بیعت چھوڑ دے، ورنہ فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا۔
۸…اس کی بیعت چھوڑنے کے بعد بھی اس کا ادب کرے، اس کی غیبت نہ کرے اور عیب نہ لگائے۔
۲۰…مرید کے لئے دوصفات کا ہونا ضروری ہے: 
۱…پہلی صفت استقامت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے اطاعت وفرمانبرداری کا کیا ہے، اُس پر پورا اُترے، یعنی اپنی خواہشات نفسانیہ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر قربان کردے۔
۲…دوسری صفت سکون ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ شفقت وایثار کا برتاؤ کرے، ان کی ضروریات کو اپنی ضرورت پر ترجیح دے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کو فوقیت دے، اپنے کام اس وجہ سے اگر ادھورے رہ جائیں تو فکر نہ کرے، بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے اغراض ومقاصد خلافِ شریعت نہ ہوں۔ غیر شرعی اُمور میں مخلوق کو خوش کرنا دین وشریعت اور سلوک وتصوف کے خلاف ہے۔
۳…اللہ تعالیٰ کا بندہ بننا، اس کا مطلب یہ ہے کہ:( ۱)شریعت کے احکام کی نگہداشت رکھنا۔ (۲)اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کسی کے متعلق یا اس کے متعلق فرمایا ہے، اُس پر راضی ہونا۔(۳)اپنے نفس کی پیروی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلہ میں چھوڑدینا۔
۲۱…توکل واخلاص:
۱…توکل کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے مقدر فرمادی ہے، وہ تجھے ضرور مل کررہے گی، اگرچہ ساری مخلوق اس کو تجھ تک پہنچانے میں رکاوٹ پیدا کرے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں نہیں فرمائی، وہ ہرگز تجھے نہیں مل سکے گی، اگرچہ ساری مخلوق اس چیز کو تجھ تک پہنچانا چاہے۔
۲…اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ تیرے سب اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں اور اس کی علامت یہ ہے کہ کسی کی تعریف سے دل خوش نہ ہو اور کسی کی مذمت سے دل تنگ نہ ہو۔
۳…اخلاص کو ختم کرنے والی چیز ریا کاری ہے اور یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے ،جب لوگ اس کی تعظیم کرنے لگ جائیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کو بے اختیار سمجھ لینا چاہئے کہ وہ لوگ نہ تو تعریف کرکے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتے ہیں، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ لیا جائے تو پھر ریاکاری سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
۴…دین کے جو احکام معلوم ہیں،اُن پر عمل کی برکت سے وہ باتیں خود بخود معلوم ہوجائیں گی جو تاحال معلوم نہیں، تو اس لئے کثرتِ سوال سے اجتناب کرنا چاہئے اور یہ حالت اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب سیر کو معمول بنالیا جائے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا وہ نہیں چلے پھرے زمین میں، تاکہ دیکھ لیتے‘‘۔(الروم:۹)
۲۲…روحانی سیر:
۱…سیر کرنے سے ہر منزل میں عجائبات کا مشاہدہ ہوتا ہے، مگر اس سیر میں اپنی روح کو کام میں لایاجائے، جیساکہ حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے: ’’اگر تو روح سے کام لینے پر قدرت رکھتا ہے تو پھر میدان میں آجا، اگر یہ نہ کرسکے تو پھر صوفیاء کے اشتغال کی طرف متوجہ نہ ہو۔  (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین